حجاب کے وجوب کے قائل اہل علم کے نقطۂ نظر اور استدلال کی وضاحت کے بعد اب ہم جمہور اہل علم کے نقطۂنظر کے استدلال کی وضاحت کریں گے، جن کے نزدیک عام حالات میں مسلمان خواتین پر اپنے چہرے کو غیر محرم مردوں سے چھپا کر رکھنےکی کوئی پابندی شریعت نے عائد نہیں کی اور یہ کہ ایسے کسی اہتمام کا تعلق بنیادی طور پر خواتین کے اپنے انفرادی ذوق اور رجحان سے یا گرد وپیش کے حالات سے ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک متعارض قیاسات میں سے یہ قیاس نصوص کے عمومی ماحول سے زیادہ ہم آہنگ ہے کہ چونکہ مرد وزن کا اختلاط ایک عملی معاشرتی ضرورت ہے اور تعارف، گفتگو یا روز مرہ کے لین دین کے لیے چہرے یا ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنا خواتین کے لیے ناگزیر ہے، اس لیے خواتین کو اس کا پابند بنانا مشقت اور حرج کا موجب ہے اور اسے شریعت کا مقصود قرار نہیں دیا جا سکتا۔
اس زاویۂ نظر سے جمہور اہل علم کی طرف سے قرآن مجید کے متعلقہ نصوص کی تعبیر وتشریح جس طرح کی گئی ہے، ذیل میں اس کی تفصیل پیش کی جائے گی۔
سورۂ نور کی زیربحث آیت اس بحث میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور یہاں ’وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کے الفاظ کلیدی ہیں۔ جمہور اہل علم کے مابین یہاں ’زینت‘ کا لغوی مفہوم متعین کرنے میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اہل علم اس سے مراد صرف مصنوعی زینت، یعنی آرایش وزیبایش لیتے ہیں ، جو خواتین لباس اور زیور وغیرہ کی صورت میں اختیار کرتی ہیں، جب کہ بعض کے نزدیک اس کے مفہوم میں مصنوعی کے علاوہ خلقی زینت، یعنی خواتین کا جسمانی حسن وجمال بھی شامل ہے (ابن العربی، احکام القرآن ۳ / ۳۸۱- ۳۸۲۔ رازی، مفاتیح الغیب ۲۳ / ۲۰۶) ۔ دوسری تفسیر کی رو سے ’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کا مصداق جسم کے وہ اعضا ہیں جو عادتا ً ظاہر ہوتے ہیں ، جیسے چہرہ اور ہاتھ پاؤں، جب کہ پہلی تفسیر کے مطابق اس کا براہ راست مصداق تو آرایش و زیبایش ہے، جب کہ ان اعضا پر اس کی دلالت ثانوی ہے، جن پر زینت اختیار کی گئی ہے۔ یوں زینت کے لغوی مفہوم کی تعیین میں اس جزوی اختلاف کے باوجود جمہور اہل علم اس نتیجے پر متفق ہیں کہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کو اور ان پر کی گئی زیبایش کو چھپانے کی پابندی خواتین پر عائد نہیں ہوتی۔
’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کا مصداق چہرے اور ہاتھ پاؤں کو قرار دینے اور اس سے پردے کا عدم وجوب اخذ کرنے کے لیے جمہور اہل علم نے مختلف قرائن اور دلائل پیش کیے ہیں، جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔ پہلا قرینہ لسانی ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کی تعبیر لغوی ولسانی دلالت کے لحاظ سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا کھلا اور ظاہر ہونا مخاطبین پر پہلے سے واضح ہے۔ چونکہ انسانی تمدن میں مرد اور عورت عموماً مذکورہ اعضا کو کھلا رکھتے ہیں، اس لیے ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کا متبادر مفہوم یہی بنتا ہے کہ ان اعضا اور ان پر کی گئی زینت ، اخفاے زینت کے حکم میں شامل نہیں ۔
زمخشری لکھتے ہیں:
معنى قوله ﴿اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ يعنى إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره والأصل فيه الظهور.(الکشاف ۴ /۲۰۹، ۲۹۱)
’’ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘سے مراد وہ اعضا ہیں جو انسانوں کی عام معمول اور جبلت کے لحاظ سے کھلے ہی ہوتے ہیں اور ان کا کھلا ہونا ہی اصل ہے۔“
آلوسی اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
﴿اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ أي إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره والأصل فيه الظهور كالخاتم والفتخة والكحل والخضاب فلا مؤاخذة في إبدائه للأجانب وإنما المؤاخذة في إبداء ما خفي من الزينة كالسوار والخلخال والدملج والقلادة والإكليل والوشاح والقرط.(روح المعانی ۹/ ۳۳۵)
’’ظاہری زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو فطری طور پر ظاہر ہوتی ہیں، انسان عادتاً ان کو کھلا رکھتے ہیں اور ان کا کھلا ہونا ہی اصل ہے، جیسے انگوٹھی، چھلا، سرمہ اور منہدی۔ ایسی زینت کو غیر محرموں کے سامنے ظاہر کرنے میں کوئی مواخذہ نہیں، بلکہ مواخذہ صرف اس زینت کو ظاہر کرنے پر ہے جو مخفی ہو، جیسے کنگن، پازیب، بازوبند، ہار، تاج اور بالیاں۔“
اس تفسیر کے لیے جمہور اہل علم عبد اللہ بن عباس اور دیگر اکابر صحابہ وتابعین سے منقول آثار سے بھی استشہاد کرتے ہیں۔ یہ آثار امام طبری نے یوں نقل کیے ہیں:
عن ابن عباس قال: الكحل والخاتم ... عن ابن عباس قال: الظاهر منها الكحل والخدان ... عن سعيد بن جبير قال: الوجه والكف ... عن الضحاك قال: الكف والوجه ... قال الحسن: الوجه والثياب.(تفسیر الطبری ۱۷/ ۲۵۸ - ۲۶۱)
’’ابن عباس نے کہا کہ ظاہری زینت سے مراد سرمہ، انگوٹھی اور رخسار ہیں۔ سعید بن جبیر نےکہا کہ اس کا مصداق چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ ضحاک کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہاتھ اور چہرہ ہے۔ حسن نے کہا کہ اس میں چہرہ اور لباس شامل ہے۔“
یہاں بعض اہل علم کے اس استدلال پر مختصر تبصرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘سے مراد ایسی زینت ہے جو بلا ارادہ اور اچانک ظاہر ہو جائے یا اس کا چھپانا ممکن نہ ہو اور اس کا ظاہر ہونا ناگزیر ہو۔ ان حضرات کے نزدیک یہاں جو استثنا بیان کی گئی ہے، اس کا مصداق ایسی صورتیں ہیں جب اٹھتے بیٹھتے ہوئے یا ہوا کے چلنے سے بلا ارادہ زینت کا کوئی حصہ ظاہر ہو جائے یا پھر لباس کے بیرونی حصے کا ظاہر ہونا مراد ہے جسے چھپانا بدیہی طور پر ممکن نہیں[*] ۔
یہ تفسیر اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ عربی زبان میں کسی پوشیدہ چیز کے ظاہر ہو جانے کے لیے ’ظھر ‘ کی نہیں، بلکہ ’بدا ‘ کی تعبیر استعمال کی جاتی ہے، جیسا کہ سورۂ نور کی زیر بحث آیت میں بھی چھپی ہوئی زینت کے اظہار کے لیے ’لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ظھر ‘ کا استعمال وہاں ہوتا ہے جب کوئی چیز خود بہ خود ظاہر ہو ۔ اسی لیے ’ظھر ‘ اور ’ظاھر ‘ کا استعمال عموماً ’بطن ‘ اور ’باطن ‘ کے تقابل میں ہوتا ہے اور مراد ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ظاہر ومعلوم یا مخفی اور پوشیدہ ہوں۔ مثلاً ارشاد باری ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ. (الانعام ۶: ۱۵۱)
’’اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ، وہ جو کھلے اور ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں۔“
بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ.(الحدید ۵۷: ۱۳)
’’اس دیوار کے اندرونی جانب رحمت ہوگی اور اس کی بیرونی جانب اللہ کی طرف سے عذاب ہوگا۔“
وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً.(لقمان ۳۱: ۲۰)
’’اور اس نے اپنی نعمتیں تم پر نچھاور کیں، کھلی بھی اور چھپی بھی۔“
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَي الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًي ظَاهِرَةً. (سبا۳۴: ۱۸)
’’اور ہم نے قوم سبا کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی تھی، نمایاں بستیاں آباد کیں۔“
راغب اصفہانی اس لفظ کے اصل مفہوم کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وظَهَرَ الشّيءُ أصله: أن يحصل شيء على ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفى، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفى، ثمّ صار مستعملًا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصيرة. (المفردات فی غریب القرآن ۵۴۱)
’’ ’ظَهَرَ الشّيءُ‘ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز زمین کی سطح پر اس طرح موجود ہو کہ چھپی نہ رہے۔ اس کے برعکس ’بَطَنَ‘ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز زمین کے اندر اور پوشیدہ ہے۔ پھر اس کا استعمال ہر ایسی چیز کے متعلق ہونے لگا جو نمایاں ہو اور آنکھوں سے یا بصیرت کی نگاہ سے صاف دیکھی جا سکے۔ “
۲۔ جمہور اہل علم دوسرا اہم قرینہ احکام شرعیہ کے داخلی عرف کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ مثلاً امام طبری نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ شریعت میں چونکہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کا ستر میں داخل نہ ہونا مسلم ہے اور اسی وجہ سے نماز اور حالت احرام میں خواتین ان اعضا کو کھلا رکھتی ہیں، اس لیے ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کو بھی شریعت کے اسی معروف پر محمول کرنا چاہیے۔ امام طبری فرماتے ہیں:
وأولى الأقوال في ذالك بالصواب قول من قال: عنى بذالك الوجه والكفان، يدخل في ذالك إذا كان كذالك الكحل، والخاتم، والسوار، والخضاب. وإنما قلنا ذالك أولى الأقوال في ذالك بالتأويل لإجماع الجميع على أن على كلّ مصل أن يستر عورته في صلاته، وأن للمرأة أن تكشف وجهها وكفيها في صلاتها، وأن عليها أن تستر ما عدا ذالك من بدنها، إلا ما روي عن النبي ﷺ أنه أباح لها أن تبديه من ذراعها إلى قدر النصف. فإذا كان ذالك من جميعهم إجماعًا، كان معلومًا بذالك أن لها أن تبدي من بدنها ما لم يكن عورة، كما ذالك للرجال؛ لأن ما لم يكن عورة فغير حرام إظهاره؛ وإذا كان لها إظهار ذالك، كان معلومًا أنه مما استثناه الله تعالى ذكره، بقوله: ﴿اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ لأن كل ذالك ظاهر منها.(تفسیر الطبری ۱۷ / ۲۶۱- ۲۶۲)
’’ان اقوال میں سے درست ترین بات یہ ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ اسی طرح سرمہ، انگوٹھی، کنگن اور منہدی بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اس قول کے سب سے عمدہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ ہر نمازی کے لیے نماز کی حالت میں اپنے ستر کو چھپا کر رکھنا ضروری ہے، جب کہ عورت کو نماز میں چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنے کی اجازت اور اس کے علاوہ باقی سارے جسم کو ڈھانپ کر رکھنا واجب ہے۔ ہاں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے عورت کو اپنے بازو کے اگلے حصے کے نصف تک کھلا رکھنے کی اجازت دی۔ چنانچہ جب اس پر اتفاق ہے تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عورت کے جسم کے جو حصے ستر میں شامل نہیں، وہ انھیں کھلا رکھ سکتی ہے، جیسا کہ مردوں کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اعضا ستر میں شامل نہیں، ان کو کھلا رکھنا بھی ممنوع نہیں۔ پس جب عورت کے لیے ہاتھ اور پاؤں کو (نماز کی حالت میں) کھلا رکھنا جائز ہے تو اس سے معلوم ہو گیا کہ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی استثنا بیان کی ہے، اس سے مراد بھی چہرہ اور ہاتھ ہی ہیں، کیونکہ عورت کے یہی اعضا کھلے ہو سکتے ہیں۔“
امام بغوی لکھتے ہیں :
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْكُحْلُ وَالْخَاتَمُ وَالْخِضَابُ فِي الْكَفِّ. فَمَا كَانَ مِنَ الزِّينَةِ الظَّاهِرَةِ جَازَ لِلرَّجُلِ الْأَجْنَبِيِّ النَّظَرُ إِلَيْهِ إِذَا لَمْ يَخَفْ فِتْنَةً وَشَهْوَةً، فَإِنْ خَافَ شَيْئًا مِنْهَا غَضَّ الْبَصَرَ، وَإِنَّمَا رُخِّصَ فِي هَذَا الْقَدْرِ أَنْ تُبْدِيَهُ الْمَرْأَةُ مِنْ بَدَنِهَا لِأَنَّهُ لَيْسَ بِعَوْرَةٍ وَتُؤْمَرُ بِكَشْفِهِ فِي الصَّلَاةِ وَسَائِرُ بَدَنِهَا عَوْرَةٌ يَلْزَمُهَا سَتْرُهُ.(معالم التنزیل ۶/ ۳۴)
’’ابن عباس نے کہا کہ اس سے مراد سرمہ، انگوٹھی اور ہاتھوں پر لگی منہدی ہے۔ چنانچہ جو زینت ظاہر ہو، غیر محرم کے لیے اس کو دیکھنا جائز ہے، بشرطیکہ فتنے یا شہوت کا خدشہ نہ ہو۔ اگر اس کا خدشہ ہو تو وہ غض بصر سے کام لے۔ عورت کے لیے اپنے بدن کے اتنے حصے کو کھلا رکھنے کی گنجایش اس لیے دی گئی ہے کہ یہ اعضا ستر کا حصہ نہیں ہیں اور ان کو نماز میں بھی کھلا رکھنے کی ہدایت ہے۔ ان کے علاوہ عورت کا سارا جسم ستر ہے جس کو چھپانا اس پر لازم ہے۔“
مولانا مودودی نے جمہور اہل علم کے اس استدلال کو یوں تعبیر کیا ہے کہ یہ حضرات ستر اور حجاب کے مسئلے کو گڈمڈ کرتے ہوئے حجاب کو ستر پر قیاس کر رہے ہیں اور ان کا استدلال، گویا یہ ہے کہ چونکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں، اس لیے اس کو کھلا رکھنا جائز ہے۔ مولانا اس استدلال کو عجیب قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حجاب، ستر سے زائد ایک حکم ہے ، اس لیے حجاب کے حدود ستر کے اصول سے اخذ کرنا درست نہیں ہو سکتا۔ تاہم مولانا نے جمہور کے استدلال کی درست تعبیر نہیں کی۔ جمہور کا استدلال یہ نہیں کہ جو حدود ستر کے ہیں، قیاساً وہی اظہار و اخفاے زینت کے بھی ہونے چاہییں۔ جمہور کا استدلال، جیسا کہ امام طبری کے مذکورہ اقتباس سے واضح ہے، یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے اخفاے زینت کا حکم دیتے ہوئے ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘سے جو استثنا بیان کی ہے، اس کا مصداق متعین کرنے میں شریعت کے اس حکم سے رہنمائی ملتی ہے کہ چہرہ، ستر میں داخل نہیں۔ دوسرے لفظوں میں، یہ تعبیر ستر کے حوالے سے شریعت کے عرف کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور یہ بتا رہی ہے کہ عورت کے جو اعضا ستر میں شامل نہیں، وہ اخفاے زینت کے حکم سے بھی مستثنیٰ ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ کوئی قیاسی استدلال نہیں ہے، بلکہ ایک حکم کا مفہوم شریعت کے عرف کی روشنی میں متعین کرنے کی مثال ہے۔
۳۔ جمہور اہل علم کے پیش نظر یہ نکتہ بھی ہے کہ زیربحث آیت میں جسمانی اعضا میں سے سر کو اوڑھنی سے ڈھانکنے کی ہدایت مضمراً، جب کہ سینے کے گریبان کو ڈھانکنے کی ہدایت تصریحاً بیان کی گئی ہے۔ اگر چہرے کو چھپانا بھی مطلوب ہوتا تو اس کی تصریح بھی اسی اسلوب بیان میں ہونی چاہیے تھی۔ یوں چہرے سے عدم تعرض اور اس کے ساتھ ظاہری زینتوں کو اخفا کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کا اسلوب اس بات کی واضح دلیل بن جاتا ہے کہ جن اعضا کو خواتین عادتاً کھلا رکھتی ہیں، ان کو حالت زینت میں بھی چھپانے کی پابندی شریعت عائد نہیں کرنا چاہتی۔ چنانچہ عہد نبوی میں خواتین نے اس آیت کا جو مدعا سمجھا، وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل روایت سے واضح ہوتا ہے:
قَالَتْ عَائِشَةُ، رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: إِنَّ لِنِسَاءِ قُرَيْشٍ لَفَضْلًا وَإِنِّي -وَاللّٰهِ - وَمَا رَأَيْتُ أفضلَ مِنْ نِسَاءِ الْأَنْصَارِ أَشَدَّ تَصْدِيقًا بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَلَا إِيمَانًا بِالتَّنْزِيلِ. لَقَدْ أُنْزِلَتْ سُورَةُ النُّورِ: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ﴾، انْقَلَبَ إِلَيْهِنَّ رِجَالُهُنَّ يَتْلُونَ عَلَيْهِنَّ مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ إِلَيْهِمْ فِيهَا، وَيَتْلُو الرَّجُلُ عَلَى امْرَأَتِهِ وَابْنَتِهِ وَأُخْتِهِ، وَعَلَى كُلِّ ذِي قَرَابَةٍ، فَمَا مِنْهُنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا قَامَتْ إِلَى مِرْطها المُرَحَّل فَاعْتَجَرَتْ بِهِ، تَصْدِيقًا وَإِيمَانًا بِمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتَابِهِ، فأصبحْنَ وَرَاءَ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ الصُّبْحَ مُعْتَجَرَاتٍ، كأن على رؤوسهن الغربان.(تفسیر ابن کثیر ۱۰ / ۲۱۹)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قریش کی خواتین کو بھی فضیلت حاصل ہے، لیکن بخدا میں نے انصار کی خواتین سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ اللہ کی کتاب کی تصدیق کرنے اور قرآن کے احکام کو قبول کرنے میں ان سے افضل ہوں۔ جب سورۂ نور میں یہ حکم نازل ہوا کہ خواتین اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں تو انصار کے مردوں نے گھر جا کر اپنی خواتین کو یہ حکم تلاوت کر کے سنایا جو اللہ نے ان پر اتارا تھا۔ مرد یہ حکم اپنی بیوی، بیٹی، بہن اور ہر قرابت دار خاتون کو پڑھ کر سناتے تھے۔ چنانچہ انصار میں سے کوئی بھی عورت باقی نہیں رہی جس نے اپنے اللہ کی کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس کے حکم کو قبول کرتے ہوئے اپنی منقش چادر کو لے کر اپنے سر اور گلے پر نہ ڈال لیا ہو۔ اگلی صبح جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (نماز کے لیے) آئیں تو سب اس کیفیت میں تھیں کہ سر کی اوڑھنیوں سے انھوں نے اپنے گلے کو بھی ڈھانپ رکھا تھا، ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوں۔“
روایت سے واضح ہے کہ خواتین جو اس سے پہلے سر کو ڈھانپنے کا اہتمام نہیں کرتی تھیں، آیت کے نزول کے بعد اس کا اہتمام کرنے لگیں۔ اگر چہرے کو ڈھانپنا اس آیت کا مدعا ہوتا تو اس موقع پر اس کا اہتمام کرنے کا ذکر بھی سیدہ عائشہ کی روایت میں لازماً کیا جاتا۔
امام ابوبکر الجصاص آیت کی اس دلالت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قد قیل: إنه أراد جیب الدروع لأن النساء کن یلبسن الدروع ولھا جیب مثل جیب الدراعة فتکون المرأة مکشوفة الصدر والنحر إذا لبستھا فأمرھن اللہ بستر ذالک الموضع بقوله ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن وفي ذالک دلیل علی أن صدر المرأة ونحرھا عورة لا یجوز للأجنبي النظر إلیھما منھا. (احکام القرآن ۵ / ۱۷۴)
’’کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد قمیصوں کے گریبان کو چھپانا ہے، کیونکہ خواتین ایسی قمیصیں پہنتی تھیں جن کے گریبان کوٹ کے گریبان کی طرح کھلے ہوتے تھے اور ان کو پہننے سے عورت کے سینے کا بالائی حصہ اور چھاتی کھلی رہتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ حکم دیا کہ جسم کے اس حصے کو چھپایا جائے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کی چھاتی اور سینے کا بالائی حصہ ستر میں شامل ہے اور غیر محرم کے لیے عورت کے ان اعضا کو دیکھنا جائز نہیں۔“
ابن عطیہ لکھتے ہیں:
وسَبَبُ هَذِهِ الآيَةِ أنَّ النِساءَ كُنَّ في ذَالِكَ الزَمانِ إذا غَطَّيْنَ رُءُوسَهُنَّ بِالخُمُرَةِ سَدَلْنَها مِن وراءِ الظَهْرِ، قالَ النِقاشَ: كَما يَصْنَعُ النَبَطُ، فَيَبْقى النَحْرُ والعُنُقُ والأُذُنانِ لا سَتْرَ عَلى ذَالِكَ، فَأمَرَ اللّٰهُ تَعالى بِلَيِّ الخِمارِ عَلى الجُيُوبِ، وهَيْئَةُ ذَالِكَ [أنْ تَضْرِبَ المَرْأةُ بِخِمارِها عَلى جَيْبِها ] فَيَسْتُرُ جَمِيعَ ما ذَكَرْناهُ. وقالَتْ عائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عنها: رَحِمُ اللهُ المُهاجِراتِ الأوُلُ، لِما نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَمَدْنَ إلى أكْثَفِ المُرُوطِ فَشَقَقْنَها أخْمِرَةً، وضَرَبْنَ بِها عَلى الجُيُوبِ. (المحرر الوجیز ۴ / ۱۷۸)
’’اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں عورتیں جب اپنے سروں پر اوڑھنیاں ڈالتی تھیں تو ان کےپلوؤں کو پیچھے پشت کی طرف ڈال دیتی تھیں، جیسے اہل نبط کرتے ہیں۔ اس سے سینے کا بالائی حصہ، گردن اور کان ننگے رہ جاتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اوڑھنی کو گریبان پر ڈالا جائے، جس کی شکل یہ ہے کہ عورت اپنی اوڑھنی کو اس طرح اپنے گریبان پر ڈالے کہ وہ تمام اعضا کو جن کا ہم نے ذکر کیا، چھپ جائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اولین مہاجرات پر رحمت نازل کرے، جب یہ آیت اتری تو انھوں نے اپنی سب سے دبیز چادریں لیں اور انھیں پھاڑ کر اوڑھنیاں بنا لیں اور انھیں اپنے گریبانوں پر ڈال لیا۔ “
ابن کثیر نے لکھا ہے:
وَقَوْلُهُ: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ﴾ يَعْنِي: الْمَقَانِعَ يُعْمَلُ لَهَا صَنفات ضَارِبَاتٌ عَلَى صُدُورِ النِّسَاءِ، لِتُوَارِيَ مَا تَحْتَهَا مِنْ صَدْرِهَا وَتَرَائِبِهَا؛ لِيُخَالِفْنَ شعارَ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِنَّهُنَّ لَمْ يَكُنَّ يَفْعَلْنَ ذَالِكَ، بَلْ كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَمُرُّ بَيْنَ الرِّجَالِ مُسَفِّحَةً بِصَدْرِهَا، لَا يُوَارِيهِ شَيْءٌ، وَرُبَّمَا أَظْهَرَتْ عُنُقَهَا وَذَوَائِبَ شَعْرِهَا وَأَقْرِطَةَ آذَانِهَا. فَأَمَرَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنَاتِ أَنْ يَسْتَتِرْنَ فِي هَيْئَاتِهِنَّ وَأَحْوَالِهِنَّ، كَمَا قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى: ﴿يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾. وَقَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ الْكَرِيمَةِ: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ﴾ والخُمُر: جَمْعُ خِمار، وَهُوَ مَا يُخَمر بِهِ، أَيْ: يُغَطَّى بِهِ الرَّأْسُ، وَهِيَ الَّتِي تُسَمِّيهَا النَّاسُ الْمَقَانِعَ. قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَلْيَضْرِبْن: وَلِيَشْدُدْنَ ﴿بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ﴾ يَعْنِي: عَلَى النَّحْرِ وَالصَّدْرِ، فَلَا يُرَى مِنْهُ شَيْءٌ.(تفسیر ابن کثیر ۱۰ / ۲۱۸)
’’اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ سر کی اوڑھنیوں کے پلو بنا کر انھیں عورتوں کے سینوں پر ڈالا جائے تاکہ ان کا سینہ اور چھاتیاں چھپ جائیں اور زمانۂ جاہلیت کی خواتین کے طرز لباس سے مسلمان خواتین کا لباس مختلف ہو جائے۔ دور جاہلیت کی خواتین سینے نہیں ڈھانپتی تھیں، بلکہ عورت اپنے سینے کو چھپائے بغیر ننگا رکھ کر مردوں کے درمیان گھومتی رہتی تھی اور بعض دفعہ اپنی گردن اور بالوں کی مینڈھیاں اور کانوں کی بالیاں بھی ظاہر کر دیتی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنی لباس کے انداز اور وضع قطع میں جسم کو چھپانے کا اہتمام کریں۔ جیسا کہ سورۂ احزاب میں فرمایا کہ ’’اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں۔ یہ اس کے زیادہ قرین ہے کہ ان کا (دوسری عورتوں سے) امتیاز ہو جائے اور انھیں اذیت نہ پہنچائی جائے‘‘۔ سورۂ نور کی زیربحث آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’خواتین اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں‘‘۔ خمار اوڑھنی کو کہتے ہیں، جس سے سر ڈھانپا جاتا ہے۔ سعید بن جبیر نے اس کا مفہوم واضح کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اپنی اوڑھنیوں کو اچھی طرح اپنے گریبانوں پر، یعنی گلے اور سینے پر ڈال لیں تاکہ گلے اور سینے کا کوئی حصہ دکھائی نہ دے۔“
۴۔ ایک ضمنی اور تائیدی قرینے کے طور پر جمہور اہل علم بعض روایات کا بھی حوالہ دیتے ہیں ، جن کی سند پر کلام ہے، تاہم ان سے واضح ہوتا ہے کہ عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر جلیل القدر تابعی قتادہ کہتے ہیں:
وبلغني أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تخرج يدها إلا إلى ههنا وقبض نصف الذراع.(تفسیر الطبری ۱۷/ ۲۵۸ - ۲۶۱)
’’مجھے روایت پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن عورت کے لیے اپنے بازو کو صرف یہاں تک لباس سے باہر نکالنا جائز ہے اور آپ نے بازو کے نصف حصے تک اشارہ کیا۔ “
امام قرطبی لکھتے ہیں:
لَمَّا كَانَ الْغَالِبُ مِنَ الْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ ظُهُورُهُمَا عَادَةً وَعِبَادَةً وَذَالِكَ فِي الصَّلَاةِ وَالْحَجِّ، فَيَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ الِاسْتِثْنَاءُ رَاجِعًا إِلَيْهِمَا. يَدُلُّ عَلَى ذَالِكَ مَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا دَخَلت عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ وَقَالَ لَهَا: «يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ يَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ. فَهَذَا أَقْوَى مِنْ جَانِبِ الِاحْتِيَاطِ، وَلِمُرَاعَاةِ فَسَادِ النَّاسِ فَلَا تُبْدِي الْمَرْأَةُ مِنْ زِينَتِهَا إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْ وَجْهِهَا وَكَفَّيْهَا.(الجامع لاحکام القرآن ۱۵ / ۲۱۳)
’’چونکہ چہرہ اور ہاتھ عام حالات میں بھی اور عبادت کے دوران میں، یعنی نماز اور حج میں بھی عموماً ننگے ہوتے ہیں ، اس لیے وہ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کے جملے کا مصداق بن سکتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ ابو داؤد نے اپنی سنن میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انھوں نے باریک کپڑے پہن رکھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ ان کی طرف سے پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء، جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کے ان دو حصوں کے علاوہ کوئی حصہ دکھائی نہیں دینا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔ چنانچہ احتیاط کے پہلو سے اور لوگوں کی خرابی کی رعایت سے یہ تعبیر زیادہ قوی ہے۔ پس عورت کو اپنی زینت میں سے صرف وہی ظاہر کرنی چاہیے جو اس نے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر کی ہو۔“
علامہ بدر الدین العینی فرماتے ہیں:
واختار العلماء قول علي وابن عباس رضي اللّٰه عنهم ، فكذالك اختاره المصنف، قال علي وابن عباس رضي اللّٰه عنهما: ما ظهر منها الكحل والخاتم ... ولو استدل في ذالك بالحديث المرفوع لكان أولى وأحسن وهو ما رواه أبو داود في سننه بإسناده إلى عائشة رضي اللّٰه عنها أن أسماء بنت أبي بكر رضي اللّٰه عنهما دخلت على النبي صلى اللّٰه عليه وسلم وعليها ثياب رقاق، فأعرض عنها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وقال: «يا أسماء، إذا بلغت المرأة المحيض لا يصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا»، وأشار إلى وجهه وكفه.(البناية شرح الھداية للمرغيناني۱۲/ ۱۲۸)
’’علما نے سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کے قول کو راجح قرار دیا ہے اور مصنف نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ علی اور ابن عباس فرماتے ہیں کہ ’ما ظھر منھا‘ سے مراد سرمہ اور انگوٹھی ہے۔ اس سلسلے میں اگر (صحابہ کے اقوال کے علاوہ) مرفو ع حدیث سے بھی استدلال کیا جائے تو وہ زیادہ بہتر اور عمدہ ہوگا۔ یہ روایت ابو داؤد نے اپنی سنن میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انھوں نے باریک کپڑے پہن رکھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے رخ پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء، جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کے ان دو حصوں کے علاوہ کوئی حصہ دکھائی نہیں دینا چاہیے۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔‘‘
ابن کثیر نے لکھا ہے:
وَيُحْتَمَلُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَنْ تَابَعَهُ أَرَادُوا تَفْسِيرَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا بِالْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ، وَهَذَا هُوَ الْمَشْهُورُ عِنْدَ الْجُمْهُورِ، وَيُسْتَأْنَسُ لَهُ بِالْحَدِيثِ الَّذِي رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ فِي سُنَنِهِ: .... أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَقَالَ: «يَا أَسْمَاءُ، إن المرأة إذا بلغت المحيض لم يَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ.(تفسیر ابن کثیر ۱۰ / ۲۱۸)
’’یہ احتمال ہے کہ ابن عباس اور ان کی موافقت کرنے والے ظاہری زینت کی تفسیر چہرے اور ہاتھوں سے کرنا چاہتے ہیں اور یہی جمہور اہل علم کے نزدیک مشہور تفسیر ہے۔ اس کے حق میں ابوداؤد کی روایت کردہ اس حدیث سے استشہاد کیا جا سکتا ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آئیں کہ انھوں نے باریک کپڑے پہن رکھے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے اسماء، جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے جسم کے ان دو حصوں کے علاوہ کوئی حصہ دکھائی نہیں دینا چاہیے۔ آپ نے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ فرمایا۔“
۵۔ جمہور اہل علم اس بحث میں خاص طور پر ان احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جن کی رو سے نکاح کے لیے خاتون کا انتخاب کرتے ہوئے اسے دیکھ لینا مستحب ہے۔ اس ضمن کی چند معروف روایات حسب ذیل ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی انصاری خاتون سے نکاح کا ارادہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے اس کو دیکھا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا:
فاذھب فانظر إلیھا فإن في أعین الأنصار شیئًا.( مسلم، رقم ۱۴۲۴)
’’جاؤ اور اس کو دیکھو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔“
جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا خطب أحدکم المرأة فإن استطاع أن ینظر إلی ما یدعوہ إلی نکاحها فلیفعل. (سنن ابی داؤد، رقم ۲۰۸۲)
’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو نکاح کا پیغام دینا چاہے تو اگر اس کے لیے ممکن ہو کہ وہ اس کے محاسن کو دیکھ سکے جن سے اس کے ساتھ نکاح کی رغبت پیدا ہو سکتی ہے تو وہ ایسا کر لے۔“
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کو نکاح کا پیغام دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا :
انظر إلیھا فإنه أحری أن یودم بینکما.(ترمذی، رقم ۱۰۸۷)
’’اس کو دیکھ لو، اس سے تمھارے مابین موافقت پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔“
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا ألقی اللہ في قلب امرئ خطبة امرأة فلا بأس أن ینظر إلیھا . (ابن ماجہ، رقم ۱۸۶۴)
’’جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ ڈال دے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کو دیکھ لے۔“
ان احادیث کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ خواتین کا چہرہ اور ہاتھ پاؤں کھلے ہوں اور نکاح کے خواہش مند مرد ان کو دیکھ سکیں (جصاص، احکام القرآن ۵/ ۱۷۳۔ سرخسی، المبسوط ۱۰ / ۱۵۲- ۱۵۳)۔ جصاص نے اس کی تائید میں سورۂ احزاب کی آیت میں وارد ’وَلَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ‘ (۳۳: ۵۲) کی تعبیر سے بھی استدلال کیا ہے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پابند کیا جا رہا ہے کہ آپ اپنی موجودہ ازواج کو چھو ڑ کر ان کی جگہ دوسری خواتین سے نکاح نہیں کر سکتے، چاہے آپ کو ان کا حسن وجمال کتنا ہی بھائے۔ جصاص کہتے ہیں کہ خو اتین کے حسن وجمال کا بھانا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ ان کے چہرے کھلے ہوں اور آدمی ان کو دیکھ سکتا ہو (احکام القرآن ۵ / ۱۷۳)۔
۶۔ چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کی تائید میں ایک بنیادی قرینے کے طور پر جمہور اہل علم ان معاشرتی وتمدنی اسباب کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو ان اعضا کو کھلا اور غیر مستور رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں اور خود شریعت نے بھی ان تمدنی ضروریات کی رعایت کی ہے۔ علامہ ابن عاشور نے قاضی ابوبکر ابن العربی سے اس کی وضاحت یوں نقل کی ہے:
والظّاهِرُ مِنَ الزِّينَةِ الخِلْقِيَّةِ ما في إخْفائِهِ مَشَقَّةٌ كالوَجْهِ والكَفَّيْنِ والقَدَمَيْنِ، وضِدُّها الخَفِيِّةُ مِثْلَ أعالِي السّاقَيْنِ والمِعْصَمَيْنِ والعَضُدَيْنِ والنَّحْرِ والأُذُنَيْنِ. والظّاهِرُ مِنَ الزِّينَةِ المُصْطَنَعَةِ ما في تَرْكِهِ حَرَجٌ عَلى المَرْأةِ مِن جانِبِ زَوْجِها وجانِبِ صُورَتِها بَيْنَ أتْرابِها، ولا تَسْهُلُ إزالَتُهُ عِنْدَ البَدْوِ أمامَ الرِّجالِ وإرْجاعُهُ عِنْدَ الخُلُوِّ في البَيْتِ، وكَذَالِكَ ما كانَ مَحَلُّ وضْعِهِ غَيْرَ مَأْمُورٍ بِسَتْرِهِ كالخَواتِيمِ بِخِلافِ القُرْطِ والدَّمالِجِ.(التحریر والتنویر ۱۸ / ۲۰۶)
’’خلقی زینت میں سے ظاہری زینت وہ ہے جس کو چھپانے میں مشقت ہو، جیسے چہرہ اور ہاتھ اور پاؤں۔ اس کے برعکس مخفی خلقی زینت کی مثال پنڈلیوں کے اوپر کے حصے، کلائیاں، بازو کا اوپر کا حصہ، سینے کا بالائی حصہ اور کان وغیرہ ہیں۔ مصنوعی زینت میں سے ظاہری زینت سے مراد ایسی زینت ہے جس کو ترک کر دینے کی وجہ سے عورت کو اس کے شوہر کی طرف سے یا اپنی ہم جولیوں کے درمیان بد صورت دکھائی دینے کی وجہ سے حرج لاحق ہوتا ہو اور مردوں کے سامنے باہر جاتے ہوئے اسے اتار دینا اور گھر واپس آنے پر دوبارہ لگا لینا آسان نہ ہو۔ اسی طرح جو زینت جسم کے ایسے حصوں پر کی جائے جن کے چھپانے کا حکم نہیں، جیسے انگوٹھی، وہ بھی ظاہری زینت میں شامل ہے۔ تاہم کانوں کی بالیاں اور بازو بند اس کا حصہ نہیں، (بلکہ وہ مخفی زینت کا حصہ ہیں)۔‘‘
زمخشری لکھتے ہیں:
إن قلت: لم سومح مطلقًا في الزينة الظاهرة؟ قلت: لأن سترها فيه حرج، فإن المرأة لا تجد بدًّا من مزاولة الأشياء بيديها، ومن الحاجة إلى كشف وجهها، خصوصًا في الشهادة والمحاكمة والنكاح، وتضطر إلى المشي في الطرقات وظهور قدميها، وخاصة الفقيرات منهنّ، وهذا معنى قوله: ﴿اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ يعنى إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره والأصل فيه الظهور.(الکشاف ۴ /۲۰۹، ۲۹۱)
’’اگر تم یہ پوچھو کہ ظاہری زینت میں کیوں رخصت دی گئی ہے؟ تو میں جواب میں کہوں گا کہ کیونکہ اس کو چھپانے سے تنگی لاحق ہوتی ہے، کیونکہ عورت کو بہرحال اپنے ہاتھوں سے چیزوں کا لین دین کرنا ہوتا ہے اور چہرے کو کھولنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، خاص طور پر گواہی دیتے ہوئے اور عدالت میں محاکمہ کرتے ہوئے اور نکاح کے وقت۔ اسی طرح راستوں میں چلنا اور پاؤں کو ننگا رکھنا بھی اس کی مجبوری ہے، خاص طور پر جو آسودہ حال نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے یہی مراد ہے، یعنی وہ اعضا جن کو کھلا رکھنا انسانوں کا عام معمول ہے اور فطری طور پر وہ کھلے ہوتے ہیں اور ان کو کھلا ہی ہونا چاہیے۔“
امام رازی نے قفال سے نقل کیا ہے:
مَعْنى الآيَةِ إلّا ما يُظْهِرُهُ الإنْسانُ في العادَةِ الجارِيَةِ، وذَالِكَ في النِّساءِ الوجه والكَفّانِ، وفي الرَّجُلِ الأطْرافُ مِنَ الوجه واليَدَيْنِ والرِّجْلَيْنِ، فَأُمِرُوا بِسَتْرِ ما لا تُؤَدِّي الضَّرُورَةُ إلى كَشْفِهِ ورُخِّصَ لَهم في كَشْفِ ما اعْتِيدَ كَشْفُهُ وأدَّتِ الضَّرُورَةُ إلى إظْهارِهِ إذْ كانَتْ شَرائِعُ الإسْلامِ حَنِيفِيَّةً سَهْلَةً سَمْحَةً. (مفاتیح الغیب ۲۳ / ۲۰۶- ۲۰۷)
’’آیت کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے عام معمول میں جن اعضا کو کھلا رکھتا ہے، وہ اس حکم میں داخل نہیں۔ خواتین میں یہ اعضا چہرہ اور ہاتھ ہوتے ہیں، جب کہ مردوں میں چہرہ اور ہاتھ اور پاؤں۔ چنانچہ لوگوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اعضا چھپا کر رکھیں جن کو کھولنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، جب کہ جن کو کھلا رکھنا انسانوں کا عام معمول ہے اور ان کو کھلا رکھنے کی ضرورت بھی رہتی ہے، ان کو کھلا رکھنے کی رخصت دے دی گئی، کیونکہ اسلام کے احکام آسانی، سہولت اور نرمی پر مبنی ہیں۔“
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
وإنما رخص في هذا القدر للمرأة أن تبديه من بدنها لأن المرأة لا تجد بدًا من مزاولة الأشياء بيديها ومن الحاجة إلى كشف وجهها خصوصًا في الشهادة والمحاكمة والنكاح وتضطر إلى المشي في الطرقات وظهور قدميها وخاصة الفقيرات منهن.(فتح البیان ۹ / ۲۰۶)
’’عورت کو زینت کی اتنی مقدار ظاہر کرنے کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ عورت کو لامحالہ اپنے ہاتھوں سے چیزوں کا لین دین کرنا ہوتا ہے اور چہرے کو کھولنے کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے، خاص طور پر گواہی دیتے ہوئے اور عدالت میں محاکمہ کرتے ہوئے اور نکاح کے وقت۔ اسی طرح راستوں میں چلنا اور پاؤں کو ننگا رکھنا بھی اس کی مجبوری ہے، خاص طور پر جو آسودہ حال نہ ہوں۔ “
جمہور اہل علم کی طرف سے اس قیاس کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ چہرہ چونکہ حسن وجمال کا مرکز ہے اور اس کو کھلا رکھنا فتنے کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے عورت کے لیے چہرے کو چھپانا لازم ہونا چاہیے۔ امام سرخسی اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ فتنے کا خدشہ کلیتاً تو کسی بھی صورت میں ختم نہیں ہو سکتا، اور مثال کے طو رپر عورت کے لباس کو دیکھنے سے بھی مرد کے دل میں فتنہ پیدا ہو جانا عین ممکن ہے، اس لیے خوف فتنہ جیسے لباس کے معاملے میں معتبر نہیں، اسی طرح چہرے اور ہاتھوں کے متعلق بھی معتبر نہیں ہونا چاہیے اور اس کے بجاے روزمرہ زندگی میں خواتین کی ضروریات اور حاجات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ سرخسی نے اس پہلو سے حنفی فقہا کے نقطۂ نظر کے توسع کو خاص طور پر نمایاں کیا ہے۔ لکھتےہیں:
وَخَوْفُ الْفِتْنَةِ قَدْ يَكُونُ بِالنَّظَرِ إلَى ثِيَابِهَا أَيْضًا .... ثُمَّ لَا شَكَّ أَنَّهُ يُبَاحُ النَّظَرُ إلَى ثِيَابِهَا وَلَا يُعْتَبَرُ خَوْفُ الْفِتْنَةِ فِي ذَالِكَ فَكَذَالِكَ إلَى وَجْهِهَا وَكَفِّهَا وَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يُبَاحُ النَّظَرُ إلَى قَدَمِهَا أَيْضًا وَهَكَذَا ذَكَرَ الطَّحَاوِيُّ لِأَنَّهَا كَمَا تُبْتَلَى بِإِبْدَاءِ وَجْهِهَا فِي الْمُعَامَلَةِ مَعَ الرِّجَالِ وَبِإِبْدَاءِ كَفِّهَا فِي الْأَخْذِ وَالْإِعْطَاءِ تُبْتَلَى بِإِبْدَاءِ قَدَمَيْهَا إذَا مَشَتْ حَافِيَةً أَوْ مُتَنَعِّلَةً وَرُبَّمَا لَا تَجِدُ الْخُفَّ فِي كُلِّ وَقْتٍ وَذُكِرَ فِي جَامِعِ الْبَرَامِكَةِ عَنْ أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ يُبَاحُ النَّظَرُ إلَى ذِرَاعَيْهَا أَيْضًا لِأَنَّهَا فِي الْخَبَز وَغَسْلِ الثِّيَابِ تُبْتَلَى بِإِبْدَاءِ ذِرَاعَيْهَا أَيْضًا قِيلَ: وَكَذَالِكَ يُبَاحُ النَّظَرُ إلَى ثَنَايَاهَا أَيْضًا لِأَنَّ ذَالِكَ يَبْدُو مِنْهَا فِي التَّحَدُّثِ مَعَ الرِّجَالِ.(المبسوط ۱۰ / ۱۵۳)
’’خوف فتنہ تو عورت کے کپڑوں کو دیکھنے میں بھی ہو سکتا ہے، حالاں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے کپڑوں کو دیکھنا مباح ہے اور اس میں خوف فتنہ کا اعتبار نہیں۔ اسی طرح اس کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنے میں بھی خوف فتنہ کا اعتبار نہیں ہے۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ عورت کے پاؤں کو دیکھنا بھی مباح ہے اور طحاوی نے بھی یہی بات ذکر کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے عورت کو مردوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے چہرہ کھولنے کی اور لین دین کرتے ہوئے ہاتھ کو ننگا کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اسی طرح جب وہ ننگے پاؤں یا جوتے پہن کر چل رہی ہو تو پاؤں کو ننگا کرنے کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اس کو ہر وقت موزے دستیاب ہوں۔ ’’جامع البرامکہ‘‘ میں امام ابویوسف سے نقل کیا گیا ہے کہ عورت کے بازو کے اگلے حصے کو دیکھنا بھی مباح ہے، کیونکہ روٹیاں پکاتے ہوئے یا کپڑے دھوتے ہوئے عورت کو بازو کا اگلا حصہ کھولنے کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ عورت کے دانتوں کو دیکھنا بھی مباح ہے، کیونکہ جب وہ مردوں سے بات چیت کرے گی تو اس کے دانت بھی دکھائی دیں گے۔“
جمہور اہل علم کے استدلال کے مذکورہ پہلوؤں کو حسب ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کے الفاظ ایسے مصداق پر دلالت کرتے ہیں جس کا کھلا اور ظاہر ہونا واضح ہے۔ چنانچہ اس کا مصداق وہی اعضا، یعنی چہرہ اور ہاتھ پاؤں ہیں جنھیں انسانی تمدن میں مرد اور عورتیں عموماً کھلا رکھتے ہیں۔
۲۔ شریعت کا عرف بھی یہی بتاتا ہے کہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کو کھلا ہونا چاہیے، کیونکہ نماز اور حالت احرام میں خواتین ان اعضا کو کھلا رکھتی ہیں، چنانچہ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کو بھی شریعت کے اسی معروف پر محمول کرنا چاہیے۔
۳۔ اس آیت میں جسمانی اعضا میں سے سر کو اور سینے کے گریبان کو ڈھانکنے کی ہدایت بیان کی گئی ہے، جب کہ سر اور سینے کے درمیان چہرے سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ یہ اسلوب بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جن اعضا کو خواتین عادتاً کھلا رکھتی ہیں، ان کو حالت زینت میں بھی چھپانے کی پابندی شریعت عائد نہیں کرنا چاہتی۔
۴۔ بعض مرسل روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھنے کی اجازت دی۔
۵۔ متعدد مستند احادیث کے علاوہ قرآن مجید سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ جس خاتون سے نکاح کا ارادہ ہو، اس کو نکاح سے پہلے دیکھ لینا پسندیدہ ہے اور اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب خواتین کا چہرہ اور ہاتھ پاؤں کھلے ہوں اور نکاح کے خواہش مند مرد اِن کو دیکھ سکیں۔
۶۔ شریعت کا مزاج آسانی اور سہولت پر مبنی ہے، جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ روز مرہ زندگی کے امور کو انجام دیتے ہوئے جن جسمانی اعضا کو کھلا رکھنا انسانوں کا عام معمول ہے اور ان کو کھلا رکھنے کی ضرورت بھی رہتی ہے، خواتین کو بھی انھیں کھلا رکھنے کی رخصت دی جائے۔
مذکورہ تمام استدلالات کا حاصل یہ ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک شریعت نے اصولی طور پر خواتین کے لیے غیر محرم مردوں سے پردے کو لازم نہیں ٹھیرایا اور گھر کے اندر یا گھر سے باہر، خواتین ضروری حدود و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر محرم مردوں کے ساتھ روبرو گفتگو اور معاملہ کر سکتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حسب موقع انھیں اپنا چہرہ اور ہاتھ پاؤں کھولنا پڑے جس پر اجنبی مردوں کی نگاہ پڑتی ہو تو سہولت اور یسر کے پہلو سے شریعت نے اس کو ممنوع نہیں ٹھیرایا۔ البتہ مردوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شہوانی جذبے کے ساتھ خواتین کے ان کھلے اعضا کو نہ دیکھیں اور ایسی کیفیت میں خواتین کی طرف دیکھنے سے اجتناب کریں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] اس کی وضاحت گذشتہ سطور میں مولانا اصلاحی اور مولانا مودودی کے حوالے سے گزر چکی ہے۔