HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

تربیت اولاد کے سلسلے میں دو اہم تنبیہات

۱۔ اللہ میاں گناہ دیں گے!

’اللہ میاں گناہ دیں گے‘۔ ہمارے ماحول میں بچوں کے لیے اس جملے کا بے دریغ استعمال عام ہے۔ یہ جملہ بڑوں کے ہاتھ میں خدائی لائسنس ہے کہ جس چیز کو چاہیں، گناہ قرار دے دیں۔ یہ جملہ ہر اس معمولی بات سے منع کرنے کے لیے بول دیا جاتا ہے جو محض خلاف ادب یا ناگوار خاطر ہو، جیسے انگلیاں چٹخانا، بیٹھے ہوئے ٹانگیں ہلانا، الٹا لیٹ کر سونا، کھڑے ہو کر پانی پینا، اونچی آواز میں ہنسنا، نماز یا قرآن پڑھتے ہوئے ٹوپی نہ پہننا وغیرہ ۔

خدا نے اس بات سے سختی سے منع کیا ہے کہ اس کے نام پر جھوٹ بولا جائے۔ گناہ و ثواب کیا ہے، یہ بتانا خدا کا اختیار ہے۔ قرآن میں اس بات کو بڑی تنبیہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَﵧ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ.(النحل ۱۶: ۱۱۶)
’’تم اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اِس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو۔ (یاد رکھو) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے، وہ ہرگز فلاح نہ پائیں گے۔‘‘

بات بات پر خدا کی ناراضی کے اعلانات اور معمولی باتوں کو گناہ کے دائرے میں ڈالنے کی خُو انسان کے ذہن میں خدا کا ایسا تصور پیدا کرتے ہیں جو ایک خشک مزاج مربی یا اذیت پسند آقا کی طرح بات بات پر عذاب کا کوڑا برسانے کے لیے تلا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں دین دار لوگ عموماً رحمت اور نرمی جیسے جذبات سے محروم اور خشک مزاجی کا نمونہ ہوتے ہیں۔

آداب کا تعلق تہذیبی روایات اور اقدار سے ہوتا ہے۔ یہ سب وہ لوگ بھی سکھاتے ہیں جو خدا آشنا نہیں۔ چھوٹی موٹی ناگوار اور خلاف ادب باتوں کو درست کرنے کے لیے نصیحت اور اپنا عملی نمونہ کافی ہے، خدا پر جھوٹ باندھنے کی جسارت نہ کی جائے۔

۲۔ جوان ہوتی اولاد سے والدین کے تعلقات کا بگاڑ

جوان ہوتی اولاد، خصوصاً بیٹوں اور والد کے درمیان عموماً ایک دوری، تنفر اور ناراضی جیسے رویے پیدا ہو جاتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے پیار کو ترستے بھی رہتے ہیں، مگر اپنی اپنی انا کی اسیری میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ وقت کی ریت میں دب جانے والی یہ محبت صرف بیماری اور وفات جیسے حادثات ہی میں نمایاں ہو پاتی ہے جو پچھتاوے کے گہرے زخم چھوڑ جاتی ہے۔

جوان ہوتے بیٹوں کے ساتھ باپ کے رویے میں فرق آنے کا سارا الزام بڑی سہولت اور سادگی سے بیٹے کی نوجوانی کو دے دیا جاتا ہے، جب کہ اس کی بڑی اور بنیادی وجہ باپ کی ناسمجھی ہے۔ اس بگاڑ کی چند بڑی وجوہات درج ذیل ہیں:

بوڑھا ہوتا باپ جوان ہوتے بیٹے میں اپنا جانشین دیکھتا ہے۔ وہ اپنی عمر کی تھکاوٹ کے سبب اپنی ذمہ داریاں جلد سے جلد بیٹے کے کاندھوں پر ڈال کر سبک دوش ہونا چاہتا ہے۔ اس جلد بازی میں وہ یہ نظر انداز کر دیتا ہے کہ بیٹا ابھی مکمل جوان نہیں ہوا۔ وہ جوانی اور بچپنے کے درمیان ڈول رہا ہے۔ ابھی اسے مزید وقت درکار ہے، مگر باپ ،بیٹے کی کوتاہیوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہو پاتا۔ باپ کی بے صبری دونوں کے درمیان فضا کو تلخ کرتی جاتی ہے۔

اس سے مختلف ایک گہری نفسیاتی وجہ باپ کا احساس عدم تحفظ ہے۔ اسے جوان ہوتے بیٹے میں اپنا رقیب نظر آتا ہے، جو خاندان میں اس کی حکومت کو چیلنج یا اسے کم اہم کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اسے اپنا رقیب اور حریف بنا لیتا ہے۔

بعض ماؤں کو بھی اپنے جوان ہوتے بیٹوں اور بیٹیوں سے تنفر پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ سوچ کہ اب اولاد کی شخصیت کے کچھ گوشے ان پر اس طرح عیاں نہیں رہیں گے، جیسے بچپن میں وہ ان کے لیے کھلی کتاب تھے، ماؤں کے لیے کوفت کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر یہ خیال کہ آگے جا کر بیٹے بیویوں کو اور بیٹیاں شوہروں کو ماں پر ترجیح دیا کریں گی اور عدم تحفظ کا احساس، جو مشرقی سماج کی عورت کو ہمیشہ لاحق رہتا ہے، اولاد کے معاملے میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے کہ نجانے ان کے بڑھاپے میں ان کی اولاد ان کے ساتھ کیا سلوک کرے، یہ سب ہونے سے پہلے ہی وہ ان سے متنفر ہونے لگتی ہیں۔

اولاد کو نوجوانی کی عمر میں کچھ گنجایش درکار ہوتی ہے، جہاں وہ اپنی ابھرتی امنگوں کو اپنے تئیں بروے کار لا کر زندگی گزارنا سیکھ سکیں۔ اس موقع پر ان کے تجربات اور رجحانات پر کڑی نظر رکھنا اور اپنی مرضی کرنے کے مناسب مواقع دینے سے بھی اس خیال سے انکار کرنا کہ وہ خراب نہ ہو جائیں، ماں باپ اور اولاد کے درمیان تلخی کا سبب بنتا ہے۔

کم وسائل رکھنے والے باپ اپنی اولاد کی نظر میں اس لیے بھی وقعت کھو دیتے ہیں کہ خود انھوں نے اسے یہی سکھایا ہوتا ہے۔ والدین یا دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے وسائل کی کمی پر ناشکری، شکوہ شکایت، لڑائی جھگڑے اور پیسے کے بدلے عزت دینے اور اس کی کمی کی صورت میں ذلت آمیز سلوک کرنے جیسے رویوں کے مظاہرے انھوں نے خود اولاد کے سامنے برتے ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب اولاد کو وسائل کی کمی کا احساس ہوتا ہے تو والد پر ترس آنے کے بجاے وہ بے ساختہ اس کے خلاف منفی ردعمل اپنا لیتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B