یہ سوال اس وجہ سے اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں دین داری کے مختلف بیانیے اور اس کے طرح طرح کے عملی منہج نظر آتے ہیں۔ ایک سوچنے سمجھنے والا ذہن اس سوال کا سامنا کرتا ہے کہ ان میں سے کون سا بیانیہ اور کون سا منہج قرآن وسنت کے مطابق ہے؟
کوئی کہتا ہے کہ اصل دین داری انسانیت (humanity) ہے۔ ذکر اذکار اور تسبیح و مناجات کی سرگرمیاں تو انفرادی مفاد کے لیے ہیں۔جنت کا حصول تو اپنی غرض کی تکمیل ہے ۔اصل فضیلت انسانیت کی فلاح و بہبود میں کوئی کردار ادا کرنا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
کوئی کہتا ہےکہ اصل دین داری یہ ہے کہ آدمی لذات سے کنارہ کش ہو ، دنیا اس کا مقصود ومطلوب نہ ہو۔ اس کی زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔ اس کے دل میں خدا بسا ہوا ہو۔ وہ نہ اچھا پہنے ، نہ اچھا کھائے اور نہ بیوی بچوں میں دل لگائے۔بس دنیا سے اتنا ہی لے جو اس حیات دنیوی کے لیے ناگزیر ہے ۔ کمال یہ ہے کہ وہ اس نعرۂ مستانہ کی تصویر ہو:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا، اب تو خلوت ہو گئی
کوئی کہتا ہے کہ دین داری اللہ کے دین کو تمام انسانوں تک پہنچانے، ان کو دین پر عمل کرنے والا بنانے اور ان کی آخرت کو سنوارنے کی سعی وجہد کانام ہے۔ اس مقصدکے لیےسرگرم رہنا ،لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف لانے کی سعی میں تکلیفیں اٹھانااور اسے زندگی کے دوسرے تقاضوں پر ترجیح دینا ہی آئیڈیل اسلامی زندگی ہے:
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
کوئی کہتا ہے کہ اللہ سے محبت اصل دین داری ہے۔ساری سرگرمیوں کا ہدف وصال الٰہی، قرب الٰہی ، عالم لاہوت تک رسائی، امور تکوینی کی خبر اور اللہ کے ہاں یقیناً مستجاب الدعوات ہونے کا مقام حاصل ہو جائے۔ من وتو کی تفریق بے معنی ہو جائے۔نعرۂ انا الحق کہنے کا حال حاصل ہو جائےیا یہ مقام جذب:
کیہ جاناں میں کون ؟
کوئی کہتا ہے کہ دین داری اعلاے کلمۃ اللہ کے مشن میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اللہ کا دین اس دنیا میں غالب ہو اور یہ غلبہ صرف نظریاتی نہیں ہے، بلکہ ایک نظام کا غلبہ ہے، جس کے تحت انسان کی انفرادی، سماجی اور اجتماعی زندگی آتی ہے۔اس کے لیے تربیت ، اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کے مدمقابل صبر و استقامت اور اس کے دشمنوں کے خلاف مزاحمت ہی ایک مسلمان سے مطلوب زندگی ہے:
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
کوئی کہتا ہے کہ اللہ کا دین اللہ کی اتاری ہوئی ہدایت ہے۔ اس میں صحیح عقائد اور درست اعمال بتا دیے گئے ہیں۔ اس میں عقائد میں درآنے والی گم راہیاں بھی واضح کر دی گئی ہیں اور اس میں اعمال میں ہونے والی غلطیاں بھی بیان ہو گئی ہیں، گویا جائز بھی واضح ہے اور ناجائز بھی واضح۔ جائز پر عمل نیکی ہے اور اس کی جزا جنت ہے۔ناجائز پر عمل گناہ ہے اور اس کی سزاجہنم ہے۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی گناہوں سے بچے اور نیکیوں پر کاربند ہو۔بس بندۂ مومن وہ ہے جو اللہ کے احکام کا پابند ہو ۔ اس میں فرائض کی ادائیگی لازم ہے اور نوافل و مستحبات کا اہتمام فضیلت ۔ محرمات سے بچنا واجب ہے اور مکروہات سے بچنا درجۂ بلند :
عمل سے زندگی بنتی ہے ،جنت بھی جہنم بھی
یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ بیانیے کم ہی خالص حالت میں پائے جاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ قرآن و سنت کی تعلیمات کا تنوع کسی ایک بیانیے میں سماتا ہےاور نہ ہی کوئی بیانیہ نفس انسانی کے تمام مطالبات کی تسکین کا سامان رکھتا ہے۔لہٰذا کسی فرد یا افراد کے ہاں ان میں سے کسی ایک بیانیے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ دوسرے بیانیوں سے کچھ پھول شامل کرکے اپنے لیے فکر وعمل کا ایک ’دلکش‘ گلدستہ تیار کر لیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان میں سے صحیح کیا ہے یا قرآن وسنت سے ان میں سے کس بیانیے کی تائید ہوتی ہے؟
قرآن وسنت کےمطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ دنیا امتحان کے لیے ہے اور ہم علم و عمل کے اعتبار سے آزمائے جا رہے ہیں۔ کون ہے جو حق کو قبول کرتا اور کون اس کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ شب و روز ایسے حالات و واقعات پیش آتے ہیں جن میں ہم حق اور اس کے مطابق عمل کے امتحان سے گزرتے ہیں۔ جس دین کو ہم نے مانا ہوا ہے، اس میں عقائد و اعمال سے متعلق تعلیمات ہیں۔ پہلا تقاضا تو یہ ہے کہ ہمیں ان حالات و واقعات سے گزرتے ہوئے ان پر قائم رہنا ہے۔ نہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے فکر وعمل میں کوئی کوتاہی ہونی چاہیے اور نہ انسانوں سے معاملات کرتے ہوئے دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا ارتکاب ہونا چاہیے۔ دین کے احکام کی بجا آوری اور اسلام کے شعائر سے تعلق میں اس ذوق وشوق کو پانے کی سعی کرنی چاہیے جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں نظر آتا ہے۔ بندگی کا طریق قرآن وسنت کی تعلیمات پر مبنی ہو اور بندگی کا شوق اسوۂ رسول سے مستنیر ہو تو وہ دین داری حاصل ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو عطا ہوئی۔
لیکن کہانی اس طرح بسیط نہیں ہے۔ زندگی کے شب و روز حیات دنیوی کے کئی رنگوں سے مزین ہیں۔ علم و تحقیق کے بہت سے میدان ہیں۔ محققین پیدا ہوتے اور نئے نظریات اور نئی ایجادات سے وجود ہستی کو آراستہ کرتے رہتے ہیں۔ رنگا رنگ پیشے ہیں جن میں مہارت حاصل کرنے اور پھر کامیابیوں کے حصول کے لیے لوگ جتے رہتے ہیں۔ سماجی خدمات کے بہت سے کام ہیں جنھیں لوگ اپنی زندگی کا مشن بنا کر انجام دیتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی ذمہ داریاں ہیں جن کے لیے متعدد محکمے کام کرتے ہیں، ہزاروں افراد اس کا حصہ بنتے ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں اور سیاسی اہداف ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو انھی کو اپنی زندگی بنا لیتے ہیں۔ دین کی تعلیم ، تربیت اور دفاع کی سرگرمیاں ہیں جو بہت سے لوگوں کے لیے اصل کام کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ہمارا دین چونکہ دنیا پر ایک زمانے تک غالب رہا ہےاور اب ہم مغلوبیت کے دور سے گزر رہے ہیں، اس لیے اس عظمت رفتہ کی بازیافت کی تمنا مختلف تحریکوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور آیندہ بھی اپنا وجود دکھاتی رہے گی۔ ہمیں الہامی صحائف سے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں ایسی مخلوقات بھی ہیں جو ہمارے حواس کی گرفت سے باہر ہیں۔ خدا کا عرش ہے ۔ ایک نظام تکوین ہے۔ غرض یہ کہ اس عالم مادی سے بالا ایک غیر مادی عالم ہے۔ چنانچہ اس تک رسائی اور اس سے تعلق کی تمنا نے تصورات و اعمال کے کئی نظام وجود پذیر کر دیےہیں، جن کے مطابق ہر معاشرے میں لوگ زندگی بسر کرتے ہیں اور بڑی بڑی کامیابیوں کو حاصل کرنےکے مدعی ہیں۔ کچھ شخصیتیں صوم و صلوٰۃ، حمد و تسبیح اور تفویض و تسلیم کے کیف و سرور اور رنگ و حال میں جینے ہی میں اپنے وجود کا مصرف دیکھتی ہیں اور انھی میں زندگی بتا دیتی ہیں۔یہ اور اس طرح کے اور دائرے بھی ہیں جو عمل اور ردعمل کی دنیا آباد کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح قدرت کی طرف سے ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جو تہذیب کے سفر کا رخ موڑ دیں اور انسانوں کی طرف سے ایسے اقدامات ہوتے رہتے ہیں جو چلتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے کا سبب بن جائیں۔
مسلمان کی زندگی بھی انھی سے عبارت ہے۔ انھی کے سبب سےاس کی زندگی کے احوال وظروف پیدا ہوتے، امکانات و اہداف سامنے آتے اور تمنائیں اور جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ انھی میں وہ حیات دنیوی کو گزارنے کا نقشہ بناتا اور اپنے لیے منزلیں طے کرتا ہے۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دین سے یہاں بھی رہنمائی اخذ کرتا ہے اور اپنے دین کو اس کی تائید میں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بہت سے حوالوں سے قرآن و حدیث میں کچھ تعلیمات موجود ہیں اور ان کے مطابق عمل ہونا بھی چاہیے، لیکن ہمارے نزدیک دین داری یہ ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں کرتے ہوئے ایک مسلمان دین کے عقائد، اوامر و نواہی اور آخرت کی فلاح کی منزل کو اپنے قول و فعل میں ترجیح اول بنائے رکھے۔ اس کے جذبات، اس کی ضرورتیں، اس کی خواہشیں اور زندگی کے گزران کا جبر اسےدین سے سرمو کے برابر بھی منحرف نہ ہو۔ ہم مسلمانوں کی علمی تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ اوپر مذکور احوال و ظروف میں مسلمان صحیح دین پر بھی رہے ہیں اور انھوں نے نیا دین بنانے کا گناہ بھی کر ڈالا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ