HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر حکیم الطاف احمد اعظمی

مدرسۂ فراہی کا ایک عبقری دانش ور

۱۳/ اگست ۲۰۲۳ء بروز اتوار کو پروفیسر الطاف احمد اعظمی بھی اللہ کوپیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ڈاکٹرالطاف احمداعظمی کی وفات پر فیس بک پرایک پوسٹ راقم نے لکھ دی تھی،لیکن احباب کا تقاضاہوا کہ ایک مکمل مضمون ان پر لکھاجائے۔

 اے روشنیِ طبع توبرمن بلاشدی

 یادش بخیر الطاف احمد اعظمی صاحب کا نام پہلی باراُس وقت سناجب راقم جامعۃ الفلاح میں فضیلت دوم کا طالب علم تھا۔مدرسۃ الاصلاح میں علامہ فراہی پر ۱۹۹۱ء میں ایک کل ہندسیمینارہواتھا، جس میں راقم اپنی ناسازی طبع کی بناپر شریک نہیں ہوپایاتھا،البتہ سیمینار میں شریک علما و دانش وروں میں سے دو نام طلبہ کے مابین بحث وگفتگوکا موضوع بنے: ان میں ایک مولاناسلطان احمداصلاحی تھے اوردوسرے الطاف احمداعظمی۔صدحیف کہ اب دونوں ہی رحلت کرگئے ہیں۔

مؤخرالذکرکے خیالات پر استادمحترم مولاناعنایت اللہ سبحانی نے کلاس میں یہ ریمارک کیاکہ ’’علامہ فراہی کی طرف انھوں نے بعض وہ خیالات منسوب کردیے ہیں جوان کی عبارتوں سے نہیں نکلتے‘‘۔اس کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۹۹ء میں ’’اصلاح‘‘ ہی پرمولاناامین احسن اصلاحی پر سیمینار ہوا، جس میں راقم بطور مقالہ نگارکے شریک ہوا،اسی سیمینارمیں شرکت کے لیے پاکستان سے مولانااصلاحی کے تلمیذرشیدجناب خالدمسعودصاحب کا ورود مسعود ہوا تھا اور راقم کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔اس سیمینارمیں دونوں بزرگوں مولاناسبحانی اور الطاف احمداعظمی کے مابین تلخ علمی نوک جھونک کا مشاہدہ ہوا۔ بہرحال اس کے بعدراقم مزیدتعلیم اور غم روزگار میں ایساالجھارہاکہ دہلی میں رہتے ہوئے بھی الطاف اعظمی صاحب سے ملاقات کا خیال بہت دنوں تک نہیں آیا، جومدت سے دہلی میں ہی رہتے تھے۔دہلی میں جامعہ اسلامیہ سنابل (جہاں سے راقم نے عا لمیت کی ہے) نے علما کی ایک کل ہندورکشاپ جامعہ محمدسعودالاسلامیہ سعودی عرب کے تعاون سے منعقدکی تواس کی افتتاحی تقریب میں دوسرے اہم علما کے ساتھ ڈاکٹرالطاف احمد اعظمی نے بھی خطاب کیاتھاکہ اس وقت وہ جامعہ کے بانی مولانا عبد الحمید رحمانی مرحوم کے قریب تھے۔اب خطاب کے مندرجات تو یاد نہیں، البتہ عقیدہ کے تحت انھوں نے تمام علما کے سامنے تصوف کے نظریاتی پہلوؤں پر شدیدتنقیدکی تھی۔کچھ عرصہ بعداسی جامعہ کے آرگن ’’التوعیہ ‘‘ میں ڈاکٹراعظمی کے کئی تفسیری مقالات شائع ہوئے اوربعض مقالات پرسلفی علما کے استدراک بھی آئے توان سے دیدوشنیدکی تقریب پیداہوئی۔

حکیم الطاف احمد اعظمی شمالی ہندکے مشہورضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤن بھاٹن پارہ میں  ۲؍جولائی ۱۹۴۲ء کو پیدا ہوئے۔قریب کے گاؤں سکرورمیں درجۂ سوم تک پڑھنے کے بعدمزید تعلیم کے لیے ۱۹۵۵ء میں مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں داخل کیے گئے، جہاں انھوں نے ۱۹۶۲ءتک پڑھا۔[1]؎

 پرائمری،ثانوی اور تین سال عربی، یعنی سات سال مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدعربی سوم کے بعد مدرسی تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ کر وہ عصری تعلیم کی طرف چلے گئے۔یہ تونہیں معلوم ہوسکاکہ کس وجہ سے دینی روایتی تعلیم ادھوری چھوڑی، لیکن بعدمیں ان کی یہ راے سامنے آئی کہ’’ مدارس کا نصاب جس میں مدرسۃ الاصلاح بھی شامل ہے غیرقرآنی ہے ‘‘۔ بہرحال پرائیویٹ امتحانات دے کرلکھنؤ کے اسٹیٹ تکمیل الطب کالج میں ایک سال پڑھا۔ وہاں کے روایتی طرز تعلیم سے اکتاکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا، جہاں سے ۱۹۶۹ء میں بی یوایم ایس کیا۔ علی گڑھ میں انھوں نے بہت متحرک زندگی گزاری،اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں حصہ لیا، یہاں تک کہ اسٹوڈینٹس یونین کے صدربھی رہے۔

واضح رہے کہ علی گڑھ کی اسٹوڈنٹس سیاست مسلمانان ہندکی زندگی میں بڑااہم رول اداکرتی رہی ہے۔ ماضی میں یہیں کی سیاست سے نکل کربہت سے مسلمان لیڈروجودمیں آئے۔ آج بھی ہندکی مسلم سیاسی وملی لیڈرشپ میں ان کا بڑاحصہ ہے۔تاہم علی گڑھ میں جس جذباتیت کا دوردورہ تھااورآج بھی ہے،نوجوان الطاف احمد جو سرسیدکی تحریریں پڑھنے کی وجہ سے ایک خالص عقلی اورریشنل مائنڈسیٹ کے آدمی بن گئے تھے وہ اس جذباتی ملی سیاست میں کھپ نہ سکتے تھے۔وہ بہت جلدی یہاں کی سیاست سے توبہ کرکے واپس وطن آگئے۔ اور وطن کے قریب جونپور میں مطب کرنے لگے۔یہاں ۱۹۸۴ء تک مطب کرتے رہے۔واضح رہے کہ یہ وہی جونپور ہے جس کوشرقی سلاطین کے زمانہ میں شیرازہند کہا جاتا تھا۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں بتایاکہ جونپورمیں مطب کے زمانہ میں وہ موجودہ فکراسلامی سے سخت بے زار ہوگئے تھے۔ علماکی تحریریں عقلی طورپران کومطمئن نہیں کرتی تھیں۔ کچھ دنوں الحادبھی ان پر طاری رہااورروزہ نمازبھی چھوٹ گیا۔پھرانھوں نے طے کیاکہ خودسے دین کوسمجھنے کی کوشش کریں گے۔بنیادی عربی آتی تھی، اس کو مزید بڑھایااورپانچ سال راتوں کوجاگ کرانھوں نے عربی زبان پڑھی ا وردینی علوم خاص کرقرآن کا خودمطالعہ کیا۔ قرآن کا مطالعہ بقول ان کے بغیرکسی تفسیرکے کیا۔اس کے بعداپنی پہلی کتاب ’’وجود خدا کا اثبات قرآن و سائنس کی روشنی میں ‘‘لکھی۔[2]؎

 اس کے بعدجامعہ ہمدردکے بلندنگاہ بانی حکیم عبدالحمیدنے الطاف احمداعظمی کودہلی بلایا۔حکیم صاحب کو طب میں ان کی تحقیقی صلاحیتوں کااندازہ تھا۔ چنانچہ ان کی تحریک پر انھوں نے Indian Institute of History on Medicine and medical Research کو بطور سینئر محقق کے جوائن کیا، جو بعد میں جامعہ ہمدردمیں تبدیل ہوااور وہ ۲۰۰۴ء میں یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ سروس کے دوران ہی انھوں نے جامعہ ہمدرد سے ’یونانی میڈیسن میں ‘پی ایچ ڈی بھی کی۔یہاں وہ تدریس کے علاوہ شعبۂ تاریخ طب وسائنس کے صدربھی رہے۔قرآن مجیداورتاریخ طب یہ دونوں ان کی دل چسپی کے میدان تھے۔جامعہ ہمدردسے ریٹائر ہونے کے بعد وہ  ۲۰۰۵ءمیں کالی کٹ یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے وزٹنگ پروفیسربھی رہے۔[3]؎

بعدازاں کچھ عرصہ کے لیے دہلی اردواکیڈمی کے چیئرمین بھی بنائے گئے، جوایک سرکاری منصب ہے۔ یادرہے کہ الطاف احمد اعظمی اردوکے باذوق شاعربھی تھے۔اوران کادیوان بھی شائع ہوا،جس کا نام ہے: ’’فغان نیم شب‘‘۔ ایک ملاقات میں انھوں نے اپنادیوان اورایک مجموعہ ٔمقالات راقم کودیاتھااوراس پراپنے ہاتھ سے لکھاتھا:محب گرامی ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی کے لیے۔کچھ عرصہ کے بعدان کا دوسرا مجموعہ ٔ کلام ’چراغ شب گزیدہ ‘کے نام سے دہلی سے شائع ہوا۔ا ن کے ادبی مقالات کا مجموعہ ’’سخن ہائے گفتنی ‘‘کے نام سے شائع ہوا،جس میں شبلی،اقبال،اکبر الٰہ آبادی پر مختلف ومتنوع پہلوؤں سے گفتگوکی ہے۔ اس کے علاوہ ایک مقالہ ’’ اردوشاعری پر ایک اجمالی نظرادبی تحریکات کے حوالہ سے‘‘ لکھاہے۔[4] ؎

علم کی دنیامیں الطاف احمداعظمی پوری طرح سیلف میڈآدمی تھے۔مزاج میں تیزی اورطبیعت میں جدت تھی۔  ذہن تحقیق کا جویا۔روایتی نقطۂ نظرسے وہ چاہے اسلامیات میں ہویاطب کی دنیامیں ان کی نبھ نہیں پاتی تھی، اس لیے روایتی اطبا سے بھی ان کی ٹھنی رہتی اورروایتی علما سے بھی،حالاں کہ اعلیٰ درجہ کے نباض تھے۔ سوچنا اورسوال اٹھانافطرت میں شامل تھااوربے لاگ اندازمیں جوسمجھتے تھے، اس کا اظہارکردیتے۔اورغالباًیہی چیز  ہے جس کی وجہ سے ان میں علمی تواضع وانکساری کم اورحددرجہ خود اعتمادی وبے پناہ جرأت اظہارپائی جاتی تھی۔ بعض لوگ شایداس کوادعا وتعلی کی سی کیفیت سے تعبیرکریں:

 کہتا ہوں وہی چیز سمجھتا ہوں جسے حق

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

الطاف احمداعظمی صاحب کاایک اہم کارنامہ ان کی تفسیر ’’میزان ا لقرآن‘‘ہے، جوتین جلدوں میں مع مقدمۂ تفسیر کے مکتبہ الحسنات دہلی سے شائع ہوئی ہے۔وہ موجودہ دورکی اہم تفاسیرمیں شمارکی جانی چاہیے۔اس میں مفسر نے متن قرآن،ترجمہ اورپھرحواشی دے کرتفسیری نوٹ لکھے ہیں۔انھوں نے لغت عربی اورنظم قرآن کی رعایت کی ہے۔وہ سابقہ مفسرین کی رایوں کی پابندی نہیں کرتے، حتیٰ کہ مکتب فراہی کے علما سے بھی خو ب اختلاف کرتے ہیں، مثال کے طورپر سورۂ فیل کی تفسیرمیں انھوں نے علامہ فراہی سے بالکل ہٹ کرتفسیرکی ہے۔[5]؎

وہ کہتے ہیں کہ مولانافراہی کی تفسیرنئی ہے اوراس لحاظ سے قابل تحسین ہے، مگروہ قرآنی نظائرکے بالکل خلاف ہے۔(دیکھیے: میزان القرآن، تیسری جلد، سورۂ فیل کی تفسیر۔ ان کی راے میں ابرہہ کے لشکرکی ہلاکت کا سبب چیچک تھی۔ اسی کو ’طَيْرًا اَبَابِيْلَ‘ سے تعبیرکیاگیاہے۔ابابیل سنگریزے نہیں پھینک رہے تھے)۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اختلاف کی گنجایش کوتسلیم کرتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں بھی انھوں نے دوسرے مترجموں اور مفسروں سے اختلاف کیا ہے، وہا ں اکثرجگہوں پران کی راے دل کولگتی اوراپیل کرتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تفسیر بڑی عام فہم ہے۔

ڈاکٹر اعظمی کہتے تھے کہ ’’قرآن مجیدمتن بھی ہے اورشرح بھی۔علما نے قرآن کوجومجمل قراردیاجسے حدیث کھولتی ہے وہ بالکل غلط ہے۔‘‘

ایک انٹرویومیں انھوں نے بتایاکہ’’میں شاہ ولی اللہ محقق سے متاثر ہوا، شاہ ولی اللہ صوفی سے نہیں۔اس کے بعد سر سید اور مولانا فراہی سے۔سرسیدبرصغیرکے سب سے بڑے مفسر قرآن ہیں۔اردومیں ان کی تفسیر سے بڑھ کرکوئی تفسیرنہیں لکھی گئی۔اگرسرسیدنہ ہوتے تو مولانا فراہی بھی نہ ہوتے،مولاناآزادبھی نہ ہوتے۔‘‘[6]؎

قرآن کے ترجمہ کے بارے میں ایک سوا ل کے جواب میں انھوں نے کہاکہ ’’مولانامودودی کی تفسیرمیں انشاء پردازی ہے،بڑ ی معلومات ہیں، لیکن ترجمہ آزادکیاہے اوراس وجہ سے بے شمار غلطیاں کی ہیں اگران کی غلطیوں کوجمع کیاجائے توکئی جلدیں بن جائیں ‘‘۔[7]؎ (یادرہے کہ والد ماجد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کی تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ میں جگہ جگہ مولانا مودودی کی تفسیری غلطیوں پر گرفت کی گئی ہے، کیونکہ وہ برصغیرمیں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیرہے)۔

ڈاکٹراعظمی مدرسۂ فراہی کی ترجمان اہم تفسیر ’’ تدبر قرآن‘‘ کے بارے میں بھی الگ ہی خیال رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’ دوسری تفاسیرکے مقابلہ میں بہت بلند اور منفرد ہے، لیکن خود مولانا فراہی کے اصولوں کی روشنی میں کم زور ہے۔مولانااصلاحی ابتدائی دوجلدوں میں تو اپنے استادکے اصولوں کوبرت سکے، اس کے بعد وہ اس معیار کو برقرار نہ رکھ سکے۔ہاں اس میں اطناب اور انشاء پردازی بہت ہے۔اسی طرح ’’ تدبر ‘‘ کا ترجمہ بھی بہت رواں اور اچھا نہیں ہے۔مفردات کی تحقیق اچھی کی ہے، لیکن بہت سے موضوعات پر تحقیق نہیں ہے۔[8]؎

مولانا فراہی کا اصل کارنامہ تاصیل (اصول سازی )ہے۔ اب اس پرمزیدبہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تفسیر کے علاوہ بھی اعظمی صاحب کی بہت سی کتابیں ہیں، جوان کی بصیرت ونکتہ رسی اورناقدانہ صلاحیتوں کی گواہی دیتی ہیں،جن میں ایک اہم کتاب ’’احیاء ملت اوردینی جماعتیں ‘‘ہے،بلکہ یہی کتاب ہے جو راقم نے سب سے پہلے پڑھی اورپھران کا نیاز مند ہوگیا۔ اورجب تک وہ دہلی میں رہا،گاہے بگاہے ان کے ہاں حاضری ہوتی رہی۔ اس کتاب میں اعظمی صاحب نے مولاناابوالکلام آزاد، مولانا سیدا بو الاعلیٰ مودودی اورعلماے دیوبند و جمعیۃ علماے ہند، نیزتبلیغی جماعت، ان سب کی فکراورعلمی و عملی کاموں کاگہرائی کے ساتھ قرآن کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ مولانامودودی اورجماعت اسلامی کی فکرپر ان کی تنقیدمولاناوحیدالدین خاں کے نقد سے ملتی جلتی، بلکہ مستعارہے(اگرچہ اس کا حوالہ کہیں نہیں دیاہے)، لیکن امام الہند مولانا آزاداورجمعیۃ علما پران کی تنقیدجرأت رندانہ سے کم نہیں۔اس کتاب میں وہ بجاطورپرایک بت شکن کے طورپرسامنے آتے ہیں، لیکن کسی اچھے ادارے سے شائع نہ ہوسکنے کی بناپر یہ کتاب اس توجہ اوربحث ومباحثہ کاموضوع نہ بن سکی جو اس کا حق تھا۔ تیسری اہم کتاب’’ خطبات اقبال ایک مطالعہ‘‘ ہے،جس میں انھوں نے قرآن کی روشنی میں اقبال کے افکار و خیالات کاناقدانہ مطالعہ کیاہے۔یہی نہیں، بلکہ ان کی بیش ترتنقیدیں قرآن کی روشنی میں ہی ہوتی تھیں۔ چنانچہ جیساکہ پہلے عر ض کیا، قرآن کی روشنی میں ہی انھوں نے برصغیرکی بڑی شخصیات آزاد،اقبال اورمودودی کا مطالعہ کیا۔آزادکاتوکوئی مکتب فکرنہیں، مگراقبال کے مریدان باصفانے ان کی تنقیدوں کابرامنایا۔جب ان کی ’’خطبات اقبال‘‘ چھپی تواقبال اکیڈمی اسلام آبادپاکستان کے رکن جناب خرم علی شفیق صاحب نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کویوں کہتے ہوئے مستردکردیاکہ ’’اقبال کو پڑھنے اورنقدکرنے کے لیے فلسفہ جاننابے حد ضروری ہے اوراعظمی صاحب فلسفہ سے واقف نہیں، لہٰذاان کی تنقیدالقط‘‘۔راقم نے ’’اقبال ریویو‘‘ میں یہ تبصرہ پڑھ کراس کی فوٹوکاپی لی اور اس کولے کراعظمی صاحب کے پاس حاضرہوا۔انھوں نے غالباًاس کاجواب لکھا ہوگا، مگرراقم کواس بارے میں معلوم نہ ہوسکاکہ وہ کہیں چھپا یانہیں۔

پروفیسرالطاف احمداعظمی کی چوتھی اہم کتاب ’’تفہیم سرسید‘‘ہے۔اس میں انھوں نے علما کے اس رویہ پر تنقید کی ہے کہ انھوں نے سرسید کوبالکل ہی مستردکردیا،حالاں کہ سرسیدکی تفسیراوردوسری نگارشات میں بہت کچھ روشنی موجودہے جس سے استفادہ کیاجانا چاہیے۔ انھوں نے مدلل اندازمیں علما کے سرسید پر تمام اعتراضات کا جواب دیاہے۔اعظمی صاحب نے اس کتاب میں سرسیدکی کم زوریوں اورغلطیوں کابھی جائزہ لیا ہے، ساتھ ہی ان کے اجتہادات اورتجدیدی رایوں کابھی تذکرہ کیااوران کوسراہاہے۔یہ کتاب سرسیداکیڈمی سے چھپی ہے اورمطالعات سرسیدی میں بہت کچھ اضافہ کرتی ہے۔اس کتاب سے اوران کی دوسری تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ الطاف صاحب سرسیدکے تو بہت قائل ہیں، مگرمولاناآزادکے شدیدناقد۔

جادہ ومنزل :یہ کتاب اعظمی صاحب کے علمی مقالات کا مجموعہ ہے، جومختلف اوقات میں لکھے گئے کچھ شخصیات پرہیں اورکچھ موضوعاتی قسم کے ہیں۔ ان میں ابن رشد،شاہ ولی اللہ،سیداحمدشہیدکی تحریک، سرسید، شبلی، مولانا آزاد،مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا منت اللہ رحمانی اور قاری محمد طیب کے اجتہاد کے اوپر ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی پرلکھتے ہوئے انھوں نے یہ خیال ظاہرکیاہے کہ مولاناکا تصورسنت وحدیث اپنے استاد مولانا فراہی کے تصورسے بالکل الگ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ’’ مولانااصلاحی سنت بول رہے ہوتے ہیں، مگران کے ذہن میں حدیث ہوتی ہے، اس لیے بہ ظاہرسنت وحدیث کوالگ الگ قراردینے کے باوجودوہ عملاً دونوں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے ہیں ‘‘۔[9] ؎

اس کے علاوہ تصوف کے ناقدانہ مطالعہ کے ضمن میں ’’وحدت الوجودایک غیراسلامی نظریہ‘‘ہے، جوکافی دقیق بحثوں پرمشتمل ہے اوروحدت الوجودکے تاروپودبکھیردیتی ہے۔

’’توحید کا قرآنی تصور‘‘ اور ’’ایمان وعمل کا قرآنی تصور‘‘۔یہ دونوں کتابیں بھی بنیادی نوعیت کی ہیں اوراصلاحی نقطۂ نظر رکھتی ہیں۔ان تینوں کتابوں میں ڈاکٹراعظمی بجاطورپر توحیدکے بارے میں بہت حساس نظرآتے ہیں اور امت مسلمہ میں بڑی شدت کے ساتھ پائی جانے والی اولیا پرستی اورشرک کی دوسری صورتوں کے خلاف شمشیر براں۔

ان کی ایک اہم کتاب’’ مولاناحمیدالدین فراہی  کے بنیادی افکار‘‘ نئی دہلی سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں ان تحریروں کوجمع کیا گیا ہے، جوانھوں نے وقتاً فوقتاً مولانا فراہی کے افکارپر لکھی ہیں۔مثلاً ایک مقالہ کا عنوان ہے: ’’حدیث کے بارے میں مولانافراہی کا نقطۂ نظر‘‘، ’’فی ملکوت اللہ مولانا فراہی کی ایک اہم تصنیف‘‘، ’’تفہیم انجیل اور مولانا فراہی‘‘۔ ’’نظریۂ نظم قرآن اور مولانا فراہی‘‘۔

ڈاکٹر اعظمی نے شبلی پر کئی جہتوں سے لکھاہے۔شبلی کی تنقید،انشاء پردازی،ندوۃالعلما اورعلما سے ان کا تعامل وغیرہ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک کتاب ’’سیرت النبی‘‘ کے علمی جائزہ پر بھی لکھی ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’شبلی کی سیرت النبی اردوکی سب سے عظیم سیرت ہے۔مگراس میں بھی کمیاں رہ گئی ہیں۔یہ زیرتصنیف تھی شبلی اس پر نظرثانی نہیں کرسکے تھے۔اورمولاناسیدسلیمان ندوی نے افسوس کہ اپنے استادکے ساتھ وفا نہیں کی۔ شبلی کے معمولی اعتزال کوانھوں نے اپنی اہل حدیثیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔شبلی کی بہت سی عبارتیں بدلیں۔مقدمہ میں اپنی طرف سے بہت کچھ بڑھادیا۔میں نے اس سب کا جائزہ لیاہے۔‘‘[10]؎

بنیادی طور پر ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی مدرسۂ فراہی سے ہی وابستہ خیال کیے جاتے ہیں، مگریہ بات بڑی عجیب ہے کہ اپنی تحقیقا ت اورفکروخیال کے لیے وہ کسی بھی شخصیت کا حوالہ دیناپسندنہیں کرتے تھے۔انھوں نے حج کا سفرنامہ بھی لکھا۔

ان کے علاوہ بھی اعظمی صاحب کی متعددکتابیں ہیں۔ کئی ابھی شائع بھی نہیں ہوسکی ہیں۔وہ معارف، ترجمان دارالعلوم،التوعیہ،التبیان وغیرہ رسالوں میں برابر چھپا کرتے۔ وہ بہترین مقرر، اور مشاق Table talker تھے جوگھنٹوں اپنے موضوع پرگفتگوکاملکہ رکھتے تھے۔گفتگومدلل اورمنطقی ہوتی۔عرصۂ درازسے خانہ نشین تھے اور بہت کم لوگوں سے خلاملا رکھتے۔ جلسوں، مذاکروں اور سیمیناروں میں جانا انھوں نے بالکل چھوڑ دیا تھا، یہاں تک کہ فون کااستعمال بھی بہت کم کرتے تھے۔

اعظمی صاحب کو ’کورونا‘ کی عالمی وبا کے دوران میں کورونا ہو گیا تھا اور وہ خاصے دنوں تک اس سے متاثر رہے، بعد میں کچھ افاقہ تو ہو گیا، تاہم ان کی صحت کافی متاثرہوگئی تھی۔اس کے بعدان کو کینسر بھی تشخیص ہوا اور ان کی طویل علالت کی خبریں برابرآرہی تھیں۔ان کی وفات سے ایک دیدہ ورمصنف،صاحب نظر عالم، صائب الراے مفسر اور صاحبِ بصیرت ناقدومصلح سے مسلمانان ہندمحروم ہوگئے۔خاک سارکوان سے ایک دور کی نسبت یہ تھی کہ وہ والد ماجد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کے شاگردتھے، جن کووالدماجدنے مدرسۃ الاصلاح سرائے میراعظم گڑھ میں پڑھایاتھا۔

کعبہ سے ان بتوں کوبھی نسبت ہے دور کی

امید ہے کہ پروفیسرالطاف احمداعظمی مرحوم کی غیرمطبوعہ کتابیں اورمقالے بھی جلدہی منظرعام پر آئیں گے اور نئی نسل اس نئی علمی صداکی طرف متوجہ ہوسکے گی۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]؎ ملاحظہ ہو: حکیم نازش احتشام احمداعظمی اصلاحی کی کتاب ’’ابنائے مدرسۃ الاصلاح کی علمی و ادبی خدمات‘‘،شائع کردہ: اصلاحی ہیلتھ کیئرفاؤنڈیشن، نئی دہلی۔

[2]؎ ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی نے یہ خیالات ایک انٹرویومیں ظاہرکیے، جو مدرستہ الاصلاح کے استاد مولانا عمر اسلم اصلاحی نے اصلاح ٹی وی کی جانب سے ۱۳؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو ان سے لیاتھا۔لنک یہ ہے:

https://www.youtube.com/watch?v=3qacJerUSbs

[3]؎ اردو بک ریویو ص ۱۱۔ جولائی /اگست / ستمبر ۲۰۱۰ء اور انٹرویو مذکور۔

[4]؎ ملاحظہ ہو: حکیم نازش احتشام احمد اعظمی اصلاحی کی کتاب ’’ابنائے مدرسۃ الاصلاح کی علمی و ادبی خدمات‘‘۔

[5]؎ میزان القرآن، جلد سوم، تفسیر سورۂ فیل، ص ۱۰۱۳،شائع کردہ: مرکز تحقیق و اشاعت قرآنی، نئی دہلی۔

[6]؎ انٹرویو مذکور۔

[7]؎ ایضاً۔

[8]؎ جادہ و منزل   ۱۹۹،ا لبلاغ پبلیکیشنز، نئی دہلی۔

[9]؎ جادہ و منزل   ۲۰۳،البلاغ پبلیکیشنز، نئی دہلی۔

[10]؎ انٹرویو مذکور۔

B