HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۲)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت معتب بن عوف رضی اللہ عنہ

کنبہ اور قبیلہ

حضرت معتب بن عوف ہجرت مدینہ سے اكیس برس قبل بنو خزاعہ میں پیدا ہوئے ۔الیاس بن مضر رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے سترھویں اور معد بن عدنان انیسویں جد تھے۔الیاس كے تین بیٹے مدركہ ،طابخہ اور قمعہ ہوئے۔ آپ كا سلسلۂ نسب مدركہ سے ملتا ہے، جب كہ حضرت معتب بن عوف قمعہ كی ا ولاد میں سےتھے۔قمعہ كے دو بیٹے عامر اور ربیعہ ہوئے،ربیعہ كو لحی بھی كہا جاتا ہے۔عمرو بن عامر لحی كے پوتے تھے جنھیں بسا اوقات دادا كی طرف منسوب كر كے عمرو بن لحی كہہ دیا جاتا ہے۔كعب عمرو كے بیٹے اور سلول پوتے تھے۔ حُبشیہ بن سلول حضرت معتب كے چھٹے(ساتویں:ابن عبدالبر) جد تھے۔ حضرت معتب بن عوف كے دادا كا نام عامر بن فضل (:ابن اثیر۔عمر بن عامر:ابن عبدالبر) تھا۔اپنی والده كی نسبت سے وه معتب بن الحمرابھی كہلاتے ہیں۔

ابو عوف حضرت معتب كی كنیت تھی۔ ان كا اسم منسوب خزاعی ہے ،اس كے علاوه اپنے ساتویں جد سلول بن كعب كی نسبت سے سلولی بھی كہلاتے ہیں۔انھوں نے بنو مخزوم كی محالفت اختیار كی ۔

لقب

حضرت معتب كو عيہامہ بن كليب بن سلول بن كعب خزاعی (ابن اثیر) اور ہیعانہ (ابن حجر) بن كلیب بن حبشیہ بن سلول(ابن سعد) بھی كہا جاتا تھا۔ پہلی صورت میں ان كا شجرۂ نسب مختصر كر كے پانچویں ،ساتویں اور آٹھویں جد كی طرف منسوب كیاگیا ہے اور دوسری صورت میں یہ اختصار پانچویں ،چھٹے اور ساتویں جد تك محدود ركھا گیا ہے۔ اصل میں یہ ان كے القاب ہیں۔ ’ناقة عیهم و عیهمة‘ تیز رفتار اونٹنی اور ’جمل عیهم وعیهام‘ سرپٹ بھاگنے والے اونٹ كو كہا جاتا ہے۔دوسرے معنی ہیں:لمبی گردن اور بڑے سر والااونٹ،عمده نسل كا اونٹ (لسان العرب:ماده عھم) (معجم القاب الصحابۃ، جاسم یاسین، سلیمہ كاظم)۔ ’’معجم القاب الصحابۃ‘‘ كے مصنفین كی اس بات كی كوئی سند نہیں ملی كہ ’عیهم‘ اصل میں حضرت معتب بن عوف كے چوتھے جد عفیف بن كلیب كا لقب تھا ۔معاجم اوردیگر كتب تاریخ ابن حجر كے بتائے ہوئے دوسرے لقب ’هیعانة‘ كےذكر سے خالی ہیں۔

 خزاعہ كی وجہ تسمیہ

 قمعہ كاپوتا عمرو بن عامریمن كا باسی تھا ،ایك دن اس نے دیكھا كہ ایك چوہا یمن كے قدیم سیلابی بند مارب كی بنیادیں كھود رہا ہے۔ وه فوراً سمجھ گیا كہ یہ بند اب نہ بچے گا۔اس نےمشہور سیلا ب ’سیل عرم ‘آنے سے پہلے ہی وہاں سے نقل مكانی كر لی۔اس كا قبیلہ مرالظہران(وادی  فاطمہ) ،ابوا،وادی عزال،وادی دوران اورعسفان میں بكھرگیا۔عمرو بن عامر(یا عمرو بن لحي) یمن سے شام جانے كے لیے نكلا تھا، لیكن اپنے قبیلے بنوازد سے بچھڑ كر مكہ كے نواح میں آباد ہو گیا اور خزاعہ كے لقب سے موسوم ہوا۔ ’انخزع‘ كےلفظی معنی ہیں:كٹ كر جد ا ہونا اور الگ ہوئے ٹكڑے كو ’خزاعة‘ كہا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ كی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:عمرو بن لحی بن قمعہ بن خندف خزاعہ كا جد تھا (بخاری، رقم ۳۵۲۰۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۰۶۵۵) ۔حضرت ابوہریرہ ہی كی دوسری روایت میں ہے : آپ نے بنو كعب كی طرف اشاره كر كے فرمایا:عمرو بن لحی جو ان كا باپ تھا (مسلم، رقم ۷۲۹۴)۔ یہاں بنوكعب سے مراد عمرو بن لحی كے بیٹے كعب كی اولاد ہے۔

اردن كے ماہر فلكیات ڈاكٹر عماد مجاہد كی تحقیق كے مطابق ۲۹/ شوال ۱۰ھ(۲۷/جنوری ۶۳۲ء) كو رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے فرزند ابراہیم كی وفات ہوئی اور اسی دن سورج گرہن لگا۔آپ نے ارشاد فرمایا : سورج اور چاند الله كی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔كسی كی موت یا زندگی سے ان كو گرہن نہیں لگتا (بخاری، رقم ۱۰۴۱۔مستدرك حاكم،رقم ۱۲۳۵۔المعجم الكبیر،طبرانی، رقم ۸۰۶)۔آپ نے نماز كسوف پڑھائی اور بعد میں ارشاد فرمایا:میں نے عمرو بن عامر بن لحی خزاعی كو دیكھا كہ وه دوزخ میں اپنی پیٹھ یا انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔وہ پہلا مشرك تھا جس نے نذر كی اونٹنیاں اس طرح آزاد چھوڑیں كہ ان پر سواری كرتے نہ سامان لادتے(بخاری، رقم ۳۵۲۱۔ مسلم، رقم ۷۲۹۴۔ السنن الكبریٰ، نسائی ، رقم ۱۱۰۹۱۔ احمد، رقم ۸۷۸۷۔ مستدرك حاكم، رقم ۸۷۸۹۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۸۹۰)۔ ایك روایت میں عمرو كو اس كے باپ عامر اور دوسری روایت میں اس كے دادا لحی كی طرف منسوب كیا گیا ہے۔ عمرو بن لحی ہی نے اونٹنیوں كے كان كاٹےاور دین ابراہیم كو تبدیل كر دیا۔و ہی تھا جو شام گیا اور بلقاكے علاقے مآب (یا الجزیرہ كے شہر ہیت )میں لوگوں كو بتوں كی پوجا كرتے دیكھاتو وہاں سے ہبل نامی پہلا بت لا كر خانۂ كعبہ كے اندر نصب كیا۔اس نے دوسرے بتوں اساف اور نائلہ كو بھی چاه زمزم پرنصب كیا اور لوگوں كو ان كی پوجا كی طرف راغب كرنے لگا(السیرة النبویۃ، ابن ہشام ۱/ ۶۴- ۶۵۔ الروض الانف،سہیلی۱/ ۲۱۹۔ مختصر سیرة الرسول، محمد بن عبدالوہاب ۲۲ - ۲۳)۔

نعمت ایمان پانا

وادی بطحا میں نور ایمان كی كرنیں پھیلی تھیں كہ حضرت معتب بن عوف مشرف بہ اسلام ہو گئے۔

ہجرت حبشہ

حضرت معتب بن عوف نے حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ان كے حلیف قبیلے بنو مخزوم كے حضرت شماس بن عثمان،حضرت ہبار بن سفیان،حضرت عبدالله بن سفیان،حضرت ہشام بن ابو حذیفہ،حضرت سلمہ بن ہشام اورحضرت عیاش بن ابو ربیعہ ان كےہم سفر تھے۔محمد بن اسحٰق اور واقدی انھیں مہاجرین حبشہ میں شمار كرتے ہیں، جب كہ موسیٰ بن عقبہ اورابو معشر كے خیال میں انھوں نےحبشہ كا سفر نہیں كیا۔

حبشہ سے واپسی

 جب مشركین مكہ كے قبول اسلام كی افواه حبشہ میں پہنچی تو حضرت معتب بن عوف مكہ لوٹ آئے۔ وه ان اڑتیس (یا تینتیس)اصحاب میں شامل تھے جو مكہ میں داخل ہوئے۔ بنو مخزوم كے حضرت ابوسلمہ بن عبد الاسد، ان كی اہلیہ حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہ،حضرت شماس بن عثمان،حضرت سلمہ بن ہشام اورحضرت عیاش بن ابوربیعہ بھی اپنے شہر ام القریٰ میں لوٹ آئے۔حضرت سلمہ اور حضرت عیاش كو ان كے بھائی ابوجہل نے بیڑیوں میں جكڑ لیا۔ غالب امكان ہے كہ حضرت معتب خاموشی سے یا چھپ چھپاكر شہر مكہ میں مقیم رہے، كیونكہ ان پر كفار كے جور و ستم كی كوئی خبر نہیں۔

 ہجرت مدینہ و مواخات

جب ہجرت مدینہ كا موقع آیا تو حضرت معتب بن عوف بہ صدشوق دار ہجرت روانہ ہو گئے۔مدینہ میں حضرت مبشر بن عبدالمنذران كے میزبان ہوئے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے مواخات قائم فرمائی تو حضرت ثعلبہ بن حاطب كو ان كا انصاری بھائی قرار دیا۔

غزوات

حضرت معتب نےجنگ بدر،جنگ احد، جنگ خندق اور باقی تمام غزوات میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ساتھ دیا۔ خلفاے راشدین كے ادوار میں ان كی سرگرمیوں كی كوئی اطلاع نہیں۔

ارتحال

حضرت معتب بن عوف نے ۵۷ ھ میں اٹھتر برس كی عمر میں وفات پائی۔ابن عبد البر كہتے ہیں:طبری نے ان كی عمر ستاون (اٹھاون:ابن اثیر)برس بتائی ہے، ان كی راے محل نظر ہے ۔ابن اثیر نے بھی اسے غلط قرار دیا ہے اور اعتراض كیا ہے كہ كیا وه تین برس كی عمر میں جنگ بدر میں شریك ہوئے ۔

اولاد

حضرت معتب بن عوف نے كوئی اولاد نہ چھوڑی۔

روایت حدیث

حضرت معتب سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف(بلاذری)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)،معجم القاب الصحابۃ(جاسم یاسین،سلیمہ كاظم)، Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ


حضرت قیس بن حذافہ رضی الله عنہ

قبیلہ اور کنبہ

حضرت قیس بن حذافہ مكہ میں پیدا ہوئے،قریش كی شاخ بنو سہم سے تعلق ركھتے تھے ۔اس لیے انھیں سہمی، قرشی كہا جاتا ہے۔قیس بن عدی ان كے دادا اور سعید بن سہم سكڑدادا تھے۔ان كی والده تمیمہ بنت حرثان بنو كنانہ كی شاخ بنو حارث سے تعلق ركھتی تھیں۔حضرت خنیس بن حذافہ اور حضرت عبد الله بن حذافہ ان كے سگے بھائی تھے۔محمد بن سائب كلبی(۵۵ھ تا ۱۴۶ھ) كا كہنا ہے كہ حسان ان كا نام اور ابوقیس كنیت تھی۔

شرف ایمان

حضرت قیس بن حذافہ كو السابقون الاولون میں شمار نہیں كیا گیا، تاہم وه قدیمی مسلمانوں میں شامل ہیں۔

ہجرت حبشہ

حضرت قیس بن حذافہ ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔ان كے بھائی حضرت خنیس بن حذافہ اور حضرت عبدالله بن حذافہ بھی ساتھ تھے۔

ہجرت مدینہ

حضرت قیس بن حذافہ ہجرت مدینہ اور جنگ بدر كے بعد كسی وقت حبشہ سے لوٹے۔وه ان چونتیس صحابہ میں شامل تھےجو شاه نجاشی كی عطیہ كی ہوئی كشتیوں میں سوار نہ ہوئے (السیرة النبویۃ، ابن اسحٰق ۴۹۷)۔ حضرت قیس كے بھائی حضرت عبدالله بن حذافہ اور بنوسہم كے دیگرآٹھ اصحاب حضرت ابوقیس بن حارث، حضرت حارث بن حارث ،حضرت معمر بن حارث،حضرت بشر بن حارث،حضرت سعید بن حارث ، حضرت سائب بن حارث ،حضرت سعید بن عمرواور حضرت عمیر بن رئاب اسی زمره میں شامل تھے۔ممكن ہےكہ ان سب نے اكٹھے مدینہ كا سفر كیا ہو۔

غزوات میں شركت

اس باب میں معلومات میسر نہیں۔

وفات

حضرت قیس بن حذافہ كا سن وفات معلوم نہیں۔

 اولاد

حضرت قیس بن حذافہ كی ازواج اور اولاد كے بارے میں كوئی رہنمائی نہیں ملتی ۔بہت كھوج كے بعد ہمیں ان كی ایك پوتی درہ بنت عدی كا پتا چلا جو حضرت اسامہ بن زید سے بیاہی گئی اور ان كے سنجوگ سے محمد اور ہند پیدا ہوئے(الطبقات الكبریٰ،ابن سعد، رقم۳۷۸)۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام) ،الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)،انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،  الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ


حضرت عمیر بن  رئاب رضی الله عنہ

نام و نسب

حضرت عمیر بن رئاب قریش كی شاخ بنو سہم سے تعلق ركھتے تھے۔بانی قبیلہ سہم بن ہصیص ان كے پانچویں جد تھے۔نعم بنت كلاب (نسب قریش، مصعب زبیری۱۰۰۔ الوف بنت عدی:انساب الاشراف، بلاذری) سے سہم كے دو بیٹے سعد اور سُعید ہوئے ۔ سعد بن سہم كے پوتے قیس بن عدی قریش كے معزز ترین سردار شمار ہوتے تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے پردادا ہاشم كے بھائی مطلب كا یہ شعر مشہور ہے :

كأنه في العز قیس بن عدی
في دار قیس ینتدي أهل الندی
’’گويا یہ بچہ،عبدالمطلب عزت و شرف میں قیس بن عدی كے مانند ہے۔قیس ہی كے گھر میں اصحاب مروت و سخاوت جمع ہوتے ہیں ۔‘‘

حضرت عمیر سُعید بن سہم كے بیٹے مہشم كی اولاد میں سے تھے۔ان كے دادا كانام حذیفہ بن مہشم (حذافہ بن سعید: واقدی)تھا۔ ایك زمانہ میں بنو سہم كی مكہ میں كثرت تھی۔حضرت عمیر بن رئاب نے بھی اپنی عالی نسبی پر فخر كرتے ہوئے كہا:

 نحن بنو زید الاغر و مثلنا
یحامی علی الاحساب عند الحقائق
’’ہم بزرگ سردار زید كی اولاد ہیں، ہمارے جیسا ہی عزت و ناموس كی حفاظت كا موقع آنے پر حسب و نسب كا دفاع كرتا ہے۔‘‘

حضرت عمیر نے سہم كے بجاے زید كہا، كیونكہ سہم بن ہصیص كا اصل نام یہی تھا،ان كے بھائی جمح بن حصیص كا اصل نام تیم تھا۔ان دونوں كی والده الوف بنت عدی نے ایك روز سونے یا چاندی كا بنا ہوا لیموں پھینكا اور كہا: او بچو،دوڑ كر اسے پكڑو، جس نے پكڑ لیا ،اسی كا ہو جائے گا۔زید نے دوڑ كر جلدی سے لیموں پكڑ لیا تو ان كی والده پكاری:زید، تو تو تیر(سہم) نكلا جو ہدف سے پار نكل گیا۔اور تیم لگتا ہے ،كسی شے نے تمھاری دوڑ میں ركاوٹ ڈال دی یا تمھارا گھوڑا تمھارے قابو میں نہیں آیا(جمح بك)۔تب زید سہم اور تیم جمح كے القاب سے مشہور ہو گئے (انساب الاشراف، بلاذری۱ /۲۴۸)۔

 حضرت عمیر كی والدہ ام وائل بنت معمربنو سہم كے برادر قبیلے بنو جمح سے تعلق ركھتی تھیں۔

اسلام

ابن اثیر اور ابن حجر نے حضرت عمیر بن رئاب كو السابقون الاولون میں شمار كیا ہے۔ابن حجر نے ابن اسحٰق كا حوالہ دیا ہے۔ہو سكتا ہے ، ان كا ماخذ كوئی اور ہو، كیونكہ ابن اسحٰق كی ’’السیرة النبویۃ‘‘ میں ’’إسلام المهاجرین‘‘ كے عنوان سے جو فہرست دی گئی ہے،اس میں حضرت عمیر بن رئاب كا نام شامل نہیں (ص۱۸۶)۔ ابن ہشام نے اپنی فہرست كا عنو ان قائم نہیں كیا،وه بھی حضرت عمیر كے ذكر سے خالی ہے۔

 ہجرت حبشہ

آں حضور نے مكہ كے بت پرستوں كو اسلام كی دعوت توحید دینا شروع كی تو مشرك سرداروں نے آپ كی سخت مخالفت كی ٹھانی۔ہر قبیلہ كے متمردین اسلام قبول كرنے والے اپنے نوجوانوں كو قید وبندمیں ڈالنے اور غلاموں كو تشدد كا نشانہ بنانے لگے ۔ بنو جمح كا امیہ بن خلف اور بنو مخزوم كا ابوجہل مستضعفین كو ایذائیں دینے میں پیش پیش تھے، جب كہ بنو سہم كے عاص بن وائل اور حارث بن قیس رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا استہزا كرتے۔ ان حالات میں آپ نے صحابہ كو سمندر پارحبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت فرمائی۔چنانچہ شوال ۵ ؍ نبوی میں حضرت عمیر بن رئاب حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ جانے والے قافلے میں شامل ہوگئے، یہ حبشہ كی طرف ہجرت ثانیہ تھی ۔ابن سعد كہتے ہیں: اس قافلے میں تراسی اصحاب ،قریش کی گیارہ صحابیات اور دوسرے قبیلوں كی سات مومنہ خواتین شریك تھیں۔ بنوسہم كے حضرت خنیس بن حذافہ، حضرت عبدالله بن حارث،حضر ت ابو قیس بن حارث ، حضرت حجاج بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت سائب بن حارث اور حضرت ہشام بن العاص حضرت عمیر بن رئاب كے ہم سفر تھے۔

حبشہ سے واپسی

بلاذری كہتے ہیں :حضرت عمیر بن رئاب۷ھ حضرت جعفر بن ابو طالب كے ہمراه مدینہ آئے۔ابن اسحٰق اور ابن ہشام كا كہنا ہے: حضرت عمیر جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچے اور انھوں نے حضرت جعفر بن ابوطالب كے ساتھ مدینہ كا سفر ہجرت نہیں كیا۔ بنوسہم كے حضرت عبدالله بن حارث،حضرت حارث بن حارث ، حضرت معمر بن حارث،حضرت بشر بن حارث،حضرت سعید بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت ابوقیس بن حارث،حضرت قیس بن حذافہ ،حضرت عبدالله بن حذافہ اورحضرت سعید بن عمرو اسی زمرہ میں شامل تھے۔

مدنی زندگی

 حضرت رئاب حبشہ میں ہونے كی وجہ سے جنگ بدر میں شریك نہ ہو سكے ۔ مدینہ پہنچنے كے بعد انھوں نے كن غزوات میں حصہ لیا، اس كی تفصیل نہیں ملتی۔

عہد صدیقی

محرم ۱۲ھ(مارچ ۶۳۳ء) : جنگ یمامہ سے فارغ ہونے كے بعدحضرت ابوبکر نے حضرت خالد کو جنوبی عراق،دریاے فرات كے ڈیلٹا کی طرف بھیجا اورحضرت عیاض بن غنم کو اس کے شمال میں دومۃ الجندل كی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد ایک سا ل تک ایران میں گھومتے پھرتے رہے۔ انھوں نے مقامی امرا کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے متعددخطوط لکھے،ذات السلاسل، مذار(یا ثنی) ،دلجہ،اُلیس، حیرہ اور انبار كی جنگوں میں فتح حاصل كی اور عین التمر کا رخ کیا۔یہ انبار كے مغرب میں تین دن كی مسافت پر واقع ایك سرحدی قصبہ ہے۔

عین التمر پر مہران بن بہرام کی حکومت تھی، قریبی عرب عیسائی قبائل نمر، تغلب اور ایاد اس کا ساتھ دے رہے تھے۔حضرت خالد بن ولید کی آمد کی خبر ملی تو عرب اتحادی عقہ بن قیس نےبڑے اعتماد كے ساتھ ایرانی حكمران مہران سے کہا:عرب ہی عربوں کے طریقہ ٔ جنگ سے واقف ہوسكتے ہیں،اس لیے مجھے اكیلا ہی خالد سے نمٹنے دیں۔ اس نے کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی اور خود قلعے میں مقیم رہا ۔عقہ نے عین التمر سے باہر كرخ كے میدان میں لڑنے كو ترجیح دی۔ حضرت خالد مقابل میں صف آرا ہوئے ، وه عقہ كا غرور بھانپ چكے تھے،اس لیے اسے ہی گرفت میں لینے كا اراده كیا۔انھوں نے اپنے میمنہ و میسرہ کو پیش قدمی كرنے كے بجاے دشمن كے میمنہ و میسره كو الجھائے رکھنے كا حكم دیا۔ عقہ كی توجہ ان جھڑپوں كی طرف تھی كہ حضرت خالد مقدمہ كی كمان كرتے ہوئے خود آگے بڑھے ، عقہ كو بازوؤں میں جکڑا اورقید کر لائے۔اس کے بیش تر سپاہی بھی اسیر ہو گئے۔ كمانڈر پكڑا گیا تو فوج ہمت ہار گئی ،یوں جنگ عین التمر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ مہران نے فوج کی ہزیمت کی خبرسنی تو قلعہ چھوڑ کرمدائن كو فرار ہو گیا۔اس كے بھاگنے کے بعدعقہ كی فوج نے قلعہ كھلا دیكھا توا ندر داخل ہو كر دروازہ بند كر لیا۔ حضرت خالد بن ولیدنے محاصرہ کر لیا،چار روز گزرنے كے بعد انھوں نے تنگ آ كر صلح کی درخواست کی۔ حضرت خالد کے فیصلے کے مطابق عقہ بن قیس اور تمام اسیروں کی گردنیں اڑا دی گئیں۔

چالیس لڑکے قفل بند کنیسہ میں انجیل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ حضرت خالد نے انھیں نكال کر امرا میں بانٹ دیا۔انھی میں نُصیر تھے جن كے بیٹے موسیٰ بن نُصیر نے طارق بن زیاد كی قیادت میں ہسپانیہ فتح كیا، سیرین كو حضرت مالك بن انس نے خریدا،ان كے بیٹے محمد بن سیرین جلیل القدر عالم ہوئے ۔’’السیرة النبویۃ‘‘ كے مصنف ابن اسحٰق كے دادایسار ، شاعر عبدالله بن عبدالاعلی ٰ كے داداابو عمره اور حضرت عثمان كے آزاد كرده حمران بھی ان چالیس نوجوانوں میں شامل تھے۔

شہادت

جنگ عین التمر كی تفصیل بیان كی گئی ۔ حضرت عمیر بن رئاب اسی معركے میں شہید ہوئے۔بلاذری كہتے ہیں: ایك تیر آ كر انھیں لگا۔ ان كے علاوه كسی كی شہادت كا ذكر نہیں كیا گیا،البتہ حضرت نعمان بن بشیر كے والد حضرت بشیر بن سعد نے طبعی وفات پائی اور دونوں اصحاب عین التمر میں پہلو بہ پہلو آسودۂ خاك

ہوئے۔

اولاد

حضرت عمیر بن رئاب كی كوئی اولاد نہ ہوئی ۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، نسب قریش (مصعب زبیری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف (بلاذری) تاریخ الامم والملوك (طبری)،  الكامل فی التاریخ (ابن اثير)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Annals of Early Caliphate (William Muir)، Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B