HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

’حدیث عمار‘ اور جدید مبلغین اسلام

جو مذہبی مبلغین چودہ سو سال پہلے پیش آنے والے و اقعات کی صحت کا آج فیصلہ کر نا چاہیں،ان کی دانش کی صرف داد دی جا سکتی ہے۔

مذہبی انتہا پسندی ایک نئے روپ میں ظہور پذیر ہے۔گذشتہ تین چار عشروں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو گئی تھی۔عالمی سیاست حوالہ بنا جس نے مسلم معاشروں کو ایک آگ میں جھونک دیا۔ہم سب سے زیادہ اس کا ہدف تھے۔اس دوران میں وہ مذہبی جھگڑے پس منظر میں چلے گئے جو تاریخی و اقعات کا نتیجہ تھے۔خدا خدا کرکے یہ آگ کچھ ٹھنڈی پڑی توہمارے مذہبی ذہن نے اُن پرانے جھگڑوں کو پھر سے زندہ کر دیا۔ آج ’حدیث عمار‘ پر محاذ گرم ہے،دراں حالیکہ کتب تاریخ و حدیث،اس روایت پر مباحث سے مملو ہیں۔میں نہیں جان سکا کہ اس کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟جس کو اس بحث سے دل چسپی ہے، وہ ان کتابوں سے رجوع کر سکتا ہے۔

یاپھر اس روایت کے بارے میں کیا کوئی نئی تحقیق سامنے آئی ہے؟اگر آئی ہے تو اسے کسی تحقیقی جریدے میں شائع کرا یا جا سکتا ہے۔اس پر میدان کارزار میں اترنے کی کیا ضرورت ہے؟ہمارے عہد میں حدیث کے ایک بڑے عالم شیخ ناصر الدین البانی نے ذخیرۂ احادیث پر نظر ثانی کرتے ہوئےسند اور روایت کے پہلو سے نئے تحقیقی نتائج پیش کیے۔بعض روایات کو صحیح ماناجاتا تھا۔ان کی تحقیق کے نتیجے میں یہ روایات ضعیف قرار پائیں۔ یہ تحقیق علمی حلقوں میں زیر بحث رہی، لیکن اس کی بنیاد پر کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوا۔علم کی روایت اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔


خرابی تب پیدا ہو تی ہے جب حکمت سے تہی دامن مذہبی مبلغین ان روایات کو گلی بازار کا موضوع بنا دیتے ہیں اور ان تاریخی تنازعات کو ایک بار پھر حل کرنا چاہتے ہیں جو چودہ سو سال سے لاینحل ہیں۔جو مسائل علمی مجالس اور کتب میں حل نہیں ہو سکے،کیا چوک اور چوراہے میں حل ہو جائیں گے؟یہاں زیرِ بحث لانے کا یہی نتیجہ ہے کہ وہ فتوے کا موضوع بنیں۔فتویٰ باز جب اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو قضا کا منصب سنبھا ل لیتے اور یوں سماج کو فساد کی آماج گاہ بنا دیتے ہیں۔

مسائل اختلاف سے نہیں،رویے سے پیدا ہوتے ہیں۔بد قسمتی سے رویوں کی تعمیر کا کہیں اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اس وقت مذہب کے نام پر دو طرح کے لوگ سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں:ایک وہ جو روایتی دینی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔دوسرے وہ جو جدید تعلیم کے نمایندے ہیں۔مذہبی معاملات میں اختلاف کرتے وقت دونوں کا رویہ ایک جیسا ہو تا ہے۔لغت ایک جیسی اور تصور مذہب بھی ایک جیسا۔مذہب کا حقیقی مقصد کسی کے پیش نظر نہیں ہو تا۔

یہ حقیقی مقصد کیا ہے؟مذہب فرد سے متعلق ہو تا ہے تواس کا مقصد تزکیۂ نفس ہے۔یہ سماج سے متعلق ہو تا ہے تو دعوت ہے۔ہم مذہب کے نام پر جو معرکہ آرائی دیکھ رہے ہیں،ان میں ان دونوں باتوں کا کہیں گزر نہیں،الا ماشاء اللہ۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی مبلغ کو اپنے حدود کا خیال نہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو مبلغ نہیں، کچھ اور مانتے ہیں۔ ’کچھ اور‘ کا تصور ہر کسی کے ہاں مختلف ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں داروغہ بنایا گیا ہے کہ وہ بہ زور لوگوں کے خیالات کو تبدیل کریں۔جو ان کے نزدیک حق کی ترجمانی نہیں کر رہے، ان کے وجود سے یا ان کی سوچ سے زمین کو پاک کر دیں۔دونوں میں جو راستہ اختیار کیا جائے گا،اس کا تعلق استعداد سے ہے۔


مذہب جیسے معاملات پر عوام سے ہم کلام ہو نے کے آداب ہیں۔یہ آداب دین نے سکھائے ہیں۔اس پر اہل علم نے کتابیں لکھی ہیں۔سوشل میڈ یا کے پیدا کیے ہوئے فساد سے یہ خیال ہو تا ہے کہ اس بحث میں ملوث لوگوں کو اس کی ہوا نہیں لگی۔اس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ وہ جن تعلیمی نظاموں سے فارغ ہیں،ان میں اس تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہو تا۔

میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔اس کے لیے وزارت مذہبی امور میں ایک محکمہ بنانا چاہیے جو ان لوگوں کی تربیت کرے جو معاشرے میں دینی دعوت کی ذمہ داری ادا کرنا چا ہتے ہیں۔ایک ٹیسٹ لے کر لوگوں کاانتخاب کیا جائے اور پھر انھیں ایک تربیتی پروگرام سے گزارا جائے۔اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے والوں کو ایک سرٹیفکیٹ جا ری کیا جائے جو انھیں قانوی طور پر یہ حق دیتا ہو کہ وہ معاشرے میں دعوت دین کا کام کر سکتے ہیں۔ترکیہ کی وزارت مذہبی امور میں اسی طرح کا ایک ادارہ ’دیانت‘ کے نام سے قائم ہے۔

یہ راے عقل عام پر مبنی ہے۔ہمارے ہاں ایم بی بی ایس مکمل کرنے والے کو پریکٹس کا حق نہیں مل جاتا۔ اس مقصد کے لیے ایک سرٹیفکیٹ ضروری ہوتا ہے۔اسی طرح ایل ایل بی کرنے والا وکالت نہیں کر سکتا۔پہلے اسے بار کونسل سے سرٹیفکیٹ لینا ہو تا ہے۔اسی اصول پر ایک سرٹیفکیٹ فرد یا ادارے کوجاری کیا جانا چاہیے جو دعوت دین کا کام کر ناچاہتا ہے۔اس کام کے لیے جو بنیادی ٹیسٹ لینا چاہیے،اس کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں۔صرف یہ پرکھنا چاہیے کہ مبلغ،ضروری دینی تعلیم سے واقف ہے جو دعوت کے لیے لازم ہے۔اسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر مساجد میں لوگوں کو خطبہ دینے کی اجازت ہو نی چاہیے۔

جس طرح اتائی طبیب جان کے لیے خطرہ ہیں، اسی طرح حکمت دین سے عاری لوگ جب معاشرے میں مذہب کا مقدمہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ مذہب کو نقصان پہنچا تے ہیں اور ساتھ سماج کو بھی فساد سے بھر دیتے ہیں۔ان لوگوں کو سکھایا جا سکتا ہے کہ پبلک مقامات پر کس طرح کے مسائل زیر بحث آنے چاہییں اوراگر ان سے کوئی سوال پوچھا جا ئے جس کا جواب کسی مذہبی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے کیسے اعراض کیا جائے۔

مسجد بنیادی طور پر نماز اور عبادت کی جگہ ہے۔اس کو مسلکی تبلیغ کامرکز نہیں بننا چاہیے۔یا تو اس میں نماز کے علاوہ کسی طرح کی تبلیغی سرگرمی کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اگر ہو تو پھر اس کا دروازہ سب مبلغین کے لیے کھلا ہونا چاہیے، جن کے پاس سرٹیفکیٹ موجود ہو۔حکیم لوگ تو مساجد میں اختلافی دینی امور پر گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کا معاملہ یہ تھا کہ مسجد میں جب ان سے کوئی دینی سوال کرتا تو جواب نہیں دیتے تھے۔سائل سے یہ کہہ دیتے کہ وہ ان کے گھر یا ادارے میں آ جائے۔

یہ اسی تربیت کا فقدان ہے کہ آج ’حدیث عمار‘ کو سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بناد یا گیا ہے۔یہ ایک روایت نہیں ہے،اس نوعیت کی بہت سی روایات ہیں جو لوگ تاریخی واقعات کی تاویل میں اپنے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ان قضیوں کافیصلہ نہ پہلے ہوا ہے، نہ اب ہو گا۔ان کو باقی رہنا ہے۔ہمیں صرف یہ سیکھنا ہے کہ ان اختلافات کے ساتھ کیسے ایک سماجی وحدت قائم ہو سکتی ہے۔اگر مذہب بیان کرنے کا کام غیر تربیت یافتہ مبلغین کے پاس رہا تو سماج یوں ہی انتشار میں مبتلا رہے گا۔یہ اسی سوچ کا اظہار ہے کہ صدیوں پہلے پیش آنے والے تنازعات کا آج تصفیہ کیا جا رہا اور ان کے حق میں روایات پیش کی جا رہی ہیں، جن کی اپنی سند مشکوک ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ دنیا، لاہور، ۹/ مئی ۲۰۲۳ء)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B