روزہ ضبطِ نفس کی خاص عبادت ہے۔ یہ اطاعتِ الٰہی کا مظہر ہے۔ اِس میں انسان اللہ کے حکم کی تعمیل میں جائز چیزوں کو بھی اپنے لیے ممنوع کر لیتا ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تقویٰ اختیار کریں۔ ارشاد فرمایا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ. (البقرہ ۲: ۱۸۳)
’’ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔‘‘
روزے کا مقصد بیان کرنے کے لیے یہاں ’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، یعنی تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ضابطوں کا پابند بنائے اور اللہ کے مقرر کردہ حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے زندگی بسر کرے۔ ہر دم ڈرتا رہے کہ اِن حدود کو توڑنے کے نتیجے میں وہ اللہ کی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے اور اُس جنت سے محروم ہو سکتا ہے، جو اللہ نے حدود آشنا نفوس کے لیے بنائی ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ اُس کی جنت کے وارث وہی لوگ ہیں، جو متقی ہیں۔ ارشاد ہے:
تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِيْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِيًّا.(مریم ۱۹: ۶۳)
’’یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُن کو بنائیں گے جو خدا سے ڈرنے والے ہوں گے۔‘‘
دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ جنت کا یہی صلہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے، جو تزکیہ اختیار کریں گے۔ ارشاد ہے:
جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاﵧ وَذٰلِكَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَكّٰي.(طٰہٰ ۲۰: ۷۶)
’’ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ صلہ ہے اُن کا جو پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘
اِس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ اور تزکیہ کا ایک ہی ہدف اور ایک ہی منزل ہے اور وہ منزل جنت ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور تزکیہ حاصل کرنے کے لیےتقوے کو اختیار کرنا پڑتا ہے، جس کا آخر الامر انجام جنت کی بادشاہی ہے۔
اِس تفصیل سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ روزہ بھی تزکیے کی اُسی منزل تک پہنچاتا ہے، جہاں دیگر عبادات پہنچاتی ہیں۔
روزے سے یہ تقویٰ کس طرح پید اہوتا ہے ؟ استاذِ گرامی کے نزدیک اِس کو سمجھنے کے لیے تین باتیں پیش نظر رہنی چاہییں:
’’پہلی یہ کہ روزہ اِس احساس کو آدمی کے ذہن میں پور ی قوت کے ساتھ بیدار کردیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے۔ نفس کے چند بنیادی مطالبات پر حرمت کا قفل لگتے ہی یہ احساس بندگی پیدا ہونا شروع ہوتااور پھر بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ روزہ کھولنے کے وقت تک یہ اُس کے پورے وجود کا احاطہ کرلیتا ہے۔ فجر سے مغرب تک کھانے کا ایک نوالہ اور پانی کا ایک قطرہ بھی روزے دار کے حلق سے نہیں گزرتا اوروہ اِن چیزوں کے لیے نفس کے ہرمطالبے کو محض اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل میں پورا کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ روزے کا یہ عمل جب بار بار دہرایا جاتا ہے تو یہ حقیقت روزے دار کے نہاں خانۂ وجود میں اتر جاتی، بلکہ اُس کی جبلت میں پیوست ہوجاتی ہے کہ وہ ایک پروردگار کا بندہ ہے اور اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ زندگی کے باقی معاملات میں بھی تسلیم واعتراف کے ساتھ وہ اپنے مالک کی فرماں روائی کے سامنے سپر ڈال دے اور خیال و عمل، دونوں میں اپنی آزادی اور خودمختاری کے ادعاسے دست بردار ہوجائے۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ خدا پر آدمی کا ایمان ہر لحاظ سے زندہ ایمان بن جاتا ہے، جس کے بعد وہ محض ایک خدا کو نہیں، بلکہ ایک ایسی سمیع و بصیر، علیم وحکیم اور قائم بالقسط ہستی کو مانتا ہے جو اُس کے تمام کھلے اورچھپے سے واقف ہے اورجس کی اطاعت سے وہ کسی حال میں انحراف نہیں کرسکتا۔ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے سب سے مقدم چیز یہی ہے۔
دوسری یہ کہ روزہ اِس احساس کوبھی دل کے اعماق اور روح کی گہرائیوں میں اتار دیتا ہے کہ آدمی کو ایک دن اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہی کے لیے پیش ہونا ہے۔ ماننے کو تو یہ بات ہر مسلمان مانتا ہے، لیکن روزے میں جب پیاس تنگ کرتی، بھوک ستاتی اورجنسی جذبات پوری قوت کے ساتھ اپنی تسکین کا تقاضا کرتے ہیں تو ہرشخص جانتا ہے کہ تنہا یہی احساس جواب دہی ہے جو آدمی کو بطن وفرج کے اِن مطالبات کو پورا کرنے سے روک دیتا ہے۔ رمضان کا پور ا مہینا ہر روزگھنٹوں وہ نفس کے اِن بنیادی تقاضوں پرمحض اِس لیے پہرا لگائے رکھتا ہے کہ اُسے ایک دن اپنے مالک کو منہ دکھانا ہے۔ یہاں تک کہ سخت گرمی کی حالت میں حلق پیاس سے چٹختا ہے، برفاب سامنے ہوتا ہے، وہ چاہے تو آسانی سے پی سکتا ہے، مگر نہیں پیتا؛ بھوک کے مارے جان نکل رہی ہوتی ہے، کھانا موجود ہوتا ہے، مگر نہیں کھاتا؛ میاں بیوی جوان ہیں، تنہائی میسر ہے، چاہیں تواپنی خواہش پوری کرسکتے ہیں، مگر نہیں کرتے۔ یہ ریاضت کوئی معمولی ریاضت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جواب دہی کا احساس اِس سے دل و دماغ میں پوری طرح راسخ ہوجاتا ہے۔ تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ، اگر غور کیجیے تو دوسری موثر ترین چیزیہی ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ کے لیے صبر ضروری ہے، اورروزہ انسان کو صبر کی تربیت دیتا ہے۔ بلکہ صبر کی تربیت کے لیے اِس سے بہتر اور اِس سے زیادہ موثر کوئی دوسرا طریقہ شاید نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں ہم جس امتحان سے دوچار ہیں، اُس کی حقیقت اِس کے سوا کیا ہے کہ ایک طرف ہمارے حیوانی وجود کی منہ زور خواہشیں ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ ہم اُس کے حدود میں رہ کر زندگی بسر کریں؟یہ چیز قدم قدم پر صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ سچائی، دیانت، تحمل، بردباری ، عہد کی پابندی، عدل و انصاف، عفوودرگذر، منکرات سے گریز، فواحش سے اجتناب اورحق پر استقامت کے اوصاف نہ ہوں تو تقویٰ کے کوئی معنی نہیں ہیں، اورصبر کے بغیر یہ اوصاف، ظاہر ہے کہ آدمی میں کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتے۔‘‘(میزان ۳۶۳- ۳۶۴)
حج و عمرہ کی عبادات ابلیس سے برسرِ جنگ ہونے اور اِس جنگ میں کامیابی کے حصول کا علامتی اظہار ہیں۔ انسان کو دنیوی زندگی میں یہ آزمایش درپیش ہے کہ ابلیس اور اُس کی ذریت پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اُسے صراط مستقیم سے بھٹکانے کے لیے سرگرم ہے۔ اُن کا منصوبہ یہ ہے کہ انسانوں کو جنت کی ابدی بادشاہی سے محروم کیا جائے۔ استاذِ گرامی لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ آدم کی تخلیق سے اُس کی جواسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اُس کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے : ’قَالَ: فَبِمَا٘ اَغْوَيْتَنِيْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيْمَ ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۣ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ، وَعَنْ اَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِهِمْ، وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ‘ ( بولا: پھر اِس لیے کہ تو نے مجھے گم راہی میں ڈالا ہے، اب میں بھی اولاد آدم کے لیے ضرور تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۔ پھر اِن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ضرور اِن پر تاخت کروں گااور تو اِن میں سے اکثرکو اپنا شکر گزار نہ پائے گا)۔ قرآن کا بیان ہے کہ ابلیس کا یہ چیلنج قبول کرلیاگیا ہے اور اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اِس ازلی دشمن اور اِس کی ذریت کے ساتھ برسرجنگ ہیں۔ یہی اِس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اورناکامی پرہمارے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔‘‘ (میزان ۳۷۳)
شیطان کا انسان کو گم راہ کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ اُسے بے حیائی اور برائی کی ترغیب دیتا ہے۔ انسان جب اِن میں ملوث ہوتے ہیں تو اُن کا وجود اور ان کا نفس ان آلایشوں سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ اِس کے برعکس اگر وہ شیطان کی ترغیبات کو رد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو برائیوں سے بچا لیتے ہیں تو اُن کے نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔ شیطان بے حیائی اور برائی کی ترغیب دیتا ہے، اِس لیے اللہ نے اُس کے نقشِ قدم پر چلنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِﵧ وَمَنْ يَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ.(النور ۲۴: ۲۱)
’’ایمان والو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اور (یاد رکھو کہ) جو شیطان کے نقش قدم پر چلے گا، وہ اپنے ہی کو برباد کرے گا، اِس لیے کہ وہ تو بے حیائی اوربرائی ہی کا راستہ سجھاتا ہے۔‘‘
قربانی نماز اور زکوٰۃ کی طرح اللہ کی پرستش کا اظہار ہے۔اِس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ اِس کے نتیجے میں انسان کے اندر تقوے کی نشو و نما ہوتی ہے، جو اللہ کی خوش نودی کا باعث بنتی ہے۔ قربانی کے گوشت کے حوالے سے اللہ کا ارشاد ہے:
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ.(الحج ۲۲: ۳۷)
’’اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
امام امین احسن اصلاحی اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’مطلب یہ ہے کہ خدا قربانیوں کے گوشت یا خون سے محظوظ نہیں ہوتا، جیسا کہ مشرکین نے گمان کر رکھا ہے، بلکہ اُس تقویٰ اور اُس اسلام و اخبات سے خوشنود ہوتا ہے، جو اِن قربانیوں سے اِن کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ قربانیاں پیش کرتے ہوئے اپنے اندر تقویٰ کی یہ روح پیدا کرو۔ اگر یہ چیز نہ پیدا ہوئی تو یہ محض ایک جانور کا خون بہا دینا ہوا، اس کا حاصل کچھ نہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۵/ ۲۵۱)
اِس کی حقیقت اپنی جان کو اللہ کے حضور میں پیش کرنا ہے۔ قربانی کے جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کر کے اِس امر کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی جان کو اللہ کے لیے خاص کر دیا ہے، وہ جب چاہے ،اُسے سلب کر لے اور جب چاہے، ہمیں یہ حکم فرمائے کہ ہم اپنی جان کو اُس کی راہ میں قربان کر دیں۔ استاذِ گرامی نے قربانی کی اِس حقیقت کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جواُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔ بظاہر یہ اپنے آپ کو موت کے لیے پیش کرنا ہے، لیکن غور کیجیے تو یہ موت ہی حقیقی زندگی کا دروازہ ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ، بَلْ اَحْيَآءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‘ (اور جو لوگ اللہ کی اِس راہ میں مارے جائیں ، اُنھیں یہ نہ کہو کہ مردہ ہیں۔ وہ مردہ نہیں، بلکہ زندہ ہیں ،لیکن تم اُس زندگی کی حقیقت نہیں سمجھتے)۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے کہ نماز جس طرح اللہ کے ساتھ ہماری زندگی ہے، اِسی طرح قربانی اُس کی راہ میں ہماری موت ہے:
قُلْ: اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.( الانعام ۶: ۱۶۲)
’’ کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔‘‘
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں اور آیندہ نسلوں میں ہمیشہ کے لیے ایک عظیم قربانی کو اُس کی یادگار بنا دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ‘ (ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا)۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب نسلاً بعد نسلٍ لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔
اِس لحاظ سے دیکھیے تو قربانی پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کامنہ قبلہ کی طرف کر کے ’بِسْمِ اللّٰهِ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ‘ کہہ کر ، ہم اپنے جانوروں کو قیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔
یہی نذر اسلام کی حقیقت ہے، اِس لیے کہ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ سر اطاعت جھکا دیا جائے اور آدمی اپنی عزیز سے عزیز متاع، حتیٰ کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دے۔ قربانی، اگر غور کیجیے تو اِسی حقیقت کی تصویر ہے۔‘‘ (میزان ۴۰۳ - ۴۰۴)
ـــــــــــــــــــــــــ