بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰي رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ ٥١ قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۣ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاﴱ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ٥٢ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ ٥٣
اور (اِسی طرح ایک دن) صور پھونکا جائے گا[34] تو یکایک قبروں سے نکل نکل کر یہ اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔ (اُس وقت) کہیں گے: ہاے ہماری بدبختی! یہ ہم کو ہماری قبر سے کس نے اٹھادیا ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کا خداے رحمٰن نے (تم سے) وعدہ کیا تھا اور (دیکھ لو کہ) پیغمبروں نے بالکل سچی بات کہی تھی۔[35] وہ بھی ایک ڈانٹ ہی ہو گی اور یکایک یہ سب کے سب ہمارے حضور میں حاضر کر دیے جائیں گے۔[36] ۵۱- ۵۳
فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٥٤ اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَ ٥٥ﶔ هُمْ وَاَزْوَاجُهُمْ فِيْ ظِلٰلٍ عَلَي الْاَرَآئِكِ مُتَّكِـُٔوْنَ ٥٦ﶔ لَهُمْ فِيْهَا فَاكِهَةٌ وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ ٥٧ﶔ سَلٰمٌﵴ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ ٥٨
سو آج کے دن[37] کسی شخص پر کوئی ظلم نہ ہو گا اور تم کو وہی بدلے میں ملے گا جو کرتے رہے ہو۔ بے شک، جنت کے لوگ آج اپنی دل چسپیوں[38] میں مگن ہوں گے۔ وہ اور اُن کی بیویاں سایوں میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔[39] اُن کے لیے وہاں میوے ہوں گے اور جو مانگیں گے، اُن کے لیے حاضر ہو گا۔ اُنھیں سلام کہلایا جائے گا،اُس پروردگار کی طرف سے جس کی شفقت ابدی ہے۔[40] ۵۴- ۵۸
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ٥٩ اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْ٘ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَﵐ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٦٠ﶫ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِيْﵫ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ ٦١ وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًاﵧ اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ٦٢ هٰذِهٖ جَهَنَّمُ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ٦٣ اِصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ٦٤
اور تم، اے مجرمو، آج (میرے اِن بندوں سے) چھٹ کر الگ ہو جاؤ۔ (اب تمھاری دنیا الگ اور اِن کی دنیا الگ ہے)۔آدم کے بیٹو، کیا میں نے تمھیں پابند نہیں کر دیا تھا[41] کہ شیطان کی بندگی نہ کرنا، اِس لیے کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے اور یہ بھی کہ میری ہی بندگی کرنا؟ یہی سیدھا راستہ ہے۔ اِس کے باوجوداُس نے تم میں سے ایک گروہ کثیر کو گم راہ کر دیا ہے۔ پھر کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟ یہ وہی جہنم ہے جس سے تم کو ڈرایا جا تا تھا۔ اب اِس میں داخل ہو جاؤ، اپنے کفر کی پاداش میں۔۵۹- ۶۴
اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰ٘ي اَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا٘ اَيْدِيْهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ٦٥
آج ہم اِن کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے[42] اور اِن کے ہاتھ ہمیں بتائیں گے اور اِن کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ یہ کرتے رہے ہیں۔۶۵
وَلَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰ٘ي اَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰي يُبْصِرُوْنَ ٦٦ وَلَوْ نَشَآءُ لَمَسَخْنٰهُمْ عَلٰي مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِيًّا وَّلَا يَرْجِعُوْنَ ٦٧ وَمَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِﵧ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ ٦٨
اگر ہم چاہتے[43] تو اِن کی آنکھیں مٹا دیتے، پھر یہ راستے کی طرف بڑھتے تو کہاں سے دیکھتے؟ اور اگر ہم چاہتے تو اِن کی جگہ ہی پر اِن کو مسخ کر دیتے، پھر نہ آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے لوٹ سکتے۔[44] (کیا دیکھتے نہیں کہ) جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، اُس کی خلقت میں درجہ بدرجہ اُس کو پیچھے لوٹا دیتے ہیں۔[45] پھر کیا سمجھتے نہیں ہیں؟ ۶۶- ۶۸
وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۣبَغِيْ لَهٗﵧ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ ٦٩ﶫ لِّيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ٧٠
(تم اِسے شاعری کہتے ہو) ؟[46] ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری نہیں سکھائی اور یہ اُس کے شایان شان بھی نہیں ہے۔[47] یہ تو صرف ایک یاددہانی [48] اور ایک واضح قرآن[49] ہے تاکہ (اِس کے ذریعے سے) وہ اُنھیں خبردار کر دے جو زندہ ہوں[50] اور منکروں پر خدا کی حجت تمام ہو جائے۔ ۶۹- ۷۰
اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَا٘ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ٧١ وَذَلَّلْنٰهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوْبُهُمْ وَمِنْهَا يَاْكُلُوْنَ٧٢ وَلَهُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُﵧ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ٧٣
کیا اِنھوں نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی[51] چیزوں میں سے اِن کے لیے چوپایے پیدا کیے ہیں اور اب یہ اُن کے مالک ہیں؟[52] اور ہم نے اُن کو اِس طرح اِن کا تابع بنا دیا ہے کہ اُن میں سے بعض اِن کی سواریاں ہیں اور اُن میں سے بعض کا گوشت کھاتے ہیں، اور اِن کے لیے اُن کے اندر دوسری منفعتیں بھی ہیں اور (خاص کر) پینے کی چیزیں بھی۔[53] پھر کیا یہ شکر نہیں کرتے؟[54] ۷۱- ۷۳
وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لَّعَلَّهُمْ يُنْصَرُوْنَ٧٤ﶠ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ٧٥ فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ اِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ٧٦
اِنھوں نے اِس توقع پر اللہ کے سوا دوسرے معبود بنائے کہ اِن کی مدد کی جائے گی۔ وہ اِن کی مدد نہیں کر سکیں گے، بلکہ یہ اُن کی فوج ہو کر حاضر کیے جائیں گے۔[55] سو اِن کی بات تمھیں آزردہ نہ کرے، (اے پیغمبر)۔ ہم جانتے ہیں جو کچھ یہ چھپاتے اورجو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔[56] ۷۴- ۷۶
اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ ٧٧ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗﵧ قَالَ مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيْمٌ ٧٨ قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْ٘ اَنْشَاَهَا٘ اَوَّلَ مَرَّةٍﵧ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيْمُ ٧٩ﶫ اِۨلَّذِيْ جَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِذَا٘ اَنْتُمْ مِّنْهُ تُوْقِدُوْنَ ٨٠ اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰ٘ي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْﵫ بَلٰيﵯ وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ ٨١ اِنَّمَا٘ اَمْرُهٗ٘ اِذَا٘ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ٨٢ فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٨٣
(اِنھیں تعجب ہے کہ مرنے کے بعد یہ کس طرح اٹھائے جائیں گے)؟کیا انسان[57] کو معلوم نہیں کہ ہم نے اُس کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا، پھر وہ کھلا ہوا حریف بن کر اٹھ کھڑا ہوا؟ اُس نے ہم پر پھبتی چست کی[58] اور اپنی پیدایش کو بھول گیا۔کہتا ہے کہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے، جب کہ وہ بوسیدہ ہو جائیں گی؟ کہہ دو، اُن کو وہی زندہ کرے گا جس نے اُنھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور اپنی ہر مخلوق کو وہ خوب جانتا ہے۔[59] وہی جس نے تمھارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی،[60] پھر اب اُسی سے سلگاتے ہو۔ کیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا، وہ اِس پر قادر نہیں کہ اِن لوگوں جیسی مخلوق پیدا کر دے؟ کیوں نہیں، وہی خلاق ہے، ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اُس کا تو یہ معاملہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔[61] سو پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے[62] اور تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ۷۷- ۸۳
[34]۔ اِس کی حقیقت کو جاننا تو کسی کے لیے ممکن نہیں ہے، اِس لیے کہ اِس کا تعلق امور متشابہات سے ہے۔ تاہم جو لفظ اِس کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اِس کا کچھ تصور اُس سے قائم ہو جاتا ہے۔ پرانے زمانوں میں شاہی جلوس یا اعلان جنگ کے موقع پر نرسنگھا پھونکا جاتا تھا۔ عربی زبان میں اُسی کو ’صُوْر‘کہتے ہیں۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی کوئی چیز پہلے قیامت برپا کرنے اور پھر مردوں کو قبروں سے اٹھانے کے لیے پھونکی جائے گی۔
[35]۔ اُن کی تفضیح و تذلیل کے لیے یہ بات غالباً فرشتوں کی زبان سے کہی جائے گی۔
[36]۔ یعنی اُسی طرح حاضر کر دیے جائیں گے، جیسے مجرم حاضر کیے جاتے ہیں۔
[37]۔ یہ تصویر حال کا اسلوب ہے۔ گویا وہ دن سامنے ہے اور مخاطبین کو اُس کے احوال سنائے جا رہے ہیں۔
[38]۔ اصل میں لفظ ’شُغُل‘آیا ہے۔ اِس کی تنکیر یہاں تفخیم شان کے لیے ہے۔
[39]۔ یعنی اُسی طرح، جیسے بادشاہ بیٹھتے ہیں۔
[40]۔ آیت میں مبتدا محذوف ہے، جس سے مخاطب کی ساری توجہ خبر پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہ اُس سب سے بڑی سرفرازی کا ذکر ہے جس کا ایک بندۂ مومن اپنے لیے تصور کر سکتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، کون اندازہ کر سکتا ہے اہل جنت کی اِس سرفرازی کا کہ اُن کو رب رحیم و کریم کی طرف سے سلام و پیغام موصول ہوں گے:
بریں مژدہ گر جاں فشانم روا ست
[41]۔ آیت میں ’عَهْد‘کے ساتھ ’اِلٰي‘ ہے جس سے پابند کرنے یا ذمہ دار بنانے کے معنی اُس میں پیدا ہو گئے ہیں۔
[42]۔ اِس لیے کہ زبانیں جھوٹ بھی بول سکتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اسلوب کلام غائب کا ہو گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بے بسی کی تصویر کے لیے یہی اسلوب زیادہ موزوں ہے۔
[43]۔ اصل الفاظ ہیں:’لَوْ نَشَآءُ‘۔ اِس میں مضارع سے پہلے فعل ناقص محذوف ہے، یعنی ’وَلَوْ كُنَّا نَشَآءُ‘۔
[44]۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جرائم کے لحاظ سے تویہ اِسی کے مستحق تھے، لیکن ہماری عنایت ہے کہ اِس کے باوجود ہم نے اِنھیں مہلت دے رکھی ہے۔
[45]۔ یعنی پھر اُسی ضعف و ناتوانی کی حالت کی طرف لوٹا دیتے ہیں جس سے اُس نے زندگی کی ابتدا کی تھی۔ اوپر جو دھمکی دی گئی ہے، یہ اُس کی دلیل ہے جو قرآن نے ہمارے روزوشب کے مشاہدات سے پیش فرمائی ہے کہ جو خدا یہ کرتا ہے، اُس کے لیے تمھاری آنکھیں مٹا دینا یا تم کو مسخ کر دینا کیا مشکل ہے۔
[46]۔ قرآن کے مخالفین جب دیکھتے کہ لوگ اُس کی دعوت اور اُس کی معجزانہ فصاحت و بلاغت سے متاثر ہو رہے ہیں تو اُس کے مدعا سے توجہ ہٹانے کے لیے اُن سے کہتے تھے کہ اِسے خدائی کلام یا وحی و الہام سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ محض شاعرانہ جادوبیانی ہے جس سے یہ شخص تمھارے دل و دماغ کو مسخر کرکے تمھیں یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ خدا کا رسول ہے۔ آگے اِسی کا جواب دیا ہے۔
[47]۔ اِس لیے کہ شاعر گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے غازی نہیں ہوتے؛اُن کا کلام ایک مجموعۂ تضادات ہوتا ہے اور اُن کے پیرو، بالعموم وہی لوگ ہوتے ہیں جو علم و عقل کے بجاے اپنی باگ جذبات و خواہشات کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ بالبداہت واضح ہے کہ اِن میں سے کوئی بات بھی پیغمبر کے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن کی اتھاہ سنجیدہ فضا، اُس میں حقائق غیب کا بے مثال انکشاف، اُس میں اصول و فروع کا نادر اتحاد اور لفظ و معنی کا بے نظیر ارتباط، اُس میں خدا ئی قانون اور خدائی حکمت کا بیان، یہ سب اِس سے بہت برتر ہے کہ آدمی اُس میں محض لفظوں کا آہنگ، اور موسیقی اور قوافی و فواصل کا اہتمام دیکھے اور اُسے شاعری کہہ کر فارغ ہو جائے۔ قرآن سے پہلے زبور بھی اِسی اسلوب کلام کا بے مثال شہ پارہ تھا۔ وہ اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہی، مگر جو کچھ باقی ہے، اُسے ہی دیکھ لیجیے، وہ بھی صاف بتا رہا ہے کہ ایں کتاب از آسمانے دیگر است۔
[48]۔ یہ کس لحاظ سے یاددہانی ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’... یہ اُن تمام حقائق کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے اندر ودیعت فرمائے ہیں، اُس پوری تاریخ ہدایت کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پھیلی ہوئی ہے اور اُن تمام نتائج و عواقب کی بھی یاددہانی کرتا ہے جو دنیا اور آخرت، دونوں میں لازماً پیش آکے رہیں گے، اگر اللہ کے رسول کی تکذیب کی گئی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۴۱)
[49]۔ یعنی بغیر کسی ابہام کے قطعی اور دو ٹوک طریقے پر حقائق کو واضح کر دینے والا۔
[50]۔ یعنی دل کے زندہ ہوں۔ یہ عقلی اور روحانی زندگی کی تعبیر ہے۔ قرآن نے جگہ جگہ واضح کیا ہے کہ خدا مردوں کے لیے ہدایت کا اہتمام نہیں کرتا۔ اُس کی ہدایت صرف اُنھی کے لیے ہے جو اپنے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہی سنت الہٰی ہے۔
[51]۔ یعنی اپنی خاص قدرت و حکمت سے بنائی ہوئی جس میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل نہیں ہے۔ یہاں سے آگے وہی مضمون ایک نئے اسلوب میں دوبارہ سامنے آگیا ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی تھی۔
[52]۔ یعنی اُن پر ہر طرح کے تصرف کا حق رکھتے ہیں جو خدا ہی نے اِنھیں دیا ہے۔
[53]۔ جیسے دودھ اور اُس سے بنی ہوئی مختلف چیزیں۔
[54]۔ مطلب یہ ہے کہ اِن نعمتوں کا حق تو یہ تھاکہ یہ خدا ہی کے شکر گزار ہوتے اور تنہا اُسی کی عبادت کرتے، مگر اِنھیں جب اِس حقیقت کی یاددہانی کی جاتی ہے تو اِس کو شاعری قرار دے کر اِس سے گریز و فرار کی راہیں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔
[55]۔ یعنی خدا کے بجاے اُنھی معبودوں کے لشکر کی حیثیت سے خدا کے حضور میں حاضر ہوں گے اور وہاں فیصلہ ہو گا کہ یہ کس سزا کے مستحق ہیں۔
[56]۔ لہٰذا اِن سے نمٹ بھی لیں گے۔
[57]۔ ’انسان‘ سے مراد قریش ہی ہیں، جو اِس سورہ کے مخاطب ہیں، لیکن بے التفاتی کے اظہار کے لیے لفظ عام استعمال فرمایا ہے۔
[58]۔ اصل میں ’ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا‘کے الفاظ آئے ہیں۔ موقع ہو تو یہ اُس مفہوم کے لیے بھی آتے ہیں جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔
[59]۔ یعنی مرنے کے بعد مٹی میں رل مل جائیں تو اُن سے بے خبر نہیں ہو جاتا۔ وہ اُن کے وجود کے ایک ایک ذرے سے واقف ہے۔
[60]۔ یہ اُن درختوں کی طرف اشارہ ہے جن کی شاخوں سے صحراؤں کے مسافر چقماق کا کام لیتے تھے۔ سورہ کے مخاطبین اُن سے اچھی طرح واقف تھے۔چنانچہ قرآن نے اِسے ضد سے ضد کے نمودار ہونے کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ تمھاری بوسیدہ ہڈیوں کی مٹی سے تم بھی اِسی طرح نمودار ہو جاؤ گے۔
[61]۔ یعنی اُس طریقے سے ہو جاتی ہے جو اُس کے لیے مقررکر دیا جاتا ہے، کبھی چشم زدن میں اور کبھی ہزاروں سال میں۔
[62]۔ لہٰذا تم بھی ہر نقص و عیب سے اُس کو پاک قرار دو اور اِس حقیقت کو تسلیم کرو کہ کائنات کی تخلیق اور اُس کی تدبیر امور میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
کوالالمپور
۹ / مئی ۲۰۱۴ء
ـــــــــــــــــــــــــ