HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: فاطر ۳۵: ۱۹-۴۵ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَمَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰي وَالْبَصِيْرُ ١٩ﶫ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ ٢٠ﶫ وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُوْرُ ٢١ﶔ وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُﵧ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُﵐ وَمَا٘ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ ٢٢ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ ٢٣ اِنَّا٘ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًاﵧ وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ ٢٤ وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْﵐ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتٰبِ الْمُنِيْرِ ٢٥ ثُمَّ اَخَذْتُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ ٢٦  

(تمھارے مخاطبین سب یکساں نہیں ہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ اندھے اور آنکھوں والے یکساں نہیں ہوتے، روشنی اور اندھیرے بھی یکساں نہیں ہیں، دھوپ اور چھاؤں بھی یکساں نہیں ہوتی اور نہ زندے اور مردے یکساں ہو سکتے ہیں۔ بے شک، اللہ ہی (اپنے قانون کے مطابق)[114] جس کو چاہتا ہے، سننے کی توفیق دیتا ہے۔تم قبروں میں پڑے ہوئے اِن مردوں کو نہیں سنا سکتے ــــ تم تو صرف ایک خبردار کرنے والے ہو۔ ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔(اِس سے پہلے بھی) کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس کے اندر کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔[115] اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اِس لیے کہ اِن سے پہلے جو لوگ ہوئے ہیں،اُنھوں نے بھی اِسی طرح جھٹلا دیا تھا۔[116] اُن کے پاس بھی اُن کے رسول نہایت واضح دلائل اور صحیفوں اور روشن کتاب[117] کے ساتھ آئے تھے۔ پھر اُن کے منکرین کو میں نے پکڑا تو دیکھوکہ کیسی ہوئی اُن پر میری پھٹکار! ۱۹- ۲۶


اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًﵐ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَاﵧ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۣ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ ٢٧وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَﵧ اِنَّمَا يَخْشَي اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ ٢٨

تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، پھر اُس سے ہم نے رنگ رنگ کے پھل پیدا کر دیے اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ، مختلف رنگوں کی دھاریوں والے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔[118] اِسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں کے اندر بھی کئی رنگ کے ہیں۔[119] (لہٰذا ہر شخص سے ہر چیز کی توقع نہیں کرنی چاہیے[120])۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈریں گے جو علم والے ہیں۔[121]بے شک، اللہ زبردست ہے، درگذر فرمانے والا ہے۔[122] ۲۷- ۲۸


اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ ٢٩ﶫ لِيُوَفِّيَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖﵧ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ٣٠ وَالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِيْرٌۣ بَصِيْرٌ ٣١

(تمھارے مخاطبین میں، اے پیغمبر)، جو لوگ کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور جوکچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے کھلے اور چھپے (خدا کی راہ میں) خرچ کرتے رہے ہیں، کچھ شک نہیں کہ وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہو گا۔[123] اِس لیے امیدوار ہیں کہ اللہ اُن کو اُن کے اعمال کا پورا اجر بھی دے اور اُن کے لیے اپنے فضل سے زیادہ بھی کرے۔بے شک، اللہ بخشنے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔[124] (اِس طرح کے لوگ ہیں جو اِس دعوت کو قبول کریں گے،[125] اِنھیں بتاؤ کہ)ہم نے جو کتاب تمھاری طرف اتاری ہے، وہی حق ہے،[126] اُن پیشین گوئیوں کی مصداق جو اُس سے پہلے موجود ہیں۔ بے شک، اللہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔ [127]۲۹- ۳۱


ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَاﵐ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖﵐ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌﵐ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۣ بِالْخَيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِﵧ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ ٣٢ﶠ جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًاﵐ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ ٣٣ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ٘ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَﵧ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ٣٤ﶫ اِۨلَّذِيْ٘ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖﵐ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ ٣٥

(یہی حق اہل کتاب کے پاس بھی تھا، مگر اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں کی)، پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث اُن لوگوں کو بنادیا جنھیں اب ہم نے اپنے بندوں میں سے (اِس شرف کے لیے) منتخب کیا ہے۔[128] سو اُن میں سے کچھ تو اپنی جان پر ظلم ڈھانے والے ہیں[129] اور کچھ اُن میں سے بیچ کے راستے پر ہیں[130] اور کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔[131] یہی بہت بڑا فضل ہے۔[132] اُن کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے، اُنھیں وہاں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور اُن کا لباس وہاں ریشم کا ہوگا[133] اور وہ (یہ نعمتیں پا کر) کہیں گے کہ شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہر طرح کا غم ہم سے دور کر دیا۔[134] حقیقت یہ ہے کہ ہمارا پروردگار بخشنے والا، قبول فرمانے والا ہے ، جس نے اپنے فضل سے ہمیں اِس ہمیشہ کی اقامت کے گھر میں اتارا ہے۔ اِس میں ہمیں اب نہ کوئی مشقت پہنچے گی اور نہ اِس میں ہمیں کبھی تکان لاحق ہو گی۔۳۲- ۳۵


وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَﵐ لَا يُقْضٰي عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَاﵧ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ ٣٦ﶔ وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَاﵐ رَبَّنَا٘ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُﵧ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ النَّذِيْرُﵧ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ ٣٧ اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۣ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ٣٨

اِس کے برخلاف جنھوں نے ماننے سے انکار کر دیا ہے، اُن کے لیے دوزخ کی آگ ہے۔نہ اُن کی قضا آئے گی کہ مر جائیں اور نہ اُس کا عذاب ہی اُن سے کچھ ہلکا کیا جائے گا کہ ذرا دم لے سکیں۔ ہر ناشکرے کو ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ وہ اُس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کو نکال لے، اب ہم نیک عمل کریں گے، ویسے نہیں، جیسے ہم (اِس سے پہلے) کیا کرتے تھے ــــ کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ جو یاددہانی حاصل کرنا چاہے،وہ اُس میں یاددہانی حاصل کر سکتا تھا اور تمھارے پاس (خدا کی طرف سے) خبردار کرنے والا بھی آگیا تھا؟[135] سو اب چکھو اپنے کیے کا مزہ کہ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے۔ (لوگو، اللہ کے سامنے اُس وقت کسی بہانہ جوئی کا موقع نہ ہو گا)، اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زمین اور آسمانوں کے ہر غیب کا جاننے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو سینوں میں چھپے ہوئے بھید بھی جانتا ہے۔۳۶- ۳۸


هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓئِفَ فِي الْاَرْضِﵧ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗﵧ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًاﵐ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ اِلَّا خَسَارًا ٣٩

وہی ہے جس نے تمھیں اِس سرزمین میں اگلوں کا جانشین بنایا ہے۔[136] (اب چاہے، ماننے والے بنو یا انکار کرو)۔پھر جس نے انکا رکر دیا تو اُس کے انکار کا وبال اُسی پر ہے اور منکروں کے لیے اُن کا انکار اُن کے پروردگار کے نزدیک اُس کے غضب کو بڑھانے ہی کا باعث ہوتا ہے اور منکروں کے لیے اُن کا انکار اُن کے خسارے ہی میں اضافہ کرتا ہے۔ ۳۹


قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِﵧ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِﵐ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰي بَيِّنَتٍ مِّنْهُﵐ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا ٤٠

اِن سے کہو، ذرا تم دیکھو تو اپنے اُن شریکوں کو جنھیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے دکھاؤ کہ اُنھوں نے زمین میں کیا بنایا ہے؟یا آسمانوں کے بنانے میں اُن کی کوئی حصہ داری ہے؟ یا ہم نے اُن کو کوئی کتاب دی ہے کہ وہ اُس کی کوئی واضح دلیل رکھتے ہیں؟[137] ہرگز نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے صرف دھوکے کی باتوں کا وعدہ کر رہے ہیں۔[138] ۴۰


اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَاﵼ وَلَئِنْ زَالَتَا٘ اِنْ اَمْسَكَهُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۣ بَعْدِهٖﵧ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا ٤١

(تم سمجھتے ہو کہ یہ خدا کی گرفت سے تمھیں بچا لیں گے)؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی زمین اور آسمانوں کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں اور بالفرض وہ ٹل جائیں تو اللہ کے بعد کوئی دوسرا اُن کو تھامنے والا نہیں ہے۔ (تم اِن کے اندر اطمینان کے ساتھ بیٹھے ہو تو یہ اُس کی دی ہوئی مہلت ہے)، اِس میں شبہ نہیں کہ وہ بڑا حلیم اور درگذر فرمانے والا ہے۔ ۴۱


وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَآءَهُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَهْدٰي مِنْ اِحْدَي الْاُمَمِﵐ فَلَمَّا جَآءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَا ٤٢ﶫ اِۨسْتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِﵧ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖﵧ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَﵐ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًاﵼ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِيْلًا ٤٣ اَوَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوْ٘ا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةًﵧ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهٗ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِﵧ اِنَّهٗ كَانَ عَلِيْمًا قَدِيْرًا ٤٤

یہ (اِس سے پہلے) خدا کی کڑی کڑی قسمیں کھاتے رہے کہ اگر اِن کے پاس کوئی خبردار کرنے والا آیا تو یہ دوسری ہر قوم سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے۔[139] پھر جب اِن کے پاس ایک خبردار کرنے والا آگیا تو زمین میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے[140] اُس کے آنے نے اِن کی بے زاری اوراِن کی بری چالوں کے سواکسی چیز میں اضافہ نہیں کیا۔اور بری چال تو (بالآخر) اُسی کو گھیرتی ہے جو بری چال چلتا ہے۔ سواب یہ اُسی سنت کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں جو اگلوں کے لیے ظاہر ہوئی تھی۔[141] (یہی بات ہے ) تو تم خدا کی اُس سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور نہ خدا کی اُس سنت کو کبھی ٹلتا ہوا دیکھو گے۔ کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے کہ اُن لوگوں کا انجام کیا ہوا جو اِن سے پہلے گزرے ہیں، دراں حالیکہ وہ قوت میں اِن سے کہیں بڑھ کر تھے؟ (لوگو)،کوئی چیز ایسی نہیں کہ خدا کو عاجز کر دے، نہ زمین میں اور نہ آسمانوں میں۔ اِس میں شک نہیں کہ وہ سب کچھ جانتا ہے، بڑی قدرت والا ہے۔۴۲- ۴۴


وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّيﵐ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِ هٖبَصِيْرًا ٤٥

(لہٰذا ایک دن یہ بھی پکڑے جائیں گے) لوگوں کو اُن کے اعمال پر اگر اللہ فوراً[142] پکڑتا تو زمین کی پشت پر کسی جان دار کو باقی نہ چھوڑتا، مگر وہ اُنھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دیتا ہے۔ پھرجب اُن کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو لازماً پکڑتا ہے، اِس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔[143] ۴۵

[114]۔ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ جو لوگ اُس کی بخشی ہوئی فطری صلاحیتوں کوزندہ رکھیں گے اور اُن کی قدر کریں اور جو علم اُن کے اندر الہام کیا گیا ہے، اُس سے فائدہ اٹھائیں گے، اُنھیں وہ مزید ہدایت بخشے گا، اور جنھوں نے اِن صلاحیتوں کی قدر نہیں کی اور خدا کے الہام کو نہیں سمجھا اور عقل کی آنکھیں پھوڑ کر اپنے دل بے نور کر لیے ہیں، اُن کووہ اُنھی تاریکیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے گا جو وہ اپنے لیے خود پیدا کر لیں گے۔

[115]۔ یعنی اُس موقع پر جب اُس نے اپنی شناخت الگ پیدا کرلی۔ چنانچہ بعد میں اِسی انذار کی روایت نسلاً بعد نسلٍ اُس کے صالحین و ابرار کے ذریعے سے اُس کے اندر منتقل ہوتی رہی۔

[116]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس میں تمھاری کسی کوتاہی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ رسولوں کے ساتھ اُن کی قوموں کا معاملہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔

[117]۔ یعنی کسی کے پاس صحیفوں اور کسی کے پاس روشن کتاب کے ساتھ۔ اِس میں ’و‘ تقسیم کے لیے ہے اور روشن کتاب سے اشارہ تورات کی طرف ہے۔ قرآن مجید سے پہلے کتاب منیر کی حیثیت اُسی کو حاصل رہی ہے۔

[118]۔ اصل الفاظ ہیں: ’غَرَابِيْبُ سُوْدٌ‘۔اِنھیں بظاہر ’سُوْدٌ غَرَابِيْبُ‘ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن کی بلاغت ہے کہ اُس نے تاکید کو موخر کرکے صوتی حسن کے ساتھ اُس میں تاکید مزید کا مفہوم پیدا کر دیا ہے،جیسے ہم اپنی زبان میں کہیں کہ وہ لوگ چٹے ہیں، گورے۔

[119]۔ یعنی صورت ، سیرت، صفات، خصوصیات، ذوق و مزاج اور عادات و اطوار کے اعتبار سے اُن میں بڑا فرق و اختلاف ہے۔یہ فرق و اختلاف اگر خلقی ہے تو خدا کی قدرت و حکمت کا ظہور ہے اور اخلاقی ہے تو امتحان کی اُس اسکیم سے پیدا ہوتا ہے جس کے مطابق یہ دنیا بنائی گئی ہے۔

[120]۔ مطلب یہ ہے کہ فیض خواہ عام ہو، لیکن اُس سے فائدہ ہر شخص کو اُس کی استعداد کے لحاظ سے پہنچتا ہے۔ بارش برستی ہے تو باغ و چمن کو بے شک، گل و گلزار بنا دیتی ہے، مگرصحراؤں اور بیابانوں میں اُس کے یہ اثرات نہیں ہوتے۔ وہاں وہ جھاڑ جھنکاڑ ہی اگاتی ہے۔ یہ استعداد خدا پیدا کرتا ہے، لیکن انسانوں کے اندر یہ اُس قانون کے مطابق پیدا ہوتی ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کر دی ہے۔

[121]۔ یعنی پیغمبروں کی تذکیر سے اُس علم کو شعور کی سطح پر دریافت کر چکے ہیں جو خدا نے اُن کی فطرت میں ودیعت کر رکھا ہے۔ اِسی علم سے انسان اپنے پروردگار کو پہچانتا اور خیر و شر میں امتیاز کرتا ہے۔ اِس علم کا شعور نہ ہو تو تمام علوم و افکار بے بنیاد ہو کر رہ جاتے اور صرف اپنے حاملین کی سرکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ آیت میں ’الْعُلَمٰٓؤُا‘سے مراد اِسی فطری علم کے حاملین ہیں۔اِس کے لیے کسی درس گاہ میں جا کر پڑھنے پڑھانے اور کسی سے کوئی سند حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِن علما کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بات کو گہرائی میں اتر کر سمجھتے ہیں، اُن کی نگاہ ہمیشہ اصل حقیقت پر رہتی ہے، وہ کبھی کٹ حجتی کرنے اور غیر متعلق موشگافیوں میں پڑنے کی کوشش نہیں کرتے، وہ الفاظ کے پیچوں میں نہیں الجھتے، ہمیشہ معانی و مفاہیم کی جستجو کرتے ہیں، وہ چیزوں کو ظاہر کے اعتبار سے نہیں، اُن کے باطن کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور سطح سے نیچے اتر کر قعر دریا میں پڑے ہوئے موتی نکال لاتے ہیں، وہ اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ سچائی کو جان لینے کے بعد کوئی شخص اپنے کو اُس سے غیر متعلق بھی رکھ سکتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ پیغمبر کی دعوت یہی لوگ قبول کریں گے۔ اِس کی توقع اُن جاہلوں سے نہیں کی جا سکتی جو کتابوں کے ڈھیر اٹھائے ہوتے ہیں، لیکن اُس کتاب الٰہی کو اُنھیں کبھی کھول کر دیکھنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی جو خدا نے اُن کی تخلیق کے وقت ہی اُن پر نازل کر دی تھی اور نہ اُس کو جو بعد میں اُس نے اپنے پیغمبروں پر نازل کی ہے۔

[122]۔ یعنی جاہلوں کو جب چاہے، پکڑ سکتا ہے، مگر اِس لیے نہیں پکڑتا کہ زبردست ہونے کے ساتھ ساتھ درگذر فرمانے والا بھی ہے۔ چنانچہ اُس وقت تک مہلت دیتا ہے، جب تک حجت پوری نہیں ہو جاتی۔

[123]۔ آگے آیت ۳۲ میں بنی اسمٰعیل کے اخیار و اشرار کا ذکر اِن الفاظ میں ہواہے کہ ’’پھر ہم نے اُنھیں اپنی کتاب کا وارث بنایا‘‘۔ یہ اِس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر ہے، وہ اہل کتاب کے صالحین ہیں جن کے بعض گروہ قریب کے علاقوں سے مکہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لائے۔

[124]۔ یہ اُن کے انفاق کا محرک بتایا ہے اور وہ صلہ بھی بیان کر دیا ہے جو اُنھیں اُن کے پروردگار کی طرف سے ملنے والا ہے۔

[125]۔ یعنی وہی جو اُس ہدایت کے قدر دان اور اُس پر عمل پیرا رہے جو اُن کے پاس پہلے سے موجود ہے۔

[126]۔ یعنی لفظ اور معنی، دونوں کے اعتبار سے باطل کے ہر شائبے سے پاک، جس کا خدا کی طرف سے اور خدا کی بات ہونا بالکل یقینی ہے۔

[127]۔ یعنی اُن سے غیر متعلق نہیں ہے کہ اُنھیں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے اور اُن کی ہدایت کا کوئی اہتمام نہ کرے۔

[128]۔ بنی اسمٰعیل مراد ہیں جن کے اندر خدا نے اپنا پیغمبر اپنے آخری عہد نامے کے ساتھ بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا۔

[129]۔ یعنی اُنھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ پیغمبر کی مخالفت کریں گے اور اِس شرف عظیم سے اپنے آپ کو محروم کر لیں گے، جیسے ابوجہل، ابولہب وغیرہ۔ یہ پہلا گروہ ہے۔

[130]۔ یہ دوسرے گروہ کا ذکر ہے جو مخالف اور معاند تو نہیں ہے، لیکن آگے بڑھ کر اِس دعوت کو قبول کرنے اور اِس کی حمایت میں کھڑے ہو جانے کا حوصلہ بھی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ اِن کے لیے آیت میں لفظ ’مُقْتَصِد‘استعمال ہوا ہے۔ اِس سے قرآن نے امید دلائی ہے کہ دیر سویر اِن کا تردد دور ہو جائے گا اور خدا نے چاہا تو یہ اِس نعمت عظمیٰ سے محروم نہیں رہیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور اِن میں سے زیادہ بعد میں ایمان لے آئے۔

[131]۔ یہ تیسرا گروہ ہے جسے قرآن نے دوسری جگہ ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘*بھی کہا ہے۔ اِس کے سرخیل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر حق کا شعور اتنا قوی ہوتا ہے کہ ہر دعوت حق اُن کو فوراً اپیل کرتی ہے اور اُن کی قوت ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ جب اُن کو کوئی چیز اپیل کر لیتی ہے تووہ اُس کی خاطر راہ کے تمام عقبات ایک ہی جست میں پار کر جاتے ہیں اور اُس کی حمایت یا مدافعت میں کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے، بلکہ تمام رکاوٹوں کا پوری دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے ہر میدان میں گوے سبقت لے جانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ‘‘(تدبر قرآن۶/ ۳۸۵)

[132]۔ یہ نہایت بلیغ اسلوب میں دوسرے گروہ کے لیے دعوت ہے کہ ابھی موقع ہے، وہ بھی اِس فیض عظیم سے اپنا حصہ لے سکتے ہیں۔

[133]۔ یہ سونے کے کنگن اور موتی اور ریشم، سب تقریب فہم کے لیے ہے کہ اُس زمانے کے سلاطین اور بادشاہوں کے رہن سہن کو تصور میں لا کر لوگ جنت کی نعمتوں کا کچھ اندازہ کرسکیں۔

[134]۔ یعنی اب نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا باقی رہا ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ اللہ تعالیٰ نے سارے رنج و غم اورخوف اور اندیشے دور کر دیے ہیں۔

[135]۔ اِس جواب سے واضح ہے کہ اوپر جو سزا بیان ہوئی ہے،وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو پختہ عمر کو پہنچے اور اُن پر کسی خبردار کرنے والے نے حجت بھی تمام کر دی۔ سن و سال کی پختگی کو پہنچنے سے پہلے جو لوگ دنیا سے رخصت ہو گئے اور اُن پر اتمام حجت بھی نہیں ہوا، اُن کے لیے یقیناً عذر کا موقع ہو گا جو حق و عدل کے مطابق مسموع بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔

[136]۔ یعنی عاد و ثمود اور دوسری قدیم اقوام کا جو بنی اسمٰعیل سے پہلے عرب میں آباد تھیں۔ سورہ کے خاتمے پر یہ اب اُن کو براہ راست خطاب کرکے متنبہ فرمایا ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے توسورہ کے فواصل بھی بدل گئے ہیں تاکہ متکلم کے لب و لہجے کی تبدیلی مخاطبین کو چونکائے اور وہ پوری طرح بیدار ہو کر اُس کی بات سنیں۔

[137]۔ یعنی ایسی کوئی دلیل کہ خود ہم نے اُس کتاب میں تسلیم کر رکھا ہے کہ فلاں اور فلاں ہماری خدائی میں شریک ہے۔

[138]۔ یعنی اِس طرح کی باتوں کا وعدہ کہ فلاں اور فلاں ہستیوں کا دامن تھام لو گے تو دنیا میں بھی تمھارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں بھی چاہے جتنے گناہ سمیٹ کر لاؤ گے، وہ اُن کو خدا سے بخشوا لیں گے۔

[139]۔ بنی اسمٰعیل یہ بات یہود کے جواب میں کہتے ہوں گے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اُن کے ہاں بھی یہ روایت موجود تھی کہ اُن کے اندر ایک رسول کی بعثت ہونے والی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ روایت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانے سے چلی آ رہی ہو یا نصاریٰ کے ذریعے سے اُن تک پہنچی ہو جن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ امیوں کے اندر ایک رسول کی بعثت کے منتظر تھے۔

[140]۔ یہ رسول سے اُن کی بے زاری کا سبب بیان ہوا ہے کہ سرزمین عرب میں یہ محض اپنی بڑائی اور سیادت کا زعم تھا جس کی بنا پر وہ اِس انتہا تک پہنچ گئے۔

[141]۔ اِس جملے میں عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق کچھ الفاظ حذف کر دیے گئے ہیں۔ اُنھیں کھول دیجیے تو پوری عبارت اِس طرح ہے:’فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ اللّٰهِ فِي الْاَوَّلِيْنَ‘۔

[142]۔ یہاں ’عَلٰي عَجْلٍ‘یا اِس کے ہم معنی الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ یہ اُنھی کا ترجمہ ہے۔ آگے ’وَلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ‘ کے الفاظ سے اُن کی وضاحت ہو گئی ہے۔

[143]۔ یعنی اُن سے غیر متعلق ہو کر نہیں بیٹھ گیا ہے کہ جو چاہے کرتے رہیں اور اُسے اُن کی کوئی خبر نہ ہو۔ وہ اُن کو دیکھنے والا ہے کہ اُن میں سے کون کیا کر رہا ہے اور کس پاداش کا مستحق ہے۔

کوالالمپور

 ۳/ مئی ۲۰۱۴ء

ـــــــــــــــــــــــــ

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

B