مرد وزن کے اختلاط کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں اس کے جو حدود وآداب بیان کیے گئے ہیں، کیا ان کی رو سے یہ لازم ہے کہ خواتین، غیر محرم مردوں سے حجاب میں رہیں، یعنی کھلے چہرے کے ساتھ ان کے سامنے نہ آئیں؟ قرآن مجید میں جو ہدایات اس سوال سے براہ راست متعلق ہیں، ان میں سے ایک سورۂ نور میں اور دو ہدایات سورۂ احزاب میں آئی ہیں۔
سورۂ نور میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْﵧ ذٰلِكَ اَزْكٰي لَهُمْﵧ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۣ بِمَا يَصْنَعُوْنَ. وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ.(۲۴: ۳۰- ۳۱)
’’ (اے پیغمبر)، اہل ایمان مردوں کو ہدایت کرو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ بے شک، جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔ اور اہل ایمان عورتوں کو ہدایت کرو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں، سواے اس زینت کے جو کھلی ہوتی ہے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال کر رکھیں۔‘‘
دوسری ہدایت سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۵۳ میں بیان ہوئی ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّا٘ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰي طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍﵧ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْﵟ وَاللّٰهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّﵧ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍﵧ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّﵧ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَلَا٘ اَنْ تَنْكِحُوْ٘ا اَزْوَاجَهٗ مِنْۣ بَعْدِهٖ٘ اَبَدًاﵧ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمًا.
’’ایمان والو، تم نبی کے گھروں میں مت جایا کرو، الاّ یہ کہ تم کو کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح کہ اُس کی تیاری کے منتظر نہ رہو، بلکہ جب تم کو بلایا جائے تو داخل ہو، پھر جب کھانا کھا لو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو۔ اِس سے پیغمبر کو اذیت ہوتی ہے، مگر وہ تمھارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ حق بات کہنے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ اور تمھیں جب نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمھارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور اُن کے دلوں کے لیے بھی۔ تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ اُس کے بعد تم اُس کی بیویوں سے کبھی نکاح کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑی سنگین بات ہے۔‘‘
تیسری ہدایت سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۵۹ میں دی گئی ہے:
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا.
’’ اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ اِس سے اس کا زیادہ امکان ہے کہ ان کی شناخت ہو جائے اور پھر ان کو ستایا نہ جائے۔اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
ان میں سے سورۂ نور کی آیت میں خواتین کو اپنی وہ زینت کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی ہے جو ظاہر ہوتی ہے۔ صحابہ وتابعین کے متعدد تفسیری آثار میں اس کا مصداق چہرے اور ہاتھ پاؤں جیسے اعضا کو اور ان پر کی گئی زیبایش کو قرار دیا گیا ہے۔ یوں یہ آیت ان اعضا کو کھلا رکھنے کی اجازت بیان کر رہی ہے۔ اس کے برعکس سورۂ احزاب کی دونوں ہدایات کا مفاد یہ سامنے آتا ہے کہ غیر محرم مردوں اور خواتین کے مابین حجاب ہونا چاہیے اور خواتین کو گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بڑی چادر اپنے جسم پر ڈال لینی چاہیے، جس کی صورت بعض تفسیری آثار میں یہ بیان کی گئی ہے کہ سر کے اوپر سے چادر کو چہرے پر اس طرح لٹکا لیا جائے کہ چہرے کا بیش تر حصہ چھپ جائے۔
اب اگر سورۂ نور کی آیت کو مذکورہ تفسیر کے مطابق حکم کا بنیادی ماخذ مانا جائے تو چہرے کے پردے کو شرعاً لازم قرار نہیں دیا جا سکتا، جب کہ سورۂ احزاب کی ہدایات کو بنیادی ماخذ سمجھا جائے تو حجاب لازم قرار پاتا ہے ۔ یوں قرآن مجید کی ان ہدایات کا مفہوم اور ان کا باہمی ربط وتعلق متعین کرنے کا سوال سامنے آتا ہے۔ فطری طور پر اس ضمن میں اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے اور مختلف اہل علم نے ان نصوص کی تعبیر وتشریح سے چہرے کے پردے کے لازم ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے مختلف نتائج اخذ کیے ہیں۔
ان تعبیری اختلافات کے علاوہ اس بحث میں دو متعارض عقلی وفقہی قیاسات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں: ایک قیاس یہ ہے کہ شریعت کا مقصود جنسی کشش سے پیدا ہونے والے فتنے کی روک تھام ہے اور چہرہ چونکہ عورت کی خوب صورتی اور کشش کا سب سے نمایاں مظہر ہے، اس لیے اس کو غیر محرم مردوں سے چھپا کر رکھنا فتنے کے سدباب کے لیے ضروری ہونا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا قیاس یہ ہے کہ مرد وزن کا اختلاط ایک عملی معاشرتی ضرورت ہے اور تعارف، گفتگو یا روز مرہ کے لین دین کے لیے چہرے یا ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنا خواتین کے لیے ناگزیر ہے، اس لیے خواتین کو اس کا پابند بنانا مشقت اور حرج کا موجب اور شریعت کے عمومی مزاج کے خلاف ہے۔
ان متعارض قیاسات کی روشنی میں مختلف اہل علم مذکورہ نصوص کا مفہوم اور باہمی تعلق مختلف طریقوں سے متعین کرتے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ہم ان مختلف زاویہ ہاے نگاہ اوران کے پیش کردہ استدلالات کا ایک تقابلی وتوضیحی مطالعہ پیش کریں گے۔
جیسا کہ واضح کیا گیا، اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک غیر محرم مردوں اور خواتین کے میل جول کے ضمن میں شریعت کا بنیادی حکم وہ ہے جو سورۂ احزاب کی آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ اہل علم ان آیات کی دلالت کو زیادہ واضح اور فیصلہ کن قرار دیتے ہیں اور ان کی روشنی میں سورۂ نور کی ہدایت کی بھی ایسی تشریح کرتے ہیں جو غیر محرم مردوں سے حجاب کی ہدایت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
آیت حجاب میں امہات المومنین سے کوئی چیز مانگنے یا کوئی بات پوچھنے کے لیے یہ پابندی عائد کی گئی ہے کہ ایسا آمنے سامنے نہ ہو، بلکہ پردے کے پیچھے سے ضروری گفتگو یا معاملہ کیا جائے۔ اس سے خواتین کے متعلق ایک عمومی ہدایت اخذ کرنے کا رجحان ماضی کے بعض مفسرین، مثلاً قاضی ابوبکر ابن العربی اور امام قرطبی کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے (اگرچہ سورۂ نور کے تحت یہ دونوں اہل علم ، جیساکہ آیندہ چل کر وضاحت کی جائےگی، اس سے مختلف بات کہتے ہیں)۔ چنانچہ ابن العربی لکھتے ہیں:
وهذا يدل على أن اللّٰه أذن في مساءلتهن من وراء حجاب في حاجة تعرض أو مسالة يستفتى فيها والمرأة كلها عورة بدنها وصوتها فلا يجوز لها كشف ذالك إلا لضرورة أو لحاجة كالشهادة عليها أو داء يكون ببدنها أو سوالها عما يعن ويعرض عندها. (احکام القرآن ۳ / ۶۱۶)
’’یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ضرورت پیش آنے پر یا کسی مسئلے میں ان کی راے لینے کے لیے پردے کے پیچھے رہتے ہوئے خواتین سے کوئی بات پوچھنے کی اجازت دی ہے۔ عورت کا پورا جسم اور اس کی آواز پوشیدہ ہونی چاہیے اور اس کے لیے جسم کو کھولنا جائز نہیں، سواے اس کے کہ کوئی ضرورت پیش آ جائے، جیسا کہ عورت کے متعلق گواہی دینی ہو یا اس کے جسم میں کوئی بیماری ہو یا عورت کے سامنے پیش آنے والے کسی واقعے کے متعلق اس سے استفسار کرنا ہو۔‘‘
امام قرطبی نے بھی کچھ اضافے کے ساتھ اس عبارت کو نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
في هذه الآية دليل على أن اللّٰه أذن في مساءلتهن من وراء حجاب في حاجة تعرض أو مسالة يستفتين فيها ويدخل في ذالك جميع النساء بالمعنى وبما تضمنته أصول الشريعة من أن المرأة كلها عورة بدنها وصوتها كما تقدم فلا يجوز كشف ذالك إلا لحاجة كالشهادة عليها أو داء يكون ببدنها أو سوالها عما يعرض وتعن عندها.(الجامع لاحکام القرآن ۱۷ / ۲۰۸)
’’یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ضرورت پیش آنے پر یا کسی مسئلے میں ان کی راے لینے کے لیے پردے کے پیچھے رہتے ہوئے امہات المومنین سے کوئی بات پوچھنے کی اجازت دی ہے۔ علت کی رو سے اس حکم میں باقی تمام عورتیں بھی داخل ہیں۔ نیز جیسا کہ گزر چکا، شریعت کے اصولوں کا مقتضا بھی یہی ہے کہ عورت کا پورا جسم اور اس کی آواز پوشیدہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ عورت کے جسم کو کھولنا جائز نہیں، سواے اس کے کہ کوئی ضرورت ہو، جیسا کہ عورت کے متعلق گواہی دینی ہو یا اس کے جسم میں کوئی بیماری ہو یا عورت کے سامنے پیش آنے والے کسی واقعے کے متعلق اس سے استفسار کرنا ہو۔‘‘
زیر بحث آیت سے مسلمان خواتین کے لیے حجاب کے واجب ہونے کے موقف کی زیادہ نمایاں اور پرزور ترجمانی، دراصل دور جدید کے اہل علم کے ہاں ملتی ہے۔ ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ ہدایت اگرچہ بہ ظاہر ازواج مطہرات کے حوالے سے دی گئی ہے، لیکن اس کی علت یہ بتائی گئی ہے کہ گفتگو کرنے والوں اور امہات المومنین، دونوں کے دل پاک رہیں۔ چونکہ قلبی پاکیزگی کا اہتمام سبھی مردوں اور عورتوں سے مطلوب ہے، اس لیے اس سے یہ استدلال بالکل معقول ہے کہ سبھی خواتین کو غیر محرم مردوں سے حجاب کا اہتمام کرنا چاہیے۔
مولانا امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط، ان کا ایک مجلس میں بیٹھ کر خوش گپیاں کرنا، دعوتوں میں باہم مل جل کر کھانا پینا، تفریحات میں ایک ساتھ شریک ہونا اسلام کی تہذیب نہیں ہے۔ یہ آیت بھی اگرچہ ظاہر الفاظ کے لحاظ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے متعلق معلوم ہوتی ہے، لیکن اس میں جو ہدایات دی گئی ہیں، وہ ان ہی سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ بعینہٖ یہی ہدایات خود قرآن مجید کے اندر پوری اسلامی سوسائٹی کے لیے نازل ہوئی ہیں۔‘‘ (اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام ۱۰۲)
ایک دوسرے مقام پر مولانا اس سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ یہاں اس ہدایت میں خاص طور پر امہات المومنین کو کیوں مخاطب بنایا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’خطاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شروع شروع میں معاشرتی اصلاح کا یہ مشکل قدم آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں ہی سے اٹھایا گیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام امت کی خواتین کے لیے نمونہ ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور آپ کے اہل بیت پر ان ہدایات واحکام کی ذمہ داری زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ عائد ہوتی تھی۔‘‘ (قرآن میں پردے کے احکام ۷)
ان اہل علم کے نقطۂ نظر سے آیت حجاب میں اگر خصوص کا کوئی احتمال ہو سکتا ہے تو وہ آیت جلباب سے ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ساتھ ساتھ تصریحاً آپ کی بیٹیوں اور مسلمانوں کی خواتین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایک بڑی چادر اپنے جسم پر ڈال لیا کریں تاکہ ان کے انداز لباس سے ان کے کردار کی شناخت ہو جائے اور اوباش لوگ انھیں اذیت پہنچانے کی جسارت نہ کر سکیں۔
اس آیت کی تفسیر میں صحابہ وتابعین کے آثار میں ادناء جلباب کی ایک صورت یہ نقل ہوئی ہے کہ پورے چہرے کو چادر میں چھپا کر صرف ایک آنکھ کو دیکھنے کے لیے ننگا رکھا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چادر کو پیشانی پر باندھ کر ناک پر ڈال دیا جائے، جس سے آنکھیں تو ننگی رہیں، لیکن چہرے کا زیادہ تر حصہ چھپ جائے۔ یہ دونوں صورتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہیں۔ حسن بصری سے اس کا طریقہ یہ منقول ہےکہ چادر سے آدھے چہرے کو چھپا لیا جائے (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۱۷/ ۲۳۰)۔ وجوب حجاب کے قائل اہل علم ادناء جلباب کی پہلی صورت کو مطلوب اور آیت کی مراد تصور کرتے اور اس کی روشنی میں چہرے کو چھپا کر رکھنے کو خواتین پر واجب قرار دیتے ہیں ۔
آیت حجاب سے متعلق اگر ان اہل علم کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس میں خاص طور پر امہات المومنین کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟ تو آیت جلباب سے متعلق یہ سوال ہے کہ یہاں سیاق وسباق میں منافقین کی فتنہ پردازی اور شرانگیزی کی ایک مخصوص صورت حال کا ذکر ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے ایک عمومی حکم کے بجاے مخصوص حالات میں تجویز کی گئی ایک حفاظتی تدبیر تصور کیا جائے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس اشکال کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس ٹکڑے سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اشرار کے شر سے مسلمان خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اول تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں، البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہو گئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔‘‘ (تدبر قرآن ۶/ ۲۷۰)
سورۂ نور کی مذکورہ آیت میں ’وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ‘کے الفاظ کلیدی ہیں۔ ان کی تشریح میں مفسرین صحابہ سے دو آرا نقل ہوئی ہیں:
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہاں زینت کو آرایش وزیبایش کے مفہوم میں لیتے ہیں اور ’اِلَّا مَا ظَهَرَ‘ کا مصداق ان کی راے میں عورت کا لباس ہے۔ گویا آیت کا مدعا یہ ہے کہ خواتین نے جو آرایش وزیبایش فطری طور پر کی ہو، وہ غیر محرموں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہیے، البتہ انھیں اپنا ظاہری لباس چھپانے کی ضرورت نہیں۔
دوسری تشریح عبد اللہ ابن عباس، سیدہ عائشہ، عبد اللہ بن عمر، قتادہ اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ سے مروی ہے اور اس کی رو سے ’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ صرف لباس تک محدود نہیں، بلکہ وہ زیبایش بھی اس کے مدلول میں داخل ہے جو عورت نے اپنے ظاہری اعضا پر کی ہو، مثلاً آنکھ کا سرمہ ، رخسار پر لگایا گیا غازہ، انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی، کلائی پر پہنے ہوئے کنگن اور ہاتھ پر لگی ہوئی منہدی وغیرہ (تفسیر الطبری ۱۷/ ۲۵۶ - ۲۶۱)۔
ان میں سے پہلی تشریح کی رو سے زیر بحث جملے کا چہرے کے پردے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا، کیونکہ آیت سرے سے جسمانی اعضا سے تعرض ہی نہیں کرتی۔ یوں پردے سے متعلق شریعت کی منشا جاننے کے لیے دیگر نصوص، یعنی سورۂ احزاب کی طرف رجوع ناگزیر ہے اور انھی کی روشنی میں زیر بحث ہدایت کا مفہوم متعین کرنا ضروری ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری تفسیر کے مطابق یہ آیت تصریحاً چہرے کے پردے کا حکم واضح کرتی ہے، کیونکہ ہاتھ اور چہرے پر کی گئی زینت اگر چھپانے کا حکم نہیں ہے تو بدیہی طور پر ہاتھ اور چہرے کو بھی چھپانا لازم نہیں۔ چنانچہ بعض تفسیری آثار میں اسی کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ سے مراد چہرہ، ہاتھ، کلائیاں اور پاؤں ہیں (تفسیر الطبری ۱۷/ ۲۶۱)۔
جو اہل علم خواتین کےلیے چہرے اور ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنے کے جواز کے قائل نہیں، وہ بدیہی طور پر مذکورہ آیت کی پہلی تفسیر کو قبول کرتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں یہ آیت مسئلۂ حجاب سے براہ راست متعلق نہیں رہتی۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ عربی زبان میں ’زینت‘ کا لفظ خلقی خوب صورتی کے لیے نہیں، بلکہ زیبایش کے لیے بولا جاتا ہے، اور اس کا مصداق چہرے اور ہاتھوں کی خوب صورتی نہیں، بلکہ خوب صورت کپڑے اور زیورات وغیرہ ہی ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ یہاں جس زینت کو کھلا رکھنے کی رخصت دی گئی ہے، اس سے مراد عورت کے جسمانی اعضا، یعنی ہاتھ اور چہرہ وغیرہ نہیں، بلکہ وہ زیبایش ہے جو خواتین زیور اور لباس وغیرہ کی صورت میں اختیار کرتی ہیں۔ یوں خلقی زینت، یعنی چہرے اور ہاتھ پاؤں کو براہ راست ’مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کا مصداق قرار دینے کی بنیاد باقی نہیں رہتی۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ زینت کے مفہوم میں چاہے جسمانی اعضا براہ راست داخل نہ ہوں، لیکن چونکہ چہرے اور ہاتھوں پر کی گئی زینت بہرحال ظاہری زینت کا مصداق ہے، اس لیے بالواسطہ چہرے اور ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنے کی اجازت اس آیت سے واضح ہوتی ہے تو اس کا جواب ان حضرات کے نزدیک یہ ہے کہ چونکہ ان ہدایات کا مقصد فتنہ کے اسباب وذرائع کی روک تھام ہے، اس لیے حکم کی علت کی رعایت سے ’اِلَّا مَا ظَهَرَ‘سے مراد ایسی زینت لینا ضروری ہے جس کے اظہار کے ساتھ عورت کے جسم کے کسی حصے کا نمایاں ہونا وابستہ نہ ہو۔
ابن الجوزی نے اس استدلال کو یوں واضح کیا ہے:
قَدْ نَصَّ عَلَيْهِ أحْمَدُ، فَقالَ: الزِّينَةُ الظّاهِرَةُ: الثِّيابُ، وكُلُّ شَيء مِنها عَوْرَةٌ حَتّى الظُّفْرُ، ويُفِيدُ هَذا تَحْرِيمَ النَّظَرِ إلى شَيء مِنَ الأجْنَبِيّاتِ لِغَيْرِ عُذْرٍ فإن كان لعذر مثل أن يريد أن يتزوجها أو يشهد عليها فإنه ينظر في الحالين إلى وجهها خاصة فأما النظر إليها لغير عذر فلا يجوز لا لشهوة ولا لغيرها وسواء في ذالك الوجه والكفان وغيرهما من البدن. (زاد المسیر ۶/ ۳۱- ۳۲)
’’امام احمد نے اس کی تصریح کی ہے اور فرمایا ہے کہ زینت ظاہرہ کا مصداق عورت کے کپڑے ہیں۔ اس کے علاوہ عورت کے جسم کا ہر ہر حصہ، یہاں تک کہ ناخن بھی پوشیدہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی عذر کے بغیر اجنبی عورتوں کے جسم کے کسی حصے کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی عذر ہو، مثلاً آدمی کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو یا اس کے متعلق گواہی دینے کی ضرورت ہو تو دونوں صورتوں میں وہ صرف اس کے چہرے کو دیکھ سکتا ہے۔ عذر کے بغیر عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں، چاہے شہوت کی حالت میں ہو یا اس کے بغیر۔ اس میں عورت کے چہرہ، ہاتھ اور جسم کے باقی اعضا کا حکم ایک ہی ہے۔‘‘
علامہ شنقیطی لکھتے ہیں:
أظْهَرُ القَوْلَيْنِ المَذْكُورَيْنِ عِنْدِي قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ - رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ -: أنَّ الزِّينَةَ الظّاهِرَةَ هي ما لا يَسْتَلْزِمُ النَّظَرُ إلَيْها رُؤْيَةَ شَيْءٍ مِن بَدَنِ المَرْأةِ الأجْنَبِيَّةِ، وإنَّما قُلْنا: إنَّ هَذا القَوْلَ هو الأظْهَرُ؛ لِأنَّهُ هو أحْوَطُ الأقْوالِ، وأبْعَدُها عَنْ أسْبابِ الفِتْنَةِ، وأطْهَرُها لِقُلُوبِ الرِّجالِ والنِّساءِ، ولا يَخْفى أنَّ وجْهَ المَرْأةِ هو أصْلُ جَمالِها ورُؤْيَتَهُ مِن أعْظَمَ أسْبابِ الِافْتِتانِ بِها؛ كَما هو مَعْلُومٌ والجارِي عَلى قَواعِدِ الشَّرْعِ الكَرِيمِ، هو تَمامُ المُحافَظَةِ، والِابْتِعادُ مِنَ الوُقُوعِ فِيما لا يَنْبَغِي.(اضواء البیان ۶/ ۲۲۳)
’’میرے نزدیک ان دونوں میں سے زیادہ درست تشریح ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشریح ہے کہ ظاہری زینت سے مراد وہ زینت ہے جس کی طرف دیکھنے کے لیے غیر محرم عورت کے جسم کے کسی حصے کی طرف دیکھنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ہم نے اس کو زیادہ درست اس لیے قرار دیا کہ یہی محتاط ترین بات ہے، اسی سے فتنے کے اسباب سے زیادہ دور رہا جا سکتا ہے اور یہی مردوں اور عورتوں کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ عورت کا چہرہ ہی اس کی خوب صورتی کا اصل مظہر ہے اور چہرے کو دیکھنا ، عورت پر فریفتگی کے نمایاں ترین اسباب میں سے ہے، جیسا کہ معلوم ہے۔ شریعت مطہرہ کے قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ اس ضمن میں مکمل احتیاط اختیار کی جائے اور ناجائز امور میں مبتلا ہونے سے بالکل دور رہا جائے۔‘‘
متاخرین احناف میں سے قاضی ثناء اللہ مظہری اور دور جدید کے حنفی اہل علم میں سے علامہ صابونی نے بھی حکم کے مقصد اور علت کے پہلو سے آیت کی اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے (تفسیر المظہری ۶/ ۳۷۸۔ روائع البیان ۲/ ۱۵۶- ۱۵۷)۔
اس موقف کی تائید میں ان میں سے بعض اہل علم یہ نکتہ بھی شامل کرتے ہیں کہ ’اِلَّا مَا ظَهَرَ‘کی تعبیر کسی زینت کے ناگزیر طور پر کھلا ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی ایسی زینت جسے چھپانے کا اہتمام ناممکن یا شدید حرج اور مشقت کا موجب ہو۔ اس لحاظ سے بھی اس کا مصداق لباس کی زینت ہی ہو سکتی ہے جسے چھپایا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ایسے اظہار زینت کو بھی اس کا مصداق مانا جا سکتا ہے جو بلا ارادہ اور اضطراری ہو۔ گویا مراد یہ ہے کہ جان بوجھ کر تو زینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں، لیکن جو زینت اٹھتے بیٹھتے اور حرکت کرتے ہوئے ازخود ظاہر ہو جائے، اس پر مواخذہ نہیں۔
ممتاز سلفی عالم علامہ ابن عثیمین فرماتے ہیں:
وعلى هذا يكون الاستثناء عائدًا على ما يبدو من الثياب الذي لا بد من ظهوره؛ وذالك لأنها لو حرِّم عليها حتى الثياب التي تبدو ولا بد من ظهورها لوجب عليها أن تبقى في البيت؛ إذ لا يمكن تطبيق هذا الأمر إلا بذالك وهذا أمر لم يكلِّف اللّٰه به. إذن تبيَّن أن الراجح في قوله: ﴿اِلَّا مَا ظَهَرَ ﴾ ما ظهر من اللباس يعني مثل ما مثل به ابن مسعود رضي اللّٰه عنه الجلباب والرداء والعباءة وما أشبهه يعني الشيء الذي لا بد من ظهوره وظهوره ضروري فهو مباح. (تفسیر ابن عثیمین، سورۂ نور ۱۶۷)
’’اس تشریح کے مطابق استثنا کا تعلق عورت کے کپڑوں سے ہے، جن کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ اگر کپڑوں کو ظاہر کرنا بھی حرام قرار دیا جاتا، جن کے ظاہر ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر اس کا لازمی تقاضا یہ ہوتا کہ عورت بس گھر کے اندر رہے، کیونکہ اس حکم پر اس کے بغیر عمل ممکن نہیں، لیکن یہ پابندی اللہ تعالیٰ نے عائد نہیں کی۔ اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ’اِلَّا مَا ظَهَرَ‘کے مصداق کے متعلق راجح بات یہی ہے کہ اس سے مراد لباس کا ظاہری حصہ ہے، جس کی مثال ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دی ہے، مثلاً جلباب، چادر، عبایہ وغیرہ، یعنی ایسی چیزیں جن کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو وہ مباح ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی اس تعبیر کا مفہوم ’’ناگزیر طور پر ظاہر ہو‘‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے، جب کہ مولانا مودودی نے ان دونوں نکتوں کو جمع کرتے ہوئے آیت کا مدعا یوں واضح کیا ہے:
’’صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہ کرنی چاہیے، البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جائے (جیسے چادر کا ہوا سے اڑ جانا اور کسی زینت کا کھل جانا) یا جو آپ سے آپ ظاہر ہو (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہے، کیونکہ بہرحال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں ہے اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہرحال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے)، اس پر خدا کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعود، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔ اس کے برعکس بعض مفسرین نے ’ما ظھر منھا‘ کا مطلب لیا ہے ’ما یظھرہ الانسان علی العادة الجاریة‘ (جسے عادۃً انسان ظاہر کرتا ہے)، اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی تمام آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں۔ یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو مسی اور سرمے اور سرخی پاوڈر سے اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ کر کے لوگوں کے سامنے کھولے پھرے۔ یہ مطلب ابن عباس اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہاء حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے (احکام القرآن جصاص جلد ۳ ص ۳۸۸ - ۳۸۹) لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ ’ما ظهر‘ کے معنی ’ما یظھر‘ عربی زبان کے کس قاعدے سے ہو سکتے ہیں۔ ’’ظاہر ہونے‘‘ اور ’’ظاہر کرنے‘‘ میں کھلا ہوا فرق ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن صریح طور پر ’’ظاہر کرنے‘‘ سے روک کر ’’ظاہر ہونے‘‘ کے معاملے میں رخصت دے رہا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/ ۳۸۵)
مذکورہ توجیہ کا حاصل یہ ہے کہ زیربحث آیت میں چہرے اور ہاتھ پاؤں کو ارادتاً کھلا رکھنے پر سرے سے کوئی دلالت نہیں پائی جاتی۔
اس تشریح پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے، جس سے عموماً اس نقطۂ نظر کے قائلین تعرض نہیں کرتے، تاہم علامہ ابن عثیمین نے اس کو محسوس کرتے ہوئے اس کا جواب دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں سر پر اوڑھنی رکھنے اور اسی اوڑھنی سے سینے کے گریبان کو ڈھانکنے کی ہدایت دی ہے، لیکن درمیان میں چہرے کا ذکر نہیں کیا، اگر چہرے کو چھپانا بھی مطلوب تھا تو اس کی تصریح کیوں نہیں کی گئی اور کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ چہرے کو چھپانے کی پابندی عائد کرنا یہاں پیش نظر نہیں؟
ابن عثیمین نے اس اشکال کا جواب یوں دیا ہے کہ چہرے کو چھپانے کا حکم دراصل اوڑھنی کو سینے پر ڈالنے کے حکم میں مضمر ہے اور مراد یہ ہے کہ خاتون کو سر کی اوڑھنی اس طرح گریبان پر ڈالنی چاہیے کہ سر اور گریبان کے درمیان چہرہ بھی اس میں مستور ہو جائے۔ لکھتے ہیں:
إن اللّٰه سبحانه وتعالى أمر أن تضرب المرأة بخمارها على جيبها، ولازم ذالك أن ينزل من رأسها إلى الجيب. فهل المراد بضرب الخمار على الجيب أن يكون من تحت الوجه بحيث يبقى الوجه مكشوفًا والجيب مستورًا؟ أو أن المعنى أن تضرب بالخمار على الجيب مارًّا بالوجه؟ لأن هذا هو الأقرب، لأن الخمار ينزل من أعلى لأنه فوق الرأس، ثم الجيب إذا وجب ستره فالوجه من باب أولى. (تفسیر ابن عثیمین، سورۂ نور ۱۶۸ )
’’اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ عورت اپنی اوڑھنی کو اپنے گریبان پر ڈال لے۔ اوڑھنی لازماً سر سے گریبان کی طرف نیچے آئے گی۔ تو کیا مراد یہ ہے کہ اوڑھنی کو چہرے کے نیچے سے لا کر اس طرح گریبان پر ڈالا جائے کہ چہرہ ننگا رہے اور گریبان چھپ جائے؟ یا مراد یہ ہے کہ اوڑھنی کو چہرے کے اوپر سے گزار کر گریبان پر ڈالا جائے؟ یہ دوسری بات ہی زیادہ درست ہے، کیونکہ اوڑھنی اوپر سے نیچے آتی ہے، کیونکہ وہ سر کے اوپر ہوتی ہے۔ پھر جب گریبان کو اس طرح ڈھانپنا واجب ہے تو (درمیان میں) چہرے کا ڈھانپنا بدرجہ اولیٰ واجب ہوگا۔‘‘
اس کے علاوہ بعض دیگر توجیہات میں ’اِلَّا مَا ظَهَرَ‘کے اس مفہوم کو تو درست تسلیم کیا گیا ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اور آیت کی رو سے انھیں کھلا رکھنے کی اجازت ثابت ہوتی ہے، لیکن اسے ایک عمومی اجازت کا درجہ دینے کے بجاے بعض خاص حالات سے متعلق قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ متاخرین شوافع کے ہاں یہ زاویۂ نظر ملتا ہے کہ سورۂ نور میں بیان کی گئی رخصت کی حیثیت ایک عمومی اجازت کی نہیں، بلکہ یہ یا تو حالت نماز سے متعلق ہے یا اس سے معاشرتی زندگی میں ضرورت اور مجبوری کے ان حالات میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، جن میں پردے کا اہتمام مشقت کا موجب ہو۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں:
والمُسْتَثْنى هو الوَجْهُ والكَفّانِ لِأنَّها لَيْسَتْ بِعَوْرَةٍ والأظْهَرُ أنَّ هَذا في الصَّلاةِ لا في النَّظَرِ فَإنَّ كُلَّ بَدَنِ الحُرَّةِ عَوْرَةٌ لا يَحِلُّ لِغَيْرِ الزَّوْجِ والمَحْرَمِ النَّظَرُ إلى شَيْءٍ مِنها إلّا لِضَرُورَةٍ كالمُعالَجَةِ وَتَحَمُّلِ الشَّهادَةِ. (انوار التنزیل واسرار التاویل ۴/۱۰۴)
’’چہرہ اور دونوں ہاتھ اخفا کے حکم سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ یہ ستر کا حصہ نہیں ہیں۔ واضح تر بات یہ ہے کہ ان کو ننگا رکھنے کی اجازت نماز سے متعلق ہے، دیکھنے کے حوالے سے نہیں، کیونکہ آزاد عورت کا سارا جسم چھپا ہوا ہونا چاہیے اور شوہر اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ دوسروں کے لیے عورت کے جسم کے کسی حصے کو دیکھنا حلال نہیں، الّا یہ کہ کوئی ضرورت پیش آ جائے، جیسے علاج کرانا اور کسی معاملے میں گواہ بننا۔‘‘
دور جدید کے بعض حنفی اہل علم نے بھی اسی زاویۂ نظر کی ترجمانی کی ہے۔ مثلاً مولانا تقی عثمانی لکھتے ہیں:
’’ضرورت کے وقت عورت کو اگر اپنا چہرہ اور ہتھیلیوں تک ہاتھ کھولنے پڑیں تو اس آیت نے اس کی بھی اجازت دی ہے، لیکن چونکہ چہرہ ہی عورت کے حسن کا اصل مرکز ہوتا ہے، اس لیے عام حالات میں اس کو بھی چھپانے کا حکم ہے جیسا کہ سورۂ احزاب (۳۳- ۵۹) میں بیان فرمایا گیا ہے، البتہ صرف ضرورت کے مواقع پر اسے کھولنے کی اجازت ہے۔‘‘ (آسان ترجمۂ قرآن ۱۰۷۴)
امام ابن تیمیہ نے اس ضمن میں ایک منفرد طرز استدلال اختیار کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ اس آیت سے چہرے اور ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنے کی اجازت تو یقیناً ثابت ہوتی ہے، لیکن یہ شریعت کا کوئی محکم حکم نہیں، بلکہ منسوخ ہو چکا ہے۔ ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ حجاب سے متعلق احکام کے نزول میں ایک تدریج پائی جاتی ہے اور سورۂ احزاب کی ہدایات کو اس ضمن میں آخری شرعی حکم کی حیثیت حاصل ہے جس کے بعد سورۂ نور میں چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کے حوالے سے دی جانے والی گنجایش منسوخ ہو چکی ہے۔ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وکانوا قبل أن تنزل آیة الحجاب کان النساء یخرجن بلا جلباب یری الرجل وجھھا ویدیھا وکان إذ ذاک یجوز لھا أن تظھر الوجه والکفین وکان حینئذ یجوز النظر إلیھا لأنه یجوز لھا إظهاره ثم لما أنزل اللہ عزوجل آیة الحجاب بقوله: ﴿يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ﴾ حجب النساء عن الرجال. (مجموع الفتاویٰ ۲۲ / ۱۱۰)
’’آیت حجاب کے نزول سے پہلے عورتیں بڑی چادر کے بغیر باہر نکلا کرتی تھیں اور غیر محرم مرد ان کے چہروں اور ہاتھوں کو دیکھ سکتے تھے۔ اس وقت خواتین کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو ننگا کرنا جائز تھا اور چونکہ ان کے لیے ان اعضا کو ظاہر کرنا جائز تھا، اس لیے ان کی طرف مردوں کا دیکھنا بھی جائز تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حجاب کی آیت نازل فرما دی تو عورتوں کو مردوں سے حجاب میں رہنے کا پابند کر دیا گیا۔‘‘
امام ابن تیمیہ کے اس استدلال کے تتبع میں بہت سے معاصر اہل علم ان تمام احادیث کو بھی آیت حجاب کے نزول سے مقدم قرار دے کر منسوخ تصور کرتے ہیں جن سے مردوں کے لیے غیر محرم خواتین کو دیکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
بہرحال، وجوب حجاب کے قائلین سورۂ نور کی آیت کی دلالت پر سوال اٹھائیں یا اس اجازت کو حالت ضرورت سے متعلق قرار دیں یا منسوخ تصور کریں، ان سب صورتوں میں وہ اس باب میں عمومی شرعی حکم کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ ان حضرات کے نزدیک عمومی حکم کا ماخذ سورۂ احزاب کی وہ آیات ہیں جنھیں آیت حجاب اور آیت جلباب کا عنوان دیا جاتا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ