HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــ توضیحی مطالعہ: حدود وتعزیرات (۴)

چوری کی سزا

’’قرآن نے اِس کے لیے ’سَارِق‘ اور ’سَارِقَة‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِن کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے ۔ چنانچہ اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتا ہے یا بغیر کسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتا ہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یا بھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اِس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک، یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور اِن پر اُسے تادیب و تنبیہ بھی ہونی چاہیے ، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم اِن آیات میں بیان ہوا ہے ۔لہٰذا یہ انتہائی سزا ہے اور صرف اُسی صورت میں دی جائے گی جب مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ رہا ہو۔  “ (میزان۶۳۰)

مصنف نے یہاں جن صورتوں کو حد سرقہ کے نفاذ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے،    جمہور اہل علم بھی انھیں مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر صورتوں میں حد سرقہ نافذ نہ کرنے کا ثبوت  خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں ملتا ہے۔     مثلاً‌ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمیں معمولی چیزوں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا، بلکہ اس کے لیے ایک زرہ یا ڈھال کی قیمت کو معیار قرار دیا گیا جو قیمتی چیزیں شمار ہوتی تھیں (بخاری، رقم ۶۲۹۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۱۱۴)۔ اسی طرح آپ نے غیر محفوظ جگہ سے کی گئی چوری کو بھی قطع ید سے مستثنیٰ قرار دیا  (ابو داؤد، رقم ۴۳۹۰) ۔ نیز فرمایا کہ درختوں سے پھل وغیرہ اتارنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا  (ابن ماجہ، رقم ۲۵۹۳)۔

حالت اضطرار میں چوری کرنے والوں پر بھی  آپ نے حد جاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ حضرت عباد بن شرحبیل بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قحط کے زمانے میں مدینہ کے ایک باغ میں داخل ہو کر اس کا کچھ پھل کھایا اور کچھ کپڑے میں ڈال لیا۔ اتنے میں باغ کا مالک آ گیا اور اس نے پکڑ کر ان کی پٹائی کی اور ان کے کپڑے چھین لیے۔ عباد شکایت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے تو آپ نے باغ کے مالک سے فرمایا کہ تم نے نہ تو اسے سکھایا، حالاں کہ یہ ناواقف تھا اور نہ اسے کھلایا، حالاں کہ یہ بھوکا تھا۔ پھر آپ کے کہنے پر باغ کے مالک نے عباد کے کپڑے بھی واپس کر دیے اور انھیں کچھ غلہ بھی دے دیا (ابوداود، رقم ۲۲۵۲)۔

سیدنا عمر کے سامنے کچھ غلاموں کو پیش کیا گیا، جنھوں نے ایک شخص کی اونٹنی چرا کر اسے ذبح کر لیا تھا۔ سیدنا عمر نے پہلے تو ان کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن پھر ان کے مالک سے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ تم انھیں پیٹ بھر کر کھانا نہیں دیتے۔ چنانچہ انھوں نے غلاموں کو سزا دینے کے بجاے ان کے مالک پر تاوان کے طور پر لازم کیا کہ وہ اونٹنی کے مالک کو اس کی قیمت کے دو گنا رقم ادا کرے (موطا امام مالک، رقم ۲۳۳۰)۔ اسی اصول کے تحت سیدنا عمر اور سیدنا علی قحط سالی کے زمانے میں چور پر قطع ید کی سزا نافذ نہیں کیا کرتے تھے (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۹۹۰)۔

شاہ ولی اللہ مذکورہ صورتوں کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے کی  وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی قیود و شرائط بیان فرمائی ہیں ، ان کی نوعیت عمل سرقہ کی توضیح وتنقیح کی ہے۔ چونکہ چوری دراصل کسی کا مال خفیہ طور پر اڑانے کو کہتے ہیں ، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی چیز سے ممیز کرنے کے لیے یہ ضابطہ متعین فرمایا کہ چوری وہ شمار ہوگی جو چوتھائی دینار یا تین درہم کے برابر ہو۔ اسی طرح  فرمایا کہ خیانت کرنے والے یا مال لوٹنے والے یا اچک لینے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ مزید فرمایا کہ درخت کے ساتھ لگے ہوئے پھل یا رسی کے ساتھ بندھا ہوا جانور لے جانے پر بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اس سے مقصود اس شرط کو واضح کرنا تھا کہ (قطع ید کے لیے) مال کو کسی محفوظ جگہ سے چرایا جانا ضروری ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۱/ ۳۱۶- ۳۱۷)۔

مصنف نے ان تخصیصات کی وضاحت کے لیے قرآن مجید کے اسلوب کو بنیاد بنایا ہے اور صفت کے صیغوں کے استعمال سے یہ اخذ کیا ہے کہ وقوع فعل میں اہتمام کے بغیر اگر چوری کا فعل کسی سے صادر ہو تو اس پر قطع ید کی سزا دینا آیت کا مدعا نہیں ہے۔

شراب نوشی، ارتداد اور توہین رسالت

مصنف نے حدود کے تحت آنے والے جرائم میں شراب نوشی، ارتداد اور توہین رسالت کو شمار نہیں کیا۔  اس ضمن میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے مصنف نے دوسرے مقام پر لکھا ہے:

’’یہ سزائیں صرف پانچ جرائم کے لیے مقرر کی گئی ہیں: زنا، قذف، چوری، قتل و جراحت اور فساد فی الارض۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ شراب نوشی، ارتداد اور توہین رسالت کی سزا بھی شریعت میں اِسی طریقے سے مقرر کر دی گئی ہے۔ ہم نے بہ دلائل واضح کر دیا ہے کہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ اِن جرائم کے لیے شریعت میں ہرگز کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ یہ سراسر اجتہادی معاملات ہیں اور اِن کے بارے میں جو راے بھی قائم کی جائے گی، اِسی بنیاد پر کی جائے گی۔ “ (مقامات ۲۳۱)

مذکورہ جرائم سے متعلق اپنے موقف اور استدلال کی وضاحت مصنف نے ’’برہان‘‘ میں اور بعض دیگر مقامات پر  کی ہے۔

شراب نوشی سے متعلق مصنف کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسی کوڑوں کی صورت میں اس کی سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر نہیں فرمائی، بلکہ سیدنا عمر نے اپنے عہد میں صحابہ کے ساتھ مشاورت کر کے مقرر کی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسے مجرموں کے لیے کوئی خاص سزا مقرر کیے بغیر انھیں پٹوا دیا جاتا تھا۔ سیدنا ابوبکر نے اپنے دور میں اجتہاداً‌ اس کے لیے چالیس کوڑے کی سزا مقرر کی، جسے سیدنا عمر نے بعد میں اسی کوڑوں میں تبدیل کر دیا۔ یوں یہ معاملہ شریعت کے دائرے میں نہیں آتا، بلکہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر شراب نوشی کے مجرموں کو پٹوایا تو شارع کی حیثیت سے نہیں ، بلکہ مسلمانوں کے حکمران کی حیثیت سے پٹوایا اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے بھی اُن کے لیے چالیس کوڑے اور اسی کوڑے کی یہ سزائیں اِسی حیثیت سے مقرر کی ہیں ۔ چنانچہ ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی حد نہیں ، بلکہ محض تعزیر ہے، جسے مسلمانوں کا نظم اجتماعی ، اگر چاہے تو برقرار رکھ سکتا اور چاہے تو اپنے حالات کے لحاظ سے اِس میں تغیر و تبدل کرسکتا ہے ‘‘(برہان۱۳۹)۔

صحابہ نے اجتماعی مشاورت سے شراب نوشی کی جو سزا مقرر کی، اس کے متعلق فقہی روایت میں مختلف نقطہ ہاے نظر پائے جاتے ہیں۔ 

احناف اور  مالکیہ  ۸۰کوڑوں کو حد شمار کرتے ہیں، جب کہ حنبلی اور شافعی فقہا کے نزدیک حد کی حیثیت چالیس کوڑوں کو حاصل ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں  بعض واقعات میں شراب نوش کو چالیس ضربیں لگائے جانے کا ذکر ہوا ہے، البتہ اس سے زائد ۸۰ تک کوڑے بطور تعزیر لگائے جا سکتے ہیں۔  یہ اہل علم صحابہ کے اضافے کو اسی پر محمول کرتے ہیں (ابن قدامہ، المغنی ۱۲/ ۴۹۹)۔

حنفی فقہا نے عموماً‌ صحابہ کے اجتہادی اضافے کی توجیہ یوں کی ہے کہ دراصل صحابہ  کے اجتہاد کا تعلق کوڑوں کی تعداد  کی تعیین سے نہیں، بلکہ  کوڑے لگانے کے طریقے سے تھا۔ کوڑوں کی تعداد تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت تھی، کیونکہ آپ نے جن افراد کو مجرم کو جوتے مارنے کے لیے کہا، ان کی تعداد روایات کے مطابق چالیس تھی اور سب نے اسے د و دو جوتے مارے تھے۔   صحابہ میں اختلاف اس پہلو سے تھا کہ  افراد کی تعداد کے لحاظ سے کوڑے مقرر کیے جائیں یا جوتوں کی تعداد کے لحاظ سے۔ ابتداءً‌ صحابہ نے افراد کے اعتبار سے چالیس کوڑے لگانے کی راے اختیار کی، لیکن پھر سیدنا عمر کے دور میں   دو جوتوں کو الگ الگ شمار کرتے ہوئے کوڑوں کی تعداد ۸۰ مقرر کر دی گئی اور اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا، جس کی پابندی بعد والوں پر لازم ہے (القدوری، التجرید ۱۲/ ۶۱۱۵۔ جصاص، شرح مختصر الطحاوی ۶/ ۳۸۲)۔

امام طحاوی نے  مذکورہ تاویل سے تو اتفاق نہیں کیا اور وہ اس کو صحابہ کا اجتہادی فیصلہ ہی قرار دیتے ہیں، البتہ ان کی راے میں صحابہ کے اجماع سے طے کیے گئے معاملات کو بھی واجب الاتباع حکم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور بعد میں آنے والے لوگ ان کو تبدیل نہیں کر سکتے (شرح معانی الآثار ۳/ ۱۵۸) ۔ گویا طحاوی کے نزدیک یہ سزا شرعاً‌ حد نہ ہونے کے باوجود صحابہ کا اجماعی فیصلہ ہونے کی وجہ سے لازم ہے اور اس کا درجہ عملاً‌ حد کا ہی ہے۔

فقہا کے ایک اور گروہ نے اس کو حد قرار دینے یا حد کا درجہ دینے کے ان دونوں مواقف سے اختلاف کیا ہے اور اس کو ایک تعزیری سزا ہی قرار دیا ہے۔ مثلاً‌ امام الحرمین الجوینی اس کو حد قرار دینے کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

هذا قول من يأخذ العلم من بعد ليعلم هذا السائل أن عقوبة الشارب لم تثبت مقدرة محدودة في زمن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بل روي أنه رفع إلى مجلسه شارب بعد تحريم الخمر فأمر الحاضرين بأن يضربوه بالنعال وأطراف الثياب ويبكتوه ويحثوا التراب عليه، ثم راٰى أبوبكر  الجلد فكان يجلد أربعين مجتهدًا غير بان على توقيف وتقدير في الحد، ثم راٰى عمر ما راٰى وقد قال علي رضي اللّٰه عنه: لا أحد رجلًا فيموت فأجد في نفسي منه شيئًا من أن الحق قتله إلا شارب الخمر فإنه شيء رأيناه بعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فكأن عقوبة الشارب تضاهي التعزيرات المفوضة إلى رأي الأئمة في مقدارها وإن كان لا يسوغ الصفح عنها.(غياث الامم فی التياث الظلم ۲۲۴- ۲۲۵)
’’یہ ان حضرات کا قول ہے جو بہت بعید استدلال کو قبول کر لیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ شراب پینے والے کی کوئی متعین اور  طے شدہ سزا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مقرر نہیں کی گئی تھی، بلکہ روایت میں ہے کہ شراب کے حرام قرار دیے جانے کے بعد آپ کی مجلس میں ایک شراب نوش کو پیش کیا گیا تو آپ نے موجود لوگوں سے کہا کہ وہ جوتوں اور کپڑوں کے کناروں سے اس کی پٹائی کریں، اسے  ملامت کریں اور اس پر خاک ڈالیں۔ پھر سیدنا ابوبکر کی راے یہ ہوئی کہ ایسے آدمی کو کوڑے لگوائے جائیں، چنانچہ وہ کسی نقلی دلیل سے کوئی متعین تعداد اخذ کیے بغیر اپنے اجتہاد سے  شراب نوش کو چالیس کوڑے لگوایا کرتے تھے۔  پھر سیدنا عمر نے بھی اپنی راے پر عمل کیا (اور چالیس کی جگہ ۸۰ کوڑے لگوانے لگے)۔ سیدنا علی نے کہا کہ کوئی بھی شخص شرعی سزا کے نفاذ سے مر جائے تو مجھے اپنے دل میں کوئی کھٹک محسوس نہیں ہوگی، سواے شراب پینے والے کے، کیونکہ اس کی سزا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے اجتہاد سے مقرر کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ شراب پینے والے کی سزا ان تعزیرات کے زمرے میں آتی ہے جن کی تعیین  اولو الامر کے سپرد ہے، تاہم اس جرم سے درگذر کرنا کسی بھی حال میں روا نہیں۔

مصنف کا نقطۂ نظر اس بحث میں اسی آخری راے سے ہم آہنگ ہے۔

ارتداد پر قتل کی سزا سے متعلق مصنف کی راے یہ ہے کہ یہ کوئی مستقل سزا نہیں ، بلکہ قرآن مجید میں مشرکین عرب کے لیے جو قانون بیان کیا گیا، اسی کی ایک فرع ہے۔  اس قانون کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے  اتمام حجت کے بعد آپ کی قوم جس میں آپ کی براہ راست بعثت ہوئی تھی، ایمان نہ لانے کی صورت میں قتل کی سزاوار قرار دی گئی تھی۔ چنانچہ ’’وہ لوگ جن کے لیے کفر کی سزا موت مقرر کی گئی ، وہ اگر ایمان لا کر پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹتے تو لازم تھا کہ موت کی یہ سزا اُن پر بھی بغیر کسی تردد کے نافذ کردی جائے۔ چنانچہ یہی وہ ارتداد ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’من بدل دینه فاقتلوہ‘‘‘ (مقامات ۳۳۸)۔  اس استدلال کا حاصل یہ ہےکہ ارتداد کی یہ سزا مشرکین عرب کے ساتھ خاص تھی اور  اس کو شریعت کے عمومی ضابطۂ تعزیرات کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

یہ راے جمہور فقہا کے موقف سے مختلف ہے جو ارتداد پر سزا ے موت کو حدود میں شمار کرتے ہیں، البتہ اس کی فقہی وعقلی توجیہ کے حوالے سے اہل علم کے ہاں  دو بنیادی رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔   

ایک زاویہ ٔ نظر  ہے کہ مرتد ہونے والا شخص اپنے وجود سے دوسرے مسلمانوں کو بھی ارتداد کی دعوت دیتا اور اس طرح ملت اسلامیہ کے وجود کے لیے ایک خطرے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اہل اسلام کو ارتداد کے ان منفی اثرات سے محفوظ رکھنے اور حرمت ملت کو قائم رکھنے کے لیے ایسے شخص کے لیے قتل کی سزا مقرر کی گئی ہے (ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۷/ ۸۵، ۲۰/ ۱۰۲)۔ فقہاے احناف  کے ہاں اس نکتے کی تعبیر یوں کی جاتی ہے کہ مرتد کے لیے قتل کی سزا دراصل محاربہ کی سزا ہے، کیونکہ کفر پر اصرار کر کے مرتد مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس کے محاربہ کو دفع کرنے کے لیے اسے قتل کیا جائے گا ) سرخسی، المبسوط ۱۰/ ۱۱۰)۔

دور جدید میں مولانا مودودی نے اس استدلال کو یوں واضح کیا ہے کہ مرتد کو دراصل اس کے کفر کی سزا دینے کے لیے نہیں، بلکہ اسلامی ریاست کے نظم کو خلل اور انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے قتل کیا جاتا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اسلام چونکہ ایک پورا نظام زندگی ہے جس کے مخصوص تصورات پر اسلامی معاشرے اور ریاست کی تشکیل کی جاتی ہے، اس لیے اس میں داخل ہونے کے بعد واپس جانے کا راستہ کھلا نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ یہ چیز اس نظام کی تخریب، اس کے اجزاے تعمیر کے انتشار اور اس کی بندش وجود کی برہمی کی اجازت دینے کے مترادف ہوگی( مرتد کی سزا ۴۹ -۵۰)۔

دوسرا رجحان یہ ہے کہ یہ سزا فی نفسہ ٖ مرتد کے ارتداد اور کفر کی سزا ہے۔ چنانچہ  امام شافعی اس سزا کو ’اتمام حجت‘ کے اصول پر مبنی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خدا کے دین کی حقانیت سے پوری طرح واقف ہو جانے اور اس کا اقرار واعتراف کر لینے کے بعد اس کو چھوڑ دینا ایک بہت بڑا گناہ ہے، اور اسی گناہ کی پاداش میں مرتد کو شرعاً مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے (الام ۲/ ۲۵۶) ۔

سرخسی لکھتے ہیں کہ چونکہ مرتد صرف حرابہ کا نہیں، بلکہ دین حق کو جان لینے کے بعد اس کے استخفاف کا بھی مرتکب ہے، اس لیے اس کو دیگر اہل کفر کی طرح جزیہ دے کر زندہ رہنے کی رعایت نہیں دی جا سکتی (المبسوط ۱۰/۱۱۰) ۔ مزید لکھتے ہیں کہ  چونکہ مرتد، اسلام کی حقانیت سے واقف ہونے کے بعد اسے ترک کر تا ہے، اس لیے اتمام حجت کے اصول کے تحت وہ مشرکین عرب کے مماثل ہے اور جیسے ا ن کے لیے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں سزاے قتل تجویز کی گئی تھی، اسی طرح مرتد بھی سزاے موت کا مستحق ہے (المبسوط ۱۰/ ۱۱۷)۔

دور جدید  میں بہت سے اہل علم  کے ہاں مختلف پہلوؤں سے روایتی  فقہی موقف سے اختلاف  کا رجحان سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ ارتداد پر مقرر کی جانے والی یہ سزا در اصل بالفعل محاربہ اور فتنہ و فساد کی سزا تھی اور اس کا نفس کفر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس  راے کے مطابق چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل ایمان اور اہل کفر، دو واضح گروہوں میں تقسیم تھے اور ان کے مابین جنگ کی حالت مسلسل قائم تھی اور ارتداد اختیار کرنے والے افراد مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو کر اہل کفر کے ساتھ جا ملتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور مفسدانہ کارروائیوں میں شریک ہو جاتے تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لیے قتل کی سزا مقرر فرمائی(عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص۵۹۵-  ۵۹۶)۔

اہل علم کے ایک دوسرے گروہ کے ہاں، جو سزاے ارتداد کی اساس  فتنہ وفساد یا محاربہ کے بجاے اتمام حجت کو سمجھتا ہے، یہ سوال زیر غور ہے کہ اتمام حجت کے لیے جو معاون اور سازگار فضا اور جو اسباب ومحرکات اسلام کے دور اول میں موجود تھے، کیا وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں اور کیا معروضی تناظر میں اس سزا کا اطلاق خود حکم کی علت کی رو سے درست ہوگا؟ (نجات اللہ صدیقی، اسلام، معاشیات اور ادب ۴۱۴)۔ خاص طور پر مولانا مودودی اس نکتے کو بہت وزن دیتے ہیں کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرۂ اسلام میں مقید رکھنے سے ”اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا“ (مرتد کی سزا ۷۵)۔ اس سوال کے پیش نظر مولانا مودودی نے   روایتی فقہی موقف میں ترمیم کرتے ہوئے ایک تو یہ تجویز کیا ہے کہ  جو شخص ارتداد کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے، اسے یہ حق ہے کہ وہ اسلامی ریاست کی شہریت سے دست بردار ہو کر اس کے حدود سے باہر چلا جائے (مرتد کی سزا  ۴۸، ۷۴ -  ۷۵)۔

دور جدید کے ایک دوسرے جید عالم الشیخ یوسف القرضاوی نے یہ  راے ظاہر کی ہے کہ ارتداد کی سزا کا نفاذ سیاسہ شرعیہ کے دائرے سے تعلق رکھتا ہے جس میں  داعیہ وغیر داعیہ، یعنی عام مرتدین اور ارتداد کا پرچار کرنے والے  مرتدین میں فرق کرنا بہتر ہے۔ قرضاوی کی راے میں   اپنے شخصی فیصلے کی حد تک ارتداد اختیار کرنے والوں کے خلاف موت سے کم تر تعزیری اقدام پر اکتفا کی جا سکتی ہے، البتہ ارتداد کی تحریک برپا کرنے والوں کے خلاف سخت اقدام کرنے کی ضرورت ہے  (www.al-qaradawi.net/node/4259)۔

مصنف نے  اس سزا کی توجیہ کے لیے بنیادی طو رپر امام شافعی کے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا ہے، جو اس کو حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کے انکار کی سزا قرار دیتے ہیں، تاہم اس کے اطلاق کے حوالے سے مصنف کاموقف یہ ہے کہ کسی بھی شخص یا قوم پر اتمام حجت اور اس کی بنیاد پر سزا اور عذاب کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اس لیے قتل مرتد کا حکم شریعت کا کوئی عمومی ضابطہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق صرف مشرکین بنی اسمٰعیل سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت موت کی سزا نافذ کی گئی تھی اور اسلام قبول کیے بغیر ان کے لیے زندہ رہنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رکھی گئی تھی (برہان  ۱۳۹-  ۱۴۳)۔

یہ انداز نظر مولانا امین احسن اصلاحی کی بعض تحریروں میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:

’’ارتداد کی ایک شکل بنی اسماعیل کے ارتداد کی تھی۔ مشرکین عرب یا دوسرے الفاظ میں بنی اسماعیل کے متعلق شریعت کا جو مسلمہ قانون قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد ان کے لیے دو ہی راستے تھے۔ ایمان لائیں یا پھر تلوار ان کا فیصلہ کرے۔ وہ ذمی یا غلام نہیں بنائے جا سکتے تھے، کیونکہ ان پر اللہ کی طرف سے براہ راست حجت تمام کر دی گئی تھی۔ وہ اگر اسلام لا کر پھر کفر کی طرف آتے تو ان کی سزا بھی قتل تھی۔ (تدبر حدیث، موطا امام مالک  ۱۶۸)

جہاں تک توہین رسالت  کی سزا  کا تعلق ہے تو  فقہی روایت میں اس حوالے سے  تین بنیادی مواقف ملتے ہیں:

جمہور فقہا کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے حق شہریت سے بہرہ مند ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہب کی توہین نہ کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اس سے اس کا سیاسی معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور اسلامی ریاست اس کے ساتھ ایک حربی کا معاملہ کرنے کا حق رکھتی ہے، جس کے تحت اسے قتل کیا جا سکتا ہے یا دار الاسلام سے نکل جانے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔

حنفی فقہا کا موقف یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی غیر مسلم  باشندہ اگر  توہین رسالت کا مرتکب ہو تو اس سے    اس کا ریاست کے ساتھ سیاسی معاہدہ، یعنی عقد ذمہ باطل نہیں ہو جاتا اور وہ بدستور اسلامی ریاست کا شہری رہتا ہے، البتہ اسے اس جرم سے باز رکھنے کے لیے تنبیہ کی جائے گی اور اگر وہ باز نہ آئے تو تعزیری سزا دی جائے گی۔ تاہم اگر وہ اس پر مصر رہے اور بار بار تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو اسے تعزیراً‌ موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ 

جمہور فقہا اور احناف کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ توہین رسالت کرنے والے غیر مسلم کو بطور حد قتل کرنا لازم ہے اور اگرچہ مجرم اس جرم سے توبہ کر لے، اسلامی ریاست اس سزا کو اس پر نافذ کرنے کی پابند ہے۔[*]

مصنف نے اس حوالے سے اپنے نقطۂ نظر کی تفصیلی وضاحت اپنی کتاب ’’مقامات “ میں کی ہے اور بنیادی طور پر فقہاے احناف کے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم اس کا مرتکب ہو  تو اسے اس سے باز رہنے کی تنبیہ کی جائے گی اور باز نہ آنے پر فساد فی الارض کے تحت تعزیری سزا دی جائے گی۔   مصنف کی راے میں اگر کوئی غیر مسلم معاند مستقل طور پر یہ روش اختیار کر لے اور تنبیہ وتادیب کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو اسے محاربہ اور فساد فی الارض  کا مجرم قرار دے کر ، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے، ان میں سے کوئی بھی سزا دی جاسکتی ہے جو سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳ میں بیان کی گئی ہیں۔ البتہ مصنف کو فقہاے احناف کی راے سے اتفاق نہیں کہ ایک مسلمان اگر توہین کا مرتکب ہو اور توبہ کرنے پر آمادہ نہ ہو تو مرتد ہو جانے کی وجہ سے اسے قتل کر دیا جائے گا۔ مصنف کے نزدیک چونکہ ارتداد کی سزا مشرکین عرب کے ساتھ خاص تھی، اس لیے توہین کے مرتکب مسلمان کو  اس جرم پر کوئی تعزیری سزا تو دی جا سکتی ہے، لیکن اسے بر بناے ارتداد قتل نہیں کیا جا سکتا (مقامات ۲۳۲) ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*] ان تمام مواقف کی تفصیل کےلیے دیکھیے ہماری کتاب ’’براہین “۔

B