مولانامحمدفاروق خاں بھی رخصت ہوئے۔
ابھی معروف مصنف وعالم دین مولاناسیدجلال الدین عمری (سابق امیرجماعت اسلامی) اوران کے بعد ناظم ندوۃ العلمااستاذمکرم مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی کے جانے کاغم تازہ ہی تھاکہ عیدالاضحٰی سے ٹھیک ایک دن پہلے ۲۸/ جون ۲۰۲۳ء کومعروف ہندی و اردومترجم قرآن،صاحب ’’کلام نبوت‘‘مولانامحمدفاروق خاں بھی اکانوے سال کی عمرمیں رخصت ہوئے۔وہ اسلام کے علاوہ ہندومذہب کے بھی ماہر،متعددکتابوں کے مصنف، فنافی العلم،قرآن کے شیدا،عارف نکتہ داں اورصاحب ذوق ومعرفت صوفی تھے۔خداکی عظمت میں جینے والے، دنیا اور زخارف دنیا سے بے رغبت اور مختلف علوم پر مہارت رکھنے کے باوجود نہایت خاک سار انسان ۔
حالاں کہ خاصے عرصہ سے علیل تھے، مگرباجماعت نمازکی حاضری نہ چھوٹتی تھی کہ ان کی نماز نماز عشق تھی۔ ان کی گفتگوگہری، مگر شگفتہ اورعارفانہ نکتوں سے بھری ہوتی اوران کے پاس بیٹھ کرجی لگتاتھا :
بہت لگتاتھاجی صحبت میں ان کی
وہ عیدالاضحٰی سے ایک دن قبل عیدمنانے کے لیے اپنے صاحب زادے کے پاس لکھنؤ پہنچے تھے۔عصرکے وقت ان کا انتقال ہوااورلکھنؤ کے راجہ جی پورم میں نمازجنازہ اداکی گئی، پھربذریعہ ایمبولینس سلطانپوران کے گاؤں لے جایاگیااوروہیں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
مولانامحمدفاروق خاں ۱۹۳۲ء کو ضلع سلطان پورکے کرپی حمزہ پورپٹھان نامی گاؤں میں پیداہوئے۔پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلہ سے نسبی تعلق ہے۔ قریب میں واقع نانہال(مصورن گاؤں ) میں نشوونماپائی ۔وہ بچپن سے ہی نیکی وصلاح وتقویٰ کی طرف مائل تھے اوراہل اللہ کی صحبتوں میں بیٹھنے کے دل دادہ۔چنانچہ بچپن میں ایک بارمولاناحسین احمدمدنی اپنے وطن ٹانڈہ تشریف لائے۔اطراف میں ان کے منتسبین نے ان کے بہت سے تبلیغی واصلاحی پروگرام رکھے ۔فاروق خاں اپنے گاؤں کرپی سے ٹانڈہ تقریباً ۴۵کلومیٹرکا سفرپیدل طے کرکے وہاں گئے اورکئی دن تک حضرت مدنی کی صحبتوں سے فیض اٹھایا۔ایک بارمولانامدنی جونپورمیں تشریف فرماہوئے توفاروق صاحب نے والدسے اجازت مانگی، مگرانھوں نے اجازت نہ دی ۔جب وہ سوگئے تورات کو چپکے سے نکل گئے اورپیدل جونپورپہنچ کرکئی دن وہاں رہے۔یعنی حصول دین وعلم دین کے لیے وہ بچپن سے ہی شدائدومشقتیں اٹھانے کے خوگرتھے۔
آج ان کے گاؤں میں ان کے نام پر ’’الفاروق پبلک اسکول‘‘ ان کی یادگارہے۔جس کی بناوتکوین میں ان کے لائق صاحب زادے طارق انور ندوی اور فاؤنڈیشن فارسوشل کیئرلکھنؤ کے روح رواں مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی صاحب کانمایاں کردارہے، جو مولانا مرحوم کے خاص قدردانوں میں ہیں ۔ مولانافاروق خاں نوجوانی میں ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔تعلیمی سلسلہ ہائی اسکول تک پہنچاتوموضع کوہنڈہ اعظم گڑھ آئے، جہاں ان کی رشتہ داریاں تھیں ،وہاں ایک دینی ادارہ میں تدریس کی ذمہ داری انجام دینے لگے۔ اعظم گڑھ میں قیام کے دوران میں ہی مولانا غالب احسن اصلاحی، مولانا اقبال احمدقاسمی اورقرآن کے رمزشناس مولانا حافظ امانت اللہ اصلاحی کی صحبتوں نے مولانامحمدفاروق خاں کوقرآن پاک کے مطالعہ اور تدبر کی راہ کا رہرو بنا دیا۔مولانانے اپنے شوق سے عربی زبان سیکھی اوراس میں اتنادرک حاصل کرلیا کہ ابن قیم کے ایک رسالہ کوعربی سے اردو میں منتقل کیا۔بی اے اورایم اے انھوں نے بعدمیں کیا۔ابن تیمیہ کی ایک کتاب کاہندی ترجمہ کیا۔
ہندی زبان میں ایم اے کیاتھا،ہندی میں ان کی مہارت کے مدنظررامپورمیں ادارہ ’’الحسنات‘‘ کے بانی اور جماعت کے اکابرمیں سے ایک بزرگ جناب ابوسلیم محمد عبد الحی نے ان کو ۱۹۵۷ء میں قرآن کا ہندی ترجمہ کرنے کے لیے بلایا، اس وقت ان کی عمرصرف ۲۵ سال تھی ۔شروع میں صرف ایک مہینا کے لیے بلایا گیا تھا، جب ان کی صلاحیت اورلگن کا اندازہ ہوگیاتوان کووہیں روک لیاگیا۔چنانچہ چار سال ہی میں ان کے قلم سے ہندی میں قرآن پاک کا ترجمہ سامنے آیا جو بہت مقبول ہوا۔ ترجمۂ قرآن کے سلسلے میں رامپورکے مرکزجماعت میں وہ مولاناصدرالدین اصلاحی سے بھی استفادہ کرتے رہے۔سنہ ۱۹۶۶ءمیں یہ ترجمۂ قرآن طبع ہوا۔
’’ہندی ترجمۂ قرآن کے بعدمرکزجماعت اسلامی ہندکے پروجیکٹ کے تحت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے اردوترجمۂ قرآن کوبھی ہندی زبان میں منتقل کرنے کا کام انجام دیا،جس کوہاتھوں ہاتھ لیاگیااورجواس وقت مقبول ترین ہندی ترجموں میں شامل ہے‘‘(مطالعات ومشاہدات ۸، ابوالاعلیٰ سبحانی)۔ اس کا دیباچہ مولانا مودودی نے لکھاہے۔مولانافاروق خاں نے ترجمہ وتفسیرکے سلسلہ میں مولانامودودی سے مراسلت بھی کی۔ مکتوبات مودودی کے ایک نئے مجموعہ میں مولانافاروق خاں صاحب کے مولانامودودی کے نام متعدد مکاتیب پائے جاتے ہیں ۔متعددآیات کی تفسیروتوضیح میں مولانانے ان کی رہنمائی فرمائی (ملاحظہ ہو:فرائی ڈے اسپیشل)۔
اس کے علاوہ فاروق خاں صاحب نے خود بھی اردومیں بھی قرآن کاترجمہ کیاہے۔اردوترجمہ کے محرک رامپورکے جناب سیدامجدعلی بنے تھے، جس میں کئی مقامات پرانھوں نے والدماجدمرحوم علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کے ترجمہ وتفسیرکاتتبع کیاہے۔اِس کے دوایڈیشن نکل گئے ہیں ۔اس کے علاوہ پاکستان اورکشمیرمیں کئی صاحب خیرحضرات نے ان کے ترجمہ کو شائع کرا کے فی سبیل اللہ تقسیم کیا۔دہلی کے معروف مدرس قرآن اور شگفتہ بیان واعظ مولانا اخلاق حسین قاسمی نے بھی اس ترجمہ پر ان کومبارک باددی تھی۔جب مولانا کا ترجمۂ قرآن منظرعام پر آیاتومجلہ اردو ’’بک ریویو‘‘نے خاک سارکواُس پر تبصرہ کرنے کا مکلف بنایا،اس نے تبصرہ کیا جو مذکورہ مجلہ میں چھپا۔مولانانے خودلکھاہے کہ ’’یہ ترجمہ حتی الامکان عربی متن سے قریب سے قریب تررہ کر کیا گیا۔ پھر یہ ترجمہ جس زبان (اردو)میں پیش کیاگیاہے ،اُس کے اسلوب اورمزاج کا بھی حتی الامکان لحاظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘‘(دیباچہ اشاعت اول ۱۹۹۹ء)۔
مولانافاروق خاں کے ہندی ترجمۂ قرآن کے ذریعے سے کئی غیرمسلموں کوقبول اسلام کی تحریک ملی۔اس کے علاوہ انھوں نے ہندومذہب سے متعلق بھی کئی کتابیں لکھیں، مثلاً ’’ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں‘‘، ’’ہندو دھرم کی کچھ قدیم شخصیتیں‘‘۔ مولانامحمدفاروق خاں ایک لمبی مدت تک معروف ہندی اسلامی جریدہ ’’کانتی‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ مولانانے ہندی تر جمۂ قرآن میں بعدمیں حواشی بھی لکھے، جن میں اختصارکے ساتھ قرآن کے تمام انسانیت کے لیے خداکا آخری پیغام ہونے کو موثر انداز میں ابھاراگیاہے۔ان کے ترجمہ اورتفسیری حواشی میں غیرمسلم ذہن کواورخاص طورپربرادران وطن (ہندو)ذہن کوسامنے رکھاہے جواپنے فکروفلسفہ پر بہت نازاں ہے۔
اپنے ترجمہ ٔقرآن، نیزدرسوں میں مولانا’’قرآن کے شاہانہ اسلوب ‘‘کوبہت اہمیت دیتے تھے اوراس حوالے سے بہت سی آیات کے ترجموں اور مفاہیم میں وہ دوسرے مترجمین سے اختلاف کرتے تھے۔ پرانی دہلی، اور جامع مسجدکے اطراف میں کئی جگہوں پرانھوں نے سالہاسال درس قرآن دیا۔اوراس درس میں پانچ بار قرآن کریم مکمل کیا۔
مولانامحمدفاروق ہندوستانی مسلمانوں کے ان گنے چنے لوگوں میں سے تھے جنھوں نے عیسائیت ،بودھ مت کے علاوہ ہندو فلسفہ وفکرکو گہرائی کے ساتھ، ہندی وسنسکرت میں پڑھ کر سمجھا تھا۔وہ اس ملک کے ذہن اور مزاج کو اچھی طرح سمجھتے تھے، لہٰذا انھیں مخاطب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ برادران وطن کو مخاطب کرتے ہوئے مولانافاروق صاحب ان کی زبان اور لفظیات ہی نہیں، بلکہ لہجہ، انداز، طرز استدلال اور طرز بیان بھی وہ اختیارکرتے جوان سے ہم آہنگ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے بارہا دیکھاکہ پرانی دہلی کی گنجان گلیوں کوپارکرکے جہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، غیرمسلم ان کی محفلوں میں پہنچاکرتے اوران کی باتیں دل چسپی سے سنتے۔ایک بارخاک سارمولاناکی زیارت کوگیاتوبھرت جھن جھن والا(معاشی کالم نگار)کوان کے پاس پایا جو پشکر[*] پرلکھی گئی اپنی ایک تھیسس پر مولاناکے تاثرات معلوم کرنے کے لیے آئے تھے۔
ملک کے مختلف شہروں میں انھوں نے کتنی ہی محفلوں، مجلسوں اور سیمیناروں کو خطاب کیا، جن میں شرکا کی اکثریت برادران وطن پرمشتمل تھی اوراسلام کا مثبت تعارف ان کے درمیا ن پیش کیا۔
قرآن کریم کی طرح ہی مولانا فاروق خاں کوحدیث و سنت سے بھی بے حد شغف تھااوران کی کتاب ’’کلام نبوت‘‘ (سات حصے)کا اس لحاظ سے اردولٹریچرمیں ایک خاص مقام ہے کہ اس مجموعہ میں اسلام کوایک مکمل فلسفۂ حیات اورنظام زندگی کی حیثیت سے پیش کیاگیاہے اورآسان اوررواں زبان میں پیش کیا گیا ہے ۔ طرزبیان عقلی اورتحلیلی ہے۔اوراس کام کے لیے قیم جماعت مولاناافضل حسین صاحب محرک بنے تھے۔یہ کتاب بھی اردووہندی، دونوں زبانوں میں لکھی گئی ہے۔
مولانا فاروق خاں وسیع المطالعہ، وسیع المشرب اور صاحب فکرعالم و دانش ور تھے۔اس کے علاوہ ان کو مولانا وحید الدین خاں سے بھی قربت رہی۔غالباً قریبی رشتہ بھی رہا۔خود مولانا وحید الدین خاں بھی مولانا فاروق خاں صاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور ان کوایک روحانی انسان کہا کرتے۔یہاں تک کہ مولانافاروق صاحب کی شعری صلاحیتوں پر ایک مضمون بھی مولاناوحیدالدین خاں نے اپنی عادت سے ہٹ کر لکھا ہے۔ یاد رہے کہ مولانافاروق خاں ایک باکمال شاعربھی تھے، فرازتخلص کرتے اوران کادیوان ’’حرف و صدا‘‘ شائع ہوا ہے۔ شعرمیں انھوں نے والد ماجد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی سے بھی اصلاح لی تھی، جو فن عروض کے بھی ماہر تھے۔ راقم نے بھی ان کے شعری محاسن پر ایک مضمون لکھا تھا جو ’’زندگی نو‘‘میں شائع ہوا۔
جماعت اسلامی سے فکری وعملی وابستگی کے ساتھ ہی مولانافاروق خاں فکرفراہی کے بھی خوشہ چینوں میں تھے اوراس مکتب فکرکے بڑے علماعلامہ حمیدالدین فراہی ،مولاناامین احسن اصلاحی،مولاناامانت اللہ اصلاحی اور استاذ محترم مولاناعنایت اللہ سبحانی سے متاثر تھے۔انھوں نے ایک انٹرویومیں علامہ حمیدالدین فراہی کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا:’’جن لوگوں سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہوں ان میں سرفہرست علامہ فراہی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کومیں دین کی آبرو سمجھتاہوں ،علامہ فراہی بہت گہرے آدمی تھے‘‘(مطالعات ومشاہدات ۱۰، ابوالاعلیٰ سبحانی)۔
صرف اتناہی نہیں، بلکہ وہ ہر مکتبۂ فکرکی نمایندہ شخصیات سے ملاقات کرتے اوران سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔دہلی میں ایک قدیم وضع کے عالم اورصوفی ابوالحسن زیدفاروقی تھے، جن میں حنفی مسلک میں تشدد بھی تھااورمزاج میں بھی درشتی تھی۔ و ہ جامعہ ازہرکے فارغ التحصیل تھے اورعلوم اسلامیہ پرگہری نظر رکھتے تھے۔مولانافاروق خاں ان کے ہاں بھی آمدورفت رکھتے اوربعض طالبان علم کوان کے پاس بھیجتے تو ان کے مزاج کے بارے میں بتابھی دیتے کہ ان سے استفادہ کرناآسان نہیں ہے۔ماضی قریب میں عالمی سطح پر ہندو مذہبی مفکروعالم اچاریہ رجنیش (اوشو) کا بڑا غلغلہ رہا ہے۔بمبئی میں مولانا فاروق خاں نے بھی اچاریہ رجنیش سے ملاقات کی اورمذاکرہ کیا۔اسی طرح اورہندوسوامیوں سے بھی ان کی ملاقاتیں رہی ہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ دینیات کے سربراہ مولانامحمدتقی امینی نے ان سے ایک بار پوچھا کہ میاں آپ اسلام کی مختصرتعریف کیاکریں گے؟ کہنے لگے :دیدۂ پاک،دل پاک، زندگی پاک یہی اسلام ہے۔ مولاناتقی امینی صاحب نے ایک سوال ان سے یہ بھی کیا:قرآن میں دوزخیوں کی حالت کے بارے میں کہا گیا ہے : ’لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي‘، ’’اس میں ان کونہ موت آئے گی، نہ زندگی ملے گی‘‘ ( الاعلیٰ ۸۷: ۱۳)، جب کہ یا تو موت ہوتی ہے یا زندگی، پھریہ کون سی حالت ہوگی ؟ فاروق صاحب نے جواب دیا:زندگی تین چیزوں کانام ہے: لذت، سکون اور مسرت ۔ دوزخ میں یہ تینوں چیزیں ختم ہوجائیں گی ،اس لیے وہ زندہ تو ہوں گے، مگران کی زندگی زندگی نہ ہوگی اورموت ان کوآنی نہیں، اسی کیفیت کوآیت کریمہ میں بیان کیاگیاہے۔
بہت سے لوگ شایدیہ نہ جانتے ہوں کہ مولانافاروق خاں تصوف کی طرف بھی میلان رکھتے تھے،بلکہ باضابطہ ایک شیخ طریقت سے سلسلۂ مجددیہ میں بیعت تھے ۔تاہم قرانی الفکرہونے نے ان کوتصوف کی بہت سی نظری گم راہیوں اورضلالتوں سے بچائے رکھا۔
مولانافاروق خاں نے کئی مبسوط کتابوں کے علاوہ ۶۰ کے قریب کتابچے تصنیف کیے ۔ان کے موضوعات میں حیرت انگیزطورپر بڑاتنوع تھا۔جماعت اسلامی کے کسی مصنف کے ہاں اتنی رنگارنگی اتناتنوع اور اتنا شدید جمالیاتی احساس نہیں ملے گا، جتنا مولانا مرحو م کے ہاں تھا۔
راقم خاک ساربچپن سے ہی مولاناکانیازمندرہا۔بارہاان سے ملنے،ان کے پاس بیٹھنے اوران سے گفتگوکرنے کے مواقع ملے۔پرانی دہلی میں جماعت کے قدیم دفترمیں مولاناعرصہ درازتک مقیم رہے ۔شروع کے دو کمرے ان کی کتابوں کے لیے خاص تھے ۔تھوڑاساآگے بڑھتے توان کا رہایشی کمرہ تھااوروہ بھی کتابوں سے بھرا ہوا۔ کتابوں کے درمیان درویشانہ شان سے مولانارہاکرتے ۔جب بھی ان کے ہاں حاضری ہوتی وہ اپنے ہاتھوں سے ابوالکلامی چائے بڑے اہتمام سے بناکرپلاتے اورہمیشہ کوئی نہ کوئی تحفہ دیتے۔مولانامرحوم سے تعلق خاطر اور نیاز مندی کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ والد ماجد علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کے علوم و معارف کے بڑے قدرداں تھے،یہاں تک کہ ان کی تفسیرسے استفادہ کی غرض سے وہ ایک باربرادرمکرم مرحوم مولانا انظار الحق ہدایتی کے ہم راہ ہمارے گاؤں رائدھنہ بھی تشریف لے گئے اور ’’مفتاح القرآن‘‘ کے تفسیری مسودوں کی فوٹو کاپی کرا کے ساتھ لے گئے۔ گاہے بگاہے والدمرحوم کے نام ان کے خط بھی آتے۔ ایک بار انھوں نے والدمرحوم سے قراء ات سبعہ اورسبعۃ احرف کے بارے میں اپنے اشکالات پیش کرکے ان کا جواب دینے کی استدعابھی کی اورحضرت والدمرحوم نے اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنابھی شروع کیا، مگر اپنی شدیدمصروفیات کے باعث وہ غالباً اس کوپورا نہیں کرسکے اور دو صفحات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔حضرت والدمرحوم کی کتاب ’’بخاری کامطالعہ‘‘کے سلسلے میں انھوں نے کھل کراپنی پسندیدگی کا اظہارکیااوراس پر تقریظ لکھی۔
بہرحال، راقم کایہ معمول رہاکہ جب تک دہلی میں قیام رہا، گاہے بگاہے مولانافاروق خاں کی خدمت میں حاضری دیتا اور ان سے علمی وفکری غذالیتا۔علی گڑھ آنے کے بعداس معمول میں فرق آیا، تاہم جب بھی دہلی جانا ہوا تو ان کی خدمت میں حاضرہونے کی کوشش کی۔تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کی پہلی جلدشائع ہوئی تو میں کتاب لے کرحاضرہوا۔بڑے خوش ہوئے، سینے سے لگایااورراقم کے انکارکے باوجوداس کاہدیہ اداکیا۔
مولانافاروق خاں مرحوم ایک خاص روحانی اسلوب میں ڈوب کردرس قرآن دیتے تھے۔ان کادرس بلیغ اور موثر ہوتا۔وہ نوجوانوں میں بھی بہت مقبول تھے اوران کے ذوق،معلومات اورفہم سے قریب تراسلوب میں گفتگو کرتے۔ مثال کے طورپر کشمیرمیں نوجوانوں کے ایک پروگرام میں انھوں نے سورۂ اعلیٰ کا درس دیا تھا، جسے القلم پبلیکیشنز نے ’’پیام اعلیٰ‘‘ کے نام سے چھاپ دیاہے۔ اس میں مولاناکے اس اسلوب کی بھرپور نمایندگی ہوئی ہے۔
انھوں نے زندگی میں جوٹھان لیا، اسے پورا کیا۔وہ کسی روایتی مدرسہ کے فارغ التحصیل نہ تھے، مگرانھوں نے نوجوانی میں ٹھان لیاتھاکہ اسلامی علوم اورقرآن وحدیث کوان کی سرکاری زبان عربی میں پڑھناہے۔ چنانچہ اس کے لیے جس طرح انھوں نے جاں فشانی سے عربی وفارسی کی تحصیل کی، وہ قابل رشک ہے۔اسی طرح وہ عقلی اشکالات کوحل کرنے کے لیے لطیفوں سے بہت کام لیتے اورنئے نادرنکتوں سے سوالوں کوحل کرتے تھے۔ مولانافاروق خاں فرماتے: ہردین کا ا یک مزاج ہوتاہے، اسلام کامزاج احساس لطافت ہے۔اور ’ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ‘ سے استدلال کرتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ زندگی کی اعلیٰ قدریں ہی دین ہیں ۔
ہرسال وسط رمضان میں اپنے گاؤں پہنچ جاتے اوروہاں اعتکاف کرتے۔عیدکے بعدگاؤں اوراس کے اطراف میں دینی واصلاحی تقاریرکرتے، جن میں اپنے مخاطبین کے مدنظرکبھی اردو، کبھی ہندی اورکبھی ملی جلی اردو اور دیہاتی زبان میں دین کی تعلیمات گاؤں کے لوگوں تک پہنچاتے۔
مولانافاروق خاں کتابیں جمع کرنے اورپڑھنے کے رسیاتھے۔جب تک صحت بہتررہی، دہلی کے دریاگنج کی اتوارمارکیٹ کاچکرضرورلگاتے اورکتابیں خریدتے۔ان کی ذاتی لائبریری میں بہت نادراورمنتخب کتابیں تھیں۔ جو اخیرمیں انھوں نے غالباًمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکودے دی تھیں اوراب سے کئی سال قبل بہت سی کتابیں لکھنؤکے ایک ادارہ (نالج اکیڈمی )کودے چکے تھے۔خاک سارکوبہت باران کی لائبریری سے استفادہ کرنے کاموقع ملا۔مولاناکے پاس وہ کتابیں بھی مل جاتی تھیں جوعام کتب خانوں اورلائبریریوں میں بھی آسانی سے نہیں ملتیں ۔مثال کے طورپرمحموداحمد عباسی صاحب کی کتاب ’’خلافت معاویہ ویزید‘‘اوراس کا تکملہ راقم نے ان کے پاس ہی سب سے پہلے دیکھی اورپڑھی ۔اسی طرح مولاناعمراحمدعثمانی کی ’’فقہ القرآن‘‘ دوجلد(اب دہلی کے ایک مکتبہ نے بھی شائع کردی ہے)۔علامہ تمناعمادی کی کتابیں وغیرہ ۔نئی اورنادراورجدت وندرت کی حامل کتابیں کسی نہ کسی طرح مولاناکے حجرہ تک پہنچ ہی جاتیں ۔
مولانامحمدفاروق خاں نے شعروادب،فلسفہ وتصوف،مذاہب وافکار،تاریخ وتہذیب ،تقابل ادیان اور ہندو مذہب و فلسفہ، اخلاقیات اور روحانیات، سبھی کامطالعہ کیااورسب میں مہارت بہم پہنچائی، مگران کے فکروتدبرکا اصل مرکزومحورکتاب اللہ بنی رہی، یہی معاصرین میں ان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
خاک سار نے ان کو بارہا دیکھا، ہر بار ایک ہی عالم میں پایا۔ رہن سہن میں بہت آرام وآسایش کی جستجو کبھی کرتے نہ پایا،نہ کسی کا شکوہ وشکایت کرتے دیکھا۔ لباس و پوشاک میں بہت ہی سادگی برتتے اورکبھی عالمانہ امتیاز کی کوشش نہ کرتے۔ نہ ان کو اپنی عظمت کے نقوش قائم کرنے سے کوئی دل چسپی تھی اور نہ عجز و انکسار کا غیرفطری اعلان و اظہارکرنے سے ۔ادیب حسن رضاکہتے ہیں کہ ’’عمرکے آخرمیں ان کی آنکھیں جیسے محبوب حقیقی کے شوق میں کچھ زیادہ ہی سرگرداں تھیں ‘‘۔
ایک رفیق نے ان سے نصیحت کی درخواست کی توچندثانیے توقف کے بعدفرمایا:’’اگرتم یہ چاہتے ہوکہ تمھیں پتا چل جائے کہ اللہ تعالی ٰ کے ہاں تمھاراکیامقام ہے تویہ دیکھوکہ اللہ تعالیٰ کا تمھارے ہاں کیامقام ہے‘‘۔کسی عارف کا قول ہے :’من عرف نفسه فقد عرف ربه‘۔مولاناکودیکھ کراس قول کی صداقت معلوم ہوتی تھی ۔
وہ اقبال کے اس شعرکے سچے مصداق تھے :
دوعالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
غالب نے شایدایسے ہی کسی شخص کے لیے کہاتھا :
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
ـــــــــــــــــــــــــ
[*] پشکرہندوستان ریاست راجستھان میں ایک شہرہے جوآج ہندووسکھ تیرتھ استھان ہے ،حیرت انگیزطورپر مکہ مکرمہ اوراطراف مکہ اورپشکرکے اطراف میں کچھ جغرافیائی مشابہتیں پائی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے اسکالربھرت نے یہ نتیجہ نکالاکہ قرآن میں مذکوروادی بکہ دراصل پشکرکا ہی مقام ہے۔