HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۳)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت عبدالله بن حذافہ رضی اللہ عنہ

قبیلہ اور کنبہ

حضرت عبدالله بن حذافہ مكہ میں پیدا ہوئے۔ ان كے دادا قیس بن عدی قریش كے نام ور سردار تھے۔ بانی قبیلہ سہم بن عمروان كے پانچویں جد تھے۔ حضرت عبدالله كی والده تمیمہ بنت حرثان بنو حارث سے تعلق ركھتی تھیں۔ بنوسہم سے تعلق ركھنے كی وجہ سے حضرت عبدالله سہمی كہلاتے ہیں، بنو سہم قریش كا ذیلی قبیلہ ہے اور قریش كنانہ بن خزیمہ كی اولاد ہیں، اس لیے انھیں قرشی ا و ر كنانی كی نسبتوں سے بھی پكارا جاتا ہے۔ ابوحذافہ یا ابوحذیفہ ان كی كنیت تھی۔ حضرت قیس بن حذافہ ان كے سگے اور حضرت خنیس بن حذافہ سوتیلے بھائی تھے۔ حضرت حفصہ بنت عمرحضرت خنیس كی وفات تك ان كی زوجیت میں رہیں۔ ایك بھائی ابو الاخنس بن حذافہ كا صحابی ہونا تسلیم نہیں كیاگیا۔

نعمت ایمان

حضرت عبدالله اسلام كے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے۔ ذہبی اور ابن حجر انھیں ’السٰبقون الأولون‘ میں بتاتے ہیں، حالاں كہ ان كا نہیں، بلكہ ان كے بھائی حضرت خنیس كا نام ’السٰبقون الأولون‘ كی فہرست میں شامل ہے۔

بعثت نبوی كے بعد ابوسفیان اور عباس بن عبدالمطلب ایك تجارتی قافلے كے ساتھ یمن گئے۔ وہاں ابوسفیان نے عباس سے پوچھا:تمھارا بھتیجا رسول ہونے كا دعویٰ كرتا ہے؟عباس نے كہا:میرا خیال ہے، وه سچ كہتاہے۔ ابوسفیان نے كہا:تب تو ہم پر بہت مصیبتیں ٹوٹیں گی۔ كچھ دنو ں كے بعد حضرت عبدالله بن حذافہ بھی وہاں پہنچ گئے جو نئے نئے اسلام لائے تھے۔ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كی نبوت كی خبر ان كی زبانی یہودی علما تك پہنچ گئی۔ ایك یہودی عالم نے آپ میں تورا ت كی بتائی ہوئی ساری نشانیاں پائیں تو اچھل كر كہا:یہود قتل ہو گئے، یہود مارے گئے۔

سوے حبشہ

شوال ۵ھ: مكہ كے مسلمانوں پر ظلم و ستم كا بازار گرم ہوا تو حضرت عبدالله بن حذافہ حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ كو ہجرت كرنے والے دوسرے قافلے میں شامل ہو گئے۔ ان كے بھائی حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت قیس بن حذافہ، ان كے چچا حارث بن قیس سہمی كے سات بیٹے، بنو سہم كے حضرت ہشام بن العاص، حضرت عمیر بن رئاب ، حضرت سعید بن عمرو اور بنو سہم كے حلیف حضرت محمیہ بن جزء ان كے ہم سفر تھے۔

حبشہ سے واپسی

حضرت عبدالله بن حذافہ جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچے۔ وہ حبشہ سے لوٹنے والے حضرت عبدالله بن جعفر كے قافلے میں شامل نہ ہوئے۔ ان كے بھائی حضرت قیس بن حذافہ اور بنوسہم كے دیگرآٹھ اصحاب حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت بشر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت سعید بن عمرواور حضرت عمیر بن رئاب اسی زمره میں شامل تھے۔ ان كے سفر مدینہ كی تفصیل ہم تك نہیں پہنچی۔ حضرت عبدالله كے دوسرے بھائی حضرت خنیس بن حذافہ ان سے قبل مكہ آچكے تھے اور یہاں سے مدینہ كو ہجرت كی۔

 غزوات

حضرت عبدالله بن حذافہ جنگ بدر كے بعد حبشہ سےمدینہ پہنچے، اس لیے غزوۂ فرقان میں شریك نہ ہوسكے۔ اصحاب بد ر كی مرتبہ فہارس میں ان كانام شامل بھی نہیں(ابن ہشام، ابن جوزی، ابن كثیر، سلیمان منصورپوری)۔ البتہ غزوۂ احد اور بعد كی جنگوں میں انھوں نے رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم كا بھرپور ساتھ دیا۔ ایك شاذ روایت كے مطابق حضرت ابوسعید خدری نے انھیں بدری صحابی قرار دیا۔

پیغمبر صلی الله علیہ وسلم كی سفارت

 ذی الحجہ ۶ ھ یا ۷ھ : صلح حدیبیہ كے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فیصلہ كیا كہ اس زمانے كے بادشاہوں اور حكمرانوں كو اسلام كی دعوت دیں، چنانچہ ان اصحاب كا انتخاب كیا جو آپ كے سفیر بن كر آپ كے مراسلےان بادشاہو ں تك پہنچائیں۔ آپ نے شاه ایران خسرو پرویز كی طرف بھیجنے كے لیے حضرت عبدالله بن حذافہ كو منتخب فرمایا۔ نبی آخرالزماں كے سفرا كے لیے علم و فصاحت، صبر و شجاعت، حكمت و تدبیراور حسن مظہر كی خوبیوں سے متصف ہونا ضروری تھا۔ حضرت عبدالله ان اوصاف كے حامل ہونے كےساتھ ایرانی معاشرے اور زبان سے بھی واقفیت ركھتے تھے۔ آپ نے قیصر روم كی طرف حضرت دحیہ بن خلیفہ كلبی، شاه حبشہ نجاشی كی طرف حضرت عمرو بن اميہ ضمری، اسكندریہ كے حكمران مقوقس كی طرف حضرت حاطب بن ابو بلتعہ، نصرانی حاكم غسان كی طرف حضرت شجاع بن وہب اسدی، یمامہ كے ہوذہ بن علی كی جانب حضرت سلیط بن عمرو عامری اور عبدالقیس كی طرف حضرت علاء بن حضرمی كو روانہ فرمایا۔ یہ سب ان علاقوں كی زبان بولتے تھے۔ تمام سفرا كو جمع كر كے آپ نے خصوصی خطبہ دیااور فرمایا :تمھارا سفر بہت اہم ہے، بنی اسرائیل كی طرح میرے احكام كی خلاف ورزی نہ كرنا۔ حضرت عیسی ٰعلیہ السلام نے بھی حواریوں كو ایسا حكم دیا تھا، كچھ خوشی سے بجا لائے، كچھ نے نا پسند كیا۔ صحابہ نے یقین دلایا:آپ جہاں چاہتے ہیں، ہمیں بھیجیں، ہم آپ كا فرما ن بجا لائیں گے۔

مكتوب نبوی

بسم الله الرحمٰن الرحیم۔ الله كے رسول محمد(صلی الله علیہ وسلم )كی طرف سے شاه ایران كسری ٰكی جانب۔ اس شخص پر سلامتی ہو جس نے راه ہدایت كی پیروی كی، الله اور اس كے رسول پر ایمان لایااور گواہی دی كہ الله یكتا كے سوا كوئی معبود نہیں، اس كا كوئی شریك ساجھی نہیں۔ محمد(صلی الله علیہ وسلم) الله كے بند ے اور اس كے رسول ہیں۔ میں تمھیں الله كی طرف دعوت دیتا ہوں۔ میں تمام انسانوں كی طرف الله كا بھیجا ہوا رسول ہوں تاكہ ان لوگوں كو خبردار كروں جو زنده ہیں اور منكروں كے خلاف الله كا فیصلہ سچا ثابت ہو جائے ’لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَّيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ‘(یٰس ۳۶: ۷۰)۔ اسلام لے آؤ، سلامتی پاؤ گے۔ اگر تم نہیں مانو گے تو ان تمام مجوسیوں كے گناه كا بوجھ بھی تم كو اٹھانا ہو گا جو تمھاری پیروی كریں گے، (یعنی پیرو كار تو گناہ گار ہوں گے، ان كے گناہوں كےہم مثل گناه تم كو بھی ملے گا)۔

شاه ایران كا رد عمل

حضرت عبدالله بن حذافہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو كر ایران كی طرف روانہ ہو گئے۔ ایك ماه كی مسافت طے كرنے كے بعد وه دارالحكومت پہنچے اور بادشاه كا محل تلاش كیا۔ فوجیوں اور پہرے داروں نے محل كو گھیر ركھا تھا۔ حضرت عبدالله نے بتایا كہ وه بادشاه كے نام خط لے كر آئے ہیں۔ كسری ٰ كو اطلاع ملی تو اس نے ایوان حكومت آراستہ كرا یااور امرا و مصاحبین كو بلا لیا۔ حضرت عبدالله سر اٹھا كر مضبوط قدموں سے چلتے ہوئے ملاقات كے ہال میں داخل ہوئے۔ كسریٰ نےانھیں ساده دیہاتی لباس پہنے، پرانی عبا اوڑھے پایا تو نظر حقارت سے دیكھا۔ اس نے ایك سپاہی كو اشاره كیا كہ وه خط پكڑ لے،لیكن حضرت عبدالله بن حذافہ مصر رہے كہ مكتوب نبوی بادشاه كے ہاتھ میں خود دیں گے۔ بادشاه نے خط پكڑا اور حیره كے ایك عالم كو اس كا ترجمہ سنانے كوكہا۔ جونہی اس نے سنا كہ محمدرسول الله (صلی الله علیہ وسلم) نے اس كے نام كے بجاے اپنے نام سے مكتوب كی ابتداكی ہے تو وه غضب ناك ہو گیا اور نفس مضمون سنے بغیر اسے پھاڑ دیا۔ اس نے حضرت عبدالله كو بھی دربار سے نكلنے كا حكم دیا۔ كچھ دیر كے بعد اس كی آتش غضب ٹھنڈی ہوئی تو اس نے حضرت عبدالله كو واپس بلانے كا كہا، لیكن وه جا چكے تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم كو خط چاك كرنے كی خبر ہوئی تو فرمایا: الله نے اس كی سلطنت چاك كر دی ہے۔ آپ كا فرمان ہے: كسریٰ مر گیا ہے، اب اس كے بعد كوئی كسریٰ نہ آئے گااور جب قیصر مر جائے گا تو اس كے بعد كوئی قیصر نہ آئے گا (بخاری، رقم ۳۰۲۷۔ مسلم، رقم ۷۴۳۳۔ ترمذی، رقم ۲۲۱۶)۔ حضرت عبدالله بن عباس كی روایت مختلف ہے: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالله بن حذافہ كو خط دے كر بھیجا اور ارشاد فرمایا كہ اسے بحرین كے حكمران( منذر بن ساوی) كے حوالے كرنا اور اس نے آگے كسریٰ كو پہنچایا(بخاری ، رقم ۴۴۲۴۔ الطبقات الكبریٰ، ابن سعد، رقم ۴۰۴۔ احمد، رقم ۲۷۸۰۔ السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۸۷۹۵)۔

 حضرت عبدالله بن حذافہ كے جانے كے بعد دجلہ و فرات میں غیر معمولی طغیانی آئی، سیلاب نے فصلیں تباہ كردیں اوركسریٰ كی كئی تعمیرات منہدم ہو گئیں۔ كسریٰ خود دریا كے شگافوں پر بند باندھنے نكلا، لیكن پانی كے بہاؤ كے آگے مغلوب ہوگیا (فتوح البلدان، بلاذری۴۱۰)۔

باذان كے كارندوں كو جواب

حضرت عبدالله بن حذافہ كے جانے كے بعد كسریٰ نے یمن كے ایرانی گورنر باذان كو خط لكھا كہ دو مسٹنڈے بھیج كر محمد (صلی الله علیہ وسلم)كو میرے پاس لے آؤ۔ باذان نےاس مقصد كے لیے اپنے داروغہ با بویہ (نابوہ: ابن اثیر۔ اباذویہ:ابن كثیر) اور ایك ایرانی خر خسره (خرخره:ابن كثیر)كو بھیجا۔ یہ دونوں آپ كے پاس مدینہ پہنچے اوربتایا كہ ہم كسریٰ كے گورنر باذان كے حكم پر آپ كو لے جانے كے لیے آ ئے ہیں۔ كوئی رد عمل دینے كے بجاے آپ مسكرائے اور فرمایا: آج كا دن اپنی سواریوں كے پاس ٹھیرو اور كل آنا۔ اگلے دن وہ آئےتو فرمایا : رات(۱۰ جمادی الاولیٰ ۷ھ) كسری ٰ كو اس كے بیٹے نے مار ڈالا ہے۔ جلد ہی ہماری حكومت كسری ٰ كے زیر قبضہ ملك تك پہنچ جائے گی۔ باذان كو كہہ دو کہ مسلمان ہو جاؤ، ہم تمھاری حكومت تمھارے پا س رہنے دیں گے۔ آپ نے خرخره كو سونے اور چاندی جڑا ہوا كمر بند بھی دیا۔ باذان كوكچھ دنوں كے بعد كسریٰ كے بیٹے شیروان كے بادشاه بننے كی خبر ملی، وه آپ كی پیش گوئی سے اتنا متاثر ہوا كہ مسلمان ہو گیا۔

ایك بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے زوال شمس كے بعد ظہر كی نماز پڑھائی۔ سلام پھیرنے كے بعد منبر پر كھڑے ہو ئے، قیامت كا ذكر كیا اور فرمایا:بڑے بڑے معاملات میرے سامنے عیاں ہو گئے ہیں، مجھ سے جو بھی كچھ پوچھنا چاہتا ہے پوچھ لے۔ والله، میں جب تك یہاں كھڑا ہوں، تم مجھ سے جس چیز كے بارےمیں سوال كرو گے، میں بتاؤں گا۔ آپ كا فرمان سن كر صحابہ زارو قطار رونے لگے۔ حضرت عبدالله بن حذافہ كھڑے ہو گئے اور پوچھا: یا رسول الله، میرا باپ كون ہے؟آپ نے فرمایا:حذافہ تمھارے والد ہیں۔ آپ بار بار فرماتے رہے: مجھ سے سوال كرو تو حضرت عمر گھٹنوں كے بل بیٹھ گئے اور كہا: ہم الله كے رب ہونے، اسلام كے دین ہونے او ر محمدصلی الله علیہ وسلم كے اپنے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ تب آپ نے سكوت فرمایا (بخاری ، رقم ۵۴۰۔ مسلم، رقم ۶۱۹۵۔ احمد، رقم ۱۲۶۵۹۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۶۹۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۱۰۶)۔ حضرت عبدالله كی والده نے كہا:میں نے نہیں سنا كہ تم سے زیاده كوئی بیٹا ماں باپ كاحق ناشناس ہو۔ تو اس بات پر مطمئن ہے كہ تیری ماں نے زمانۂ جاہلیت كی عورتوں كی طرح بدكاری كی ہو اور تو اسے لوگوں كی نظروں میں رسوا كردے۔ حضرت عبدالله نے جواب دیا: والله، اگر تو مجھے سیاه فام غلام سے منسوب كر دیتی تو بھی مان لیتا (مسلم، رقم ۶۱۹۶)۔  دوسری روایت میں اضافہ ہے: حذافہ بن قیس كی ماں نے شریف بیٹا جنا تھا، بچہ صاحب فراش كا ہوتا ہے۔ ایك روایت میں حضرت عبدالله كی والد ه كا رد عمل متضاد بتایا گیا ہے۔ انھوں نے كہا: بچے، تو نے آج اپنی ماں كو عظیم مقام پر فائز كر دیا ہے۔ كیا بنتا، اگر آپ دوسری بات فرما دیتے (الطبقات الكبریٰ، ابن سعد، رقم ۴۰۴۔ مسند الشاشی، رقم ۹۷۶۔ تاریخ دمشق، ابن عساكر،رقم۳۳۱۸)۔

الله كا فرمان ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْﵐ وَاِنْ تَسْـَٔلُوْا عَنْهَا حِيْنَ يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْﵧ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاﵧ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ. (المائده۵: ۱۰۱)
’’ اے ایمان لانے والو، ایسی باتوں كے بارے میں سوال نہ كرو جو اگر تم پر ظاہر كر دی جائیں تو تمھیں ناگوار ہوں۔ اور اگر تم اس وقت پوچھو گے جب قرآن نازل ہو رہا ہو تو تم پر ظاہر كر دی جائیں گی۔ الله نے ایسی باتوں سے درگزر فرمایا اور الله بخشنے والا اور بردبار ہے۔‘‘

رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ارشاد ہے: مسلمانوں كے حق میں سب سے بڑا مجرم وه مسلمان ہے جو ایسے معاملے كے بارے میں سوال كر بیٹھے جو حرام تو نہ تھا، لیكن اس ایك شخص كے پوچھنے پر سب لوگوں پر حرام قرار پایا(مسلم، رقم ۶۱۹۱)۔ ان ارشادات كی روشنی میں اس بات پر تعجب ہوتا ہے كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو بار بار سوال كرنےكا كیوں كہا اور حضرت عبداللہ بن حذافہ نے اپنے نسب كے بارے میں استفسار كیوں كیا؟ قاضی عیاض كہتے ہیں:سوال كرنا اصل میں مباح ہے، لیكن ایك سوال پر اصرار كرنے یا بہ تكلف سوال كرنے سے منع كیا گیا ہے۔ آپ كے خطاب كے وقت صحابہ رو رہے تھے اورحضرت عمر كی التجا پر آپ نے سكوت فرمایا۔ اس سے پتا چلتا ہے كہ آپ پر جلالی كیفیت طاری تھی۔ ایك روایت میں وضاحت ہے كہ حضرت عمر نے الله ورسول پر اور دین اسلام پر راضی ہونے كا اعلان كیا تو آپ كا غصہ جاتا رہا۔ حضرت عبدالله بن حذافہ نے اپنے نسب كا اس لیے پوچھا كہ كچھ لوگ اس بارے میں ان پر طعن زنی كرتے تھےاور انھوں نے اس موقع كو دفع طعن كے لیے غنیمت جانا (اكمال المعلم بفوائد المسلم، قاضی عیاض۷/ ۳۳۲- ۳۳۳۔ تكملہ فتح الملہم، تقی عثمانی۱۰/ ۵۱۲)۔

 حضرت خالد بن ولید كا عمل اور حضرت عبدالله بن حذافہ

فتح مکہ کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا۔ آپ کا مقصد قتال كے بجاے اسلام کا پیغام پہنچانا تھا۔ بنو جزیمہ کے لوگوں نے ہتھیار اٹھا ئے تو حضرت خالدنے کہا: اب اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ بنو جذیمہ كے جحدم نے کہا: یہ خالد ہے، ہتھیار پھینکنے کے بعد قید کرتا ہے اور پھر گردن اڑا دیتا ہے۔ اہل قبیلہ نے پھر بھی ہتھیار ڈال دیے تو حضرت خالدنے واقعی قتل و غارت شروع کر دی اور کئی لوگوں کو قید کر لیا، پھر حكم دیا کہ ہر شخص اپنا قیدی قتل کردے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے ان كا حكم نہ مانا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو معاملے كا پتا چلا تو دریافت فرمایا: کیا کسی نے ان کو منع بھی کیا؟لوگوں نے بتایا: عبداللہ بن عمر اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ نے روكا تو خالد نے ڈانٹ پلادی۔ آپ نےآسمان كی طرف ہاتھ بلند کر کے دو باراظہار براءت کیا: اے اللہ، میں خالد کی کارروائی سے بری الذمہ ہوں (بخاری، رقم  ۹۳۳۴۔ احمد، رقم ۲۸۳۶)۔ مقتولین كی دیتیں ادا كرنے كے لیے آپ نے حضرت علی کو بھیجا۔

كسی نے حضرت خالد بن ولید كو ان كے عمل پر ملامت كی تو انھوں نے كہا:میں نے اس وقت تك قتال نہ كیا تھا جب تك عبداللہ بن حذافہ سہمی نے مجھے مشوره نہ دیا۔ انھوں نے كہا: آپ كو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے جنگ كرنے كا حكم دیا ہے، كیونكہ یہ اسلام نہیں لائے۔

 منفرد مزاح

ربیع الثانی ۹ھ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علقمہ بن مجزز مدلجی كی قیادت میں ان كے بھائی حضرت وقاص بن مجززكا بدلہ لینے كے لیے تین سو صحابہ پر مشتمل ایك سریہ خیبركی طرف بھیجا۔ دوسری روایت كے مطابق حبشہ كے كچھ لوگ جده پر حملہ كرنے آئے تو آپ نے یہ مہم بھیجی۔ حضرت علقمہ نے ان كا پیچھا كیا اور سمندر میں داخل ہو كر ایك جزیرے تك پہنچ گئے، تب اہل حبشہ بھاگ نكلے۔ یہ طے تھا كہ واپسی پر كچھ اصحاب جلد لوٹ آئیں گے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالله بن حذافہ كو ان كا امیر مقرر كر ركھا تھا۔ حضرت عبدالله كبار صحابہ میں سے تھے، لیكن ہنسی، دل لگی كا ذوق ركھتے تھے۔ راستے میں لوگوں نے كھانے پكانے كے لیے آگ جلائی تو انھوں نے ساتھیوں سے پوچھا:كیا میری اطاعت تم پر واجب نہیں؟انھوں نے جواب دیا:ہاں ہے۔ كہا: تومیں جس چیز كا حكم دوں، مانو گے؟ سب نے كہا:ہاں۔ حضرت عبدالله بن حذافہ نے كہا:تومیں اپنے حق اطاعت كی بنا پر تمھیں تاكید كرتا ہوں كہ اس آگ میں كود جاؤ۔ كچھ صحابی اٹھے، حضرت عبدالله كو گمان ہوا كہ وہ آگ میں كودنے لگے ہیں تو بولے :بیٹھو، بیٹھو، میں تو تم سے مذاق كر رہا تھا۔ واپسی پر صحابہ نے یہ بات رسول الله صلی الله علیہ وسلم كو بتائی تو فرمایا:امرا میں سے جو تمھیں معصیت كا حكم دے، اس كی اطاعت نہ كرو (ابن ماجہ، رقم ۲۸۶۳۔ احمد، رقم ۱۱۶۳۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۴۳۹۷۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۱۳۴۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۵۵۸)۔

انصاری یا سہمی

امام بخاری نے ’’سریة عبد اللّٰه بن حذافة السهمي و علقمة بن مجزز المدلجي‘‘ كا عنوان قائم كر كے لكھا:كہا جاتا ہے کہ یہ سریہ انصاركا تھا۔ پھر بعینہٖ یہی واقعہ ایك انصاری صحابی سے منسوب كر دیا (بخاری، رقم ۴۳۴۰)۔ شار ح بخاری حافظ ابن حجرنے اس تضاد كی جو تاویلات پیش كی ہیں، دل كو نہیں لگتیں، كہتے ہیں:۱۔ ہو سكتا ہے، یہ واقعہ متعدد بار ہواہو، یعنی ایك بار حضرت عبدالله بن حذافہ اوردوسری بار انصاری صحابی نے جن كا نام نہیں بتایا گیا، آگ میں ڈالنے كا حكم دے كر مذاق كیا ہو۔ ۲۔ انصار سے اس كے اصطلاحی نہیں، بلكہ لغوی معنی مراد ہوں، یعنی حضرت عبدالله بن حذافہ نے اس سریہ میں شركت كر كےنصرت رسول كی۔ اس تاویل كا تتبع كرتے ہوئے قسطلانی نے ’رجلًا من الأنصار‘ كا ترجمہ عبدالله بن حذافہ سہمی كر دیا (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری ۶/ ۴۱۷)۔ ان تاویلوں كے بجاے ابن جوزی كا قول درست لگتا ہے۔ ان كا كہنا ہے كہ سہمی كے بجاے انصاری كہہ دینا كسی راوی كا وہم ہے۔ حضرت عبدالله بن حذافہ سہمی تھے، انصاری نہ تھے۔ ابن جوزی كی بات مان لینے سےبخاری كے عنوان اوراس كے تحت بیان كی ہوئی حدیث كا تضاد ختم ہو جاتا ہے۔

صحیح مسلم میں یہ واقعہ دو روایتوں (ارقام ۴۷۹۳-  ۴۷۹۴)میں بیان ہوا ہے۔ دونوں میں حضرت عبدالله بن حذافہ كا نام نہیں لیا گیا۔ ایك میں محض ’رجلًا ‘ اور دوسری میں ’رجلًا من الأنصار‘ نقل ہوا۔ تقی عثمانی كہتے ہیں : اس قصے كا متعدد بار واقع ہونا انتہائی بعید از قیاس ہے، اس سے بہتر ہے کہ اسے راوی كا وہم مان لیا جائے، كیونكہ راویوں كا دھیان اصل واقعے كی طرف ہوتا ہے، جزئیات سے وه صرف نظر كر دیتے ہیں۔ مختلف روایتوں میں بیان كیا ہوا یہ واقعہ اصل میں ایك ہی ہے(تكملہ فتح الملہم ۹/ ۲۶۸)۔

مزید مزاح

 ایك روایت كے مطابق حضرت عبدالله بن حذافہ نے ایك سفر میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی اونٹنی كا بند كھول دیا اور آپ گرنے لگے تھے۔ ان كا اراده مزاح كا تھا(الاستیعاب، ابن عبدالبر، رقم۱۵۰۸۔ تاریخ دمشق، ابن عساكر، رقم ۳۳۱۸)۔ ایك سفر حج میں حضرت عمر نے وادی محسر میں اپنی اونٹنی بٹھائی تو بھی انھوں نے بند كاٹ دیا۔

كچھ صحابہ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے حضرت عبدالله بن حذافہ كے مزاح اور غیر سنجیدگی كی شكایت كی تو آپ نے فرمایا :اسے اس كے حال پر چھوڑ دو، اس كا اندرون ایسا ہےجسے الله اور اس كا رسول پسند كرتے ہیں(تاریخ دمشق، ابن عساكر، رقم ۳۳۱۸۔ ضعیف، البانی)۔

بے جا مزاح كے بارے میں ارشاد

ان روایات و واقعات سے یہ نتیجہ نہیں نكالنا چاہیے كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایسا مزاح كرنے كی اجازت دے دی ہے۔ آپ نے فرمایا:تم میں سے كوئی ہنسی مذاق كرتے ہوئے یا سنجیدگی سے اپنے بھائی كا مال و متاع نہ چھین لے۔ اگر كسی نے اپنےساتھی كا عصابھی لیا تو اسے لوٹائے گا (ابوداؤد،ر قم ۵۰۰۳۔ احمد، رقم ۱۷۹۴۱۔ ترمذی، رقم ۲۱۶۰۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۵۴۴)۔ نبی صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ سفر كے دوران میں ایك سوئے ہوئےصحابی كی رسی دوسرے نے پكڑ كر كھینچی تو وه گھبرا گیا۔ آپ نے فرمایا : كسی مسلمان كے لیے جائز نہیں كہ دوسرے مسلمان كو خوف زدہ كرے(ابو داؤد، رقم ۵۰۰۴۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۲۱۱۷۷)۔ دوسرے واقعے میں ایك سوئے ہوئے صحابی كا تركش چھپا لیا گیا۔ بیدار ہو كر وه پریشان ہوا تو دوسرے اصحاب ہنسنے لگے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ہنسی كا سبب دریافت فرمایا توانھوں نے بتایا: دل لگی كرنے كے لیےہم نے ان كا تیر دان چھپا لیا ہے، ان كی گھبراہٹ دیكھ كر ہم ہنسنے لگے۔ آپ نے فرمایا : كسی مسلمان كےلیے جائز نہیں كہ دوسرے مسلمان كو خوف زده یا پریشان كرے (احمد، رقم ۲۳۰۶۴)۔

رومیوں كی قید میں

۱۹ھ: حضرت عبدالله بن عباس اور حضرت ابورافع كی روایت ہے: خلیفہ ٔ ثانی حضرت عمر نے شام كی طرف ایك لشكر بھیجا۔ حضرت عبدالله بن حذافہ بھی اس میں شامل تھے۔ قیساریہ كے مقام پر جنگ كرتے ہوئے وه رومیوں كے گھیرے میں آ گئے۔ انھوں نے ان كو قید كر لیا اور قسطنطنیہ میں قیصر روم كے سامنے پیش كیا۔ اس نے بیڑیوں میں جكڑے ہوئے حضرت عبدالله بن حذافہ كو دیكھا تو كہاكہ تم نصرانی ہوجاؤ، میں تمھیں اپنا مقرب بنا لوں گا اور اپنی بیٹی تم سے بیاه دوں گا(دوسری روایت:آدھی سلطنت تمھیں دے دوں گا)۔ فرمایا:اگر تو اپنی تمام مملكت اور تمام عرب كی حكمرانی بھی مجھے دے دے تو میں پلك جھپكنے جتنی دیر كے لیے بھی محمد صلی الله علیہ وسلم كا دین نہ چھوڑوں گا۔ بادشاه نے كہا: دیكھو پھر كیا ہوتا ہے۔ یہ كہہ كر اس نے ایك ماہرتیر انداز مسلمان قیدی كو بلایا، سولی پر لٹكا كر اس كے سر پر دائیں بائیں طرف سے تیروں كی بوچھاڑ كر دی۔ دوسری روایت كے مطابق خود حضرت عبدالله كو سولی پر لٹكا كرانھیں خوف زده كرنے كے لیے ان كے ہاتھوں اور پاؤں كے پاس تیر برسائے۔ اب بادشاه نےپھر پوچھا:میری بات مان كر اپنی جان كیوں نہیں بچا لیتے؟ حضرت عبدالله نے جواب دیا:اگر میں ایسا نہ كروں تو ؟ بادشاہ غصے میں آگیا اور كہا :دیكھو كیا ہوتا ہے۔ اس نے ایك بڑی دیگ(یا تانبے كی بنی گاے) منگوائی، زیتون كا تیل ڈال كر اسے بھڑكتی آگ پر ركھا اور ایك مسلمان قیدی كو اس میں جھوكنے كا حكم دیا۔ قیدی كا گوشت ریزه ریزہ ہو گیا اور ہڈیاں تیل میں تیرنے لگیں۔ قیصرنے حضرت عبدالله بن حذافہ كو عیسائیت قبول كر كے اپنی جان بخشی كرانے كی پھر پیش كش كی۔ انھوں نے انكار كیا تو قیصر كا غصہ بڑھ گیا، اس نے انھیں بھی دیگ میں ڈالنے كا حكم دیا۔ حضرت عبدالله دیگ كے پاس كھڑے ہوگئے، ان كی آنكھوں سے آنسو جاری تھے۔ قیصر سمجھا كہ وه موت سے ڈر گئے ہیں، اس نے انھیں اپنے پاس بلایا تو وه بولے:والله، مجھے اس بات پر رونا آیا كہ كاش، میرے جسم پر موجود بالوں كے برابر میری جانیں ہوں اور ان سب كو الله كی راہ میں اس دیگ میں جھوك دیا جائے۔ قیصر ان كی دلیری سے بہت متاثر ہوا اور كہا :كیا تم میرے سر كا بوسہ لو گے تاكہ میں تمھیں آزاد كر دوں؟حضرت عبدالله نےپھر انكار كیا تو قیصر نے كہا: میں تمھارے ساتھ تمام (دوسری روایت:اسی) قیدیوں كو بھی چھوڑتا ہوں۔ اس پر حضرت عبدالله بن حذافہ آگے بڑھےاور قیصر كا ماتھا چوم لیا۔ مدینہ پہنچنے پر حضرت عمر یہ واقعہ سن كر بہت خوش ہوئے اور كہا:ہر مسلما ن پر لازم ہے كہ عبدالله كا ماتھا چومے اور میں اس كی ابتدا كرتا ہوں۔ كچھ صحابہ نے بر سبیل مزاح حضرت عبدالله بن حذافہ سے كہا كہ تم نے اس كٹر كافر كا ماتھا چوما تو وه كہتے :كیا حرج ہے كہ اس كے بدلے میں الله نے اسی مسلمان اسیروں كو رہائی دلا دی (المنتظم، ابن جوزی۱۱۴۱۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم اصفہانی، رقم۴۹۶۷۔ اسد الغابۃ، ابن اثیر ۳/۱۴۳۔ سیر اعلام النبلاء، ذہبی۲/ ۱۴۔ الاصابہ، ابن حجر،رقم۴۶۲۴۔ تاریخ دمشق، ابن عساكر،رقم ۳۳۱۸)۔

كچھ لوگوں كا خیال ہے كہ حضرت عبدالله بن حذافہ كا اكرام كرنے سے ظاہر ہوتا ہے كہ ہرقل پوشیده طور پر مسلمان ہو چكا تھا۔ اس نے اپنی قوم كو بھی اسلام قبول كرنے كی ہدایت كی، لیكن ان كے ردعمل سے خوف زدہ ہوگیا۔

صحت واقعہ

البانی كہتے ہیں :اس روایت كی سند ضعیف ہے،كیونكہ ایسے كسی راوی نے اسے نقل نہیں كیا جس نے یہ واقعہ حضرت عبدالله بن حذافہ سے سنا ہو۔ انھوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كیا كہ ابن حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اسے ایسے نقل كیا، گویا یہ صحیح ہے (ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، البانی، رقم ۲۵۱۵)۔

ناصر الدین البانی (۱۹۱۴ء تا ۱۹۹۹ء)اور مصطفیٰ احمد زرقا(۱۹۰۴ء تا ۱۹۹۹ء) كے شاگرد مشہور بن حسن آل سلمان (پیدایش ۱۹۶۰ء) نے اپنی كتاب ’’قصص لا تثبت‘‘ (۳ / ۷۴ - ۷۵)میں اس قصے كے تمام طرق بیان كر كے سب كو ضعیف قراردیا ہے۔

اضافی روایات

 ایك روایت میں اضافہ ہے كہ قیصر نے درمیان میں كچھ دن حضرت عبدالله كو قید میں بھوكا پیاسا ركھا اور بھوك كی شدت بڑھنے پر شراب اور خنزیر پیش كیے۔ اس نے ایك زن فاحشہ بھی ان كے پاس بھیجی، لیكن ان ترغیبات كا كچھ اثر نہ ہوا اور انھوں نے كہا: میں اپنے اسلام كو نشانۂ استہز ا نہ بننے دوں گا(تاریخ دمشق، ابن عساكر، رقم ۳۳۱۸۔  شعب الایمان، بیہقی)۔البانی كہتے ہیں :اس روایت كی سند ضعیف ہے،كیونكہ زہری اور حضرت عبدالله بن حذافہ كے درمیان سند منقطع ہے۔ دوسرے راوی بھی ضعیف اورواہی ہیں(ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل، البانی، رقم ۲۵۱۵)۔

ابن عائذ كے بیان كے مطابق قیصر روم نے تین سو مسلم اسیر رہا كرنے كے ساتھ حضرت عبدالله بن حذافہ كو تیس ہزار دینار، تیس باندیاں اور تیس غلام تحفے میں دیے۔

محمد بن عمر كی روایت ہے: حضرت عمر نے حضرت عبدالله بن حذافہ كو رہاكرانے كے لیے قسطنطنیہ خط لكھا۔ ابن سعد كے علاوه بلاذری نے بھی یہ روایت نقل كی ہے۔

فتح مصر، عین شمس

حضرت عمر وبن العاص نے فسطاط فتح كرنے كے بعد حضرت عبدالله بن حذافہ كو فوج دے كر عین شمس (Heliopolis) بھیجا۔ انھوں نے عین شمس زیر كرنے كے بعد وہاں كے باشندوں سے اہل فسطاط سے كیے جانے والے معاہدے كے شرائط كے مطابق صلح كر لی(فتوح البلدان، بلاذری۳۰۴)۔

 فتح مصر، اسكندریہ

۲۱ھ :خلیفۂ ثانی حضرت عمر سے مشوره كرنے كے بعد حضرت عمرو بن العاص نے اسكندریہ كا رخ كیا۔ تین ماه كے محاصرے اور سخت لڑائی كے بعد وه اسكندریہ میں داخل ہو گئے۔ مال غنیمت جمع كرنے كے بعد انھوں نےكسی كو قتل كیا نہ قیدی بنایا۔ شاه مصر مقوقس نے بھی تیرہ ہزار دینار جزیہ ادا كرنے كی شرط مان كر صلح كر لی۔ خمس مدینہ بھیجنے كےبعدحضرت عمرو بن العاص نے حضرت عبدالله بن حذافہ كی سربراہی میں اسكندریہ میں چھاؤنی قائم كر دی اور خود فسطاط لو ٹ گئے۔ ۲۵ھ میں اسكندریہ كے باشندوں نے ہرقل كے بیٹے قسطنطین سے فریاد كی تو اس نے منویل كی سالاری میں تین سو سواروں پر مشتمل فوج بھیجی جس نے وہاں پر مقیم كئی مسلمانوں كو شہید كر كے اسكندریہ واپس لے لیا۔ حضرت عمرو بن العاص كو خبرملی تو پندره ہزار كا لشكر لے كر دوباره چڑھائی كی اورشدید قتال كے بعد اسكندریہ پر تسلط بحال كیا(فتوح البلدان، بلاذری۳۱۰)۔

وفات

 اپنے زمانے كی دونوں سپر پاوروں كے سربراہوں سے ملاقات كرنے اور مصر كی فتح میں شركت كرنے كے بعد حضرت عبدالله بن حذافہ نے مصر ہی میں اپنا گھر بنایا۔ انھوں نے ۳۳ھ كو عہد عثمانی میں مصر میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔

ازواج و اولاد

بہت كوشش كے باوجود ہمیں حضرت عبدالله بن حذافہ كی ازواج و اولاد كے بارے میں معلومات نہیں مل سكیں۔

روایت حدیث

حضرت عبدالله بن حذافہ سےتین مرسل ا حادیث مروی ہیں۔ ان سے روایت كرنے والوں كے نام: ابووائل، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، سلیمان بن یساراور مسعود بن الحكم۔

 قراءت خلف الامام

 آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایك بار حضرت حذیفہ كو نماز(با جماعت) میں اونچی آواز میں قراءت كرتے سنا تو فرمایا:ابو حذیفہ (كنیت حضرت عبدالله بن حذافہ) اپنی قراءت سے اپنے رب سے مناجات كرو، مجھے نہ سناؤ، الله كو سناؤ(طبقات ابن سعد، رقم ۴۰۴۔ احمد، رقم ۸۳۲۶ضعیف۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۲۹۰۸)۔

عید قرباں كا گوشت

 ابن حجر كہتےہیں:خلف بن محمد واسطی نے ’’اطراف الصحیحین ‘‘میں حضرت عبدالله بن حذافہ سے روایت نقل كی ہے كہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے قربانی كا گوشت تین دن كے بعد كھانے سے منع كیاہے۔ حدیث كی كسی كتاب میں یہ روایت حضرت عبدالله بن حذافہ سے نقل نہیں ہوئی۔ البتہ بخاری (رقم۵۵۷۳)، مسلم (رقم ۵۱۳۹) میں حضرت علی سے، مسلم (رقم ۵۱۴۳) میں حضرت عبدالله بن عمر سے اور موطا امام مالك (رقم ۱۳۹۲) میں حضرت عبدالله بن جابر سے مروی ہے۔ حضرت عائشہ اورحضرت سلمہ بن اكوع فرماتے ہیں:آپ كے منع كرنے كے ایك سال بعدصحابہ نےگزارش کی:یا رسول اللہ، لوگ قربانی کیے ہوئے جانوروں سے بہت فائدہ اٹھایا کرتے تھے، ان کی چربی اکٹھی کر تے اور ان کی کھالوں کی مشکیں بنالیتے تھے۔ آپ نے فرمایا، میں نے تومدینہ میں آنے والے خانہ بدوشوں (اور خشک سالی) کی خاطر منع کیا تھا۔ اب گوشت کھاؤ، صدقہ کرو اور ذخیرہ کرو (بخاری، رقم ۵۵۶۹۔ مسلم، رقم ۵۱۴۴۔ ابوداؤد، رقم ۲۸۱۲۔ نسائی، رقم ۴۴۳۶۔ احمد، رقم ۱۱۵۴۳۔ موطا امام مالك، رقم ۱۳۹۳)۔

 ایام تشریق كے روزے

حجۃ الوداع كے موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایام تشریق میں قیام منی ٰ كے دوران میں حضرت عبدالله بن حذافہ كو حاجیوں كے بیچ یہ اعلان كرنے كے لیے بھیجا: لوگو، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے :یہ كھانے پینے اور الله كو یاد كرنے كے دن ہیں۔ ان دنوں میں كوئی روزہ نہ ركھے (الطبقات الكبریٰ، ابن سعد، رقم ۴۰۴۔ احمد، رقم ۱۰۶۶۴۔ موطا امام مالك، رقم ۱۱۰۲ صحیح لغیره۔ السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۲۸۸۹۔ مستدرك حاكم،رقم ۶۶۵۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۸۲۱۷۔ سنن دارقطنی، رقم ۲۴۰۷)۔ چنانچہ صحابہ نے حضرت عبدالله بن حذافہ كو منی ٰ میں سرخ اونٹنی پر بیٹھے ہوئےیہ اعلان كرتے سنا(السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۲۸۹۴)۔ آپ نے حضرت بدیل بن ورقا اور حضرت بلال كو بھی یہ ذمہ داری سونپی(الطبقات الكبریٰ، ابن سعد، رقم ۴۷۵۔ احمد، رقم ۱۶۰۳۸۔ سنن دارقطنی، رقم ۲۴۰۸)۔

حضرت عائشہ، امام مالك اور اوزاعی كہتے ہیں: حج تمتع كرنے والے كو اگر قربانی نہ مل سكے تو قیام منیٰ كے دوران میں وه تین روزے ركھ سكتا ہے جو قرآن مجید كے اس حكم كے مطابق ایام حج میں ركھنے ضروری ہیں: ’فَاِذَا٘ اَمِنْتُمْﵴ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ اِلَي الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِﵐ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ اِذَا رَجَعْتُمْﵧ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ‘، ’’ اور جب تم اطمینان پاؤ تو جو كوئی حج تك عمرے سے فائده اٹھائے، قربانی كرے جو اس كو میسر آئے، اور جسے قربانی نہ مل سكی تو وه تین دن كے روزے ایام حج میں ركھے اور سات جب تم حج سے لوٹ جاؤ، یہ كل دس روزے ہوئے‘‘ (البقرہ ۲: ۱۹۶) (موطاامام محمد، رقم ۳۷۰)۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف(بلاذری)، فتوح البلدان(بلاذری)، تاریخ الامم و الملوك (طبری)، معرفۃ الصحابۃ (ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الكامل فی التاریخ (ابن اثیر)، تہذیب الكمال فی اسماء الرجال (مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، قصص لا تثبت (مشہور بن حسن)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

 

اعتذار

ماہنامہ ’’اشراق‘‘ اگست ۲۰۲۳ء کے شمارے میں محمد وسیم اختر مفتی صاحب کے مضمون ’’مہاجرین حبشہ (۲۲)‘‘ میں ایک لفظ ’’لحی‘‘ فونٹ کی خرابی کے باعث ’’لحی‘‘ شائع ہو گیا ہے۔ براہِ مہربانی تصحیح فرما لیجیے۔ ــــــ ادارہ


B