HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

دینی حمیت کیا ہے؟

الوہی ہدایت،اسوۂ پیغمبر،اخلاق اور قانون، سب سے صرف نظر کرتے ہوئےاپنی باگ جذبات کے ہاتھ میں دے دیناکیا دینی حمیت ہے؟یا پھر دنیاوی مفاد،عوامی ذوق اورملامت واکرام سے بے نیاز ہو کرخدا کے احکام کی پیروی اور بیان کا نام دینی حمیت ہے؟جذبات کو دین کے تابع کرنا یا دین کو جذبات کا مطیع بنانا؟دینی حمیت کس بات کا تقاضاکرتی ہے؟

کوئی بدنصیب دین کے احکام یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طاہر وپاکیزہ ہستی کو ہدف بناتا ہے۔کتاب لکھتا اوراسے پھیلادیتا ہے۔ایک مسلمان کتاب پڑھتا اور مضطرب ہو جاتا ہے۔اُس کی رات کا چین اور دن کا سکون چھن جاتا ہے۔وہ اٹھتا اور ایک عزم کرتا ہے:میں ایک ایسی کتاب لکھوں گا جواس زہر کا تریاق بنے گی جو اس کتاب سے پھیلا ہے۔وہ اس ارادے کے ساتھ گھر سے نکلتا،دنیا کی خاک چھانتا،کتب خانوں کو کھنگالتا اور اس مہم میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی صرف کرنے کے بعدایک کتاب لکھتا ہے جو مذموم کتاب کا جواب ہے۔

وہ سوچتا ہے:مصنف نے باقی نہیں رہنا، لیکن کتاب رہ جائے گی، اس لیے کتاب کو مارنا ضروری ہے۔کتاب کو مارنا،اس کے استدلال کو رد کرنا ہے۔اس کی علمی کم زوریوں کو طشت ازبام کر نا ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ کتاب کی پھیلائی ہوئی گم راہی کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے۔وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ قیامت کے روزاللہ تعالیٰ کے روبرو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس پر فخر کا اظہار کریں کہ یہ میرا وہ امتی ہے جس نے میری ناموس کے دفاع میں اپنی آخری پونجی تک لٹا دی۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس آدمی نے دینی حمیت کا مظاہرہ نہیں کیا؟

ایک رد عمل یہ ہے کہ مصنف نے میرے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی،میں اشتعال میں آیا اور یہ چاہا کہ اپنے جذبات کی تسکین کروں۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت کیاہے،اسوۂ پیغمبر کیا ہے،اخلا ق اور قانون کیا تقاضا کرتے ہیں؟ مجھے کسی سے کچھ غرض نہیں۔میں اٹھتا اوراپنے جذبات کی اتباع میں آخری اقدام کر گزرتا ہوں۔ کیاا سے دینی حمیت کا مظاہرہ کہاجا ئے گا؟کیامیرا پروردگار مجھ سے یہی چاہتا تھا؟

یہ سوال میں نے اس لیے اٹھائے ہیں کہ دور حاضرمیں جب کوئی پہلا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے یہ رویہ دینی حمیت کے خلاف ہےیا کم ازکم رخصت یا مداہنت کا اظہار توہے۔اگر کوئی رویہ مطلوب ہے یا جسے عزیمت کہنا چاہیے تووہ دوسرا ہی ہے۔اسی کو مثالی اوراسی کودینی حمیت کا مظہر قراردیاجا تاہے۔کیا یہ نتیجۂ فکر درست ہے؟یہ سوال اصلاً اہل علم سے متعلق ہے۔اہل علم جب کسی رویے کی توثیق کرتے ہیں تو اسے دینی سند حاصل ہو جا تی ہے۔عامی کا ردعمل، بالعموم علما کی آرا کے تابع ہو تا ہے۔ اگر وہ پہلے رویے کی تائید کریں گے تو عوام میں اسی طر ح کی سوچ پیدا ہوگی اور اگر وہ دوسرے رویے کی تحسین کریں گے تو عامۃ الناس اسے قبول کریں گے۔اہل علم کی آزمایش یہ ہے کہ وہ ایسے مواقع پرکیا موقف اختیار کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔یہاں اگر خدا کو ماننے والے اپنی بات کہہ رہے ہیں تو ایسے بھی ہیں جو اس کے وجود ہی کا انکار کرتے ہیں۔یہی نہیں، ان کا رویہ عمومی اخلاقیات سے بھی گرا ہوا ہوتاہے۔دشنام ان کی لغت اور کذب ان کی دلیل ہوتی ہے۔ان کاا سلوب ایسا ہوتا ہے کہ خدا ور رسول کو ماننے والے کے جذبات کھول اٹھتے ہیں۔ اگر وہ کوئی صاحب علم ہے تو دینی حمیت اس سے کیا تقاضا کرتی ہے؟وہ ان کے لگائے ہوئے میدان میں اترے اور وہی ہتھیار اٹھا لےمخالفین جن سے لیس ہیں یا پہلے یہ جانے کہ ایسے رویوں کے بارےمیں خود عالم کے پروردگار کی ہدایت کیا رہنمائی کرتی ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ کسی جبر کی موجودگی میں اپنی راے بے کم و کاست بیان کرنا اور پھر اس جبر کے باوصف، اپنے موقف پر قائم رہنا ہی عزیمت ہے۔جبر کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔یہ ریاست کی طرف سے ہو سکتا ہے۔حالات کا بھی ایک جبر ہوتا ہے اور جذبات کا بھی۔ عوامی مذاق کے برخلاف کوئی بات کہنا آسان نہیں ہوتا۔یہ جبر کی سب سے سنگین صورت ہے۔اہل علم کے لیے دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی جبر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دین کو ویسے بیان کریں،جیسے انھوں نے سمجھا اورپھر اس راہ میں ہر مشکل کا سامنا کرنے کے لیے ڈٹ جائیں۔

ہم اپنی تاریخ کے جن اہل علم کی تعریف کرتے اور ان کو اپنے ائمہ میں شمار کرتے ہیں،ان کا اسوہ یہی ہے۔ امام مالک ایک آسودہ حال زندگی گزارتے تھے۔ارباب اقتدار ان کااحترام کرتے تھے۔جب جبری طلاق کا مسئلہ اٹھا تو انھوں نے ریاست کے جبر کو مسترد کر دیا۔امام احمد بن حنبل کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔یہاں راے کی صحت نہیں،رویہ زیر بحث ہے۔ اہل علم اسی کو عزیمت سمجھتے ہیں کہ ہر جبر سے بے نیاز ہو کر دین کو ویسا ہی بیان کریں،جیسا کہ انھوں نے سمجھا۔

عصر حاضر میں ایسے لوگ ہیں جنھوں نے دین کو جیسے سمجھا،اسی طرح بیان کیا۔سماجی جبر کی پروا کی نہ ریاستی موقف کی۔اس کے صلے میں ان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی۔بعض کی جان لے لی گئی اور بعض کو ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔انھوں نے کسی کی جان لینے کا فتویٰ نہیں دیا، بلکہ بتایا کہ انسانی جان کی حرمت خودعالم کے پروردگار نے قائم کی ہے۔اس حرمت کو اس کے حکم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے بتایا کہ جذبات دین کے تابع ہوں گے،دین جذبات کے تابع نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ یہ کہنا آسان نہیں کہ یہ بات عوامی مذاق کے خلاف ہے۔دینی حمیت کے حامل در اصل یہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کے باوصف یہ بات کہی اور اس کی قیمت دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

اس میں شبہ نہیں کہ دینی حمیت کے تقاضے ہر وقت میں ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے اظہار بھی ایک طرح سے نہیں ہو سکتا۔اہل علم اس فرق کو جانتے ہیں۔ان کا اصولی موقف، البتہ وہی رہاہے جو امام احمد بن حنبل کا تھا:قرآن مجید سے کوئی دلیل لاؤ یا پھر سنت سے۔میں اس کے علاوہ کسی چیز کو نہیں جانتا۔اسی کا نام دینی حمیت ہے۔لوگوں کو کسی ایسی بات پر ابھارنا جس کی دلیل مآخذ دین کے بجاے عوامی ذوق میں ہو،جذبات کی سوداگری کے سوا کچھ نہیں۔اہل علم جانتے ہیں کہ دینی دلیل سے کیا مراد ہے۔ایک موقف اختیار کرنا اور پھر اس کی تائید میں رطب ویابس جمع کر دینے کو دینی دلیل نہیں کہتے۔یہ اپنی راے یا جذبات کا اتباع ہے، نہ کہ دین کا۔

اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اس باب میں عوام کی صحیح رہنمائی کریں۔ان کا کام عوامی رومیں بہ جانا نہیں، اس کو تھامنا اور درست سمت دینا ہے۔بلاشبہ، اس کی ایک قیمت ہے۔یہ زندگی ہو سکتی ہے اور جلاو طنی بھی۔عوام کے غضب کا سامنا کر نا پڑ سکتاہے اور ریاستی جبر کا بھی۔دینی حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ صبر کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کیا جائے اورانسانی جذبات کی باگ دین کے ہاتھ میں دی جائے، نہ کہ دین کی باگ جذبات کو تھما دی جائے۔ جواہل علم اس روش پر قائم رہتے ہیں،بلا شبہ وہی اہل عزیمت ہیں اور وہی دینی حمیت کا حقیقی مظہر ہیں۔

(بشکریہ: روزنامہ دنیا، لاہور، ۳/ جون ۲۰۲۳ء)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B