HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی

وِزڈم فاؤنڈیشن، لکھنؤ

(۱۹۲۹ء-۲۰۲۳ء)

۱۳/ اپریل ۲۰۲۳ء کو ایک مختصر علالت کے بعد استاذ محترم مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی کا لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔ ’إنا للّٰه وإنا إلیه راجعون‘۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے اور بلندی درجات سے سرفراز کرکے اُنھیں اپنے پڑوس میں جگہ عطا فرمائے۔

حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی علیہ الرحمہ اِس دور میں علماے سلف کا ایک خوب صورت نمونہ تھے۔ وہ علم و ادب اورسادگی وشرافت کا ایسا پیکر جمیل تھے جسے عرب و عجم میں یکساں شہرت و مقبولیت کا درجہ حاصل تھا۔

زیر نظر تحریراصلاً تاثرات پر مبنی ہے۔ یہاں مولانا محترم کی شخصیت اور کارناموں کے تفصیلی تذکرے کے بجاے مختصر حالات اور چند ذاتی واقعات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

مختصر حالات

 مولانامحمدرابع حسنی ندوی کی پیدایش۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو تکیہ کلاں ( رائے بریلی، یوپی) میں ہوئی۔ مولانا کے والد کا نام سیدرشیداحمدحسنی اور والدہ کانام امۃ العزیز(وفات: ۱۹۹۶ء)تھا۔ والدہ ماجدہ حضرت مولاناسید ابوالحسن علی حسنی علیہ الرحمہ کی بڑی بہن تھیں۔ مولانا کی ابتدائی تعلیم اُن کے خاندانی مکتب میں ہوئی۔ اس کے بعد وہ دارالعلوم ندوۃ العلما میں داخل ہوئے۔۱۹۴۸ء میں ندوے سے فراغت حاصل ہوئی۔ اِس کے بعد مولانا نے دارالعلوم دیوبند میں بھی دورۂ حدیث کا ایک سالہ کورس کیا۔ بالآخر ۱۹۴۹ ء میں ندوے کے شعبۂ ادب عربی میں بہ حیثیت معاون استا ذ تقرر ہوا۔

۱۹۵۰ ء - ۱۹۵۱ء کے دوران میں مولانا نے حجاز میں رہ کر یہاں کے اُدبااور علمی شخصیات سے استفادہ کیا۔ مثلاً امام حرم مکی شیخ عبدالمہیمن نور الدین (وفات: ۱۹۷۹ء)، وغیرہ۔ ۱۹۵۲ء میں مولانا ہندوستان واپس آئے اور ندوۃ العلما میں دوبارہ عربی ادب کے استاذ مقرر ہوگئے۔ ۱۹۵۵ء میں مولانا کو شعبۂ ادب عربی کاصدر بنایاگیا۔ ۱۹۷۰ء میں ندوے کے ’عمید کلیة اللغة العربیة‘ مقررہوئے اور ۱۹۹۳ء میں ندوے کے مہتمم بنے۔ ۱۹۹۸ء میں مولانا کو نائب ناظم بنایاگیااور مولاناسید ابوالحسن علی حسنی کی وفات (۱۹۹۹ء) کے بعدسے تاحیات وہ ناظم ندوۃ العلماکے اِس منصب پر فائز رہے۔

مولاناکا نکاح ڈاکٹرسیدعبدالعلی حسنی کی صاحب زادی سیدہ رقیہ (وفات: ۱۹۹۶ء)سے ہوا۔ اُن سے ایک صاحب زادی ( سیدہ ہاجرہ حسنی) پیدا ہوئیں۔موصوفہ شعر وادب کا اچھا سلیقہ اور پاکیزہ ذوق رکھتی ہیں۔وہ مولانا واضح رشید حسنی کے صاحب زادے جعفر مسعود حسنی (ناظر عام ندوۃ العلما) کے عقد میں ہیں۔ مولانا محمدرابع حسنی کی اہلیہ ایک تعلیم یافتہ اور نیک طینت خاتون تھیں۔ اُن کی زندگی پر اُن کے والد ڈاکٹر سیدعبدالعلی حسنی کی تربیت کا گہرا اثرتھا۔

مولانا کو شروع ہی سے اپنے ماموں مولانا ابوالحسن علی حسنی (مولاناعلی میاں ) کی تربیت وسرپرستی میں رہنے کا موقع ملا۔چنانچہ مولانا عبداللہ عباس ندوی(وفات: ۲۰۰۶ء)نے مولانا کا تذکرہ کرتے ہوئے بجا طورپر لکھا تھا:

’’ مولانا محمدرابع حسنی خود مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کی تصویر ہیں اور تصویر مجسم ہیں، صورت شکل بھی مولاناسے مل گئی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کا نمونہ ہے کہ مولانا کو ایسا جانشین دیا جو بلا نزاع اُن کا آئینہ ہے۔‘‘(مولانا سیدابوالحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت،عبداللہ عباس ندوی۲۲)

تعلیم وتربیت کے علاوہ، مولانا مسلمانوں کی ملی تعمیراوررہنمائی فرماتے رہے۔ اِس ضمن میں مولانا نے مسلمانوں کو میڈیا کے بہتر استعمال کی طرف بھی متوجہ کیا۔چنانچہ دہلی میں ایک کانفرنس کے دوران میں خطاب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا:جس دن مسلمان میڈیا پر کمان سنبھال لیں گے، وہ یقینی طور پر نہ صرف مسلمانوں،بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بہتر دن ہو گا:

 The day when Muslims will hold command over media will definitely be a better day not only for Muslims but for the rest of the world. (Radiance Viewseweekly, New Delhi, 4th MAR 2016)

مولانا نے بین مذاہب ڈائیلاگ کی وکالت بھی فرمائی۔ مولانا ہمیشہ مسلم برادری کو غصے اور تشدد سے باز رہنے اور صبر و استقامت کے راستے پر چلنے کی تاکید و تلقین کر تے رہے:

Maulana Rabey Hasani Nadwi constantly advised the community to refrain from anger and violence, and follow the path of patience and perseverance, particularly when it came to controversial issues such as the Babri Masjid controversy and the more recent cases of triple talaq and mob lynching of the innocent. (The Hindu, New Delhi, April 14, 2023)

 مولانا نے علمی، ادبی اور دعوتی مقاصد کے لیے دنیا کے مختلف ممالک کا سفر کیا۔ چنانچہ مولانا نے اِس سلسلے میں امریکا، برطانیہ، جاپان، ملیشیا، مصر،مراکش، تونس، الجزائر، ازبکستان، ترکی اور جنوبی افریقا،وغیرہ کا سفر کیا اور وہاں علمی اور دعوتی محاضرات دیے۔

مولانا نے تاریخ و ادب، سیرت و سوانح، تحقیق و تنقید اور جغرافیہ پر لکھا۔ عربی ادب اور فن جغرافیہ پر مولاناکی ماہرانہ نظر تھی۔عربی زبان و ادب میں مولانا کی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں ملک کا صدارتی انعام (presidential award) بھی دیا گیا۔ اِسی طرح دنیا کی ۵۰۰ انتہائی بااثر مسلم شخصیات کی فہرست میں مولانا کا نام مسلسل شائع ہوتا تھا۔ مولانا کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں اُنھیں ہند وبیرون ہند کے مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔

 مولانانے اردو میں ۱۲، اور عربی زبان میں ۱۵ کتابیں تصنیف فرمائیں۔ اِن میں سے بعض کتابیں مختلف مدارس کے نصاب میں بھی شامل ہیں: ’’جزیرۃ العرب‘‘، ’’دین وادب‘‘،’’غبار کارواں ‘‘، ’’دو مہینے امریکا میں‘‘، ’’رہبر انسانیت‘‘، ’’سماج کی تعلیم وتربیت‘‘، ’’عالم اسلام اور سامراجی نظام‘‘، ’’منثورات من أدب العرب‘‘، ’’مختار الشعر العربي‘‘، ’’الأدب العربي بین عرض و نقد‘‘ اور ’’الأدب الإسلامي وصلته بالحیاة‘‘، وغیرہ آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔

چندذاتی واقعات

مولانا سید محمدرابع حسنی علیہ الرحمہ سے میرا تعلق گذشتہ تیس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔اِس دور کی بہت سی یادیں مولانا سے وابستہ ہیں۔مولانا ہمارے معلم بھی تھے اور مرشد بھی۔ تاہم میں اپنی کوتاہیوں کے باعث خاطر خواہ استفادہ نہ کرسکا،البتہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ مجھے صالحین کی محبت اور صلاح کی اُس سعادت سے محروم نہ فرمائے گا جس کا تذکرہ ایک عرب شاعر نے اِن الفاظ میں کیا ہے:

أحبّ الصالحین ولستُ منھم

لعلّ اللّٰه یرزقني صلاحًا

ندوۃالعلما میں ہم نے مولانا سے ’’الأدب العربي بین عرض ونقد‘‘ کا درس لیا۔ اہم اساتذۂ کرام اور ذمہ داران ندوہ کی موجودگی میں ہمارا نکاح(۲۰۰۱ء ) بھی مولانا ہی نے پڑھایا تھا۔ یہاں مولانا سے وابستہ چندذاتی واقعات نقل کیے جاتے ہیں:

دارالعلوم ندوۃ العلما میں براہ راست داخلہ نہ ہونے کی بنا پر راقم مولانا ہی کے مشورے پر رائے بریلی بھیجا گیاتھا۔ چنانچہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے خود اپنے قلم سے اِس کے لیے ایک رقعہ تحریر فرمایا۔اِسی مختصر رقعے کی بنیاد پر میرا داخلہ مدرسۂ فلاح المسلمین(امین نگر،رائے بریلی)میں ہوا۔یہ رقعہ مدرسے کے مہتمم مولانا عبد الباری ندوی مرحوم کے نام حسب ذیل الفاظ میں تھا:

’’عزیزم مولوی محمدذکوان سلمہ مولانا محفوظ الرحمٰن نامی مرحوم کے نواسے اور میرے تعلق کے آدمی ہیں۔ درجہ ثانویہ خامسہ میں اُن کا داخلہ لے لیا جائے۔ ابوالحسن علی ندوی۔‘‘

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے ہمارا اصلاحی تعلق تھا۔یہ تعلق ۲۶؍ جولائی ۱۹۹۷ء کو عمل میں آیا۔ مولانا کی وفات کے بعد مولانا رابع حسنی سے یہ تعلق قائم ہوگیا اور آخروقت تک قائم رہا۔سویڈن کے قیام (۲۰۰۲ء-۲۰۰۵ء) میں مولانا سے بذریعہ فون اورخطوط مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ اکثر ہم بے چینی و اضطراب کے عالم میں فون پر کافی دیر تک مولانا سے بات کرتے اور مولانا محترم بشاشت اورتحمل کے ساتھ ہماری اِس سمع خراشی کو سنتے اور رہنمائی فرمایاکرتے تھے۔

ایک بار اصلاح وتعلق مع اللہ کے موضوع پر گفتگو کے دوران میں دیوانگی کے عالم میں، میں نے کہا: مولانا، کب مجھے خدا ملے گا، کب مجھ کو خدا کی معرفت اور محبت نصیب ہوگی؟ مولانا نے میری بات سن کر گلوگیر لہجے میں فرمایا: ہم بھی اِس کے محتاج ہیں، ہم کوبھی اِس کی ضرورت ہے۔

مولاناکی خدمت میں حاضر ہوتا تو مولانا اپنے پاس بٹھاتے اور شفقت کے ساتھ تعلیم و تلقین فرماتے۔ مولانا واضح رشید حسنی کی وفات پر راقم نے ایک تحریر رقم کی۔ اِسے لے کر حا ضر خدمت ہوا تو مولانا نے فرمایا: ’’اِدھر کئی بارہم نے آپ کو یاد کیا۔ قاری صاحب سے بھی دریافت کیاتھا۔ (’’قاری صاحب‘‘ سے مراد خسر محترم جناب قاری عبدالحمید ندوی مدظلہ العالی ہیں،جو مولانا کے قریبی شاگرد بھی رہے ہیں اور گذشتہ چالیس سال سے ندوہ اور دیگر ملی اداروں کے عظیم محسن اورمعاون بھی)۔قدرے سکوت کے بعد فرمایا: آپ آئے، خوشی ہوئی۔ دل لگا ہوا تھا۔‘‘

حال میں بنگلور کے سفر سے قبل مولانا کی خدمت میں حاضری ہوئی۔مولانا نے دعا کرتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:’’آپ سے قلبی تعلق ہے۔ آپ کی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔آپ سے نیک توقعات وابستہ ہیں۔ ‘‘تاہم مولانا کے ضعف اور علالت کی بنا پر دعا اور مصافحے کے بعدجلد ہی مولانا سے رخصت چاہی تاکہ آرام میں خلل واقع نہ ہو۔

طالب علمی کے زمانے میں عام طورپر ہم کتابت کے ذریعے سے اپنا خرچ نکالتے تھے۔ چنانچہ تعطیل اور عصر کے بعد کا وقت اکثر کتابت میں صرف ہوتا۔چنانچہ مولانا کے سفرنامہ ’’سمرقند وبخارا کی بازیافت‘‘ (في وطن الإمام البخاري)کے پہلے ایڈیشن کی کتابت راقم نے کی۔میرا مزاج یہ تھا کہ بس خرچ کے بقدر ہی کام کرتا، اور یہ پورا ہوجائے تو کام روک دیاکرتا تھا۔اِس وجہ سے کام مکمل ہونے میں بسا اوقات تاخیر ہوجاتی۔تاہم فطری شرافت کی بنا پر مولانا چشم پوشی اور اعراض کاطریقہ اپناتے۔چنانچہ درس گاہ اور دیگر مقامات پربرابر ملاقات کے باوجودمولانا کبھی مجھ سے کام کے متعلق کچھ دریافت نہ فرماتے۔

یہ ۱۹۹۵ء کی بات ہے۔ ہم درجہ عالیہ اولیٰ میں ندوے آئے۔یہاں حضرت مولانا ابوالحسن علی حسنی کے علاوہ، مولانا واضح حسنی اور مولانا رابع حسنی سے بھی قریبی تعلق رہتا۔ایک بارراقم نے مولانا سے گزارش کی کہ اُسے کیا اور کس ترتیب سے مطالعہ کرنا چاہیے؟رہنمائی فرمائیں۔مولانا نے کہا:اب تک آپ جو کچھ پڑھتے رہے ہیں، اُس کی ایک فہرست تیار کرکے مجھے دیجیے، پھر ہم بتاتے ہیں۔

چنانچہ میں نے ایک طویل فہرست تیار کرکے مولانا کی خدمت میں پیش کی۔اِس میں سیرت اور قرآنیات کے علاوہ، ادبیات اور فکری موضوعات پربہت سی کتابوں کے نام درج تھے۔مولانا نے اگلے دن بلایا۔ حاضر ہوا تو فرمایا:آپ نے افکار وادبیات کا مطالعہ زیادہ کرلیا ہے۔اب آپ کو بعض دیگر چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ چنانچہ مولانا نے اپنے قلم سے درج ذیل کتابیں تجویز فرمائیں۔ یہ تحریر آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔اِسے مولانا ہی کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتاہے:

۱- سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، اردو، ۶/ اجزا، علامہ شبلی ومولانا سید سلیمان ندوی،

۲-شعر الہند، اردو، مولانا عبدالسلام ندوی،

۳- گل رعنا، اردو، مولانا عبدالحی حسنی،

۴- سیرت النبی (السیرة النبویة)، عربی، مولانا ابوالحسن علی حسنی،

۵- ’من نھرکابل إلی الیرموک‘، عربی، ایضاً،

۶- ’الطریق إلی المدینة‘، عربی، ایضاً،

۷ - ’مذکرات سائح في الشرق العربي‘، عربی، ایضاً،

۹ - ’الإیمان والمادّیة ‘عربی، ایضاً،

۱۰ - ’الأرکان الأربعةعربی، ایضاً،

۱۱- سیرت سید احمد شہید، اردو، ایضاً،

۱۲- تاریخ دعوت وعزیمت( پہلے اردو، پھر عربی)، ایضاً،

جہاں مشکل محسوس ہو، اردو سے رجوع کریں (رابع حسنی )۔

چنانچہ ندوے میں اِن تین بزرگوں کی رہنمائی کے تحت ہمارا مطالعہ جاری رہا۔ مولانا کی یہ بات بے حد اہم تھی کہ پہلے مرحلے میں افکار کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ طالب علمی کا زمانہ ناپختگی کا زمانہ ہوتا ہے، اُس وقت افکار کا مطالعہ اکثر اوقات بہت مضر ثابت ہوتا ہے۔ طالب علمی کا زمانہ زبان اور بنیادی علمی استعداد پیدا کرنے کا زمانہ ہے۔افکار کا مطالعہ بعد کے زمانے میں کیا جاسکتا ہے، مگر زبان اور علمی استعدادمیں پختگی حاصل کرنا بعد میں سخت مشکل ہوجاتا ہے۔اگر ایک طالب علم اِس حقیقت کا لحاظ نہ کرے تو بعد کو تاعمر محرومی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

مولانا محترم ایک شریف اور حلیم الطبع آدمی تھے۔ نیک نہادی وحسن اخلاق اُن کی طبیعت کا حصہ، نرم خوئی، کم گوئی اور تواضع مولاناکا نمایاں وصف تھا۔ ۱۶/ جنوری ۲۰۱۹ء کو مولانا کے چھوٹے بھائی استاذِ محترم مولانا سید محمد واضح رشید حسنی کی وفات ہوئی۔ اُس وقت راقم نے اُن کے حالات کے تحت جو الفاظ لکھے تھے، مولانا بھی اِنھی اوصاف کا مکمل نمونہ تھے :

’’مولانا کا ایک نمایاں وصف اپنے برادر معظم مولانا محمد رابع حسنی ندوی کے ساتھ اُن کی اُخوت اور مثالی قسم کا برادرانہ تعلق تھا۔دونوں حضرات پورے معنوں میں ایک دوسرے کے لیے علمی، فکری، ذہنی اور قلبی رفیق تھے۔ اُخوت جس چیز کا نام ہے، مولانا کی ذات اُس کی ایسی مجسم تصویر تھی جس کی نظیر رشتوں کے اِس بحرانی دور اور نفسی نفسی کے اِس ماحول میں نہ صرف مشکل، بلکہ ناممکن نظر آتی ہے۔ دونوں حضرات کے نہ صرف مزاج و مذاق اور چہرے بشرے میں بہت زیادہ یکسانیت پائی جاتی تھی،بلکہ وضع قطع اور لباس کے اعتبار سے بھی اکثر اُنھیں یکساں حالت میں دیکھا گیا۔دونوں بھائی گویا ’’ایک جان، دو قالب‘‘ کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق ہند، فروری ۲۰۱۹ء ، ص ۴)

۱۹۹۹ء میں حافظ محمد سلمان نوری،حافظ ابوالقاسم کرسوی اور راقم سطور نے مشترک طورپرلکھنؤمیں تعلیم بالغاں کے لیے’’صفہ کوچنگ سنٹر‘‘کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اِس سنٹر نے ترقی کرکے ایک ادارہ (مدرسۂ سیدنا عمرفاروق، مدر سۂ اصلاح المسلمات )کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں ہم لوگوں نے بچوں کے علاوہ، بڑی عمر کے مردوں، عورتوں، خصو صاً نوجوانوں کی تعلیم کے ساتھ یونانی اور ہومیو علاج،نفسی اور روحانی معالجے اور حفظان صحت کا بھی نظم کیا تھا۔ اِس طبی اور روحانی ادارے کا نام میں نے دجالی فتنوں کی نسبت سے،’’الکہف ہومیو ہال‘‘ رکھاتھا۔

 ایک دن ملاقات کے دوران میں اِس کام کا تذکرہ ہوا۔مولانانے تفصیلات دریافت کیں اور رفقا سے تعارف حاصل کیا۔اِس موقع پرہم نے سرپرستی کی درخواست کی۔مولانانے قبول فرمایا، دعا دی اور اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔ مولانا نے اِس کے لیے ایک تصدیق نامہ بھی لکھ کر دیا۔اِس میں تائید و تصدیق کے تحت مولانا نے جو کچھ تحریر فرمایا، اُس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتاہے:

’’تصدیق کی جاتی ہے کہ مدرسۂ سیدنا عمر فاروق، رستم نگر، لکھنؤ، ایک نیا قائم شدہ دینی ادارہ ہے، جہاں دینی تعلیم وتربیت کا انتظام ہے۔ مدرسے کے ذمہ دار(حافظ محمد سلمان نوری، حافظ ابوالقاسم، مولوی محمد ذکوان ندوی ) دین وملت کا درد رکھنے والے اور صحیح الخیال لوگ ہیں.... ۔‘‘(محمدرابع حسنی ندوی، ندوۃ العلما، لکھنؤ،۲۱؍ جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ۔ ۱۰/ ستمبر ۲۰۰۱ء)

 اِسی طرح آخروقت تک مولانا ہمارے ادارہ ’وزڈم فاؤنڈیشن‘، لکھنؤ (۲۰۱۷ء)کی علمی اور فکری سرپرستی بھی کر تے رہے۔اپنے مزاج کے مطابق، تکلف سے بچنے کے لیے میں اکثر تنہائی میں حاضر خدمت ہوتا، مگر جب ملاقات ہوتی تو پوچھتے اور رہنمائی ونصیحت فرماتے۔

 ۲۰۰۱ء میں ایک ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔سٹی نیوز میں اِس کی خبر شائع ہوئی۔ہم مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا نے فرمایا: جلد ازجلد ادارے کا رجسٹریشن کرائیں اور اخبار میں اِس بے بنیاد خبر کی تردید شائع کریں۔ چنانچہ راقم نے درج ذیل عنوان کے تحت ایک تحریر شائع کی:

مدر سے نفرت کے اڈے نہیں، محبت کے گہوارے ہیں !

یہ ہماری پہلی تحریرتھی جوآج سے ۲۲ سال قبل کسی اخبار میں شائع ہوئی۔اِس میں وقت کے حالات پر تبصرہ بھی تھا اور دعوت الی اللہ کا درد و احساس بھی۔ذیل میں یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں :

’’گذشتہ دنوں پرانے لکھنؤ میں ہندومسلم فساد کے نام پر سخت کشیدگی پیدا ہو جانے کے سبب تقریباً ایک ہفتے تک کرفیو نافذرہا۔ حالات اب بظاہر معمول پر آگئے ہیں،لیکن شرپسند عناصر برابر سرگرم اور منفی میڈیا مسلسل انتشارکی فضا بنانے اور نفرت کا ماحول بر پا کرنے میں کوشاں ہے۔ اِس بات کا تجربہ اُس وقت ہوا جب پچھلے دنوں یہاں کے ایک نو قائم مکتب میں اچانک میڈیا کے چند افراد ویڈیو کیمرے کے ساتھ داخل ہوئے اور در جۂ اطفال کے بچوں سے اِس قسم کے سوالات شروع کردیے: تم اسامہ بن لادن کو جانتے ہو؟ وہ کون ہے؟ یہاں کا پردھان منتری کون ہے؟ اٹل جی کیسے آدمی ہیں ؟ وغیرہ۔ اِسی دوران میں ہم لوگ وہاں آگئے۔چنانچہ انھوں نے مائک ہمارے سامنے بڑھا دیا اور اِس سادہ بات کو خالص سیاسی اور منفی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے ہاں کے بچے اسامہ کو جانتے ہیں اور اٹل جی کو نہیں جانتے۔ ایسا طریقۂ تعلیم درست نہیں، وغیرہ۔ یہ پورا منظر رات کو سٹی نیوز ٹیلی ویژن پر اصل بات کو حذف کر کے دکھلایاگیااور میڈیا پر یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مدرسوں کی تعلیم بنیادی طور پر دہشت گردی پر مبنی ہے۔
یہ واقعہ ملک میں کار فرما اُس منفی ذہنیت کا آئینہ دار ہے جو ملک کے جمہوری ڈھانچے کی سا لمیت کے لیے انتہائی خطر ناک ہے۔ بات کا بتنگڑ، رائی کا پروَت،سچ کا جھوٹ، اصل واقعے کو مسخ کرنے اور تصویر کے صرف منفی پہلو کو فوکس میں لانے کا شاطرانہ انداز اِس واقعے میں پوری طرح آشکارا ہے۔
اسامہ سے لوگوں کی واقفیت تعلیم کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ خود میڈیا کا کرشمہ ہے جس کی بنیاد د جل اور جس کااصول جھوٹ کو سچ ثابت کر دینے کی حد تک جھوٹ کی تکرار ہے۔ آج میڈیا ہر جگہ مثبت ذہنیت اور تعمیری ماحول قائم کرنے کے بجاے تخریبی اور منفی ذہنیت تشکیل دینے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ وہ راے عامہ کو غلط سانچے میں ڈھال کر رہبر کے بجاے رہزن کارول ادا کر رہا ہے۔
طاقت اور تعصب کے نشے میں عقل عامہ سے عاری ہو جانے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تعلیمی ادارے ہیں، نفرت کی جگہیں نہیں، محبت کے گہوارے ہیں۔ یہ دہشت گردی کے اڈے نہیں، بلکہ بکھری ہوئی انسانیت کی شیرازہ بندی کے عظیم مراکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
 افسوس صد افسوس کہ کم سن، نا سمجھ اور درجۂ اطفال (KG) کے بچوں کی ملک کے وزیراعظم سے عدم واقفیت اِن لوگوں کے نزدیک قابل مواخذہ جرم بن گئی، جب کہ بڑے دانش ور اور انتہائی زیرک کہلائے جانے والے افراد کی اپنے اور کائنات کے پیدا کرنے والے اُس خالق ومالک سے بے خبری اور اُس کے خلاف بغاوت جرم نہیں۔ وہ جس نے اُنھیں ایک با عزت انسان بنا دیا، جب کہ وہ صرف ایک انتہائی حقیر ترین مادے کی حیثیت رکھتے تھے، اور جو مالک کل اُنھیں مار کر پھر اُسی مٹی میں ملادے گا، جس پر آج وہ خدائی فوج داربن کر کھڑے ہوئے ہیں، پھر مٹی میں رَل مل جانے کے بعد دوبارہ وہ پھر اُسی طرح زندہ کرکے اُن کا محاسبہ کرے گا، جیسا کہ اُس نے پیدایش سے پہلے، اُس وقت اُنھیں پیدا فر مایا تھا، جب کہ وہ سرے سے کوئی چیز ہی نہ تھے۔ یہ حقیقت کس قدر حتمی اورلرزہ خیز ہے کہ اِس وقت ساری زمین پر پائے جانے والے تقریباً تمام انسان سو سال کے بعدصرف مٹی کا ایک ڈھیربن جانے والے ہیں۔
یہی وہ اصل حقیقت ہے جس سے غفلت تمام برا ئیوں کی جڑ ہے۔ اِس حقیقت سے انسانیت کو آ گاہ کرنا بلاشبہ مسلمانوں کا بنیادی فریضہ اور اِس سے غفلت ایک نا قابل تلافی جرم ہے۔ لیکن اِس بات کی سنگینی اُس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب تعلیم کے ذریعے سے اِ س صداقت کے فروغ میں سرگرم عناصربے بنیاد طور پر وقت کے قہرمانی ہاتھوں ظلم وعدوان کا نشانہ بنا دیے جائیں۔‘‘ (روزنامہ جدید عمل، لکھنؤ، ۲۰/ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

ہم مولانا محترم کی اجازت اور مشورے کے بعد ہی اسٹاک ہوم(سویڈن) گئے تھے۔چنانچہ وہاں سے برابر رابطہ قائم رہا۔ ایک بارراقم نے مولاناسے عرض کیا کہ آپ کی طرف سے تلقین کردہ اَوراد و وظائف میں ہم یکسوئی محسوس نہیں کرپاتے۔ اِس کے برعکس، تلاوت قرآن میں زیادہ یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ مولانا نے فرمایا: آپ کے ساتھ یہ بات طبائع کے فرق کی بنا پر پیش آرہی ہے۔ لہٰذا اب آپ ایسا کریں کہ اِن تسبیحات و وظائف کے بجاے آپ تنہائی میں قرآن مجید کی تلاوت کیا کریں۔چنانچہ مولانا نے راقم کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:

’’ آپ اَوراد و وظائف کی جگہ تلاوتِ قرآن مجید کی طرف توجہ کیجیے۔ سکون کی جگہ بیٹھ کر ہلکی آواز سے تلاوت کریں اور یہ خیال کرتے جائیں کہ یہ ہمارے رب کا کلام ہے، ہمارے پروردگار کا کلام ہے۔ روزانہ تھوڑا وقت اِس میں صرف کیا کریں۔ ان شاء اللہ اِس سے قلبی سکون ملے گا۔‘‘

یہاں اپنے خطوط حذف کرتے ہوئے راقم کے نام مولانا محترم کے صرف دو خط بطور یادگار درج کیے جاتے ہیں۔راقم نے اسٹاک ہوم میں، اسلامک کلچرل آرگنائزیشن کے تحت مختلف اہل علم کے ٹیلی فونی خطاب کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔اِس میں مولانا کا خطاب بھی شامل تھا۔اِن خطوط میں بعض ذاتی احوال اور اصلاح وتربیت کے بیش قیمت نصائح کے ساتھ، مولانا نے اِس بات کی طرف بھی اشارہ فرمایاہے۔مولانا کی تحریر کے صرف ایک حصے کا عکس ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے:

 -۱-

۲۰/ ربیع الاول ۱۴۲۳ھ (۲/ جون ۲۰۰۲ء)

عزیزم مولوی محمد ذکوان ند وی سلمہ اللہ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 آپ کا خط ملا۔ وہاں کے قیام کے حالات سے آگہی ہوئی۔ جن مفاسد کا آپ نے ذکر کیا ہے، وہ مجھے پہلے سے معلوم تھے۔ دنیا کے دیگر متمدن خطوں میں اِسی جیسے حالات ہیں۔ ہندوستان و پاکستان کے محتاط مسلم ماحول میں وہ الحمد للہ نہیں ہیں۔ اِس لیے ایسے ماحول میں رہنے والوں کو اِن متمدن حالات سے تعجب ہوتا ہے اور یہ تعجب ہونا ضروری ہے، یہ ایمان کی بات ہے، کیوں کہ فحاشی اور بے حیا بے باکی اللہ تعالیٰ کے غضب لانے والی باتیں ہیں۔ ایسے ماحول میں آدمی کو صرف ضرورت شدیدہ میں اور دعوت کے مقصد سے ہی جانا چاہیے اور یہ ضرورت باقی نہ رہے یا دعوت کا کام نہ رہے تو قیام اچھے ماحول میں منتقل کر لینا چاہیے۔ آپ کے لیے بھی یہی مشورہ ہے۔ آپ دو ایک سال اِس ماحول میں دعوت و تربیت کا کام کریں۔اِس سے دعوت کی مشق ہوگی اور فرض انجام پائے گا، جو مسلمان کا بہترین فریضہ ہے۔ اپنے آپ کو محتاط رکھتے ہوئے دین ودعوت کا کام کرتے رہیں۔ان شاء اللہ تجربہ ہوگا اورمعلومات میں اضافہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حفاظت فرمائے اور ترقی عطا فرمائے۔

والسلام

محمد رابع حسنی، ندوۃ العلماء، لکھنؤ

ـــــــــــــــ

-۲-

۲۹/ ذی الحجہ ۱۴۲۴ ھ (۲۱/ فروری ۲۰۰۴ء)

عزیز مکرم مولوی محمد ذکو ان ندوی سلمہ اللہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و بر کاتہ۔

 آپ کا خط ملا۔ عرصے کے بعد آپ کے قلم سے آپ کی خیریت معلوم ہوئی۔....آپ نے فون پر خطاب کی تجویز رکھی تھی۔یہ آپ کے تعلق کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ جزاے خیر دے۔

 آپ وہاں تعلیم و ارشاد کا جو کام انجام دیتے ہیں، وہ اللہ کی رضا کے حصول کا بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس میں اللہ کی خوشنودی کی نیت رکھیے، اوراَوراد و وظائف کی جگہ تلاوت قرآن مجید کی طرف توجہ کیجیے۔ سکون کی جگہ بیٹھ کر ہلکی آواز سے تلاوت کریں اور یہ خیال کرتے جائیں کہ یہ ہمارے رب کا کلام ہے، ہمارے پروردگار کا کلام ہے۔روزانہ تھوڑا وقت اِس میں صرف کیا کریں۔ ان شاء اللہ اِس سے قلبی سکون ملے گا۔ ہم آپ کے لیے دعا کریں گے۔

 اور وہاں جو غیر شرعی اظہار ہے، اُس سے اپنی نگاہوں کو ہٹانے کی کوشش کیا کریں۔آ پ نے لکھا ہے کہ آپ نے پہلے بھی خطوط لکھے۔ مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔ غالباً خطوط مجھ کو ملے نہیں۔ اِن میں اگر کوئی بات لکھی ہے تو دوبارہ تحریر کریں۔ان شاء اللہ جواب دوں گا۔ دعاؤں میں یا درکھیں۔

والسلام

محمد رابع حسنی، ندوۃ العلماء، لکھنؤ

ـــــــــــــــــــــــــ

B