HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

حج فرض یا حج نذر؟

حدیث سیل

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

 

رُوِيَ أَنَّ رَجُلًا نَذَرَ أَنْ یَّحُجَّ وَلَمْ یَکُنْ حَجَّ حَجَّةَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «حُجَّ حَجَّةَ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ حُجَّ لِنَذْرِكَ بَعْدُ».

وَرُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا یَقُوْلُ: لَبَّیْكَ عَنْ شُبْرُمَةَ، قَالَ: «مَنْ شُبْرُمَةُ»؟ قَالَ: أَخٌ لِيْ أَوْ قَرِیْبٌ لِيْ، قَالَ: «حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِكَ»؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: «حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ».

ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ ــــــ

روایت کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے حج ادا کرنے کی نذر مانی، جب کہ اس نے فرض حج ادا نہیں کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: پہلے فرض حج ادا کرو، پھر اپنی نذر کے لیے حج ادا کرو۱۔

اور روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے دوران میں) ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: شبرمہ کی جانب سے لبیک، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (اس سے) پوچھا: یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا بھائی یا (کہا کہ) میرا قریبی رشتہ دار۲، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (اس سے) پھر پوچھا: کیا تم نے اپنی جانب سے حج ادا کر لیا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی نہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: پہلے اپنی جانب سے حج ادا کرو، پھر شبرمہ کی جانب سے حج ادا کرو۔

حواشی کی توضیح

۱۔ تمام احکام عبادت، خواہ وہ پنج وقتہ نماز ہو، روزے ہوں، صدقہ ہو یا حج کی ادائیگی، انھیں تمام اقسام کی عبادات، خواہ وہ نفلی ہوں یا نذر کی، سب پر ترجیح حاصل ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج بالا روایت میں واضح فرما دیا ہے۔

۲۔ یہ بات بدیہی طور پر واضح ہے کہ کسی بھی نوعیت کی فرض عبادت کا حکم ایک شخص سے دوسرے شخص پر عائد نہیں ہو سکتا۔ روایت سے واضح ہے کہ وہ شخص اپنے بھائی کی نذر پوری کرنے کے لیے حج ادا کر رہا تھا، جب کہ اس کا بھائی اپنی نذر پوری کرنے سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا یا وہ ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ امام بیہقی کی روایت کردہ ایک روایت اس نکتے کی بہ خوبی وضاحت کرتی ہے۔ بیہقی، رقم۹۶۳۵ کے مطابق، وہ شخص اپنے بھائی کی نذر پوری کرنے کے لیے حج ادا کر رہا تھا جو اس نے مانی ہوئی تھی اور اس کے بھائی نے اس شخص کو اپنی جانب سے پوری کرنے کے لیے وصیت کی تھی۔ روایت درج ذیل ہے:

أن عبد اللّٰه بن عباس مر به رجل یهل یقول: لبیك بحجة عن شبرمة، فقال: ومن شبرمة؟ قال: أوصی أن یحج عنه، فقال: احججت أنت؟ قال: لا، قال: فابدأ أنت فاحجج عن نفسک ثم احجج عن شبرمة.
’’حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) ایک شخص کے پاس سے گزرے جوحج ادا کر رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا: شبرمہ کے حج کے لیے لبیک، حضرت ابن عباس نے اس سے پوچھا: یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے جواب دیا: شبرمہ نے مجھے اپنی جانب سے حج ادا کرنے کی وصیت کی تھی، حضرت ابن عباس نے پوچھا: کیا تم نے اپنا حج ادا کر لیا ہے؟ اس نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: پہلے اپنی جانب سے حج ادا کرو، پھر شبرمہ کی جانب سے ادا کرو۔‘‘

متون

پہلی روایت

 السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم۸۴۶۵ میں روایت کی گئی ہے۔

دوسری روایت

بعض اختلافات کے ساتھ دوسری روایت ابوداؤد، رقم۱۸۱۱؛ ابن ماجہ، رقم۲۹۰۳؛ بیہقی، رقم ۸۴۵۸-۸۴۶۷، ۹۶۳۵؛ ابن خزیمہ، رقم۳۰۳۹؛ ابویعلیٰ، رقم۲۲۴۰، ۴۶۱۱؛ دارقطنی، رقم۱۴۵- ۱۴۷ اور ابن ابی شیبہ، رقم۱۳۳۷۰ میں روایت کی گئی ہے۔

بیہقی، رقم  ۸۴۶۱ میں ’... سمع رجلًا یقول: لبیك عن شبرمة‘ (...ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: شبرمہ کی جانب سے لبیک) کے الفاظ کے بجاے ’راٰي رجل یلبي عن رجل‘ (دیکھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کی جانب سے لبیک کہہ رہا ہے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۹۰۳ میں ’أحججت أنت؟‘ (کیا تم نے اپنا حج ادا کر لیا ہے؟) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’هل حججت أنت‘ (کیا تم نے اپنا حج ادا کر لیا ہے؟) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن خزیمہ، رقم۳۰۳۹ میں ان کے مترادف الفاظ ’هل حججت؟‘(کیا تم نے حج ادا کر لیا ہے؟) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۵۸ میں یہ الفاظ ’أحججت قط؟‘(کیا تم نے کبھی حج ادا کیا ہے؟) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۵۹ میں ان کے مترادف الفاظ ’حججت قط؟‘(کیا تم نے کبھی حج ادا کیا ہے؟) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۱ میں یہ الفاظ ’لبیت عن نفسك؟‘(کیا تم نے اپنی جانب سے لبیک کہا ہے؟) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۹۰۳ میں ’فابدأ أنت فاحجج عن نفسك‘ (پہلے اپنی جانب سے حج ادا کرو) کے الفاظ کے بجاے ’فاجعل هذہ عن نفسك‘ (پھر یہ حج اپنی جانب سے ادا کرو) کے الفاظ ر وایت کیے گئے ہیں؛ ابن خزیمہ، رقم۳۰۳۹ میں ان کے مترادف الفاظ ’فاحعل هذہ عنك‘(پھر یہ حج اپنی جانب سے ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۵۸ میں یہ الفاظ ’حج عن نفسك‘(اپنی جانب سے حج ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں؛ ابویعلیٰ، رقم ۲۴۴۰ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’فاحجج عن نفسك‘(پھر اپنی جانب سے حج ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۳ میں یہ الفاظ ’فهذہ عنك‘(پھر یہ تمھاری طرف سے ہے) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۱ میں یہ الفاظ ’فلب عن نفسك‘(پھر اپنی طرف سے لبیک کہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۲ میں ان الفاظ کے متبادل الفاظ ’عن نفسك فلب‘(پھر اپنی طرف سے لبیک کہو) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم۴۶۱۱ میں ’ثم حج عن شبرمة‘(پھر شبرمہ کی جانب سے حج ادا کرو) کے الفاظ کے بجاے ان کے ہم معنی الفاظ ’ثم احجج عن شبرمة‘(پھر شبرمہ کی جانب سے حج ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۱ میں یہ الفاظ ’ثم لب عن فلان‘(پھر فلاں شخص کی طرف سے لبیک کہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۸۴۶۳ میں یہ الفاظ ’وحج عن شبرمة‘(اور شبرمہ کی جانب سے حج ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں۔

بیہقی، رقم۸۴۶۰ میں یہ واقعہ درج ذیل پیرائے میں روایت کیا گیا ہے:

روي أنه سمع النبي صلی اللّٰه علیه وسلم رجلًا یقول: لبیك عن فلان. فقال له النبي صلی اللّٰه علیه وسلم: «إن کنت حججت فلب عنه وإلا فاحجج عن نفسك، ثم احجج عنه».
’’روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (حج کے دوران میں) ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: فلاں کی جانب سے لبیک، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ارشاد فرمایا: اگر تم نے اپناحج ادا کر لیا ہے تو اس کی جانب سے لبیک کہو، ورنہ پہلے اپنا حج ادا کرو، پھر اس کی جانب سے حج ادا کرو۔‘‘

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۸۴۶۶ میں یہ روایت مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

روي أنه سمع النبي صلی اللّٰه علیه وسلم رجلًا یلبي عن نبیشة، فقال: «أیها الملبي عن نبیشة، هذہ عن نبیشة واحجج عن نفسك».
’’روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نبیشہ کی جانب سے لبیک کہتے ہوئے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اے نبیشہ کی جانب سے لبیک کہنے والے، یہ حج نبیشہ کی جانب سے ہے، اپنی جانب سے بھی حج ادا کرو۔‘‘

یہ روایت دارقطنی، رقم۱۴۵- ۱۴۷ میں بھی روایت کی گئی ہے۔ تاہم یہ سب روایات بہ شمول اوپر مذکورہ بیہقی، رقم۸۴۶۶ الحسن بن عمارہ کے ذریعے سے روایت کی گئی ہیں۔ ان روایات کو درج کرنے کے بعد امام دارقطنی نے درج ذیل الفاظ کا اضافہ کیا ہے:

تفرد به الحسن بن عمارة وهو متروك الحدیث، والمحفوظ عن بن عباس حدیث شبرمة.
’’یہ روایت صرف الحسن بن عمارہ کی سند سے روایت کی گئی ہے،جو کہ متروک الحدیث ہے۔ اس سے متعلق جو محفوظ شبرمہ کی حدیث ہے، وہ حضرت ابن عباس کے واسطے سے ہے۔‘‘

چونکہ اس روایت کے متعلق امام دارقطنی کی راے منفی ہے، اس لیے احتیاط کے پیش نظر اس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B