مرحلۂ اتمام حجت
یٰس - ص
۳۶ –– ۳۸
یٰس
۳۶
یہ ایک منفردسورہ ہے جس سے اِس باب میں اتمام حجت کی ابتدا ہو رہی ہے۔ اِس کے اور پچھلی دونوں سورتوں کے مضمون میں اِس کے سوا کوئی خاص فرق نہیں ہے کہ اسلوب بیان میں تنبیہ و تہدید، ملامت اور زجر و توبیخ کی شدت نمایاں ہوگئی ہے۔ اِس لحاظ سے یہ اگلی دونوں سورتوں کے لیے گویا اُس مضمون کی تمہید ہے جو اُن میں پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔
اِس کے مخاطب قریش کے متکبرین ہیں اور اِس کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں نازل ہوئی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰسٓ ١ﶔ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ ٢ﶫ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ٣ﶫ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ٤ﶠ تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ ٥ﶫ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا٘ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ ٦ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰ٘ي اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ٧ اِنَّا جَعَلْنَا فِيْ٘ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِيَ اِلَي الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ ٨ وَجَعَلْنَا مِنْۣ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ ٩ وَسَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ١٠ اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِﵐ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّاَجْرٍ كَرِيْمٍ ١١ اِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتٰي وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْﵫ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْ٘ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ ١٢
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
یہ سورۂ ’يٰسٓ‘[1]ہے۔ یہ سراسر حکمت قرآن گواہ ہے کہ یقیناً تم رسولوں میں سے ہو،[2] ایک نہایت سیدھی راہ پر۔[3] یہ پورے اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتارا گیا ہے جو زبردست ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔[4] اِس لیے اتارا گیا ہے کہ تم اُن لوگوں کو خبردار کرو جن کے اگلوں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا، لہٰذا غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔[5] اُن میں سے بہتوں پر ہماری بات پوری ہو چکی ہے،[6] سو وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (وہ ایسے متکبر ہیں کہ) اُن کی گردنوں میں ہم نے گویا طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں، سو اُن کے سر اٹھے رہ گئے ہیں۔[7] ہم نے اُن کے آگے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے اور اُن کے پیچھے بھی ایک دیوار کھڑی کر دی ہے۔ اِس طرح ہم نے اُن کو ڈھانک دیا ہے تو اُنھیں اب کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ اُن کے لیے برابر ہے، تم اُنھیں خبردار کرو یا نہ کرو، وہ نہیں مانیں گے۔ تم تو، (اے پیغمبر)، صرف اُنھی کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت پر چلیں اور بن دیکھے خداے رحمٰن سے ڈریں۔ سو اِس طرح کے لوگوں کو مغفرت کی اور (خدا کی طرف سے) با عزت صلے کی بشارت دو۔ یقیناً ہم ہی (ایک دن) مردوں کو زندہ کریں گے اور (اُن کے حساب میں بھی ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اِس لیے کہ) اُنھوں نے جو کچھ آگے بھیجا اور جو کچھ اُنھوں نے پیچھے چھوڑا ہے، وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں اور ہم نے ہر چیز ایک واضح کتاب میں درج کر لی ہے۔[8] ۱- ۱۲
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ ١٣ﶔ اِذْ اَرْسَلْنَا٘ اِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْ٘ا اِنَّا٘ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ ١٤ قَالُوْا مَا٘ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاﶈ وَمَا٘ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍﶈ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ ١٥
اِنھیں بستی والوں[9] کی مثال سناؤ، جب کہ اُن کے پاس رسول آئے تھے۔[10] (اِس طرح کہ ) جب ہم نے دو رسول اُن کے پاس بھیجے[11] تواُنھوں نے دونوں کو جھٹلا دیا۔ پھر ہم نے ایک تیسرے شخص[12] سے اُن کی تائید کی تو اُنھوں نے لوگوں سے کہا: کچھ شک نہیں کہ ہم تمھارے پاس بھیجے ہوئے آئے ہیں۔[13] لوگوں نے جواب دیا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے آدمی ہو اور خداے رحمٰن نے کوئی چیز نہیں اتاری ہے، تم محض جھوٹ بول رہے ہو۔ ۱۳- ۱۵
قَالُوْا رَبُّنَا يَعْلَمُ اِنَّا٘ اِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُوْنَ ١٦ وَمَا عَلَيْنَا٘ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ ١٧ قَالُوْ٘ا اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْﵐ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهُوْا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٨ قَالُوْا طَآئِرُكُمْ مَّعَكُمْﵧ اَئِنْ ذُكِّرْتُمْﵧ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ١٩
رسولوں نے کہا: ہمارا رب گواہ ہے کہ یقیناً ہم تمھارے پاس بھیجے ہوئے آئے ہیں اور ہمارے اوپر اِس کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ صاف صاف پہنچا دیں۔[14] لوگوں نے کہا: ہم تو تمھیں منحوس سمجھتے ہیں۔[15] اگر تم لوگ باز نہ آئے تو ہم تمھیں سنگ سار کر چھوڑیں گے اور ہماری طرف سے ضرور تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے۔ رسولوں نے جواب دیا: تمھاری نحوست تمھارے ساتھ ہے۔[16] کیا اتنی بات پر کہ تمھیں یاددہانی کی گئی ہے؟ نہیں، بلکہ تم حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔۱۶- ۱۹
وَجَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ رَجُلٌ يَّسْعٰيﵟ قَالَ يٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِيْنَ ٢٠ﶫ اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔلُكُمْ اَجْرًا وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ٢١ وَمَا لِيَ لَا٘ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ٢٢ ءَاَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِهٖ٘ اٰلِهَةً اِنْ يُّرِدْنِ الرَّحْمٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔا وَّلَا يُنْقِذُوْنِ ٢٣ﶔ اِنِّيْ٘ اِذًا لَّفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٢٤ اِنِّيْ٘ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِ ٢٥ﶠ قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَﵧ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ ٢٦ﶫ بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ ٢٧
(یہی موقع تھا، جب خدا نے تیسرے سے تائید فرمائی ۔اِس طرح کہ) شہر کے پرلے سرے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا[17] (اور آ کر)کہنے لگا کہ میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی کرو۔ اُن لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتے اور راہ راست پر بھی ہیں۔ (تم مجھے بھی برگشتہ کرنا چاہتے ہو؟ مگر میں تم سے پوچھتا ہوں کہ) میں اُس ہستی کی بندگی کیوں نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے؟ کیا میں اُس کے سوا دوسروں کو معبود بنا لوں؟ اگر خداے رحمٰن مجھے کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو اُن کی سفارش میرے کچھ بھی کام نہ آئے گی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں گے۔ ایسا کروں توکچھ شک نہیں کہ پھر تو میں کھلی گم راہی میں جا پڑوں گا۔ میں تمھارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں تو تم بھی میری بات سنو[18] ـــــ ارشاد ہوا: جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اُس نے (یہ بشارت سنی تو) کہا: یہ جو میرے پروردگار نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے، اے کاش، میری قوم اِسے جان لیتی! [19] ۲۰- ۲۷
وَمَا٘ اَنْزَلْنَا عَلٰي قَوْمِهٖ مِنْۣ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِيْنَ ٢٨ اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ ٢٩ يٰحَسْرَةً عَلَي الْعِبَادِﴳ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ٣٠ اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ٣١ وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ ٣٢
اُس کی قوم پر اُس کے بعد[20] ہم نے آسمان سے کوئی فوج نہیں اتاری اور (اِس طرح کے کاموں کے لیے) ہم اتارا بھی نہیں کرتے۔ وہ ایک ڈانٹ ہی تھی اور دفعتاًوہ بجھ کر رہ گئے[21] ـــــ افسوس بندوں پر، اُن کے پاس جو رسول بھی آیا، وہ اُس کا مذاق ہی اڑاتے رہے ہیں۔ (تمھارے مخاطبین بھی، اے پیغمبر، اِس وقت یہی کر رہے ہیں)۔ کیا اِنھوں نے دیکھا نہیں کہ اِن سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیاکہ اِن کے لوگ، اب اِن کی طرف کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے اور کچھ شک نہیں کہ (ایک دن) یہ سب ہمارے ہی حضور میں اکٹھے حاضر کیے جائیں گے۔[22] ۲۸- ۳۲
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُﵗ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ٣٣ وَجَعَلْنَا فِيْهَا جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ وَّفَجَّرْنَا فِيْهَا مِنَ الْعُيُوْنِ ٣٤ﶫ لِيَاْكُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖﶈ وَمَا عَمِلَتْهُ اَيْدِيْهِمْﵧ اَفَلَا يَشْكُرُوْنَ ٣٥
(یہ نشانیاں مانگتے ہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن کے لیے مردہ زمین ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ ہم نے (آسمان سے پانی برسا کر) اُس کو زندہ کیا اور اُس سے غلہ اگایا کہ یہ اُس میں سے کھاتے ہیں۔ اور ہم نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ اُس میں لگائے اور اُس میں چشمے نکال کر بہائے کہ یہ اُس کے پھل کھائیں[23] ـــــ یہ اِن کے ہاتھوں نے نہیں بنائے ہیں۔ پھر کیا شکر نہیں کرتے! ۳۳- ۳۵
سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۣبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ ٣٦
پاک ہے وہ ذات[24] جس نے سب جوڑے بنائے، اُن چیزوں کے بھی جنھیں زمین اگاتی ہے اور خود اِن لوگوں کے اندر سے بھی اور اُن چیزوں کے بھی جنھیں یہ جانتے نہیں ہیں۔[25] ۳۶
وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الَّيْلُﵗ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَاِذَا هُمْ مُّظْلِمُوْنَ ٣٧ﶫ وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَاﵧ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ٣٨ﶠ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰي عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ ٣٩ لَا الشَّمْسُ يَنْۣبَغِيْ لَهَا٘ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِﵧ وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ٤٠
اور اِن کے لیے رات بھی بہت بڑی نشانی ہے۔ ہم اُس سے دن کو کھینچ کر نکال لیتے ہیں تو دیکھتے دیکھتے وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ سورج (اِسی مقصد سے)اپنے ایک مقرر راستے پر چلتا ہے۔ یہ خداے عزیز و علیم کا باندھا ہوا اندازہ ہے۔ اور چاند کے لیے (اِسی کے پیش نظر) ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں، یہاں تک کہ (اِن سے گزرتا ہوا) وہ ایک مرتبہ پھر کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہو کے رہ جاتا ہے۔ نہ سورج کی مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ سب ایک ایک مدار میں گردش کر رہے ہیں۔[26] ۳۷- ۴۰
وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ٤١ﶫ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ ٤٢ وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُوْنَ ٤٣ﶫ اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰي حِيْنٍ ٤٤
اور اِن کے لیے ایک بہت بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ اِن کی نسل کو[27] ہم نے اِن سے بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھا رکھا ہے اور کشتی کے مانند اِن کے لیے (خشکی میں سفر کی) چیزیں بھی ہم نے پیدا کر دی ہیں[28] جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو اِن کو غرق کر دیں، پھر نہ کوئی اِن کی فریاد سننے والا ہو اور نہ یہ بچائے جا سکیں۔ مگر یہ ہماری رحمت ہے اور اِن کو ایک معین وقت تک بہرہ مند کرنا (منظور) ہے۔ ۴۱- ۴۴
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٤٥ وَمَا تَاْتِيْهِمْ مِّنْ اٰيَةٍ مِّنْ اٰيٰتِ رَبِّهِمْ اِلَّا كَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِيْنَ ٤٦ وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُﶈ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطْعَمَهٗ٘ﵲ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٤٧
اِنھیں جب متنبہ کیا جاتا ہے کہ تمھارے آگے اور تمھارے پیچھے جو (زمین و آسمان تمھیں گھیرے ہوئے)[29] ہیں، اُن سے ڈرو،[30] اِس لیے کہ تم پر رحم کیا جائے تو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔[31] اور اِن کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی اِن کے پاس آتی ہے، اُس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔ اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق خدا نے تمھیں بخشا ہے، اُس میں سے (اُس کی راہ میں ) خرچ کرو تو یہ لوگ جنھوں نے (پیغمبر کا) انکار کر دیا ہے، ماننے والوں سے کہتے ہیں کہ کیا ہم اُن لوگوں کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم لوگ تو صریح گم راہی میں پڑے ہو۔[32] ۴۵- ۴۷
وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰي هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٤٨ مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُوْنَ ٤٩ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ تَوْصِيَةً وَّلَا٘ اِلٰ٘ي اَهْلِهِمْ يَرْجِعُوْنَ ٥٠
پوچھتے ہیں کہ اچھا، (ہم پر عذاب کی) یہ دھمکی کب پوری ہو گی، اگر تم لوگ سچے ہو؟ یہ لوگ ایک ڈانٹ ہی کے منتظر ہیں جو اِنھیں آ پکڑے گی[33] اور یہ جھگڑتے رہ جائیں گے۔ پھر نہ کوئی وصیت کر پائیں گے اور نہ اپنے لوگوں کی طرف لوٹ سکیں گے۔ ۴۸- ۵۰
[1]۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کردیا ہے۔
[2]۔ اِس لیے کہ ایسا حکیمانہ اور معجز کلام صرف خدا کا رسول ہی پیش کر سکتا ہے جس میں خدا بولتا ہوا نظر آئے، جو اُن حقائق کو واضح کرے جن کا واضح ہونا انسانیت کی شدید ضرورت ہے اور وہ کسی انسان کے کلام سے کبھی واضح نہیں ہوئے، جو اُن معاملات میں رہنمائی کرے جن میں رہنمائی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ایک ایسا کلام جس کے حق میں وجدان گواہی دے، علم و عقل کے مسلمات جس کی تصدیق کریں، جو ویران دلوں کو اِس طرح سیراب کر دے، جس طرح مردہ زمین کو بارش سیراب کرتی ہے، جس میں وہی شان، وہی حسن بیان، وہی فصاحت و بلاغت اور وہی تاثیر ہو جو قرآن کا پڑھنے والا، اگراُس کی زبان سے واقف ہو تو اُس کے لفظ لفظ میں محسوس کرتا ہے۔
[3]۔ اصل الفاظ ہیں: ’عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ‘۔ یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے جو حرف عطف کے بغیر آگئی ہے، اِس لیے کہ قرآن کی شہادت یہاں بہ یک وقت دونوں باتوں پر پیش کی گئی ہے، اِس پر بھی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اِس پر بھی کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اِسے ملحوظ رکھا ہے۔
[4]۔ آیت میں لفظ ’تَنْزِيْل‘ کا نصب فعل محذوف سے ہے اور یہ جس ہستی کی طرف سے ہے، اُس کی دو صفتوں کا حوالہ دیا گیا ہے: ایک ’عَزِيْز‘، دوسری ’رَحِيْم‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِن میں ایک صفت انذار کے لیے ہے اور دوسری بشارت کے لیے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اِس کی تکذیب کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں، بلکہ ایک عزیز و مقتدر کا فرمان واجب الاذعان ہے جو سرکشی کرنے والوں کو لازماً سزا دے گا۔ ساتھ ہی وہ رحیم بھی ہے اور اپنی اِس رحمت ہی کے لیے اُس نے یہ کتاب اتاری ہے تو جو اللہ کے بندے اِس قرآن کی قدر کریں گے، اُن کو وہ اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے گا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۰۱)
[5]۔ یہ اشارہ بنی اسمٰعیل کی طرف ہے جن کے پاس پچھلے ڈھائی ہزار سال میں کوئی رسول نہیں آیا تھا۔
[6]۔ یعنی وہ بات جو ہم نے ابلیس کے جواب میں کہی تھی کہ جو تیری پیروی کریں گے، خواہ جن ہوں یا انسان، اُن سے میں جہنم کو بھر دوں گا۔ قرآن میں نقل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اُس وقت فرمائی تھی، جب ابلیس نے یہ دھمکی دی تھی کہ میں آدم کے بیٹوں کی اکثریت کو گم راہ کرکے چھوڑوں گا۔
[7]۔ یعنی گردنیں ایسی تنی ہوئی ہیں کہ اوپر نیچے اور دائیں بائیں کوئی حقیقت دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ مستکبرین کی تصویر ہے۔ اِسی طرح کے لوگ ہیں جو اعتراف حق کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیے جاتے ہیں اور یہ اُس سنت الہٰی کے مطابق ہوتا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر کی گئی ہے۔ اِن کی اِس حالت کو اللہ تعالیٰ نے اِسی بنا پر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔
[8]۔ یہ تہدید کے لیے فرمایا ہے کہ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اتنی وسیع دنیا اور اتنے بے شمار انسانوں کے اعمال کا حساب کون کرے گا اور کس طرح کرے گا؟
[9]۔ قرآن نے بستی کا نام نہیں لیا، لیکن آگے کے اشارات دلیل ہیں کہ اِس سے مراد مصر ہے جس کی سرگذشت قریش کی عبرت پذیری کے لیے قرآن میں متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر’’ تدبرقرآن‘‘میں اِن اشارات کی تفصیل کر دی ہے۔
[10]۔ یعنی اُسی طرح، جیسے اب اِن کی طرف خدا کا رسول آیا ہے۔
[11]۔ اِس سے ، ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں۔ اِن کے علاوہ انبیا و رسل کی معلوم تاریخ میں دو رسول بہ یک وقت کسی قوم کی طرف نہیں بھیجے گئے۔
[12]۔ اِن کا ذکر جس طریقے سے یہاں ہوا ہے، اُس سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ رسول نہیں تھے، بلکہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح رسولوں کے ایک خاص مددگار کی حیثیت سے اُن کی حمایت میں کھڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ جس طرح وہ ’ثاني اثنين‘ تھے، اُسی طرح یہ بھی ’ثالث ثلٰثة‘ تھے۔ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی سرگذشت انذار میں یہ حیثیت صرف مصر کے شاہی خاندان کے اُس مرد جلیل کو حاصل ہے جس کی ایک بے نظیر تقریرسورۂ مومن (۴۰) کی آیات ۲۶- ۴۵ میں نقل ہوئی ہے ۔قرآن نے اِن کے لیے ’عَزَّزْنَا‘ کا جو لفظ استعمال کیا ہے، اُس کی صحیح کیفیت اُسی تقریر سے واضح ہوتی ہے اور اُسی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کا مرتبہ و مقام کیا تھا اور اِنھوں نے مصر کے دارالامر ا میں فرعون کے سامنے کس نازک موقع پر، کس جرأ ت اور بے خوفی اور کیسے پر زور دلائل کے ساتھ حق کی حمایت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انبیا و صدیقین کی تاریخ کے سوا اِس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔ اِن کا یہی وہ شان دار اور زندۂ جاوید کارنامہ ہے جس کی بنا پر اِن کا ذکر یہاں ’فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ‘کے الفاظ سے ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ اِس معنی میں تو رسول نہیں تھے، جس معنی میں حضرت موسیٰ و حضرت ہارون رسول تھے، لیکن اُن کے سب سے زیادہ طاقت ور، سب سے زیادہ جاں نثار اور سب سے بڑے وفادار اور راست باز ساتھی ضرور تھے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِن کو تین کے تیسرے کا درجہ دیا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۱۳)
[13]۔ یہ ’علیٰ سبیل التغلیب‘ فرمایا ہے۔ گویا حق کی تائید میں جس مقام پر وہ مرد حق کھڑا ہو گیاتھا، اُس کے بعد اگر اُسے بھی خدا کا بھیجا ہوا کہا جائے تو یہ کچھ غلط نہ ہو گا۔
[14]۔ مطلب یہ ہے کہ اِس کے بعد ہم تو اپنے فرض سے سبک دوش ہو جائیں گے۔ اُس کو ماننا یا نہ ماننا، یہ تمھاری ذمہ داری ہے اور اُس کے نتائج بھی تمھیں ہی بھگتنا ہوں گے۔
[15]۔ سورۂ اعراف (۷) میں وضاحت ہے کہ مصر کے لوگوں نے یہ بات اُس وقت کہی، جب موسیٰ علیہ السلام کی دعوت برپا ہو جانے کے بعداُنھیں پے در پے آفتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ آفتیں اُن کی تنبیہ کے لیے نازل کی گئی تھیں، مگر اُنھوں نے اِن کو حضرت موسیٰ اور اُن کے ساتھیوں کی نحوست قرار دے دیا۔
[16]۔ یعنی جو کچھ پیش آرہا ہے، تمھارے اپنے ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی نحوست ہے تو وہ تمھاری اپنی ہے جو تمھیں لاحق ہو گئی ہے۔ رسولوں کا یہ جواب مجانست کے اسلوب پر ہے جس کی متعدد مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔
[17]۔ اوپر جس تین کے تیسرے کا ذکر ہوا ہے، موسیٰ علیہ السلام کی تائید کے لیے یہ اُس کی سرگرمی کی تصویر ہے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا گھر شہر کے کسی بعید کنارے پر تھا، مگر اُنھیں جب معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ کو خطرہ درپیش ہے تو وہ بھاگ کر وہاں پہنچے اور شاہی خاندان کا ایک فرد ہونے کے باوجود اپنے تمام مفادات، بلکہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال کر اُن کی تائید اورحق کی شہادت کے لیے کھڑے ہو گئے۔
[18]۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے اِس راہ سے ہٹانے کی کوشش میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجاے میری بات پر دھیان کرو اور وہ بات تسلیم کر لو جس کو تم بھی جانتے ہو کہ حق ہے۔
[19]۔ یہ بشارت غالباً اُن کی وفات کے وقت اُنھیں دی گئی۔ آگے ’مِنْۣ بَعْدِهٖ ‘کے الفاظ سے اِس کی تائید ہوتی ہے۔
[20]۔ یعنی اُس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد۔
[21]۔ یعنی آسمان سے فرشتوں کی کوئی فوج نہیں اتارنی پڑی، بلکہ ایک ڈانٹ ہی کافی ہوگئی۔ یہ اُس عذاب کا حوالہ ہے جو فرعون اور اُس کے اعیان و اکابر کی غرقابی کے بعد اہل مصر پر آیا۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۳۷ میں قرآن نے اِس کا ذکر نہایت واضح الفاظ میں کیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... ہرچند یہ عذاب اصلاً حضرت موسیٰ و حضرت ہارون کی تکذیب کے نتیجے میں آیا، لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اُس بندۂ مومن کی تکذیب کے نتیجے کی حیثیت سے ذکر فرمایا ہے۔ اِس سے رسول کے ساتھیوں کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اُن کا یہ درجہ ہوتا ہے کہ اُن کی تکذیب رسول کی تکذیب کے ہم معنی بن جاتی ہے اور اُس کا وہی انجام ہوتا ہے جو رسول کی تکذیب کا ہوتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۱۸)
[22]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وَ اِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ‘۔ اِن میں ’اِنْ‘ درحقیقت ’اِنَّ‘ ہے جس میں تخفیف ہو گئی ہے اور ’ل‘کے بجاے ’لَمَّا‘ اشباع کے اصول پر محض آہنگ کو برقرار رکھنے کے لیے آگیا ہے۔
[23]۔ یعنی زمین کے پھل۔ آیت میں اِس کے لیے ضمیر مذکر ’علیٰ سبیل التاویل‘آئی ہے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ اِس سے ’بلد طيب‘مراد ہے۔ اِس لیے کہ یہاں زمین کی بار آوری کا ذکر مقصود ہے اور یہ زرخیز زمین ہی سے متوقع ہو سکتی ہے۔
[24]۔ یعنی اِس بات سے پاک کہ اُس کا کوئی شریک و سہیم ہو یا اُس کے بارے میں یہ خیال کیا جائے کہ اُس نے یہ دنیا بغیر کسی مقصد کے بنا دی ہے۔
[25]۔ چنانچہ دیکھتے ہو کہ اِس تنوع اور گونا گونی کے باوجود اِن جوڑوں کے اندر مقصد کی کیسی ہم آہنگی اور توافق کی کیسی سازگاری ہے۔ یہ اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہے کہ اِس کائنات میں ایک ہی خداے لاشریک کا ارادہ کارفرما ہے، اِس میں کسی دوسرے کے لیے دخل اندازی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
[26]۔ اور اِس طرح گواہی دے رہے ہیں کہ اِن کے پیچھے ایک قاہر و مقتدر اور علیم و حکیم ہستی ہے جس نے ہر چیز کو اپنے بنائے ہوئے نقشے اور اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق کام میں لگا رکھا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...یہ اِس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ اِس کائنات کی ہر چیز کی باگ ایک ہی خداے قدیر و علیم کے ہاتھ میں ہے اور وہی تنہا ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔ اگر اُس کے سوا کسی اور کا بھی اِس میں کوئی دخل ہوتا تو یہ دنیا اپنے اضداد کے تصادم میں تباہ ہو جاتی۔ خاص طور پر یہ حقیقت تو بالکل نمایاں ہے کہ جو چیزیں جتنی ہی زیادہ نمایاں ہیں اور جن کے نمایاں ہونے ہی کی بنا پر قوموں نے اُن کو معبود مان کر اُن کی پرستش کی، وہ اپنے وجود ہی سے یہ اعلان کر رہی ہیں کہ وہ سب سے زیادہ مسخر و محکوم ہیں، مجال نہیں ہے کہ وہ اپنے دائرۂ کار سے ایک انچ بھی اِدھر یا اُدھر سرک سکیں۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۲۶)
[27]۔ یعنی اِن کے ابناے نوع کو۔ اِس سے بنی آدم مراد ہیں۔
[28]۔ یعنی گھوڑے اور اونٹ وغیرہ۔ اِس زمانے میں جو نئی سواریاں ایجاد ہوئی ہیں، اُن کو بھی اِسی حکم میں سمجھیے۔
[29]۔ اصل میں یہ الفاظ محذوف ہیں۔ سورۂ سبا (۳۴) کی آیت ۹ میں قرآن نے اِنھیں کھول دیا ہے۔
[30]۔ اِس لیے کہ زمین تمھارے سمیت کہیں دھنسا نہ دی جائے اور آسمان سے تم پر ٹکڑے نہ گرا دیے جائیں۔
[31]۔ یہ ’اِذَا‘ کا جواب ہے جو آیت میں بربناے قرینہ حذف کر دیاگیا ہے۔
[32]۔ اِس لیے کہ ہمیں ایک ایسا کام کرنے کے لیے کہہ رہے ہو جسے خود خدا نے کرنا پسند نہیں کیا، دراں حالیکہ اُس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ قرآن نے اِس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اِس لیے کہ اِس کی قساوت و سفاہت اِس قدر واضح ہے کہ اِس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں تھی۔ مقصود بس یہ دکھانا ہے کہ جب دل بگڑتے ہیں اور عقل الٹتی ہے تو آدمی کا حال یہ ہو جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۲۸)
[33]۔ مطلب یہ ہے کہ اِن کے اِس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے کسی بڑے اہتمام اور تیاریوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی ایک ڈانٹ ہی کافی ہو گی جس سے یہ تمام کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا اور جو جہاں ہے، وہیں سے دبوچ لیا جائے گا۔ یہ خدا کی رحمت و عنایت ہے کہ وہ اِنھیں مہلت دے رہا ہے۔ ایسی احمقانہ باتوں کے بجاے اِنھیں اِس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ