HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۲)

با ب ۲

’’امینِ فراہی ‘‘

امام فراہی کا سانحۂ ارتحال نومبر ۱۹۳۰ء کو ہوا۔ انتقا ل سے قبل متھرا کے ضلعی اسپتال وہ امین احسن کو یاد کررہے تھے۔امین احسن کو بلوایا گیا۔ وہ آئے۔ ابھی کمرے سے باہر ہی تھے کہ فراہی نے کہا:

’’امین آگئے۔‘‘

امین احسن کہتے تھے کہ انھوں نے میر انام اپنی زبان سے اس طرح ادا کیا کہ گویا نام نہیں لے رہے، اس کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،اپنے علم وفکر کی امانت میر ے سپرد کررہے ہیں۔

پھر اپنے ’’امین ‘‘کو اندر بلوایا۔سینے سے لگایا۔

فراہی کے اس اضطراب سے محسو س ہوتا ہے کہ جیسے وہ شدت کے ساتھ اس انتظار میں تھے کہ اپنی علمی ’’امانت‘‘اپنے ’’امین ‘‘ کے حوالے کر کے دنیا سے رخصت ہوں۔اور اس میں کیا شبہ ہے کہ امین احسن نے اس امانت کو صحیح معنوں میں اس کے مستحقین تک پہنچایا۔ اسی لیے جاوید احمد صاحب غامدی نے لکھا ہے:

’’... سقراط و فلاطون، ابوحنیفہ اور ابویوسف، ابن تیمیہ اور ابن قیم  یہ جس طرح ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے، فراہی و اصلاحی بھی، اس دنیا میں، اب ہمیشہ ایک ہی وجود کے دونام رہیں گے:
چوں تمام افتد سراپا نازمی گردد نیاز
قیس را لیلیٰ ہمی نامنددرصحرای من‘‘
’’...وہ اپنے استادسے آگے نہیں بڑھے تو پیچھے بھی نہیں رہے۔حمید الدین جس مقام پر پہنچے تھے، ان کی ساری عمر اس کے اسرار و رموز کی وضاحت میں گزری ہے ...۔
...[امین احسن کے صحافت ترک کر کے فراہی سے قرآن پڑھنے کا فیصلہ کرنے کے بعد] مولانا سید سلیمان ندوی نے کسی کالج میں پروفیسری کے لیے ان کا نام تجویز کیا اور کالج کے ذمہ داروں سے ہامی بھر لی کہ وہ انھیں راضی کر لیں گے۔ امین احسن کو بتایا گیا تو وہ چلچلاتی دھوپ میں پیدل چلتے ہوئے دارالمصنفین پہنچے اور سید صاحب سے عرض کیا : آپ نے اس فقیر کا نام تجویز کیا، آپ کا شکریہ۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں یہ پیشکش قبول نہ کر سکوں گا۔ امام فراہی کو میں ان کی زندگی میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ وہ بتاتے تھے کہ سید صاحب بالکل حیران رہ گئے۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک غریب طالب علم اتنی بڑی پیشکش اس طرح ٹھکرا دے گا۔ بعد میں انھوں نے ندوہ میں تقریر کرتے ہوئے بڑے تاثر کے ساتھ اس واقعے کا ذکر کیا اور طلبہ سے کہا کہ دیکھو، طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں۔ بہرحال، میں یہ بات کہہ کر چلا آیا، لیکن مجھے اندیشہ رہا کہ استاذ امام ان دنوں اگر ’’دارالمصنفین‘‘ آئے تو ہو سکتا ہے کہ سید صاحب ان سے بات کریں اور وہ مجھے بھیج دینے کا وعدہ کر لیں۔ ان کا چہرہ ایک عجیب احساس فخر سے تمتما اٹھتا تھا، جب وہ بتاتے تھے کہ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ استاذ امام وہاں گئے بھی اور سید صاحب نے ان سے بات بھی کی، لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا : آپ امین احسن کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ میں یہ ساری محنت آخر کس کے لیے کر رہا ہوں ؟‘‘ (ماہنامہ’’اشراق‘‘ جنوری /فروری۱۹۹۸ء، ۹)

علامہ سید سلیمان ندوی اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’ اواخر عمر میں مرحوم (مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ) کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ وہ چند مستعد طلبہ کو اپنے مزاج کے مطابق تیار کریں۔ چنانچہ کم از کم دو طالب علموں کی خاص طو ر سے انھوں نے دماغی تربیت کی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ ء، ۷)

جناب ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں:

’’مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے فخر و امتیازکے لیے یہ کافی ہے کہ انھیں مولانا فراہی کی جانشینی کا شرف حاصل ہوا۔ اور وہی ان کے سب سے ممتاز شاگرد کی حیثیت سے مشہور ہوئے جس کا حق بھی انھوں نے خاطر خواہ طور پر ادا کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ’’بعض مستعد طلبہ نے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس درس سے پورا فائدہ اٹھایا جن میں قابل ذکر مولوی امین احسن صاحب اصلاحی ہیں۔ ہماری آیندہ توقعات ان سے بہت کچھ وابستہ ہیں۔
اپنے استاد کا نام روشن کرنے اور ان کے افکار و نظریات کی اشاعت و ترجمانی کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ جب کسی جانب سے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ان کی حمایت کے لیے سینہ سپر ہو جاتے۔ ان کے اس قسم کے مضامین ’’الاصلاح‘‘ اور ’’معارف‘‘ دونوں میں چھپے ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے استاد علامہ فراہی رحمۃ اللہ علیہ اور استاذ الاستاد علامہ شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف غوغاے تکفیر بپا ہوا تو وہی ان مظلوم ’’امامین ہمامین‘‘ کی مدافعت اور ان کی یادگار مدرستہ الاصلاح کو شر پسندوں سے بچانے کے لیے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے :
بیا ورید گر ایں جا بود سخن دانے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد‘‘[1]
(سہ ماہی تدبر، اپریل  ۱۹۹۸ء،۷- ۸)
’’مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اواخر قرآن کی بعض مختصر سورتوں کی تفسیر لکھی تھی۔ باقی سورتوں کے متعلق کچھ نوٹ اور متفرق اشارات ہی لکھ سکے تھے۔ ضرورت تھی اور عرصہ سے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے قدر دانوں کا اصرار بھی تھا کہ ان کے اصول و متعینہ خطوط کے مطابق مکمل قرآن مجید کی تفسیر لکھی جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام مولانا کے تلامذہ میں ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا۔ انھوں نے یہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا جو واقعۃً ان کا بڑا کارنامہ اور ایں کاراز تو آید و مرداں چنیں کنند کے مصداق ہے۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۰)

ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی (ڈاکٹر حفیظ اللہ ان کے ماموں ہیں ) لکھتے ہیں :

’’۱۹۵۸ء میں مولانا اختر احسن اصلاحی کی وفات کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی نہ صرف فکر فراہی کے امین، بلکہ اس کے سب سے بڑے شارح و ترجمان بھی رہے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ ء، ۱۶)

امین احسن کے شاگرد محترم سلیم کیانی لکھتے ہیں :

’’راقم ۱۹۶۳ء میں مولانا کے قائم کردہ حلقۂ تدبر قرآن میں شامل ہوا تو اس وقت وہ عجلت میں دکھائی دیتے تھے۔ انھیں یقین نہیں تھا کہ کام کرنے کی کتنی مہلت باقی رہ گئی ہے۔ وہ اس بات سے فکر مند تھے کہ ان کے استاد امام نے جو امانت ان کے سپرد کی ہے کہیں وہ ہمیشہ کے لیے ضائع نہ ہو جائے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے: ’’میری باتیں غور سے سن لیا کرو۔ بعد میں جگالی کرنے اور غوروفکر کرنے کے لیے تمھارے پاس کافی وقت ہو گا‘‘۔ ‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل۱۹۹۸ ء، ۲۷)

’’ تدبر قرآن‘‘ کے تعارف میں امین احسن لکھتے ہیں :

’’میری چالیس سال کی محنتوں کے نتائج کے ساتھ ساتھ، اس میں میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی ۳۰، ۳۵ سال کی کوششوں کے ثمرات بھی ہیں۔ مجھے بڑا فخر ہوتا اگر میں یہ دعویٰ کر سکتا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے، سب استاذ مرحوم ہی کا افادہ ہے، اس لیے کہ اصل حقیقت یہی ہے، لیکن میں یہ دعویٰ کرنے میں صرف اس لیے احتیاط کرتا ہوں کہ مبادا میری کوئی غلطی ان کی طرف منسوب ہو جائے۔ مولانا ؒسے میرے استفادے کی شکل یہ نہیں رہی کہ ہر آیت سے متعلق یقین کے ساتھ ان کی رائے میرے علم میں آ گئی ہو، بلکہ میں نے ان سے قرآن حکیم پر غور کرنے کے اصول سیکھے ہیں اور خود ان کی رہنمائی میں، پورے پانچ سال ان اصولوں کا تجربہ کرنے میں بسر کیے ہیں۔ پھر انھی اصولوں کو سامنے رکھ کر، آج تک کام کرتا رہا ہوں۔ اس اعتبار سے اگرچہ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ سب کچھ استاذؒ ہی کا فیض ہے، لیکن اس میں چونکہ بلاواسطہ افادے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ افادے کا بھی بہت بڑا حصہ ہے، اس وجہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کا جو حصہ مستحکم اور مدلل نظر آئے، اس کو استاذ مرحوم کا صدقہ سمجھیے اور جو بات کمزور یا غلط نظر آئے، اس کو میری کم علمی پر محمول فرمائیے۔‘‘ (۱/ ۴۱)

فراہی کی تقلید

یہاں کسی کو غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ شاید امین احسن،اپنے استاذ کے مقلد تھے۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اسی مقام پر اختصار کے ساتھ حقیقت واضح کردی جائے۔امین احسن ’’ تدبر قرآن‘‘ کے تعارف میں خود لکھتے ہیں:

’’قرآن سے باہر کی کسی چیز سے بھی کبھی میری کوئی خاص قلبی و ذہنی وابستگی نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہے تو قرآن ہی کے لیے اور قرآن ہی کے تحت ہوئی ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے والے محسوس کریں گے کہ جہاں کہیں مجھے اپنے استاذ سے بھی اختلاف ہوا ہے، میں نے بے جھجک اس کا بھی اظہار کر دیا ہے۔‘‘ (۴۲)

امین احسن،فراہی کے ساتھ اپنی شاگردی کو ہمیشہ اپنا سرمایۂ حیات قرار دیتے تھے۔ جیسے ہی ان کے استاد کا ذکر ہوتا تو معلوم ہوتا خوش گوار یادوں کی بارات اتر آئی ہے۔پھر وہ اپنی اس تدریس کے احوال کا ذکر بڑے ذوق و شوق کے سا تھ کرتے تھے۔جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں :

’’فراہی کا ذکرجب ان کی زبان پر آتا تو آنکھوں میں ایک عجیب چمک پیدا ہو جاتی تھی۔ اس کلیم ذروۂ سیناے علم کی باتیں وہ گھنٹوں کرتے، مگر سیر نہ ہوتے تھے۔ بعض واقعات ایسے دل نواز اسلوب میں سناتے کہ معلوم ہوتا، کسی دیوتا کا ذکر کر رہے ہیں ...۔
فراہی کے آخری زمانے میں ہندوستان کے ایک بڑے عالم نے ان کی کسی تحریر پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ اس سے پورے علاقے میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ مدرستہ الاصلاح کے طلبہ اور اساتذہ، سب پریشان تھے۔ میرے لیے بھی یہ ایک بڑا سانحہ تھا۔ اسی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں فراہی کو ڈھونڈتا ہوا، ان کے دارالمطالعہ کی طرف بھاگا۔ میں نے دیکھا، استاذ امام سیڑھیوں پر کھڑے تھے۔ دوڑ کر وہیں انھیں بتایا۔ میں خود جس پریشانی میں تھا، ان سے بھی، اسی کے لحاظ سے، کسی ردعمل کی توقع کر رہا تھا۔ وہ لمحہ بھر کے لیے زینے پر رکے، پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے: اچھا، یہ جن عالم کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ تو مجھے نہیں جانتے۔ میں ہکا بکا انھیں دیکھتا کھڑا رہ گیا۔ اس فتوے پر اس سے زیادہ بلیغ کوئی تبصرہ شاید کبھی نہ ہو سکے۔ وہ بڑے والہانہ انداز میں کہتے : فراہی یہ تھے۔ اس شان کا کوئی شخص اب تم کہاں سے پیدا کروگے؟‘‘(ماہنامہ اشراق، جنوری/فروری ۱۹۹۸ء، ۱۷)

اس حقیقت کا اعتراف مولانا دریا بادی نے بھی کیا۔ امین احسن نے ڈاکٹر شرف الدین کو بتایا:

’’مولوی عبدالماجد دریا بادی کہتے تھے کہ مولانا فراہی کے فکر کی ترجمانی کوئی اور کرتا ہے تو پڑھ کر وحشت ہوتی ہے۔ ان کے افکار کی ترجمانی کا حق صرف مولانا امین احسن اصلاحی کو ہے۔ وہی اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ مولوی صدر الدین اصلاحی نے کچھ لکھنا شروع کیا۔ ماجد صاحب نے اپنے صدق میں اس پر سخت نوٹ لکھا اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس کے بعد انھوں نے یہ سلسلہ بند کر دیا۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۸)

اور جب امین احسن نے تفسیر ’’ تدبر قرآن ‘‘مکمل کر کے اس امانت کا حق اداکیاتو ان کے جذبات کاعالم کیا تھا؟ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’تفسیر لکھنے میں صرف ہونے والی مدت، اپنی اور استاد کی مشترکہ مجموعی کاوش کے متعلق لکھتے ہیں :
’’تفسیر تدبر قرآن پر میں نے اپنی زندگی کے پورے ۵۵ سال صرف کیے ہیں،  جن میں ۲۳ سال صرف کتاب کی تحریر و تسوید کے نذر ہوئے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ وہ مدت بھی ملا دی جائے جو استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے غورو تدبر پر صرف کی ہے اور جس کو میں نے اس کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے تو یہ کم و بیش ایک صدی کا قرآنی فکر ہے جو آپ کے سامنے تفسیر تدبر قرآن کی صورت میں آیا ہے۔ اگرچہ میں اپنے فکر کو حضرت الاستاذ علیہ الرحمۃ کے فکر کے ساتھ ملانا بے ادبی خیال کرتا ہوں، لیکن چونکہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے عمر بھر استاذ کے سُر میں اپنا سُر ملانے کی کوشش کی ہے اور میرا فکر ان کے فکر کے قدرتی نتیجہ ہی کے طور پر ظہور میں آیا ہے، اس وجہ سے یہ جوڑ ملانے کی جسارت بھی کر رہا ہوں، اگر یہ بے ادبی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرمائے ...۔
’’ تدبر قرآن‘‘ کو فراہی مکتب فکر کی نمایندہ تفسیر کہا جاتا ہے۔ تدبر قرآن لکھنے کے لیے امین احسن اصلاحی نے فراہی کی عربی تفسیر’’ نظام القرآن ‘‘کے مطبوعہ اجزا کے علاوہ تمام غیر مطبوعہ مسودات کی اصل کاپیاں دائرۂ حمیدیہ (انڈیا) سے منگوالیں۔ قرآن مجید کے وہ نسخے منگوالیے جو مولانا فراہی کے زیر مطالعہ رہے اور جن پر ان کے حواشی اور نوٹس ہیں۔ ان حواشی کی کیفیت یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کو الگ سے نقل کر رکھا ہے۔ اس کے مطابق وہ تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان تمام چیزوں کو اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر میں استعمال کیا۔ یہ تمام چیزیں دائرہ کی تحویل میں تھیں۔ اور دائرہ کی ملکیت تھیں۔ دائرہ کے قیام کا اولین مقصد ان غیر مطبوعہ باقیات کی حفاظت اور طباعت و اشاعت تھا۔ اس کام میں کوئی چاشنی نہ تھی۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ تھا۔ اصلاحی صاحب کا کام مکمل ہو گیا تو یہ مسودات واپس گئے۔ مگر حواشی والے دونوں قرآن واپس کرنے سے امین احسن اصلاحی نے انکار کر دیا۔ واپسی کی کارروائی چونکہ میرے ذریعہ ہوئے اس لیے مجھے ان باتوں کا براہ راست علم ہے۔ فراہی کے ہاتھ کے عربی مسودات میں سے بھی کچھ چیزیں واپس نہیں گئیں۔ قرآن کے نسخے تو اصلاحی صاحب کے پاس ہیں، مگر مسودات کے گم شدہ حصوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔ گم یا کم ہونے کا پتا ا س لیے چلا کہ مولانا بدر الدین نے اپنے ہاتھ سے ان کی نقلیں تیار کر کے رکھ لی تھیں۔ بدر الدین اصلاحی کا بیان ہے کہ گم شدہ اوراق کے ترجمے، مولانا اصلاحی کے شاگرد خاص خالد مسعود کے قلم سے شائع ہوتے رہے‘‘۔‘‘(ذکر فراہی ۵۷۹- ۵۸۰)

 ـــــــــــــــ

باب ۳

دائرۂ حمیدیہ اورالاصلاح


۱۹۳۵ء میں امین احسن نے فراہی کی غیر مطبوعہ تصانیف کی ترتیب،تدوین اوراشاعت کے لیے مدرستہ الاصلاح میں ایک ادارہ ’’دائرۂ حمیدیہ‘‘ قائم کیا۔ (اس کے صدرفراہی کے معالج خاص ڈاکٹر حفیظ اللہ اور نائب صدر جناب ڈپٹی عبد الغنی انصاری انکم ٹیکس کمشنر ساکن جیگہاں مقرر ہوئے۔علمی اور انتظامی امور کے لیے کوئی باقاعدہ عملہ نہیں رکھاگیا۔مدرسے کے لوگ ہی اعزازی طورپر ساری خدمات انجام دیتے تھے)(ذکر فراہی ۵۷۴۔ سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء،۱۶ )۔

اس کے زیر اہتمام جنوری ۱۹۳۶ء میں ایک اردوماہنامہ ’’الاصلاح ‘‘ کا اجر ا ہوا۔فراہی کا کا م عربی زبان میں تھا۔’’الاصلاح ‘‘ میں اس کے اردو تراجم شائع کیے گئے۔مسودات کی ترتیب وتدوین کا کام اختر احسن اصلاحی کرتے اور اس کا ترجمہ اور رسالے کی ادارت امین احسن۔  

اس کے علاوہ اس رسالے میں امین احسن کی اپنی تحقیقات بھی شائع ہوئیں، جو بعد میں ’’حقیقت شرک‘‘، ’’حقیقت تقویٰ‘‘ اور ’’توضیحات‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ اسی طرح فراہی کے تراجم ’’مجموعۂ تفاسیر فراہی ‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام انصاری لکھتے ہیں :

’’مجلہ ’’الاصلاح ‘‘ قرآنیات کے ساتھ مخصوص تھا، علمی اندازو بلند معیار اس کا امتیاز تھا۔ اس کی مدت اشاعت محض چار سال (۱۹۳۶- ۱۹۳۹ء) تک محدود رہی، لیکن اس مختصر مدت میں جو مضامین، مقالات و تبصرے اس میں شائع ہوئے وہ معیار و مواد کے اعتبار سے دینی و علمی لٹریچر کا ایک قیمتی سرمایہ کہے جا سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ ۱۹۹۱ء میں ادارہ علوم القرآن (سر سید نگر، علی گڑھ) سے شائع شدہ کتاب ’’قرآنی مقالات‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے جو ’’الاصلاح‘‘ کے منتخب قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے۔ مزید برآں مولانا اصلاحی نے دائرۂ حمیدیہ کے تحت مولانا فراہی کی عربی مطبوعات : ’نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان‘(۱۳ سورتوں کی تفسیر کا مجموعہ)،فاتحہ نظام القرآن، الامعان فی اقسام القرآن اور ’الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح‘ کو اردو میں منتقل کر کے اردو داں طبقہ کو قرآنیات کے ایک اہم ذخیرہ سے استفادہ کا موقع فراہم کیا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۱۷)

’’الاصلاح ‘‘ کی اشاعت چار سا ل بعد۱۹۳۹ء کے آخر میں معطل ہو گئی۔ضیاء الدین اصلاحی اس بارے میں بتاتے ہیں :

’’دائرۂ حمیدیہ کی طرف سے ان کی ادارت میں ایک بلند پایہ علمی ماہنامہ ’’الاصلاح‘‘ بھی جاری ہوا۔
 مگر ناقدری کی بنا پر یہ چار برس ہی میں بند ہو گیا۔ تاہم اس میں قرآنیات پر ایسے محققانہ مضامین شائع ہوئے کہ آج تک لب ساقی پر مکرر صدا جاری ہے :
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق‘‘
(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۸)

امین احسن کی ’’مبادی تدبر قرآن‘‘ اسی دورکی تصنیف ہے۔

’’الاصلاح‘‘میں شائع ہونے والے فراہی کے مسودات کے ترجموں میں کچھ تصرفات بھی کیے گئے۔ ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی اس ضمن میں لکھتے ہیں :

’’... امین احسن اصلاحی کے قلم سے مولانا فراہی کے مطبوعہ اجزاے تفسیر (عربی) کے اردو ترجموں کا سلسلہ اسی رسالے میں شروع کیا گیا۔ مصلحتاً ان ترجموں میں مولانا اصلاحی نے کچھ تصرفات بھی کیے۔ کہیں کہیں عبارت حذف کر دی گئی جس پر نکتہ چینوں نے گرفت کی۔ غالباً اس کے بعد ہی مولانا اصلاحی نے مجموعۂ تفاسیر فراہی کے دیباچہ میں اس کے ذکر یا وضاحت کی ضرورت محسوس کی۔ لکھتے ہیں :
’’میں نے بھی ان کے ترجمہ میں دیانت داری کے خیال سے کچھ زیادہ تصرف نہیں کیا ہے، صرف مقدمہ اور تفسیر سورۂ فاتحہ سے بعض ایسے حصے ترجمہ میں حذف کر دیے ہیں جو بالکل ہی ناتمام یادداشتوں کی شکل میں تھے ’’الخ‘‘ واقعی دیانت داری کا تقاضا یہی ہے‘‘۔‘‘ (ذکر فراہی۵۷۴)

’’دائرۂ حمیدیہ‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی مزید لکھتے ہیں :

’’دائرۂ حمیدیہ نے مولانا فراہی کے مسودات میں سے بعض چیزیں شائع کیں اور یہ سلسلہ سست رفتاری سے کم و بیش جاری رہا۔ دائرے کا اصل اور بنیادی مقصد یہی تھا۔ لیکن اس کے لیے نہ کارکن تھے۔ نہ سرمایہ۔ مدرسہ سے وابستہ شاگردوں نے ہی بغیر کسی معاوضہ کے یہ فریضہ انجام دیا۔ ان شاگردوں میں اختر احسن اصلاحی اور امین احسن اصلاحی نمایاں ہیں۔ ماہنامہ الاصلاح کے بعض شمارے بیچ سے غائب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسالے کی جگہ فراہی کی کوئی کتاب بھیجی جاتی رہی۔ ماہنامہ الاصلاح اور ماہنامہ ترجمان القرآن میں علمی معرکہ آرائی بھی ہوتی تھی۔ اور ان کے مابین رشتۂ مواخاۃ بھی قائم ہوا۔ اس وقت حوالہ سامنے نہیں۔ لیکن اس روایت کی اصل کہیں موجود ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے یہ میرا سہو ہو۔
مولانا مودودی سرائے میر آئے۔ مولانا اصلاحی جماعت اسلامی کے تاسیسی اجتماع میں شریک ہوئے۔وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے جو پہلے دینی جمع سیاسی جماعت تھی پھر سیاسی جمع دینی جماعت میں مبدل ہوئی۔ ان کی پہلی بیوی کا بہت پہلے انتقال ہو چکا تھا۔ مولانا مودودی نے پٹھان کوٹ کے ایک رئیس خاندان میں ان کی دوسری شادی کراد ی۔ برصغیر کی تقسیم کا واقعہ پیش آیا تو وہ پٹھان کوٹ میں تھے۔ مولانا مودودی کی امارت میں قائم جماعت کے ساتھ وہ بھی پاکستان منتقل ہو گئے۔
مشن جس کے لیے فراہی نے سید سلیمان ندوی کے بقول امین احسن کو تیار کیا تھا اور جس کی حقانیت اور برتری کے وہ دل سے قائل تھے، اس مشن کے لیے اس زمانے میں فراہی کے ایک عقیدت مند نے پچاس ہزار کی خطیر رقم کا عطیہ دیا تھا۔ اور وہ رقم اصلاحی صاحب کے نام ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کر دی گئی تھی۔ اس وقت کے پچاس ہزار کی مالیت آج کے پچاس لاکھ کے برابر ہے۔ وہ رقم ہمیشہ کے لیے ڈوب گئی۔ درد رکھنے والوں نے ہزار جتن کیے کہ مولانا کسی طرح ایک بار آ جائیں رقم نکلوانے کے لیے فقط ایک دستخط کرنا تھا۔ وہ رقم ان کی بے اعتنائی کی وجہ سے ضائع گئی۔ میرے پاس مذکورہ بالا پچاس ہزار سے متعلق دستاویز کی نقل فوٹو سٹیٹ کاپی اور ضروری معلومات موجود ہیں۔
یہ بات سخت خلجان کا باعث بنتی ہے جب آدمی دیکھتا ہے کہ پچاس ہزار کی رقم سے کوئی کام نہ لیا گیا اور اسے یوں ہی ضائع کیا گیا۔ فراہی کے دو ارشد تلامذہ میں سے امین احسن اصلاحی کو بعض ایسی خوبیوں سے بہرہ وافر ملا تھا جو اختر احسن میں نہیں تھیں۔ ان کے فراہی کے مدرسہ اور دائرہ کو چھوڑنے سے جو خلا پیدا ہوا وہ کسی طور پر نہ ہو سکتا۔ سرمایہ تو ڈاکٹر حفیظ اللہ کے گراں قدر عطیے نے فراہم کر دیا، مگر افرادی قوت جو پہلے ہی کم تھی مولانا اصلاحی کی ہجرت سے اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اس وقت کے ناظم حاجی رشیدالدین صاحب نے مولانا مودودی کو خط لکھا کہ وہ امین احسن کو سرائے میر واپس بھیج دیں۔ انھوں نے مدرسہ اور دائرہ کے کام کی اہمیت کا حوالہ دیا۔اور اس نقصان کی طرف توجہ دلائی جو اصلاحی صاحب کے ترک وطن کے باعث ان اداروں کو پہنچا۔ یہ بات مجھے بدرالدین اصلاحی نے بتائی اور میرے پاس حاجی رشید صاحب کے اس خط کی ایک دستی کاپی بھی موجود ہے۔ اس کا جواب مولانا مودودی نے یہ دیا کہ دائرہ کو پچاس ہزار کی رقم سمیت پٹھان کوٹ منتقل کردیا جائے۔ کہتے ہیں مودودی صاحب کا یہ خط شائع ہو گیا ہے۔ میری نظر سے نہیں گزرا، لیکن بدرالدین صاحب کی زبانی اس کے مندرجات معلوم کر کے مجھے افسوس ہوا۔ مولانا مودودی کو صرف اپنی تحریک و تنظیم سے غرض تھی۔ فقط اتنی سی بات بھی ان کی علمی و دینی بصیرت کے متعلق کوئی اچھا تاثر نہیں پیدا کرتی۔
بدر الدین اصلاحی نے مجھے بتایا کہ امین احسن اصلاحی کو خط لکھا گیا کہ فراہی کے مسودات کی اشاعت کی فکر کرنی چاہیے۔ انھوں نے جواب میں یہ تجویز ارسال کی کہ مولانا فراہی کے مسودات کی اشاعت کا کوئی فائدہ نہ ہو گا ان کو سمجھے گا کون۔ بہتر ہو گا کہ ان کے افکار کو سامنے رکھ کر اردو میں نئے سرے سے ایک تفسیر لکھ دی جائے۔ ان کا خط پڑھ کر اختر احسن نے آہ سرد بھری اور حسرت و یاس کے عالم میں کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کہ دنیا فراہی کو بھی جانے۔ میں نے اس خط کے بارے میں بدرالدین صاحب سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ محفوظ نہیں رہا۔ ایک زمانے میں اصلاحی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے مولانا فراہی کی مطبوعہ چیزوں کو چھاپنے کا آغاز کیا تو اصلاحی صاحب نے مجھ سے کہا کہ پہلے ہم ان چیزوں کو چھاپیں گے۔ پھر ان سے جو آمدنی ہو گی اور سرمایہ جمع ہو گا ان کو خر چ کر کے مسودات کی طباعت کا سامان کریں گے۔ میں یہ سن کر خوش ہوا اور میرے دل میں تحسین اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوئے۔
سرائے میر کو چھوڑ کر پٹھان کوٹ آنے اور جماعت اسلامی جوائن کرنے کے بعد امین احسن صاحب نظم جماعت کے پابند ہو کر جماعتی سرگرمیوں میں لگ گئے۔ اس زمانے میں لکھنے کا کام کم کیا اگر کوئی چیز لکھی تو اس کا تعلق جماعت سے جوڑنا زیادہ صحیح ہو گا۔
ایام اسیری کی فرصت میں ’’مسلمان عورت دوراہے پر‘‘ جیسی کتابیں لکھیں یا جماعت کے جلسوں اور اجتماعات میں کی گئی تقریروں پر مشتمل کتابیں شائع کیں۔ تحریک و تنظیم کا مزاج اور مذاق بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے ہٹ کر کسی چیز کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ مولانا مودودی کے درس قرآن کے ساتھ ان کا درس قرآن بھی ہوتا تھا اس میں وہ نظم قرآن وغیرہ کی باتیں کرتے تھے تو جماعت کے عام لوگ تو بے چارے کیا سمجھتے اور کیا کہتے۔ اعیان و اکابر یہ کہتے کہ اصلاحی صاحب نظم کی جو باتیں کرتے ہیں وہ زیادہ تر کھینچا تانی ہوتی ہے۔ ان کے مخاطب اپنی ذہنی اور علمی سطح کے لحاظ سے اس کے اہل نہیں تھے۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۵)
’’... سال گذشتہ، میں ہندوستان گیا تو مولانا بدر الدین حال ہی میں انتقال کر چکے تھے۔ اختر احسن اصلاحی کی وفات کے بعد وہی دائرۂ حمیدیہ وغیرہ کے وارث و امین تھے۔ ان کی وفات کے بعد وراثت اور جانشینی کا مسئلہ وہاں درپیش تھا۔ واپس آ کر میں نے اس کا ذکر اصلاحی صاحب سے کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ نے کچھ سوچا ہے۔ انھوں نے خالد مسعود کا نام لیا۔ گویا وہ نام زد خلیفہ ہیں۔ لیکن چونکہ مولانا ابھی زندہ ہیں اس لیے بکس ابھی تک انھی کے کمرے میں ہے۔ مولانا کی صحت جب زیادہ بگڑ گئی تو مجھے قرآن مجید کے ان دو نسخوں کا خیال آیا۔ میں نے خالد مسعود سے پوچھا تو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر نعمان صاحب سے دریافت کیا تو یہ جان کر اطمینان ہوا کہ و ہ نسخے محفوظ ہیں اور وہ بکس مولانا اصلاحی کے کمرے میں ان کی چارپائی کے نیچے ہے (تحریرستمبر۱۹۹۷ء)۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۸۱)

’’الاصلاح‘‘ میں کام کرنے سے امین احسن کو جو فائدہ ہوا، اس کاذکر انھوں ڈاکٹر شرف الدین صاحب سے مختلف مواقع پر کچھ یوں کیا:

’’مدرسے میں مولانا کی وفات کے بعد رسالہ اصلاح میں جو کچھ علمی کام کیا ہے وہ چھپ چکا ہے۔ فکر فراہی پر میری تیاری کا زمانہ یہی ہے جب میں نے رسالہ نکالا اور ترجمے کیے۔ مولانا کی تمام چیزیں اس زمانے میں پڑھ ڈالیں۔ اشعار کی تلاش میں اختر اصلاحی مدد کرتے تھے۔ وہ ادھر ادھر سے تلاش کر کے نکالتے تھے۔‘‘ (ذکر فراہی ۵۷۸)

مترجم

’’دائرۂ حمیدیہ ‘‘ اور ’’الاصلاح‘‘ کے لیے امین احسن نے فراہی کی کتابوں کے جو ترجمے کیے، وہ اس قدرعمدہ تھے کہ سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی جیسے انشا پرداز نے لکھا کہ کسی شخص کو اگر عربی زبان کی اعلیٰ علمی عبارتوں کے اردو میں منتقل کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو اسے یہ ترجمے دیکھنے چاہییں۔ اسی ضمن میں جناب ضیاء الدین اصلاحی لکھتے ہیں :

’’مولانا کے انتقال کے بعد ان کے افکار و تصانیف کی اشاعت کے لیے مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی سربراہی میں دائرۂ حمیدیہ قائم ہوا جس نے مولانا کی عربی تصانیف کے متون اور ان کے سلیس و شگفتہ اردو ترجمے شائع کیے۔ یہ ترجمے مولانا اصلاحی نے اتنی خوبی اور قابلیت سے کیے ہیں کہ ان پر اصل کا دھوکہ ہوتا ہے۔‘‘  (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء،۸)

دارالاسلام جمال پور سے ۱۹؍ جولائی ۱۹۴۷ء کو حکیم محمد مختار اصلاحی کے نام خط میں امین احسن نے اپنا ارادہ واضح کرتے ہوئے لکھا:

’’ آج کل کچھ صحت خراب ہے۔ رمضان میں میرا ارادہ بھی راہوں[2]؎ ہی میں قیام کا ہے۔ اور رمضان کے بعد مستقلاً اعظم گڑھ منتقل ہو جانے کا ارادہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو وہیں سے جماعت کی خدمت اور دائرہ کی تجدید کا ارادہ ہے۔ (جماعت سے مراد جماعت اسلامی اور دائرہ سے مراد دائرۂ حمید یہ ہے جو مولانا فراہیؒ کے افکار کی اشاعت کے لیے مولانا مرحوم نے مدرستہ الاصلاح میں ۱۹۳۵ میں قائم کیا تھا۔ ملکی تقسیم کے بعد کے حالات میں مولانا اس فیصلہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔مدیر)‘‘ (سہ ماہی تدبر، جولائی ۱۹۹۸ء، ۴۶)

لیکن پاکستان آکر بھی امین احسن نے فراہی کی امانت کا حق ادا کر دیا۔زندگی کے آخری برسوں میں ایک موقع پر امین احسن نے کہا:

’’مولانا فراہی ایک سر مخفی تھے،میں نے انھیں آشکارا کیا ...۔
میں نے ایک دھیلا خرچ کیے بغیر وہ کام کر دیا جس کے لیے ڈاکٹر حفیظ اللہ نے پچاس ہزار کا عطیہ دیا تھا۔ اب انھیں مجھ سے یہ شکایت نہیں ہوسکتی کہ میں نے کچھ نہ کیااورروز حشر مجھے ان سے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا...۔
یہ (اکیسویں ) فراہی صدی ہے۔ ‘‘(ذکر فراہی ۵۸۲)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] ’’آ ؤ، اے رگ جان، اگر یہاں کوئی سخن داں ہے تو اس غریب الوطن کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔‘‘

[2] مولانا کا سسرالی گاؤں جو اب بھارتی صوبہ پنجاب کے ضلع ہو شیارپور میں ہے۔


B