HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید میں اختلاط مرد و زن کے احکام (۳)

مختلف تعبیرات کی تفہیم اور تجزیہ


آیت حجاب کے احکام

سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۵۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے متعلق اہل ایمان کو خاص ہدایات دی گئی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّا٘ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰي طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍﵧ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْﵟ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّﵧ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍﵧ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّﵧ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَا٘ اَنْ تَنْكِحُوْ٘ا اَزْوَاجَهٗ مِنْۣ بَعْدِهٖ٘ اَبَدًاﵧ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا.
’’ایمان والو، تم نبی کے گھروں میں مت جایا کرو، الاّ یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح کہ اُس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، بلکہ  جب تم کو بلایا جائے تو داخل ہو، پھر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو۔ اِس سے پیغمبر کو اذیت ہوتی ہے، مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ اور تمھیں جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔ تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ اُس کے بعد تم اُس کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سنگین بات ہے۔‘‘

 اس آیت کو  احادیث اور تفسیری لٹریچر میں آیت حجاب کا عنوان دیا جاتا ہے۔  شان نزول کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ یہ ہدایت اس موقع پر نازل ہوئی جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے بعد  کچھ لوگ جو ولیمے کے کھانے کے لیے مدعو تھے، آپ کے حجرے میں بلا ضرورت دیر تک خوش گپیوں میں مصروف رہے اور یہ احساس نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل خانہ کو اس سے زحمت ہو رہی ہے (بخاری، رقم  ۴۵۱۳) ۔

 اس تناظر میں آیت میں   نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں  جانے اور ٹھیرنے کے آداب  بیان کرنے کے ساتھ ساتھ  ایک خاص پابندی یہ عائد کی گئی ہے کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو یا کوئی بات پوچھنی ہو تو  لوگ ان کے گھروں میں داخل ہو کر روبرو نہ مانگیں، بلکہ باہر کھڑے رہ کر پردے کی اوٹ سے بات کریں ۔    فرمایا ہے کہ آپ کی ازواج کے ساتھ غیر مردوں کا میل جول اور اختلاط اللہ کے رسول کے لیے اذیت کا موجب ہو سکتا ہے، جس سے مسلمانوں کو گریز کرنا چاہیے۔ پھر اسی بنیاد پر آپ کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کرنے کو عام مسلمانوں کے لیے ممنوع ٹھیرایا گیا اور اسے اللہ کے ہاں ایک نہایت سنگین بات قرار دیا گیا ہے۔

روایات سے معلوم  ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات پر حجاب کی  پابندی  کے لیے  بعض صحابہ، مثلاً‌ سیدنا عمر کی طرف سے پہلے سے ایک خواہش اور اصرار موجود تھا، جس کا محرک یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی خاص حیثیت  کے تناظر میں ان کے متعلق تقدس واحترام کو یقینی بنایا جائے۔  چنانچہ سیدنا عمر ازواج مطہرات کو اس کی تلقین کرنے کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی گزارش کرتے رہتے تھے کہ ہر شخص کو آپ کی ازواج کے ساتھ میل ملاقات اور ان تک رسائی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔  چنانچہ اس ہدایت کے نزول کے بعد ازواج مطہرات کو بھی اس کا پابند کر دیا گیا کہ وہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں اور اگر نکلنا پڑے تو اپنے پورے جسم کو اس طرح چھپا کر نکلیں کہ کسی غیر محرم کی ان پر نظر نہ پڑ سکے۔

صحیح بخاری میں سیدنا انس روایت کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ:

یا رسول اللّٰه، یدخل علیک البر والفاجر فلو أمرت أمهات المومنین بالحجاب، فأنزل اللّٰه آیة الحجاب.(رقم ۴۷۹۰)
’’یا رسول اللہ، آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، بہتر ہے کہ آپ امہات المومنین کو پردے میں رہنے کی ہدایت فرما دیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیت نازل کر دی۔“

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

فقال عمر: يا رسول اللّٰه، لو اتخذت حجابًا، فإنّ نساءك لسن کسائر النساء، وذالك أطهر لقلوبهن، فأنزل اللّٰه: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ.(طبرانی، المعجم الاوسط، رقم ۵۶۵۸۔ الدر المنثور ۱۲ / ۱۰۷۔ فتح الباری ۱۰ / ۱۵۰)
’’سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کو حجاب کی پابندی لگانی چاہیے، کیونکہ آپ کی بیویاں عام خواتین کی طرح نہیں ہیں اور یہ ازواج کے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ ہوگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی کہ ’’اے ایمان والو، پیغمبر کے گھروں میں مت داخل ہوا کرو‘‘۔“

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أمر عمر نساء النبي صلی اللّٰه علیه وسلم بالحجاب فقالت زینب: یابن الخطاب، إنک لتغار علینا والوحي ینزل في بیوتنا فأنزل اللّٰه: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ.(تفسیر الطبری ۱۹/ ۱۶۵)
’’سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو حجاب کرنے کو کہا تو سیدہ زینب نے کہا کہ اے ابن الخطاب، وحی ہمارے گھر میں اترتی ہے اور ہم پر غیرت تم کھا رہے ہو؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر دیا کہ ’’جب تمھیں نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے رہ کر مانگا کرو‘‘۔“

عامر شعبی کی روایت ہے:

قال: مرّ عمر على نساء النبي صلّى اللّٰه عليه وسلم وهو مع النساء في المسجد فقال لهنّ: احتجبن فإنّ لكنّ على النساء فضلًا، كما أنّ لزوجكنّ على الرجال الفضل، فلم يلبثوا إلّا يسيرًا حتى أنزل اللّٰه آية الحجاب.(تفسیر الثعلبی ۸ / ۵۹)
’’سیدنا عمر کا گزر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس سے ہوا جو دیگر خواتین کے ساتھ مسجد میں تھیں۔ عمر نے ان سے کہا کہ آپ لوگ حجاب میں رہا کریں، کیونکہ آپ کا درجہ عام خواتین سے بڑھ کر ہے، ایسے ہی جیسے آپ کے شوہر کا درجہ عام مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کے بعد کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل کردی۔“

حافظ ابن حجر شان نزول سے  متعلق مختلف روایات کا حاصل یوں بیان کرتے ہیں:

والحاصل أن عمر وقع في قلبه نَفْرة من اطّلاع الأجانب على الحريم النبويّ حتى صَرَّح بقوله له ﷺ: «احْجُب نساءك»، وأَكَّد ذالك إلى أن نزلت آية الحجاب، ثم قَصَد بعد ذالك أن لا يُبدين أشخاصهنّ أصلًا ولو كنّ مستترات، فبالغ في ذالك، فمنع منه، وأَذِن لهنّ في الخروج لحاجتهن دفعًا للمشقّة ورفعًا للحرج. (فتح الباری ۱۰ / ۵۱۳)
’’حاصل یہ ہے کہ سیدنا عمر کے دل میں اس بات سے نفرت پیدا ہوئی کہ غیر محرم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو دیکھا کریں، یہاں تک کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر گزارش کی کہ آپ اپنی بیویوں کو حجاب میں رکھا کریں۔ عمر اس پر اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ آیت حجاب نازل ہو گئی۔ پھر اس کے بعد سیدنا عمر مزید یہ چاہتے تھے کہ امہات المومنین  خود کو بالکل لوگوں کے سامنے بھی  نہ لایا کریں، چاہے ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا ہو، (یعنی گھروں سے باہر ہی نہ نکلا کریں)۔ عمر نے اس میں بہت زیادہ سختی کرنا چاہی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا اور دفع مشقت اور رفع حرج کے پہلو سے ازواج کو اجازت دی کہ وہ اپنی ضروریات کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔“

امہات المومنین کی امتیازی علامت

اس پس منظر میں  عہد نبوی اور عہد صحابہ وتابعین میں حجاب کو امہات المومنین سے متعلق  ایک خصوصی حکم سمجھا جاتا تھا، اور صحابہ وتابعین حجاب ، یعنی غیر مردوں کی نگاہوں سے اوجھل رہنے کی پابندی کو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی ایک خصوصی اور امتیازی  علامت کے طور پر     کرتے تھے۔  

یہ روایات مختلف نوعیت کی ہیں اور انھیں نوعیت کے اعتبار سے حسب ذیل تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

پہلی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں حجاب کو کسی خاتون کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کی ایک لازمی شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ حسب ذیل ہیں:

بنو قریظہ کے واقعے کے بعد ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کر لیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نکاح کی پیش کش کی۔ روایات اس باب میں مختلف ہیں کہ انھوں نے آپ کی پیش کش کا کیا جواب دیا، تاہم روایات اس پر متفق ہیں کہ ان کو نکاح کی پیش کش حجاب کے لازم کیے جانے کے ساتھ مشروط تھی۔

ابن اسحٰق کی روایت ہے:

وعرض علیها أن یعتقها ویتزوجها ویضرب علیها الحجاب، فقالت: یا رسول اللّٰه، بل تترکني في ملکي فهو أخف علي وعلیک.(ابن حجر، الاصابہ ۸/ ۱۴۶)
’’آپ نے انھیں آزاد کر کے نکاح کرنے کی پیش کش کی اور یہ کہ اس صورت میں ان پر حجاب کا حکم لاگو کیا جائے گا، لیکن ریحانہ نے کہا کہ یا رسول اللہ، آپ بس مجھے اپنی ملکیت میں رہنے دیں، (یعنی نکاح نہ کریں)۔ اس سے آپ کو بھی آسانی رہے گی اور مجھے بھی، (یعنی میں حجاب کی پابندی سے آزاد رہوں گی)۔‘‘

اس کے برخلاف محمد بن کعب کی  روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ آپ کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے آپ کی زوجیت میں آ گئیں:

فخيرها رسول اللّٰهِ ﷺ، فاختارت الإسلام، فأعتقها وتزوجها وضرب عليها الحجاب. (الاصابہ ۸/ ۱۴۶)
’’آپ نے ان کو اختیار دیا اور انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر آپ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان پر حجاب لازم کردیا۔“

ایک روایت کے مطابق خود سیدہ ریحانہ اپنے متعلق یہ بیان کرتی تھیں  کہ:

وكان يقسم لي كما كان يقسم لنسائه، وضرب علي الحجاب.(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/ ۱۳۰)
’’آپ نے اپنی دوسری بیویوں کی طرح میرے لیے بھی باری کا دن مقرر کیا اور مجھ پر حجاب لازم کیا گیا۔“

اسی طرح جب غزوۂ خیبر سے واپسی پر راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو اپنے لیے چن لیا تو مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آپ انھیں کس حیثیت سے اپنے پاس رکھیں گے؟ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

فقال المسلمون: إحدی أمهات المومنین أو ما ملکت یمینه؟ قالوا: فإن حجبها فهي إحدی أمهات المومنین وإن لم یحجبها فهي مما ملکت یمینه، فلما ارتحل وطالها خلفه ومد الحجاب.(بخاری، رقم ۴۲۱۳)
’’مسلمانوں نے کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ایک ہیں یا آپ کی باندی؟ لوگوں نے کہا کہ اگر آپ نے ان پر حجاب عائد کیا تو وہ امہات المومنین میں سے ہوں گی، ورنہ آپ کی باندی۔ جب آپ کوچ کرنے لگے تو آپ نے صفیہ کے بیٹھنے کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور حجاب لٹکا دیا۔“

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ایک اور واقعہ بنو کندہ کی خاتون اسماء بنت نعمان کے حوالے سے روایات میں بیان ہوا ہے۔ ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمایندے کے طور پر اسماء بنت نعمان کو، جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تھا، ان کے گھر سے لینے کے لیے گئے تو اسماء نے انھیں اپنے پاس طلب کیا، لیکن ابو اسید نے ان سے کہا:

أن نساء رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم لا یراهن أحد من الرجال، قال أبو أسید: وذالک بعد أن نزل الحجاب. (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/ ۱۱۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو کوئی دوسرا مرد نہیں دیکھ سکتا۔ ابو اسید کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کا تھا۔‘‘

دوسری نوعیت کی روایات وہ ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ وتابعین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں موجود مختلف خواتین کے ساتھ آپ کے رشتے کی نوعیت متعین کرنے کے لیے حجاب کی پابندی سے استدلال کیا ۔ یہ روایات درج ذیل ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد  بعض ازواج کے متعلق صحابہ میں  اس حوالے سے سوال پیدا ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کس حیثیت میں اپنے پاس رکھا تھا؟ تو  ان کی ازدواجی حیثیت کی تعیین کے لیے بھی  اکابر صحابہ نے ان کے لیے باری کا دن مقرر کیے جانے کے علاوہ حجاب لازم کیے جانے کا حوالہ دیا ۔

سیدنا عمر او رسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے سیدہ صفیہ کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:

أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ضرب علیها الحجاب فکان یقسم لها کما یقسم لنسائه.(الطبقات الکبریٰ ۸/ ۱۰۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حجاب لازم کیا اور ان کے لیے اسی طرح باری مقرر کی تھی، جیسے باقی بیویوں کے لیے کی تھی۔“

اسی طرح سیدہ جویریہ کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے سیدنا عمر نے فرمایا کہ:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ضرب على جويرية الحجاب، وكان يقسم لها كما يقسم لنسائه. (المستدرک علی الصحیحین، رقم ۶۸۸۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ جویریہ پر حجاب لازم کیا اور ان کے لیے دن گزارنے کی باری بھی مقرر کی تھی، جیسے باقی ازواج کے لیے کی تھی۔“

تابعین کے آثار میں بھی حجاب کا ذکر اسی پہلو سے ملتا ہے۔ چنانچہ عہد تابعین میں ارباب سیرت میں سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے متعلق اختلاف ہوا کہ وہ کس حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہیں۔ اس تناظر میں امام زہری نے کہا:

کانت جویریة من أزواج رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم وکان قد ضرب علیها الحجاب وکان یقسم لها کما یقسم لنسائه. (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/ ۹۴)
’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ نے ان پر حجاب لازم  کیا تھا اور دوسری ازواج کی طرح ان کے لیے بھی باری کا دن مقرر فرمایا تھا۔‘‘

عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ امام زہری نے کہا:

ضرب علی صفیة وجويرية الحجاب وقسم لهما النبي ﷺ كما قسم لنسائه.(مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۴۱۴۹)
’’سیدہ صفیہ اور سیدہ جویریہ پر حجاب لازم کیا گیا اور ان دونوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ازواج کی طرح باری مقرر کی۔‘‘

مقریزی نے سیدہ جویریہ کی ازدواجی حیثیت سے متعلق روایات کی تنقیح کا نتیجہ یوں بیان کیا ہے:

وأثبت الأقوال: أن النبي ﷺ قضى عنها كتابتها وأعتقها وتزوجها، وضرب عليها الحجاب، وقسم لها كما يقسم لنسائه. (امتاع الاسماع ۶ / ۸۵)

اسی طرح ابو سعید بن وہب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے سیدہ ریحانہ کی حیثیت واضح کرتے ہوئے کہا:

وكانت من نسائه يقسم لها كما يقسم لنسائه، وضرب رسول اللّٰه عليها الحجاب.(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/ ۹۴)
’’وہ آپ کی ازواج میں سے تھیں۔ آپ دوسری ازواج کی طرح انھیں بھی باری کا دن دیا کرتے تھے اور آپ نے  ان پر حجاب بھی لازم  کیا تھا۔‘‘

تیسری نوعیت کی روایات وہ ہیں جن سے واضح ہوتا ہےکہ صحابہ نے بعض ایسی خواتین کے شرعی احکام طے کرنے کے لیے جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے نکاح کے بعد رخصتی سے قبل علیحدگی اختیار کر لی تھی،  اس نکتے کو بنیاد بنایا کہ ان پر حجاب کی پابندی لازم نہیں کی گئی تھی۔   

امام ماوردی رحمہ اللہ  کے استقصا کے مطابق یہ حسب ذیل آٹھ خواتین تھیں:

۱۔  اسماء بنت النعمان

۲۔ لیلیٰ بنت الحطیم

۳۔ عمرہ بنت یزید

۴۔ عالیہ بنت ظبیان

۵۔ فاطمہ بنت ضحاک

۶۔ قتیلہ بنت قیس

۷۔ ملیکہ بنت کعب

۸۔ بنو عفان کی ایک خاتون

ماوردی کے بیان کے مطابق ان میں سے تین، یعنی عمرہ بنت یزید، عالیہ بنت ظبیان اور فاطمہ بنت ضحاک کی رخصتی ہوئی اور بعد میں آپ نے ان کو طلاق دے دی، جب کہ باقی پانچ سے آپ نے مختلف اسباب سے رخصتی سے قبل ہی علیحدگی اختیار فر ما لی (ماوردی، الحاوی الکبیر ۹ / ۲۸)۔

عہد صحابہ میں جب ان  میں سے بعض خواتین نے نکاح کرنا چاہا تو  بعض صحابہ نے اس بنیاد پر اس پر اعتراض کیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منکوحہ ہونے کی وجہ سے آپ کے بعد کوئی نکاح نہیں کر سکتیں، تاہم یہ معلوم ہونے پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حجاب کی پابندی لازم نہیں کی تھی، جو کہ امہات المومنین کے لیے ایک خصوصی حکم تھا، ان کے نکاح کے فیصلے کو جائز تسلیم کر لیا گیا۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اسماءبنت نعمان رضی اللہ عنہا سے ہوا، لیکن رخصتی سے قبل علیحدگی ہو گئی۔ آپ کی وفا ت کے بعد اسماءنے مہاجر بن ابی امیہ سے نکاح کر لیا تو سیدنا عمر نے اس پر انھیں سزا دینا چاہی، (کیونکہ امہات المومنین کے لیے کسی اور سے نکاح کرنا ممنوع تھا)۔ اس پر اسماءبنت نعمان نے یہ دلیل پیش کی:

و اللّٰه ما ضرب علي الحجاب ولا سمیت بأم المومنین.(المستدرک علی الصحیحین، رقم ۶۹۱۷)
”بخدا، نہ تو مجھ پر حجاب کا حکم نافذ کیا گیا اور نہ مجھے ام المومنین قرار دیا گیا۔“

اسماء نےکہا کہ:

اتق اللّٰه يا عمر، إن كنت من أمهات المؤمنين فاضرب علي الحجاب وأعطني ما أعطيتهن.(طبرانی، المعجم الکبیر، رقم ۱۷۷۱۴)
’’اے عمر، اللہ سے ڈرو۔ اگر میں امہات المومنین میں سے ہوں تو مجھ پر حجاب بھی لازم کرو اور (بیت المال سے) جو  وظیفہ ان کو دیتے ہو، مجھے بھی دو۔“

مراد یہ تھی کہ چونکہ رخصتی سے قبل ہی علیحدگی ہو گئی تھی، اس لیے مجھ پر امہات المومنین کے مخصوص شرعی احکام لاگو نہیں ہوتے۔ چنانچہ سیدنا عمر نے انھیں سزا دینے کا فیصلہ واپس لے لیا۔

اسی طرح قتیلہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بالکل آخری دنوں میں ہوا، لیکن رخصتی سے قبل آپ کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کر لیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ان دونوں کو ان کے گھر سمیت جلا دوں، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ :

ما ھي من امھات المومنین ولا دخل بھا النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ولا ضرب علیھا الحجاب.(المستدرک علی الصحیحین، رقم ۶۹۱۸)
”وہ امہات المومنین میں سے نہیں ہے۔ نہ اس کی رخصتی ہوئی اور نہ اس پر حجاب عائد کیا گیا۔“

شعبی کی روایت میں ہے کہ سیدنا عمر نے کہا:

یا خلیفة رسول اللّٰه، أنها لیست من نسائه أنها لم یخیرها رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ولم یحجبها وقد براها منه بالردة التي ارتدت مع قومها فاطمأن أبوبکر وسکن.(تفسیر الطبری ۲۲/۱۴)
’’اے خلیفۂ رسول، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں شمار نہیں ہوتیں۔ آپ نے نہ تو ان کو علیحدگی کا اختیار دیا اور نہ ان پر حجاب کو لازم کیا۔ پھر اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہو جانے کی وجہ سے بھی اللہ نے اس کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل ختم کر دیا ہے (اس لیے اس پر امہات المومنین کے احکام لاگو نہیں ہوتے)۔ اس پر ابوبکر مطمئن ہو گئے اور ان کا غصہ فرو ہو گیا۔‘‘

سنن ابی داؤد کے شارح شہاب الدین  ابن رسلان المقدسی (وفات ۸۴۴ھ) ان واقعات کی روشنی میں  فقہی حکم کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ:

واعلم أن التي لم يدخل بها النبي ﷺ، ولم يضرب عليها الحجاب، لا يكون لها حكم زوجات النبي ﷺ في تحريم النكاح على الغير، كما روي أنه تزوج بهذه المهاجر بن أبي أمية، فأراد عمر معاقبتها، فقالت: ما ضرب علي الحجاب، ولا سميت أم المؤمنين. فكف عنها. (شرح سنن ابی داؤد ۸ / ۷۱)
’’جان لو کہ جن خواتین سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم بستری نہیں کی اور نہ ان پر حجاب لازم کیا، ان کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کا نہیں ہے، جس پر کسی دوسرے مرد سے نکاح حرام ہو۔ چنانچہ روایت ہے کہ اس خاتون کے ساتھ مہاجر بن ابی امیہ نے نکاح کیا اور سیدنا عمر نے اس کو سزا دینا چاہی تو خاتون نے کہا کہ نہ مجھ پر حجاب لازم کیا گیا اور نہ مجھے ام المومنین قرار دیا گیا۔ اس پر سیدنا عمر اس کو سزا دینے سے رک گئے۔‘‘

مذکورہ تمام شواہد  بہت وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیتے ہیں کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ وتابعین میں حجاب کی امتیازی وخصوصی حیثیت اہل علم پر بالکل واضح تھی اور امہات المومنین کے علاوہ عام مسلمان خواتین کے ساتھ اس پابندی کے غیر متعلق ہونے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں پایا جاتا تھا۔

فرضیت حجاب سے پہلے کے واقعات کی نشان دہی

حدیث وسیرت کے ذخیرے   سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ  ایسے واقعات بیان کرتے ہوئے جن میں ازواج مطہرات کے کسی غیر محرم کے ساتھ گفتگو کرنے یا کسی مخلوط ماحول میں موجود ہونے کا ذکر ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عموماً‌ یہ واضح کرنے کا اہتمام کرتے تھے کہ یہ واقعہ ان پر حجاب کی پابندی عائد کیے جانے سے پہلے کا ہے، تاہم عام خواتین کے حوالے سے اس بات کی وضاحت کی مثالیں نہیں ملتیں۔

اس نوعیت کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

۱۔ ہجرت مدینہ کے بعد  بہت سے مہاجرین  مدینہ کی آب وہوا کی وجہ سے شدید بخار میں مبتلا ہو گئے تھے۔ سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر اور ان کے غلام عامر بن فہیرہ اور بلال ایک ہی مکان میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ کہتی ہیں کہ :

فأصابتهم الْحمى، فدخلت عليْهمْ أعودهمْ. وذالك قبْل أن يضرب علينا الحجاب. (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲/ ۱۶۹)
’’وہ سب بخار میں مبتلا ہو گئے تو میں ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس گئی۔ یہ ہم پر حجاب لازم کیے جانے سے پہلے کی بات ہے۔“

۲۔ عبد الرحمٰن بن اسعد بن زرارہ جنگ بدر کے قیدیوں  کے مدینہ لائے جانے  کا ذکر کرتے ہوئے  بتاتے  ہیں کہ:

قدم بالأسارى حين قدم بهم وسودة بنت زمعة عند آل عفراء في مناحتهم على عوْف ومُعوذ ابني عفراء، قال: وذالك قبل أن يضرب عليهن الحجاب.(سنن ابی داؤد ، رقم ۲۶۸۰)
’’قیدیوں کو مدینہ لایا گیا تو سیدہ سودہ بنت زمعہ اس وقت آل عفراء کے ہاں تھیں جو عوف اور معوذ  پر نوحہ کر رہے تھے۔ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ یہ حجاب کے لازم کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔“

۳۔ غزوۂ احد کے واقعات بیان کرتے ہوئے واقدی نے نقل کیا ہے کہ:

وکانت عائشة زوج النبي ﷺ خرجت في نسوة تستروح الخبر ولم یضرب الحجاب یومئذ. (المغازی ۱/ ۵۶۲)
’’سیدہ عائشہ کچھ خواتین کے ساتھ اطلاعات حاصل کرنے  کے لیے نکلیں اور اس وقت تک حجاب لازم نہیں کیا گیا تھا۔“

۴۔ غزوۂ خندق کے حالات بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ :

أنها كانت في حصن بنى حارثة يوم الخندق فكانت أم سعد بن معاذ معها في الحصن وذالك قبل أن يضرب عليهن الحجاب.(بیہقی، السنن الکبریٰ ، رقم ۱۳۵۲۹)
’’وہ اس موقع پر بنو حارثہ کے قلعے میں تھیں اور سعد بن معاذ کی والدہ بھی ان کے ساتھ قلعے میں تھیں اور یہ ان پر حجاب کے لازم کیے جانے سے پہلے کی بات ہے۔ “

۵۔ بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران میں ابولبابہ بن عبد المنذر نے  بے احتیاطی سے بنو قریظہ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع ان کو دے دی تھی۔ اس پر انھوں نے خود کو مسجد نبوی میں ایک ستون کے ساتھ باندھ لیا اور کہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول نہیں کرتے، میں یہیں بندھا رہوں گا۔ پھر جب ان کی توبہ قبول کیے جانے کی وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو سیدہ ام سلمہ نے آپ سے اجازت چاہی کہ جا کر خود ابولبابہ کو خوش خبری دیں۔ بیان کرتی ہیں کہ:

فقمت على باب حجرتي فقلت، وذالك قبل أن یضرب علينا الحجاب: يا أبا لبابة أبشر فقد تاب اللّٰه عليك. (بیہقی، السنن الکبریٰ ۷ / ۱۴۹)
’’میں اپنے حجرے کے دروازےپر کھڑی ہوئی اور میں نے پکارا کہ اے ابو لبابہ، اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کر لی ہے۔ اور یہ ہم پر حجاب لازم کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔“

۶۔ واقعۂ افک سے متعلق روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صفوان بن معطل السلمی کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ :

فأتاني فعرفني حين رآني. وقد كان يراني قبل أن یضرب الحجاب علي. فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني. فخمرت وجهي بجلبابي. (مسلم، رقم ۲۷۷۲۰)
’’وہ آئے اور مجھے دیکھ کر پہچان لیا اور وہ مجھ پر حجاب لازم کیے جانے سے پہلے مجھے دیکھ لیا کرتا تھا۔ جب اس نے مجھے پہچان لیا تو اس کے ’إنا للّٰه وإنا إلیه راجعون‘ پڑھنے پر میں جاگ گئی اور میں نے اپنے چہرے کو اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔“

۷۔ عروہ بن زبیر، عیینہ بن حصن کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کا واقعہ یوں نقل کرتے ہیں:

دخل عيينة بن حصن على رسول اللّٰه ﷺ وعنده عائشة وذالك قبل أن يضرب الحجاب.(بلاذری، انساب الاشراف ۱ / ۴۱۴)
’’عیینہ بن حصن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت وہاں سیدہ عائشہ بھی موجود تھیں اور یہ حجاب کے لازم کیے جانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ “

۸۔ عبد اللہ بن حسن روایت کرتے ہیں کہ ضحاک بن سفیان کلابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت اسلام کے لیے آئے:

ثم قال له: إنّي عندي امرأتان أحسن من هذه الحميراء أفلا أنزل لك عن إحداهما وعائشة جالسة تسمع، قبل أن يضرب الحجاب، فقالت: أهي أحسن، أم أنت؟ (زبیر بن بکار، الفکاہۃ والمزاح  ۷۰)
’’ضحاک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے نکاح میں دو بیویاں ہیں جو اس گوری سے (سیدہ عائشہ کی طرف اشارہ کیا) زیادہ خوب صورت ہیں۔ میں ان میں سے ایک کو چھوڑ دیتا ہوں، آپ اس سے نکاح کر لیں۔ سیدہ عائشہ بھی پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور بات چیت سن رہی تھیں۔  سیدہ نے کہا: یہ بتاؤ کہ وہ زیادہ خوب صورت ہے یا تم؟ “

ضحاک خود بہت بدصورت تھے اور سیدہ  نے اسی پر طنز کیا تھا۔ سیدہ کا یہ سوال سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔

۹۔ ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں:

قدم أصيل الغفاري على رسول اللّٰه ﷺ من مكة قبل أن يضرب الحجاب على أزواج رسول اللّٰه ﷺ فقالت له عائشة: كيف تركت مكة؟ (ابن حجر، الاصابہ ۱ / ۲۴۴)
’’اصیل غفاری مکہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ اس وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب لازم نہیں کیا گیا تھا۔  عائشہ نے ان سے پوچھا کہ آپ مکہ کو کس حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں؟“

۱۰۔ قیس بن طغفۃ غفاری اپنے والد سے  ایک واقعہ نقل کرتے ہیں، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنے گھر لے گئے۔ کہتے ہیں:

فدخلنا على عائشة، وذالك قبل أن يضرب الحجاب، قال: أطعمينا يا عائشة. (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۶۵۸۵)
’’ہم سیدہ عائشہ کے حجرے میں داخل ہوئے اور یہ حجاب کے لازم ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ، ہمیں کچھ کھلاؤ۔“

مذکورہ تمام مثالوں میں راوی کی طرف سے اس وضاحت کا اہتمام کہ یہ واقعہ حجاب کے حکم سے پہلے کا ہے، اسی پہلو سے تھا کہ سننے والے چونکہ امہات المومنین کے لیے حجاب کی پابندی سے واقف تھے، اس لیے اجنبی مردوں کے ساتھ ان کے محو کلام ہونے یا گھر سے باہر کسی دوسرے مقام پر موجود ہونے ممکنہ طور پر جو غلط فہمی یا ذہن میں جو سوال پیدا ہو سکتا ہے، اس کا جواب دے دیا جائے۔  ہمارے استقرا کی حد تک اس اہتمام کی کوئی مثال ذخیرۂ حدیث میں کسی عام خاتون کے حوالے سے نہیں ملتی اور اس فرق سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ حجاب کا امہات المومنین کے لیے ایک امتیازی اور خصوصی حکم ہونا عہد صحابہ میں ایک معلوم ومعروف بات تھی۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B