جواد احمد غامدی
زندگی ایک سفر ہے۔ اس سفر کی منزل معلوم ہے۔ ہم سب اسی منزل کی طرف کشاں کشاں گامزن ہیں۔ نوید یہی کہ منزل کی آسایش، سفر کے اعمال پر منحصر۔ سفر مشکل ہے۔ اس مسافرت میں اگر کسی کو کوئی شک ہو تو ڈھلتی عمر واضح پیغام ہاتھ میں لیے کھڑی ہے۔سو ہم سب اسی آسایش کو پانے اور خوشنودی مالک کی آرزو لیے پاؤں پاؤں بڑھتےچلے جاتے ہیں۔
ہر شخص اپنے کسب کا چور ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے جو کچھ وہ کر رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص مستعد رہتا ہے کہ وہ اپنی غلطی کو چھپا لے یا دبا دینے میں کامیاب ہو جائے۔ شایدیہی اس کا امتحان ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کب وہ غلطیوں کی تاویل کر رہا ہے اور کب بس ماننے سے انکار، یعنی انسان سب سے پہلے خود اپنے آپ سے منافق ہوتا ہے۔ توجیہ و تاویل کرکے یا عذر تراش کر وہ اپنی تسلی اور حوصلے کا سامان تو کر لیتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ خود کو اپنی توجیہ کا اسیر بنا چکا ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہی سچ ہوتا ہے جو وہ خود کو سمجھا اور بتا چکا ہوتا ہے۔
علم و ذہانت، اگر نعمت خالق ہیں تو امتحان مالک بھی۔ علم کیا ہے ؟ ’کہے‘،’ان کہے‘ کو جان لینا یا ڈھکے چھپے کو دریافت کر لینا۔ دونوں ہی صورتوں میں، موجود سے زیادہ جانا نہیں جا سکتا اور نہ ہی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ پھر بنیادی بات یہ ہے کہ کبھی ’کل‘ کا احاطہ ممکن نہیں۔ البتہ موجود کے دائرے میں رسائی کبھی کم، کبھی زیادہ ۔ اب جو زیادہ جان لے، اس پر ماننے اور عمل کی ذمہ داری بھی اسی لحاظ سے زیادہ۔ انسانی عقل بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دنیوی علم میں بھی ہم سب کا دائرۂ معلومات ایک جیسا ہوتا ہے، جب کہ علم، صلاحیت اور محنت کے اعتبار سے مختلف۔ نتیجۂ امتحان بھی ہمارے موجود دائرے میں زیادہ یا کم علم کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔
مالک و مختار کائنات نے بھی یہی بنیاد بنائی۔ وہاں بھی امتحان کل کو جاننے کا نہیں، بلکہ جانے ہوئے کو عمل میں لانے کا ہے۔ اب جو جتنا جان گیا، اتنا ہی عمل ترازو کو برابر رکھنے کا باعث بنے گا۔
اِسی جاننے کے نتائج کو اوروں تک منتقل کرنے کی ایک سعی غامدی صاحب اور ان کے رفقا نے برسوں پہلے ’’اشراق‘‘ کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کر کے شروع کی۔ بہت سے نشیب و فراز سے گزر کر آج بھی یہ رسالہ علم کی دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔
اس رسالے کے چلانے والوں میں جن ابتدائی لوگوں کا کردار رہا، ان میں سے ایک جناب طالب محسن صاحب ہیں۔ انھوں نے ہماری اس درخواست کہ وہ اس رسالے کی ادارت کی ذمہ داریوں کو سنبھال لیں اور پروردگار کے پیغام ــــــ جو کچھ ہم اسے سمجھ سکے ہیں ــــــ کو پہنچانے میں ہماری دوبارہ سے مدد کریں، کو قبول فرمایا۔ لہٰذا اب اس رسالے کی آیندہ ذمہ داریاں انھی کے سپرد کی جا رہی ہیں۔ ’’اشراق ہند‘‘ محترم ذکوان ندوی صاحب کی ادارت میں حسب معمول نکلتا رہے گا۔
مالک ہم پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں ہمیشہ سیدھی بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ـــــــــــــــــــــــــ