HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: فاطر ۳۵: ۱-۱۸ (۱)

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓئِكَةِ رُسُلًا اُولِيْ٘ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَﵧ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَآءُﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١

ـــــــــــــــــــ ۲ ـــــــــــــــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

شکر اللہ ہی کے لیے ہے، زمین اور آسمانوں کا خالق، فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا،[98] جن کے دو دو ، تین تین، چار چار پر ہیں۔[99] وہ خلق میں جو چاہے، اضافہ کر دیتا ہے۔[100] یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔۱

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَاﵐ وَمَا يُمْسِكْﶈ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۣ بَعْدِهٖﵧ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٢

اللہ جو رحمت بھی لوگوں کے لیے کھول دے تو اُسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ اور جس کو روک لے تو اُس کے روک لینے کے بعد اُسے پھر کوئی کھولنے والا نہیں ہے[101] اور وہی عزیز و حکیم ہے۔ ۲

يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْﵧ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِﵧ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَﵠ فَاَنّٰي تُؤْفَكُوْنَ ٣

(اِس لیے) لوگو، اللہ کے جو احسانات تمھارے اوپر ہیں، اُن کا دھیان کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمھیں زمین و آسمان سے روزی دیتا ہے؟ نہیں، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔[102] پھر کہاں اوندھے ہوئے جاتے ہو!۳

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَﵧ وَاِلَي اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ٤

(اِس کے باوجود، اے پیغمبر)، اگر یہ تمھیں جھٹلاتے ہیں تو کچھ غم نہ کرو، اِس لیے کہ تم سے پہلے بھی بہت سے پیغمبروں کو اِسی طرح جھٹلا دیا گیا تھا۔ (خدااِنھیں دیکھ رہا ہے) اور یہ سارے معاملات بالآخر خدا ہی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔۴

يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاﶋ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ ٥ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاﵧ اِنَّمَا يَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ ٦ﶠ اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌﵾ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ ٧

لوگو، اللہ کا وعدہ شدنی ہے۔ سو دنیا کی زندگی تمھیں ہرگز کسی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ وہ بڑا دھوکے باز[103] اللہ کے بارے میں تمھیں کبھی دھوکا دینے پائے۔حقیقت یہ ہے کہ شیطان تمھارا دشمن ہے، اِس لیے تم بھی اُسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ اپنے گروہ کو اِسی لیے اپنی طرف بلاتا ہے کہ وہ دوزخ والوں میں سے ہو جائیں۔ (اِس لیے متنبہ ہو جاؤ)، جنھوں نے کفر کیا ہے، اُن کے لیے وہاں سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے۔۵- ۷

اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاﵧ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ  مَنْ يَّشَآءُﵠ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍﵧ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۣ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ٨

(یہ نہیں مان رہے تو اِس میں تمھارا کوئی قصور نہیں ہے، اے پیغمبر)۔ پھر کیا وہ جس کی نگاہوں میں اُس کا برا عمل خوش نما بنا دیا گیااور وہ اُسی کو اچھا سمجھنے لگا ہے، اُسے تم ہدایت دے سکتے ہو؟[104] اِس لیے کہ اللہ ہی (اپنے قانون کے مطابق) جسے چاہتا ہے، گم راہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔ سو اِن پر افسوس کر کرکے[105] تم اپنے کو ہلکان نہ کرو،اِس لیے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔ ۸

وَاللّٰهُ الَّذِيْ٘ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰي بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاﵧ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ ٩

(لوگو)، اللہ ہی ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا، پھر وہ بادلوں کو ابھارتی ہیں، پھر ہم نے اُنھیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیا، پھر اُن کے پانی سے اُسی زمین کو ، اِس کے بعد کہ وہ مری پڑی تھی، زندہ کر دیا۔ لوگوں کا ازسرنو زندہ ہو کر اٹھنا بھی اِسی طرح ہو گا۔[106] ۹

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًاﵧ اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗﵧ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌﵧ وَمَكْرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ يَبُوْرُ ١٠

جو (وہاں) عزت چاہتا ہے، وہ اللہ سے چاہے، اِس لیے کہ عزت تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔[107] اُسی کی جناب میں پاکیزہ کلام[108] پہنچتا ہے اور اچھا عمل اُسے اوپر اٹھاتا ہے۔ اور جو لوگ بری تدبیریں کر رہے ہیں،[109] اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کی سب تدبیریں بالآخر غارت ہو کر رہیں گی۔ ۱۰

وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًاﵧ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰي وَلَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖﵧ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ وَّلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهٖ٘ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍﵧ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرٌ ١١

اور (لوگو)، اللہ نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر پانی کی بوند سے، پھر تمھیں جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ اُس کے علم کے بغیرنہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے، نہ بچہ جنتی ہے اور کسی عمر والے کو نہ عمر دی جاتی ہے اور نہ اُس کی عمر گھٹائی جاتی ہے، مگر وہ بھی ایک کتاب میں لکھی ہوتی ہے۔ (اِن میں سے کسی کام کے لیے وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے لیے یہ آسان سی بات ہے۔[110] ۱۱

وَمَا يَسْتَوِي الْبَحْرٰنِﵲ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهٗ وَهٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌﵧ وَمِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَاﵐ وَتَرَي الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ١٢  يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِﶈ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَﵠ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّيﵧ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُﵧ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ ١٣ﶠ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْﵐ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْﵧ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْﵧ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ١٤

(یہ دنیا مجموعۂ اضداد ہے جس میں وہی توافق پیدا کرتا ہے۔ تم غور کرو)، دونوں دریا یکساں نہیں ہیں۔ایک میٹھا ہے، پیاس بجھانے والا، پینے کے لیے خوش گوار اور ایک کھاری کڑوا ہے اور تم دونوں سے تازہ گوشت حاصل کرکے کھاتے ہو اور زینت کا سامان نکالتے ہو، جس کو پہنتے ہو۔ اور کشتیوں کو دیکھتے ہوکہ اُسی پانی میں اُس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں، اِس لیے کہ (دوردراز علاقوں میں) تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور اِس لیے کہ اُس کا شکر ادا کرو۔ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور سورج اور چاند کو اُس نے مسخر کر رکھا ہے۔ دونوں ایک بندھے ہوئے وقت کے لیے چل رہے ہیں۔ یہی اللہ تمھارا پروردگار ہے، اُسی کی بادشاہی ہے، اور جنھیں تم اُس کے سوا پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ تم اُنھیں پکارو گے تو وہ تمھاری پکار نہ سنیں گے اور اگر سنیں گے بھی تو تمھاری فریادرسی نہ کر سکیں گے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ تمھیں ایک باخبر کی طرح کوئی دوسرا (یہ حقائق) نہیں بتائے گا۔[111]۱۲- ۱۴

يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَي اللّٰهِﵐ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ١٥ اِنْ  يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ١٦ﶔ وَمَا ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ بِعَزِيْزٍ ١٧

لوگو، (اُس کی طرف سے اِس علم و تذکیر کی قدر کرو)۔ تم ہی اللہ کے محتاج ہو۔ (اُس کو تمھارے ایمان کی کوئی ضرورت نہیں آ پڑی ہے)۔ اللہ تو بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔ وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور (تمھاری جگہ) ایک نئی مخلوق یہاں لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ ۱۵-۱۷

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰيﵧ وَاِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰي حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَّلَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰيﵧ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَﵧ وَمَنْ تَزَكّٰي فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰي لِنَفْسِهٖﵧ وَاِلَي اللّٰهِ الْمَصِيْرُ ١٨

(اِس لیے متنبہ ہو جاؤ۔ قیامت کے دن) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور اگر کوئی بوجھ سے دبا ہوا اپنا بوجھ بٹانے کے لیے پکارے گا تو اُس میں سے کچھ بھی بٹایا نہ جائے گا، چاہے (جس کو پکارا جائے)، وہ قرابت مند ہی کیوں نہ ہو۔[112]  (یہ نہیں سنتے تو اِنھیں اب اِن کے حال پر چھوڑو، اے پیغمبر)۔ تم صرف اُنھی کو خبردار کر سکتے ہو جو بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔[113]  (یہ پاکیزگی کی دعوت ہے) اورجو پاکیزگی حاصل کرتا ہے، وہ اپنے ہی لیے حاصل کرتا ہے اور (ایک دن) پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔۱۸

[98]۔ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس خدا نے زمین و آسمان بنائے ہیں، فرشتوں کو بھی اُسی نے وجود بخشا ہے اور اِس کا مقصد اپنی مخلوقات تک پیغام رسانی ہے۔ لہٰذا زمین و آسمان اور اُن کے درمیان کی سب مخلوقات کی طرح وہ بھی خدا کی ایک مخلوق ہیں۔ وہ اِن کے بنانے میں شریک کس طرح ہو سکتے ہیں؟ اور اُن کا الوہیت میں کوئی حصہ کس طرح مانا جا سکتا ہے؟ جو لوگ اُن کو یہ حیثیت دے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے نہ خدا کی قدر پہچانی ہے، نہ اِن پیغام بروں کی اور نہ اپنی ہی۔

[99]۔ یعنی اپنی قوت پرواز کے لحاظ سے متفاوت ہیں، کچھ دو پروں کی قوت سے اڑتے ہیں، کچھ چار پروں کی اور کچھ اِس سے بھی زیادہ۔ یہ فرق خود بتا رہا ہے کہ اُنھیں کسی بنانے والے نے بنایا اور اُن کے مراتب و منازل متعین کیے ہیں، وہ آپ سے آپ نہیں بن گئے ہیں کہ سب اپنا مرتبہ یکساں بنا لیتے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... مقصود یہاں صرف یہ واضح کرناہے کہ جن نادانوں نے فرشتوں کو الوہیت کے زمرے میں داخل کر رکھا ہے، اُن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بلند کا پتا نہیں ہے۔ خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، اُس کے قاصد اور سفیر ہونے میں بھی اُن سب کا درجہ و مرتبہ ایک نہیں ہے، بلکہ کسی کی رسائی کسی منزل تک ہے اور کسی کی پہنچ کسی مقام تک۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۵۴)    

[100]۔ یعنی جن صلاحیتوں کی مخلوق چاہے، پیدا کر سکتا ہے۔ چنانچہ وہ فرشتوں سے بھی زیادہ قوت و صلاحیت کی کوئی مخلوق اگر پیدا کر دے تو یہ اُس کی قدرت و حکمت کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہو گا۔اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہوں گے اور نہیں ہو سکتے کہ اُس کی خدائی میں وہ کسی نوعیت سے شریک ہو گئی ہے۔

[101]۔ آیت میں ایک ہی چیز کے لیے ضمیر ایک جگہ مونث اور دوسری جگہ مذکر آئی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایک جگہ لفظ کا لحاظ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ مفہوم کا۔ اِس کی متعدد نظیریں قرآن میں موجود ہیں۔

[102]۔ یعنی جب وہی خالق و رازق ہے تو اُس کے سوا معبود کوئی اور کیوں ہونے لگا؟ ہرگز نہیں، وہی معبود حقیقی ہے ۔ پیچھے جو سوال کیا ہے، اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر یہ بات اِس لیے فرما دی ہے کہ مخاطب مشرکین ہیں اور اُنھیں اِس بات سے انکار نہیں تھا کہ زمین و آسمان کو بنانے والا اللہ ہے اور وہی روزی رساں ہے۔

[103]۔ یعنی شیطان۔ آگے اِس کی وضاحت ہو گئی ہے۔

[104]۔ مطلب یہ ہے کہ اِس طرح کے لوگوں کا ہدایت پانا سنت الٰہی کے خلاف ہے۔ اللہ کسی ایسے شخص کو کبھی ہدایت نہیں دیتا جو ہر ناخوب کو خوب بنا کر دیکھنے کو اپنا ہنر بنا لے اور خیر و شر کے اُن بنیادی تصورات ہی سے بے گانہ ہو جائے جو خدا نے انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائے ہیں۔

[105]۔ اہل نحو مصدر کے صلے کو اُس پر متقدم نہیں مانتے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں ’عَلَيْهِمْ‘ کو ’حَسَرٰت‘ سے متعلق مانا اور فرمایا ہے کہ اِس کا جمع کی صورت میں آنا فرط غم کے اظہار کے لیے ہے۔ آیت کے مدعا پر تدبر کیا جائے تو اُن کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم نے بھی ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

[106]۔  اوپر جس وعدۂ شدنی کا ذکر ہے، یہ اُس کی دلیل بیان فرمائی ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو اسلوب کلام بھی قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...پہلے ماضی کا صیغہ ’اَرْسَلَ‘ استعمال ہوا ہے۔ پھر مضارع ’تُثِيْرُ‘ آگیا۔ اِس کے بعد ’سُقْنَا‘ اور ’اَحْيَيْنَا‘ متکلم کے صیغے آگئے۔ اسلوب کا یہ تنوع اپنے اندر گوناگوں خوبیاں رکھتاہے جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔ یہاں صرف اتنی بات یاد رکھیے کہ ماضی تو صرف بیان واقعہ کے لیے آتا ہے، مضارع میں تصویر حال کا پہلو بھی ہوتا ہے اور متکلم کا صیغہ التفات و عنایات خاص پر دلیل ہوتاہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۶۳)

[107]۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ مشرکین اپنے معبودوں کو خدا کے حضور عزت و سرخ روئی کے حصول کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔

[108]۔ اِس سے کلمۂ ایمان مراد ہے۔ آگے اچھے عمل کے ذکر سے اِس کو واضح کر دیا ہے۔ آیت میں جس طرح ’عَمَل‘ کے ساتھ ’صَالِح‘ کا لفظ ہے، اُسی طرح ’كَلِم‘ کے ساتھ ’طَيِّب‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ اُس کی زرخیزی اور ثمر باری کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ استاذامام لکھتے ہیں:

’’... اِس لیے کہ فلسفۂ دین کے نقطۂ نظر سے یہی کلمہ تمام علم و حکمت کی جڑ ہے۔ جس نے اِس کو پالیا،اُس نے تمام علم و حکمت کے خزانے کی کلید پالی اور یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ایمان اور عمل صالح، دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح ایمان کے بغیر عمل کی کوئی بنیاد نہیں، اُسی طرح عمل کے بغیر ایمان ایک بے جان شے ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۳۶۳)

اُنھوں نے لکھا ہے:

’’... گویا کلمۂ ایمان کی مثال انگور کی بیل کی ہوئی جو ہے تو بجاے خود نہایت ثمربار، لیکن اُس کی شادابی و ثمر باری کا تمام تر انحصار اِس امر پر ہے کہ اُس کو کوئی سہارا ملے جس پر وہ چڑھے، پھیلے اور پھولے پھلے۔ یہ سہارا اُس کو عمل صالح سے حاصل ہوتا ہے۔ عمل صالح ہی اُس کو پروان چڑھاتا اور مثمر و بارآور بناتا ہے۔ ورنہ جس طرح انگور کی بیل سہارے کے بغیر سکڑ کے رہ جاتی ہے، اُسی طرح ایمان بھی عمل صالح کے بدون مرجھا کے رہ جاتا ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۳۶۳)     

[109]۔ اصل میں ’يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں ’السَّيِّاٰت‘ مصدر کی صفت ہے، یعنی ’يَمْكُرُوْنَ الْمَكْرَاتِ السَّيِّئَاتِ‘۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فعل ’يَمْكُرُوْنَ‘ متعدی نہیں ہے کہ ’السَّيِّاٰت‘ کو اِس کا مفعول قرار دیا جا سکے۔

[110]۔ مطلب یہ ہے کہ اِس مغالطے میں نہ رہو کہ اتنی وسیع و عریض دنیا کے اِن جزئیات امور کا احاطہ خدا تن تنہا کس طرح کر سکتا ہے؟ اِس کے لیے وہ یقیناً اعوان و انصار کا محتاج ہو گا۔ لہٰذا کیا بعید ہے کہ وہ یہی دیوی دیوتا اور بزرگان دین ہوں جن کی پرستش ہمارے آباو اجداد کرتے رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ محض حماقت ہے۔ خدا اِن میں سے کسی کا محتاج نہیں ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی، اُس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

[111]۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرح۔ اِس لیے کہ وہی اِن حقائق کا براہ راست علم رکھتا ہے۔ دوسرے سب لوگ زیادہ سے زیادہ عقلی استدلال سے کوئی بات بتا سکتے ہیں جو اصلاً استنباطی ہوتا ہے۔ اِس لیے متنبہ ہو جاؤ، غیب کے پردوں میں کیا ہے اور وہ کب اور کس طرح تمھارے سامنے آجائے گا، اُس کو ایک حقیقی با خبر ہی جانتا ہے اور اِس وقت وہی تمھیں بتا رہا ہے کہ یہ اضداد اُسی کے آفریدہ ہیں اور اِن کے اندر جو سازگاری دیکھتے ہو، وہ بھی اُسی قادر و  قیوم کی پیدا کی ہوئی ہے۔ یہ خود اِس بات کی شہادت ہے کہ ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت اور بالاتر قوت ہے جو اِن اضداد پر حاوی ہے اور اِنھیں اپنے پیش نظر مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کوئی دوسرا اُس کے کسی ارادے اور فیصلے پر کسی نوعیت سے اثر انداز نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ زمین و آسمان میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

[112]۔ اِس آیت میں ’مُثْقَلَة‘ سے پہلے اُس کا موصوف محذوف ہے۔ اِسی طرح، ’اِلٰي حِمْلِهَا‘ میں ’حِمْل‘ سے پہلے مضاف اور ’كَانَ‘ کے بعد اُس کا اسم محذوف ہے۔ یہ تمام محذوفات عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق ہیں۔ ہم نے ترجمے میں جہاں ضروری تھا، اِنھیں کھول دیاہے۔

[113]۔ یعنی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہیں اور اِس بات پر اصرار بھی نہیں کرتے کہ آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی مانیں گے، بلکہ عقل کی بات عقلی استدلال ہی سے مان لیتے ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B