ایک تعلیم یافتہ مسلم نوجوان سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ اِس لاک ڈاؤن کے زمانے میں، میں نے پہلی بار ’صحیحین‘(بخاری ومسلم) کا ترجمہ پڑھا۔اِس کے بعد مجھ پر اِس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ احاد یث میں نماز کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، وہ اُس سے مختلف ہے جس کے مطابق ہم اب تک نمازادا کررہے تھے۔ مثلاً رفع یدین، زور سے آمین (آمین بالجہر) اور سینے پر ہاتھ باندھنا وغیرہ۔انھوں نے بتایا کہ اِس دریافت کے بعد میں نے ”اہل حدیث“ کا مسلک اختیار کرلیا ہے۔
اپنی نمازوں کو پیغمبرانہ ارشادات کے مطابق جانچنے کا یہ جذبہ بلاشبہ، ایک مبارک اور مطلوب جذبہ ہے۔ ہر شخص جو ایسا کرسکتا ہو، اُسے چاہیے کہ وہ نہ صرف عبادات، بلکہ اپنے تمام اعمال اور افعال کو اِسی طرح کتاب و سنت کی روشنی میں جانچ کر اُس سے مطابقت کا طریقہ اختیار کرے،البتہ اِس ’تحقیق‘ کا محرک صرف اتباع نبوی کا جذبہ ہونا چاہیے، نہ کہ معروف قسم کا مسلک پرستانہ ذہن۔
ایک شخص اگر خالی الذہن ہوکر قرآن اور پیغمبرانہ ارشادات کا گہرا مطالعہ کرے تو اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ایک ’ربانی‘انسان بنے گا،نہ کہ معروف معنوں میں کوئی گروہی مسلمان۔قرآن کے مطابق، کتاب وسنت کے علم کا مقصد ایک ’مذہبی‘ مسلک کے بجاے دوسرے’مذہبی‘ مسلک کو اختیار کرنا نہیں،بلکہ خالص ’ربانیت‘ کا حصول ہے، یعنی ظاہر وباطن، دونوں اعتبار سے سچا خداپرست بن جانا۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے: ’وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْكِتٰبَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ‘ (آل عمران ۳: ۷۹)، یعنی اللہ والے بنو، اِس لیے کہ تم کتاب الٰہی کو پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔
مذکورہ قسم کے گروہ پرستانہ ماحول کا سبب بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والا وہ غیر پیغمبرانہ ’مذہبی‘ شاکلہ ہے جس میں شریعت کو حکمت سے الگ کرکے دین اللہ کا اتباع محض ظاہر دارانہ ’مذہبیت‘ کا ایک بے روح ڈھانچا بن گیا۔ اِس ظاہر دارانہ ’مذہبیت‘ میں نہ دینی جذبہ باقی رہا اور نہ’ایمانی ذائقہ‘ (طَعْمَ الإیمان)، بلکہ خدا ے برترکی عبادت کا عمل خاشعانہ اظہار عبدیت کے بجاے عملاً صرف چند مراسم کا مشینی اِعادہ قرار پایا۔ چنانچہ ’دین داری‘اور خداکی عبادت کا طریقہ اختیار کرنا، گویا ہمارے لیے اب محض ایک بے آب و گیاہ صحرا میں سفرکے ہم معنی بن کر رہ گیا، جہاں بے خوفی و بد اخلاقی کے خشک پتھروں، نیز زہریلے اور خطرناک جھاڑ جھنکاڑ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:’صَلُّوا کما رَأیتمونيْ أُصلِّي‘ (بخاری، رقم ۸۰۰۶)، یعنی تم اُسی طرح نماز قائم کرو، جس طرح تم مجھے دیکھ رہے ہو۔مگر عجیب بات ہے کہ بعد کے زمانے میں تقریبا ً تمام ’مذہبی‘ گروہوں اورتمام ’مذہبی‘ مسالک نے عام طورپر اِس ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عملاً شریعت اور عبادت کے صرف ظاہری پہلو سے متعلق کرکے دیکھا،وہ اِس کے داخلی پہلو کے بجاے صرف اِس کے خارجی مظاہرکومذکورہ قول رسول کا اصل مصداق قرار دیتے رہے،جب کہ اِس ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ظاہروباطن، دونوں کو آپ کے اُسوۂ حسنہ(الاحزاب ۳۳: ۲۱) کی حیثیت سے اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی تھی، نہ کہ محض ظاہری اعتبار سے۔
افسوس کہ بعد کے زمانے میں حکمت اور شریعت کے درمیان اِس تفریق کو’فقہ و فتاویٰ‘کی اصل معراج سمجھا گیا۔ چنانچہ عملاً یہ ہوا کہ عبادت جیسا خاشعانہ عمل محض ظاہری مراسم کی تکرار اور دین سماحت (الحنیفیة السّمحة) صرف ایک قسم کی رَبیائی تشقیق و تدقیق کا پاژند بن کررہ گیا۔ہمارے ’مذہبی‘ طبقے کے بیش تر رہنما اِسی ظاہر دارانہ ’مذہبیت‘ کی تبیین کو عملاً کمال دین اور تعلیم و دعوت کا اصل جوہر قرار دینے لگے، جب کہ دین اللہ اپنے ظاہر وباطن، دونوں اعتبار سے مطلوب تھا، دونوں کو اللہ اور رسول کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا تھا، نہ کہ اپنے مزعومہ مسالک کے مطابق اتباع شریعت سے خالی اور آزاد تصور دین اگر’نصرانیت‘ کے ہم معنی تھا تو محض ظاہر دارانہ ’مذہبیت‘ بلاشبہ، وہی چیز ہے جسے ’یہودیت‘ کہا گیا ہے، یعنی زوال یافتہ اہل کتاب کے راستے پر چلتے ہوئے اُن کی تقلید کا طریقہ اختیار کرنا۔
’ضلالت وغضب‘کے اِس ظاہرے سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آدمی خالی الذہن ہوکر قرآن و سنت کا مطالعہ کرے اور اپنی تنہائیوں میں اِس ربانی ہدایت کے لیے خدا سے عاجزانہ انداز میں گڑگڑا کر دعائیں کرتا رہے۔ اِس طریقے کو اختیار کیے بغیر رسول اور اصحاب رسول کے بعد پیدا شدہ اِن گروہی تعصبات اور مسلکی انحرافات کی دلدل سے نکلنا ممکن نہیں۔اِس معاملے میں خود اللہ اور رسول کی طرف سے ہر نماز میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے دوران میں ’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ‘ جیسی عظیم دعا کو لازم قرار دیے جانے کا مقصد یہی تھاکہ ہم عبد ومعبود کے اِس نازک رشتے کو ظاہر وباطن، دونوں اعتبار سے خدا کی اصل صراط مستقیم پر قائم رکھ سکیں۔افسوس کہ نماز کے دوران میں سورۂ فاتحہ جیسی عظیم دعاے شکر و ہدایت کا عمل بھی ہمارے درمیان محض ایک قسم کے مسلکی نزاع کا موضوع بن کر رہ گیا۔
ایسی حالت میں سچائی کے ایک سنجیدہ مسافرکو چاہیے کہ سورۂ فاتحہ جیسی عظیم دعاؤں کے ساتھ اِس سلسلے میں وہ ایک اور پیغمبرانہ دعا کو ضرور حرز جاں بنائے۔ اِس پیغمبرانہ دعا کے الفاظ یہ ہیں:
اللّٰھمّ ربَّ جبرائیلَ، ومیکائیلَ، وإسرافیلَ، فاطِرَ السمٰواتِ والأرضِ، عالمَ الغیبِ والشھادةِ، أنتَ تَحکُمُ بین عبادِك فیما کانوا فیه یختلفون، اھْدِني لِما اخْتُلِفَ فیه مِن الحقِّ بإذنك، إنك تَھدي مَن تشاء إلیٰ صراطٍ مستقیم.(مسلم، رقم ۷۷۰)
”اے اللہ،فرشتہ جبریل ومیکائیل اور اسرافیل کے رب، زمین اور آسمان کے پیدا کرنے والے، غیب میں پوشیدہ اور شہود میں عیاں حقائق کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اُن کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ لہٰذا اپنے اذن خاص سے تو مجھے اِن اختلافات کے درمیان سچا راستہ دکھا دے۔ یقیناً تو جسے چاہے، اُس کو صراط مستقیم پر گام زن فرماسکتا ہے۔“
(داوَن گیرے، بنگلور، ۵/ فروری ۲۰۲۲ء)
ـــــــــــــــــــــــــ