اللہ تعالیٰ ’القدوس‘ ہے، یعنی سراسر پاکیزگی ہے۔آخرت میں وہ اپنے قرب سے اُنھی لوگوں کو فیض یاب کرے گا، جو پاکیزہ ہوں گے۔ یہی لوگ اُس کی پاک صاف جنت کے مستحق ہوں گے۔ پاکیزگی ہی وہ مقصد ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے نبیوں کو مبعوث فرمایا اور دین کی صورت میں اپنی ہدایت نازل فرمائی۔ امام امین احسن اصلاحی نے اللہ کی صفت ’القدوس‘ کی تشریح میں اِسی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’’ اَلْقُدُّوْسُ‘۔ وہ ہر عیب، ہر نقص اور برائی و خرابی سے بالکل پاک و منزہ ہے، اِس وجہ سے اُس نے اپنے بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے کتاب اتاری اور رسول بھیجے تاکہ بندے پاکیزہ بن کر اُس کا قرب حاصل کرنے کے اہل بن سکیں۔ سورۂ جمعہ میں ’ملك‘ اور ’قُدُّوْس‘ ، دونوں صفتوں کا حوالہ دے کر اُن کا مقتضیٰ واضح فرما دیا ہے۔ پہلے اپنی صفات کا حوالہ اِن الفاظ میں دیا: ’اَلْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ‘ اُس کے بعد اپنی اِن صفات کا مقتضیٰ اِس طرح واضح فرمایا:
’هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ‘ (وہی ہے جس نے اٹھایا امیوں میں ایک رسول اُنھی میں سے جو اُس کی آیتوں کی تلاوت اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے۔)
غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ رسول اور کتاب تو اُس نے اِس لیے بھیجے کہ وہ بادشاہ ہے، اُس کے بادشاہ ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنی رعیت کے پاس اپنے سفیر بھی بھیجے اور اپنے احکام بھی اور اپنے بندوں کا تزکیہ اِس وجہ سے اُس نے چاہا کہ وہ قدوس اور پاک ہے۔ وہ یہ نہیں پسند کر سکتا کہ اُس کے بندے گناہوں میں آلودہ رہیں۔‘‘(تدبر قرآن ۸ / ۳۱۲ - ۳۱۳)
چنانچہ انسان الملک القدوس کے جتنا قریب ہوتا ہے، اتنا ہی پاکیزہ ہوتا ہے۔ عبادات اِس قرب کو بڑھاتی ہیں، جس کے نتیجے میں انسان کے نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اگر زمین کی کاشت اور نشو و نما کو مثال بنایا جائے تو تطہیر بدن، تطہیر خورو نوش اور تطہیر اخلاق کے احکام نفس انسانی کی کھیتی سےجھاڑ جھنکاڑ اورآلایشیں صاف کر کے اُسے اِس قابل بناتے ہیں کہ اُس میں عمل صالح کی فصل کاشت کی جا سکے اور عبادات اِس فصل کو نشوو نما دیتی اور اس کی نگہ داشت کا اہتمام کرتی ہیں۔استاذِ گرامی کے نزدیک عبادات کے ذریعے سے تزکیۂ نفس اپنے کمال کو حاصل کرتاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دین کا مقصد تزکیہ ہے ۔ اِس کے منتہاے کمال تک پہنچنے کا ذریعہ اللہ اور بندے کے درمیان عبد و معبود کے تعلق کا اُس کے صحیح طریقے سے قائم ہو جانا ہے ۔ یہ تعلق جتنا محکم ہوتا ہے ، انسان اپنے علم و عمل کی پاکیزگی میں اتنا ہی ترقی کرتا ہے ۔ محبت، خوف، اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں اور بے نہایت احسانات کے لیے احساس و اعتراف کے جذبات ، یہ اِس تعلق کے باطنی مظاہر ہیں ۔ انسان کے شب و روز میں اِس کا ظہور بالعموم تین ہی صورتوں میں ہوتا ہے : پرستش ، اطاعت اور حمیت و حمایت ۔ انبیا علیہم السلام کے دین میں عبادات اِسی تعلق کی یاددہانی کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ پرستش ہے۔ قربانی اور عمرہ کی حقیقت بھی یہی ہے ۔ روزہ و اعتکاف اطاعت ، اور حج اللہ تعالیٰ کے لیے حمیت و حمایت کا علامتی اظہار ہے۔‘‘ (میزان ۲۶۷)
اِن عبادات میں سے اولین اور اہم ترین عبادت نماز ہے۔ یہ انسان سے گناہوں کی غلاظتوں کو دور کر کے اُس کوپاکیزہ بناتی ہے اور دین کے مقصد تزکیۂ نفس کو پانے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے ۔ قرآن مجید نے جہاں پاکیزگی کو کامیابی کی شرط قرار دیا ہے، وہاں اِس کے وسیلے کے طور پر ذکرِ الٰہی اور نماز کو پیش کیا ہے۔ ارشاد ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰي. وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰي. (الاعلیٰ۸۷ : ۱۴- ۱۵)
’’البتہ فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اِس کے لیے اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی۔‘‘
استاذِ گرامی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’دین کا مقصد یہی پاکیزگی (تزکیہ) ہے جس کا صلہ روز قیامت انسان کو فردوس بریں کی صورت میں ملے گا۔ اِس مقصد تک پہنچنے کے لیے جو طریقہ اختیار کرنا چاہیے،اُس کو اللہ تعالیٰ نے یہاں دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے۔ یعنی انسان صفات الٰہی کے صحیح شعور کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یاد پر قائم اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ نماز اِسی یاد اور اِسی قنوت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔‘‘(البیان ۵/ ۴۳۹)
لہٰذا جو شخص پاکیزگی حاصل کرنا چاہتا اور اِس کے نتیجے میں آخرت کی فوز و فلاح چاہتا ہے، اُس کے لیے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ نماز کا اہتمام کرے۔ سورۂ فاطر (۳۵) کی آیت ۱۸ میں نماز قائم کرنے کے حکم کے بعد ’وَمَنْ تَزَكّٰي فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰي لِنَفْسِهٖ وَاِلَي اللّٰهِ الْمَصِيْرُ‘ (اورجو پاکیزگی حاصل کرتا ہے، وہ اپنے ہی لیے حاصل کرتا ہے اور پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے) کے الفاظ سے نماز کی یہی افادیت نمایاں ہوتی ہے۔ اِس کی وضاحت میں امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’یہ نماز کے فائدے کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو شخص گناہوں کے بوجھ سے سبکدوش اور پاکیزہ ہونا چاہتا ہو وہ جھوٹے سہاروں پر اعتماد کرنے کے بجاے نماز کا اہتمام کرے۔ یہ چیز اُس کو گناہوں سے پاک کرے گی اور جس نے پاکیزگی حاصل کی، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا ۔اِس لیے کہ اللہ کسی کی عبادت و اطاعت کا محتاج نہیں ہے، بلکہ بندے خود ہی اِس کے محتاج ہیں اور سب کی واپسی بہرحال اُسی کی طرف ہونی ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۶/ ۳۷۰)
نماز گناہ کی آلایشوں کو کس طرح صاف کرتی ہے، اِس کے بارے میں استاذِ گرامی نے بیان کیا ہے کہ ہر نماز میں انسان اپنے پروردگار سے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھے گا۔ کچھ وقفے کے بعد جب اگلی نماز آتی ہے تو وہ اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے۔ وہ دن کا آغاز بھی نماز سے کرتا ہے اور اُس کی تکمیل بھی نماز پر کرتا ہے ۔ چنانچہ نماز اُس کے شب و روز اور نتیجۃً پوری زندگی کو محیط ہو جاتی ہے۔ انسان اگر پورے شعور کے ساتھ اُسے ادا کرتا رہے تو اُس کے وجود کے ظاہر و باطن پر آنے والی آلایشیں ساتھ ساتھ صاف ہوتی رہتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے ۔ بندہ جب صحیح شعور کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُس کی معصیت سے اجتناب کرے گا ۔ اِس کے نتیجے میں وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کی لغزشوں پر لازماًندامت محسوس کرتا اور اُن سے بچنے کے لیے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ زندگی کی مصروفیتوں کی طرف لوٹتا ہے ۔ غور کیجیے تو توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے اور توبہ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے :
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِﵧ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِﵧ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ. (ہود ۱۱: ۱۱۴)
’’اور دیکھو، (اے پیغمبر، اِس راہ میں ثابت قدمی کے لیے) دن کے دونوں حصوں میں نماز کا اہتمام کرو اور رات کے اوائل میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے اُن کے لیے جو یاددہانی حاصل کرنے والے ہوں۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی ؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس صورت میں تو یقیناً میل کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے ۔ اللہ اِن کے ذریعے سے بالکل اِسی طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (میزان ۲۷۲- ۲۷۳)
زکوٰۃ کے لفظی معنی افزایش و نمو اور طہارت و پاکیزگی کے ہیں۔ یہی معنی اُس کے اصطلاحی مفہوم میں بھی داخل ہیں۔ چنانچہ یہ مال کا وہ حصہ ہے، جو مال کے ساتھ ساتھ مال دینے والے کو بھی پاکیزہ بناتا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ اِس عبادت کا مقصد بھی تزکیۂ نفس ہے۔ استاذِ گرامی لکھتے ہیں:
’’...زکوٰۃ کا مقصد وہی ہے جو پورے دین کا ہے۔یہ نفس کو اُن آلایشوں سے پاک کرتی ہے جو مال کی محبت سے اُس پر آسکتی ہیں ، مال میں برکت پیدا کرتی ہے اور نفس انسانی کے لیے اُس کی پاکیزگی کوبڑھانے کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ کی راہ میں انفاق کا چونکہ یہ کم سے کم مطالبہ ہے جسے ایک مسلمان کو ہر حال میں پور ا کرناہے ، اِس لیے اِس سے وہ سب کچھ تو حاصل نہیں ہوتا جواِس سے آگے انفاق کے عام مطالبات کو پورا کرنے سے حاصل ہوتا ہے...، تاہم انسان کا دل اِس سے بھی اپنے پروردگا ر سے لگ جاتا اور اللہ تعالیٰ سے وہ غفلت بڑی حد تک دورہوجاتی ہے جو دنیا اور اسباب دنیا کے ساتھ تعلق خاطر کی وجہ سے اُس پرطاری ہوتی ہے ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ ہیں : آدمی کا دل وہیں رہتاہے جہاں اُس کا مال رہتا ہے ۔ یہ بات محتاج استدلال نہیں ہے ۔آدمی جب چاہے، اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اِس کا تجربہ کرسکتا ہے ۔
زکوٰۃ کا یہ مقصد قرآن مجیدنے نہایت خوبی کے ساتھ خود بھی واضح کردیا ہے ۔ ارشادہے :
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا. (التوبہ ۹: ۱۰۳)
’’ تم اُن کے مالوں کا صدقہ قبول کرلو،اِس سے تم اُنھیں پاکیزہ بناؤ گے اور اُن کا تزکیہ کرو گے ۔‘‘
وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ.(الروم ۳۰: ۳۹)
’’اور جو صدقہ تم دیتے ہو کہ اُس سے اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اُسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھا رہے ہیں ۔‘‘ ‘‘(میزان ۳۵۱)
سورۃ اللیل میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ آپ اپنا مال اِس لیے خرچ کرتے ہیں کہ اُس سے پاکیزگی حاصل ہو اور واضح کیا ہے کہ اِس کا صلہ نار سے حفاظت ہے۔ ارشاد ہے:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَي. الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰي. (۹۲: ۱۷- ۱۸)
’’اور اُس سے یقیناً دور رکھا جائے گا (ہمارا پیغمبر)، وہ انتہائی پرہیز گارجو اپنا مال اِس لیے دیتا ہے کہ اُسے تزکیہ حاصل ہو۔‘‘
زکوٰۃ اگرچہ نظم اجتماعی کی ضرورتوں پر صرف ہوتی ہے، مگر اس کی حقیقت اللہ کی عبادت کی ہے۔ چنانچہ بندہ جب اِسے ادا کرتا ہے تو اِس کی قبولیت کا فیصلہ بھی اللہ کی بارگاہ سے ہوتا ہے۔ سورۂ توبہ میں ہے :
اَلَمْ يَعْلَمُوْ٘ا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ.(۹: ۱۰۴)
’’ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُن کے صدقات کی پذیرائی فرماتا ہے۔‘‘
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ