عابد، میرا چھوٹا بھائی کل[1] اِس جہاں سے کوچ کرکے اُس جہاں میں چلا گیا ہے، جہاں جانے کے لیے ہم سب کا ایک وقت لکھا ہوا ہے۔ ہم سب چار و ناچاراس منزل کی طرف کھنچے جار ہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں نہ آنے کے لیے کسی کی مرضی چلتی ہے اور نہ جانے کے لیے:
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
عجیب اتفاق ہے کہ چار برس قبل، اسی ماہ، یعنی اگست میں میرے بڑے بھائی زاہد عید الاضحیٰ کے دن فوت ہوگئے تھے۔[2]اگست ہی میں میری والدہ ماجدہ اور میری نانی جان بھی اللہ کو پیاری ہوئی تھیں۔ان سب نے یہاں سے جانے کا یہی مہینا چنا ہے کہ آسمان ان پر اشک افشانی کرے۔
عابد ایک مضبوط اعصاب کا جان دار شخص تھا، ٹالے نہ ٹلتا تھا: بلا کاضدی، ہر رکاوٹ کو شکست دے دینے والا۔ وہ اس وقت امریکا جانے میں کامیاب ہوا، جب ہمارے گھر میں پھوٹی کوڑی بھی اسے دینے کے لیے نہیں تھی۔ بے مایہ و بے نوا لڑکا محض اپنی جدوجہد سے قریباً ایک ناممکن کام کر پایا تھا ۔اعصابی قوت اتنی بلا کی تھی کہ موت سے چند دن پہلے تک جب کینسر کے ٹیومر اس کے بدن کو کھا چکے تھے، اور تکلیف جسم و جان کو توڑے دے رہی تھی، وہ بچوں ، بالخصوص اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے ، فل وقت کام کر رہا تھا۔
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اس کا کردار اپنی ہی نوع کی پختگی لیے ہوئے تھا۔ ایک گھریلو جھگڑے میں ہمارے ماموں جان نے اسے بلایا ، وہ سینکڑوں میل کا سفر کرکے وہاں پہنچا، مگر فریق ثانی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے بات کرنے سے انکار کردیا کہ یوں چغلی ہو نے کا امکان ہے۔ میں نے ایک جھگڑے میں اسے کہا کہ یہ تدبیر اختیار کرلیتے ہیں، اس نے فوراً جواب دیا: نہیں، یوں اس کا حق مارا جائے گا۔ جس کا حق بچانے کی بات عابد کررہا تھا، وہ اس جھگڑے میں اس کا فریق مخالف تھا۔ ایک خاندانی معاملےمیں وہ چھبیس برس تک ایک چیز برداشت کرتا رہا، لیکن ہمیں اس نے وفات سے ایک سال قبل اس مسئلے سے آگاہ کیا۔
ہمارے بچپن میں محمد علی کلے باکسر اور کنگ فو کے ماہر بروسلی کی بہت شہرت تھی۔ اس وقت کے لڑکے بالے باکسنگ اور جوڈوکے شوق میں مبتلا ہوگئے تھے۔ایسا ہی ماحول ہمارے گھر میں تھا۔باکسنگ اور جوڈو کی مشقیں کرتےاور آپس ہی میں کھیلتے تھے۔ہم سات بھائی تھے، پوری ایک ٹیم گھر ہی میں ہوتی تھی، اس لیے ہر طرح کے کھیل مل کر کھیلنے ممکن تھے۔انھی مشقوں اور کھیلوں میں عابد کی ناک پر چوٹ آئی۔ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی، لیکن درد اس کے اوپر کے سامنے والے ایک دانت میں ہوتا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اس کا سامنے والا دانت نکال دیا۔جب نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ دانت صحت مند تھا، لیکن صحت مند دانت کے نکالے جانے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ناک کی ہڈی کے ٹوٹنے سے جو انفیکشن ناک میں تھا،اس کے زخم کو دانت کے نکالے جانے سے پیدا ہونے والے خلا سے بہ نکلنے کا راستہ مل گیا،اور اس کی تکلیف جاتی رہی۔اب عابد کے نہ ناک کی ہڈی تھی اور نہ سامنے والا ایک دانت۔لہٰذا ناک عجیب سی چپٹی ہوگئی تھی۔
سامنے والے دانت کے نکالے جانے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ایک دن وہ سائیکل پر جارہا تھا کہ اسے ایک حادثہ پیش آیا۔ اس کی سائیکل گاڑی کے نیچے آکر بالکل دہری ہو گئی ، اور ٹکرا کر گرنے سے عابد کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ طالب بھائی اسے مقامی ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے کہا کہ یہ دندان ساز کا کیس ہے ۔دندان ساز نےعابد کے نچلے جبڑے کو ہلنے سے روکنے کے لیے اوپر کے جبڑے کے ساتھ کس کے باندھ دیا۔اب چھ ہفتے کے لیے نہ منہ کھولنا تھا اور نہ کچھ کھانا تھا۔بس ایک اسٹرا (straw)کی مدد سے ہر غذا مائع صورت میں لینی تھی۔اس کے لیے ضروری تھا کہ منہ میں اسٹرا رکھنے کی جگہ ہو، تو بچپن میں ٹوٹا ہوا یہ دانت اس وقت پھر کام آیا۔بعد میں یہ خلا، مصنوعی دانت سے بھر لیا گیا تھا۔
بچپن میں عابد کو یہ پسند نہیں تھا کہ اس کے جوتے یا کپڑے کوئی اور پہن لے۔ایک دن کیا ہوا کہ کہیں جانے کے لیے خالد نے اس کی نیکر پہن لی۔ ابھی وہ گلی میں چند قدم ہی چلا ہو گا کہ عابد اس کے پیچھے بھاگا، اور کہا کہ ابھی اتارو۔اس گلی میں ہمارے ایک ماموں بھی رہتے تھے، یہ سب ان کے گھر کے باہر ہورہا تھا۔وہ انھیں لڑتا دیکھ کر باہر نکلے اور مشکل سے مسئلہ حل کرایا۔
لاہور میں جب تک تھا، وہ شاید پکا نمازی نہیں تھا، لیکن امریکا جا کر، شکر ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نکلا جن کا دیار مغرب میں ایمان بڑھ کر مضبوط ہو جاتا ہے۔
اس کی آواز خوب صورت تھی، قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ خود ہی حفظ کررکھا تھا۔ قرآن یاد کرنے کے ساتھ اس کا ایک دل چسپ واقعہ وابستہ ہے۔ ہمارے محلے سے دور ایک اہل حدیث کی مسجد تھی ۔ علاقے میں اہل حدیث کم ہونے کی وجہ سے وہاں کم ہی لوگ نماز پڑھتے تھے، لیکن ہم اہل حدیث نہ ہونے کے باوجود اس مسجد میں وقتاً فوقتاً چلے جاتے تھے۔ رمضان کے دن تھے ۔ عابد اور میرے دوسرے بھائی ، ایک دن تراویح کے لیے وہاں چلے گئے۔ وہاں تراویح کے امام صاحب کسی وجہ سے نہ آسکے۔ لوگوں نے نمازیوں سے پوچھا کہ کسی کو قرآن یاد ہو تو وہ تراویح پڑھا دے۔ عابد نے سورۂ بقرہ نئی نئی یاد کی تھی۔اس نے تراویح پڑھانے کی حامی بھرلی۔
تراویح پڑھانے کے لیے کھڑا ہوا تو قرآن پڑھتا چلا گیا۔اسے شاید خود یاد کرنے کی وجہ سے کہیں رکنا سمجھ نہیں آرہا تھا۔ پڑھتا گیا، پانچ منٹ، دس منٹ ، پندرہ منٹ رکوع ہی نہیں آرہا تھا۔ لوگ پیچھے سبحان اللہ، سبحان اللہ پکارنے لگے، تب اس نے کہیں رکوع کیا، شاید بیس پچیس منٹ کی تلاوت کے بعد۔
ہمارے کچھ بھائی شعر گنگناتے رہتے ہیں۔غالب اور اقبال ہمارے گھر کے مقبول ترین شعرا ہیں، ایسا ہی عابد کا معمول تھا،لیکن صبح صبح اس کی عادت تھی کہ وہ ایک نعت کا مصرع دفتر کی تیاری کے دوران میں لحن سے پڑھتا تھا: ریاض جنہ میں پہنچے تو جنتیں دیکھیں۔
طالب اور زاہد شاعری کا شوق رکھتے تھے ، وہ اشعار اور نظمیں کہتے اور بعض اشعار ہم بھائیوں پر چسپاں بھی کردیتے تھے ۔ عابد پر بھی ایک نظم چسپاں کی گئی تھی:
عابد سیٹھ سڑک پر لیٹ
گاڑی آئی پِھس گیا پیٹ
گاڑی کا نمبر ایٹی ایٹ
ابھی مرض الموت میں، میں نے اسے وٹس ایپ پر یہ نظم بھیجی، لیکن میں آخری شعر بھول گیا ہوا تھا تو اس نے یہ آخری شعر خود مجھے یاددلایا، بچپن میں وہ اس نظم پر چڑتا تھا، لیکن اب کے اس نے خود اسے مکمل کیا تھا۔
طالب علمی کے زمانے میں میری اور اس کی عادت تھی کہ ریاضی کے علاوہ بھی ہم سبق لکھ لکھ کر سمجھتے تھے۔[3] کاغذ کی کم یابی کا اس نے ایک حل نکالا تھا، وہ یہ کہ کمرے کے دروازے کی اندرونی طرف کو بلیک بورڈ کی طرح استعمال کرلیتا تھا، اور چاک سے سارا سبق لکھ کر سمجھتا تھا۔کمپیوٹر پروگراموں کے کوڈ ز بھی وہ ابتدائی صورت میں اسی دروازے پرلکھتا اور پھر انھیں نوٹ بک میں اتار لیتا تھا۔
بچپن میں ہمارے گھر میں جوڑیاں بنی ہوئی تھیں: طالب و خالد، زاہد و امجد اور ساجد و عابد۔یہ جوڑے اکثر کاموں، کھیلوں، سودا سلف لانے اور دیگر سرگرمیوں میں اکٹھے دکھائی دیتے تھے۔ عابد اور میں اسکول فیلو بھی تھے۔ اس کا اور میراايك يا دو کلاسز کا فرق تھا،اس لیے زیادہ تر ہم ایک ہی اسکول میں پڑھتے رہے۔
ہم گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھے ہیں۔ جب میں نویں کلاس میں آیا تو ہمارے ایک استاد نے ٹیسٹ پیپرز خریدنے کا حکم دیا۔ٹیسٹ پیپرز ایک کتاب ہوتی تھی جس میں پوری کتاب کے ابواب میں سے اہم سوالات جوابات سمیت لکھے ہوتے تھے۔ یہ بورڈ كے امتحان میں اچھے نمبر لینے کے لیے استعمال ہوتے تھے اور چنیدہ تیاری (selective study) کا ایک طریقہ تھا، پوری کتاب پڑھنی نہیں پڑتی تھیں۔اسکول میں ٹیسٹ پیپرز لگتے تھے، مگر میری والدہ اور والد ٹیسٹ پیپرز کے بہت خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے مضمون پر گرفت اچھی نہیں ہوتی۔ بہرحال والد صاحب نے ٹیسٹ پیپرز لے کر دینے سے انکار کردیا۔
اسکول میں یہ مطالبہ بڑھتا گیا۔ پھر ایک دن کلاس ٹیچر نے اعلان کیا کہ میں کل ٹیسٹ پیپرز چیک کروں گا، جس کے پاس نہیں ہوں گے، اسے دس ڈنڈے پڑیں گے۔ میں نے اور عابد نے مار سے بچنے کا ایک حل سوچا۔ وہ یہ کہ ہم کل اسکول نہیں جائیں گے، لیکن سوچ بچار کے باوجود کوئی وجہ چھٹی کرنے کی بن نہ پائی تو پھر یہ سوچا گیا کہ گھر سے اسکول کو نکلیں گے ،لیکن اسکول کے بجاے کہیں اور چلے جائیں گے۔ہم گھر سے نکلے تو دِلی دروازہ لاہور اور ریلوے ٹریک والے دو موریہ پل کے درمیان میں ایک چھوٹا سا پارک ہوتا تھا، وہاں اسکول کا وقت گزارنے کے لیے چلے گئے۔ شومئی تقدیر دیکھیے کہ والد صاحب کے کسی جاننے والے نے ہمیں وہاں دیکھ لیا۔ اس نے ہمیں تو کچھ نہیں کہا، مگر والد صاحب کے کلینک پر جا کر انھیں بتا دیا کہ آپ کے دو بچے اسکول کے بستے لیے اس پار ک میں موجود ہیں۔
اِدھر ،خدا خدا کرکے وقت گزرا، ہم گھر پہنچے تو والد صاحب کو اپنی گوشمالی کے لیے موجود پایا۔ خو ب خاطر مدارت ہوئی۔ تقدیر کا لکھا ایسا تھا کہ اگلے دن ہم اسکول گئے تو معلوم ہوا کہ کل ٹیسٹ پیپرز چیک نہیں ہوئے آج ہوں گے۔چنانچہ تقدیر کی کتاب میں جولکھا تھا، پورا ہو کر رہا۔
عابد پاکپتن میں پیدا ہوا تھا: پیر قریاں میں۔ ایک ڈیڑھ برس اسکول میں بھی وہیں پڑھا، پھر ہم لاہور منتقل ہوگئے تھے۔بڑے بھائی طالب صاحب نے میٹرک کرلیا تھا تو ان کی اگلی تعلیم کے لیے لاہور آنا پڑا تھا۔ عابد پاکپتن میں دنیا میں آیا، لاہور میں پلا بڑھا اور امریکا میں سات سمندر پاردنیا سے رخصت ہوا۔ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، مگر دنیا کا نظام نہیں رکتا۔ یہ دنیا کی تلخ حقیقت ہے۔ غالب نے اسی پر کہا تھا:
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا !کیجیے ہائے ہائے کیوں!
کمپیوٹر سافٹ ویئر میں وہ بہت کامیاب تھا، مگر بعض مکینکل چیزوں میں بھی اس کی دل چسپی تھی۔ آخری برسوں میں وہ پاکستان کی مدد کے جذبے سے سستی بجلی بنانے کے تجربات کرتا رہا۔جس میں اس نے ہم بھائیوں کو بھی شامل کیا، مگر ہماری مصروفیات اور اس کے مرض ناہنجار کی وجہ سے وہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔
خدا ے رحیم سے درخواست ہے کہ اس کے گناہوں سے درگذر فرمائے،اس کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور اسے خاص اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔اس کی تکالیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنائے۔ آمین۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ ۲/ اگست ۲۰۲۳ء۔ میں نے عنوان میں ’’عابد خستہ جاں ‘‘لکھا ہے، اگرچہ یہ شاعری میں جس معنی کی تعبیر کے لیے استعمال ہوتا ہے وہ اور ہے۔غالب کا شعر ہے:
یہ لاش بے کفن اسدخستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
لیکن میں نے اس کے مرض الموت کے حوالے سے استعمال کیا ہے ۔ عابد پچھلے دو تین برس سے کینسر کا مریض تھا، اور آخر ی ایام میں اس مرض کی شدید تکلیف اس نے دیکھی ہے۔ خداے علیم و حکیم سے توقع ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس کے گناہوں کو جھاڑ دے گا۔ ’ربِّ ارحمه من لدنك‘۔
[2]۔ ۱۲/ اگست ۲۰۱۹ء۔
[3]۔ یعنی اگر کسی بات کو آپ سمجھ کر اپنے لفظوں میں بیان کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ وہ بات سمجھ گئے ہیں۔