[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت ہشام بن العاص بنو سہم سے تعلق ركھتے تھے۔ ان كے دادا كا نام وائل بن ہاشم تھا، سُعَید (سعد: ابن ہشام) بن سہم سكڑدادا اورجد قبیلہ سہم بن عمرو بن ہصیص پانچویں جد تھے۔ دشمن دین ابو جہل كی بہن اور حضرت خالد بن ولید كی پھوپھی ام حرملہ بنت ہشام ان كی والدہ تھیں۔ حضرت عمرو بن العاص ان كے بڑے بھائی تھے۔ حضرت ہشام ابوالعاص كنیت كرتے تھے۔ آ ں حضور صلی الله علیہ وسلم نے انھیں ابومطیع كنیت اپنانے كی تلقین فرمائی، دوسری كنیت ابو معشر ہے۔ ابوجہل كی بیٹی حضرت ہند ان سے بیاہی ہوئی تھیں۔
حضرت ہشام كا والد عاص بن وائل رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا ٹھٹھا كرنے والے مشركوں میں شامل تھا۔ جب آپ كے صاحب زادے عبدالله نے وفات پائی تو اس نے كہا:محمد (صلی الله علیہ وسلم )نعوذ بالله ابتر، لاوارث ہو گئے ہیں، اب ان كا ذكر باقی نہ رہے گا۔ تب فرمان الہٰی نازل ہوا: ’اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ‘، ’’بے شك، آپ كا بدخواہ ہی ابتر ہو گا‘‘(الكوثر۱۰۸: ۳) روایت ہے كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم بیت الله میں تھے اور آپ كا تمسخر كرنے والے پانچوں مستہزئین عاص بن وائل، اسو د بن عبد یغوث، اسود بن عبدالمطلب، ولید بن مغیرہ اور حارث بن طلاطلہ (یا غیطل)موجود تھے كہ حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور باری باری ان كے پاؤں، پیٹ، سراور آنكھوں كی طرف اشاره كیا اور یہی اعضا ان كی موت كا سبب بن گئے۔ حضرت جبریل كا اشاره عاص بن وائل كے پاؤں كے تلوے ( sole) كی طرف تھا۔ چنانچہ ہجرت نبوی كے پہلے سال عاص اپنے سفید خچر پر سوار ہو كر طائف كے سفر پر نكلا۔ چلتےچلتے اچانك اس كا خچر كانٹےدار جھاڑیوں كے اوپر جا گرا۔ كانٹا عاص كے پاؤں میں جا لگاجس سے پاؤں پھول كر كپا ہو گیا اور اسی زخم سے اس كی جان چلی گئی (السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۳۱۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۴۹۸۶)۔ اس طرح یہ ارشاد خداوندی عاص بن وائل پر نافذ ہوا: ’اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ‘، ’’بلاشبہ، ہم آپ كی طرف سے ان ٹھٹھا كرنے والوں سے نمٹنے كے لیے كافی ہیں‘‘ (الحجر۱۵: ۹۵)۔ ایك روایت كے مطابق عاص كو كسی موذی كیڑے نے كاٹ لیا۔
۵/ نبوی (۶۱۵ء)میں قریش كے اہل ایمان پر ظلم و ستم بڑھ گئے تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ارشاد فرمایا کہ حبشہ (مملكت اكسوم) كی طرف ہجرت کر جائیں۔ آپ نےفرمایا: وہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ماه رجب میں حضرت عثمان بن مظعون كی قیادت میں گیاره مرد اور چار عورتیں حبشہ روانہ ہوئے۔ یہ ہجرت اولیٰ تھی۔ چند دنوں کے بعد، غالباًماه شوال سے پہلے حضرت جعفر بن ابوطالب كی سربراہی میں سڑسٹھ اہل ایمان حبشہ كو عازم سفر ہوئے۔ اسے ہجرت ثانیہ كہا جاتا ہے۔ حضرت ہشام بن العاص اس گروپ میں شامل تھے۔ حارث بن قیس سہمی كےسات بیٹے حضرت حارث، حضرت سائب، حضرت بشر، حضرت سعید، حضرت عبدالله، حضرت معمر اور حضرت ابو قیس ان كے ہم سفر تھے۔ بنو سہم كے حضرت خنیس بن حذافہ اوران كے دو سوتیلے بھائی حضرت عبدالله بن حذافہ اور حضرت قیس بن حذافہ بھی ان كے ساتھ چلے۔ دیگر سہمیوں میں حضرت عمیر بن رئاب، حضرت سعید بن عمرو اور حضرت محمیہ بن جزء شامل تھے۔
۱۳/ نبوی میں بیعت عقبہ ثانیہ كے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا:یثرب میں محفوظ ٹھكانا اور نصرت ہے۔ الله نے تمھارے بھائی بنا ئے اور گھر دے دیا ہے جہاں تم بے خوف ہو كر ره سكتے ہو۔ آپ كے اذن كے بعد صحابہ انفرادی طور پر اور ٹولیوں میں نكلنے لگے۔ ان كا سفر آسان نہ تھا۔ قریش ہر عازم ہجرت پر نگاه ركھے ہوئے تھے۔ طاقت یا حیلے سےروكنے كی كوشش كرتے۔ حضرت عمر، حضرت عیاش بن ابوربیعہ اورحضرت ہشام بن العاص نے اکٹھے مدینہ ہجرت کرنے کا پروگرام بنایا۔ انھوں نے علی الصبح مدینہ سے دس میل باہر مقام سرف سے آگے بنو غفار کے تالاب کے پاس تناضب نامی خاردار درختوں کے جھنڈمیں ملنے کا وعدہ کیا۔ حضرت عمر اور حضرت عیاش تو حسب وعد ہ پہنچ گئے، لیکن حضرت ہشام کو مشرکوں نے قید كر لیا۔ دونوں اصحاب بخیر و عافیت مدینہ كے مضافات میں واقع بستی قبا پہنچے، لیكن حضرت عیاش کے سوتیلے بھائی ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام ان كے پیچھے آن پہنچے اور کہاكہ ان کی والدہ نے قسم کھائی ہے کہ وہ سرمیں تیل لگائے گی نہ سائے میں بیٹھے گی، جب تک تمھیں دیکھ نہ لے گی۔ حضرت عیاش دھوكے میں آ كر ان كے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں ابوجہل اور حارث نے ان کو رسیوں میں جكڑ لیا اور مكہ لے جا كر حضرت ہشام بن العاص كے ساتھ قید كر دیا۔
مدینہ میں حضرت عمر اسی فكر میں مبتلا رہے كہ الله اوررسول پر ایمان لانے اور ان كا حق جان لینے كے بعد یہ لوگ دنیاوی آزمایش كی وجہ سے مكہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ الله ان كی توبہ كیسے قبول كرے گا۔ اسی اثنا میں یہ ارشاد ربانی نازل ہوا:
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِﵧ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًاﵧ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ. وَاَنِيْبُوْ٘ا اِلٰي رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ. وَاتَّبِعُوْ٘ا اَحْسَنَ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ. (الزمر۳۹: ۵۳ - ۵۵)
حضرت عمر نے ایك كاغذ پر یہ آیات لكھ كر حضرت ہشام بن العاص كو بھیج دیں۔ حضرت ہشام آیات تلاوت كرتے اور الله سے ان كا فہم عطا كرنے كی دعا كرتے رہے، آخر كار انھیں سمجھ آگیاكہ ہجرت ان پر فرض ہےاوروه اونٹ پكڑ كر مدینہ روانہ ہو گئے (المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۷۹۱۴۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۷۵۶۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۰۵۴۔ البحر الزخار، البزار، رقم ۱۵۵)۔ مدینہ میں ان كی آمد غزوۂ خندق كے بعد ہوئی۔
تما م مورخین نے حضرت ہشام بن العاص كی ہجرت مدینہ كی یہی سرگذشت بتائی ہے جو ہم نے تحریر كی۔ تاہم ابن ہشام كا بیان مختلف ہے۔ كہتے ہیں : مدینہ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا:كون میری طرف سے عیاش بن ابو ربیعہ اور ہشام بن العاص كی ذمہ داری قبول كرے گا؟حضرت ولید بن ولید بولے:میں آپ كا یہ حكم بجا لاؤں گا۔ وه چوری چھپے مكہ گئے، وہاں ایك عورت سے ان كا سامنا ہوا جو كھانا اٹھائے جا رہی تھی۔ پوچھا:الله كی بندی، كہاں جا رہی ہو؟بتایا:ان دو قیدیوں كا كھانا لے جا رہی ہوں۔ حضرت ولید نے جگہ پہچان لی، وه بے چھت كا باڑا تھا۔ رات گئے انھوں نے ایك پتھر پكڑا اور دیوار پھلانگ گئے۔ پتھر حضرت عیاش اور حضرت ہشام كی بیڑیوں كے نیچے ركھا اورتلوا ر كا وار كر كے ان كو كاٹ ڈالا۔ پھر ان كو اونٹ پر بٹھا كر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
هل أنت إلا إصبع دمیت
و في سبیل الله ما لقیت
’’تو تو ایك انگلی ہی ہے جو خون آلود ہوئی ہے۔ الله كی راہ ہی میں تمھیں یہ مصیبت اٹھانی پڑی ہے۔‘‘
(السیرة النبویۃ، ابن ہشام۲/ ۹۱)
انگلی كے اسی زخم سے ان كی وفات ہوئی۔ حضرت ہشام بن العاص كا سفر ہجرت بیان كرتے ہوئے ابن كثیر نے بھی ابن ہشام كی اس روایت كا حوالہ دیا ہے۔
حضرت سلمہ بن ہشام كی سوانح نگاری كرتے ہوئے ابن سعد نے یہی واقعہ اس طرح نقل كیا ہے: حضرت ولید بن ولیدجنگ بدر میں مشركین مكہ كی فوج میں شامل تھے۔ شكست كھانے كے بعدمسلمانوں كے اسیر ہوئے تو بھائیوں خالد بن ولید اور ہشام بن ولید نے فدیہ دے كر چھڑایا، رہائی كے بعد اسلام قبول كیا تو انھی بھائیوں نے مكہ لے جا كر قید كر دیا۔ ایك عرصہ تك قید و بند كی صعوبتیں برداشت كرنے كے بعد ایك دن موقع پایا تو چھوٹ كر مدینہ كی طرف بھاگے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عیاش بن ابوربیعہ اورحضرت سلمہ بن ہشام كے بارے میں دریافت فرمایاتو بتایا :میں انھیں سخت تنگی میں چھوڑ آیا ہوں۔ ان دونوں کے پاؤں ایک بیڑی میں اكٹھے بندھے ہوئے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا:جاؤ، مكہ كے لوہار كے پاس جا چھپو، وه مسلمان ہو چكا ہے۔ پھر عیاش اور سلمہ تك پہنچنے كی راه ڈھونڈو۔ انھیں بتاؤ، تم رسول اللہ كی طرف سے بھیجے گئے ہو، وه تمھیں یہاں سے نكل چلنے كا حكم دیتے ہیں۔ حضرت ولید فرماتے ہیں:میں نے ایسا ہی كیا، انھیں اونٹ پر بٹھا كر مدینہ كی پتھریلی سر زمین میں لے آیا (الطبقات الكبریٰ، رقم ۳۹۰)۔
ابن عساكر كا بیان یوں ہے:رسول الله صلی الله علیہ وسلم رمضان كے آخری پندره روزحضرت ولید بن ولید، حضرت سلمہ بن ہشام اور حضرت عیاش بن ابو ربیعہ كی مشركین سے رہائی كے لیے دعاے قنوت مانگتے رہے۔ عید كی صبح آپ نے دعا نہ كی تو حضرت عمر نے پوچھا:یا نبی الله، آپ ان تینوں كے لیے دعا نہ فرمائیں گے؟ارشاد كیا:تمھیں معلوم نہیں، وه آ چكے ہیں۔ اثناے گفتگو میں حضرت ولید، حضرت سلمہ اور حضرت عیاش كا اونٹ پكڑے آ پہنچے۔ سنگلاخ زمین پر چلنے كی وجہ سے وه زخمی ہو چكے تھے ا ور یہ شعرگنگنا رہے تھے:
هل أنت إلا إصبع دمیت و في سبیل الله ما لقیت
یا نفس الا تقتلي تموتي
’’ تو تو ایك انگلی ہی ہے جو خون آلود ہوئی ہے۔ الله كی راہ ہی میں تمھیں یہ مصیبت اٹھانی پڑی ہے۔ اے نفس، اگر تو قتل نہ كیا گیا تو بھی مر جائے گا۔‘‘
حضرت ولید بن ولیدرسول الله صلی الله علیہ وسلم كے سامنےتڑپے اور دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ نے فرمایا:یہ شہید ہیں، میں اس كا شاہد ہوں (تاریخ دمشق الكبیر، رقم ۲۶۳۷)۔
مندرجہ بالا روایات پر غور كرنے سے یہی نتیجہ نكلتا ہےكہ حضرت ولید بن ولید اور حضرت عیاش بن ابوربیعہ كے ساتھ مدینہ كا سفر ہجرت حضرت ہشام بن العاص نے نہیں، بلكہ حضرت سلمہ بن ہشام نے كیا اور ابن ہشام كا بیان درست نہیں، اگرچہ ابن كثیر نے بھی اسے نقل كیا ہے۔
حضرت ہشام بن العاص كے ایام اسیری میں بدر، احد اورخندق كے غزوات انجام پا چكے تھے۔ انھوں نے بعد میں پیش آنے والے معرکوں میں داد شجاعت دی۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم۲۰؍ رمضان بروز جمعہ مكہ مكرمہ پہنچے۔ مكہ فتح كرنے كے بعد آپ نے غیرمسلموں كو پكڑنےكے لیے تمام اطراف میں سریے بھیجے۔ آپ كے حكم پر حضرت ہشام بن العا ص دو سو سپاہیوں كا د ستہ لے كر یلملم كی طرف نكلے۔
حضرت ہشام بن العاص كے والد العاص بن وائل نے زمانۂ جاہلیت میں سو اونٹ ہبہ كرنے كی منت مانی تھی۔ والد كی وفات كے بعد حضرت ہشام نے اپنے حصے كے پچاس اونٹ آزاد كر دیے تو ان كے بھائی حضرت عمروu بن العاص نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے باقی اونٹوں كی قربانی كے بارے میں دریافت كیا۔ آپ نے فرمایا: اگر تمھارا باپ توحید كا قائل تھا اور تو اس كی طرف سے غلام آزادكرے، صدقہ كر ے یا حج كرے تو اس كا ثواب اس كوپہنچے گا(ابوداؤد، رقم ۲۸۸۳۔ مسند احمد، رقم ۶۷۰۴۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۲۰۴)۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے كہ آیا نبی صلی الله علیہ وسلم كا كٹر دشمن ہونے كے باوجودوه توحید پرست تھا؟
عہد صدیقی میں حضرت ہشام بن العاص نے شام كے محاذ پر لڑی جانے والی پہلی جنگ، جنگ اجنادین میں شركت كی۔ یہ معركہ ۱۳ھ (۶ جولائی ۶۳۴ء)كوموجوده اسرائیل كے بیت غوفرین یا بیت جبرین اور رملہ كے درمیان واقع مقام اجنادین پربرپا ہوا۔ حضرت خالد بن ولید كی سالاری میں تینتیس ہزارپرمشتمل مسلم فوج كا مقابلہ نوے ہزار كی سپاه ركھنے والی رومی فوج سے ہوا۔ اس جنگ میں پانچ سو پچھتر مسلمانوں نے شہادت كا نذرانہ پیش كر كے فتح حاصل كی۔ شہدا میں حضرت ہبار بن سفیان، حضرت عكرمہ بن ابو جہل، حضرت ابان بن سعید اورحضرت حارث بن ہشام شامل تھے، جب كہ پچاس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے۔ ابن اسحٰق كا كہنا ہے کہ حضرت ہشام بن العاص بھی جنگ اجنادین میں شہید ہوئے۔
رومیوں اور عرب عیسائیوں كی بڑی فوج جمع ہو گئی تو كچھ لوگوں نے مشوره دیا كہ ہم لڑتے ہوئے (حمص كے قریب واقع)شام كے دیہاتوں بیرین اور قدس كی طرف نكل جاتے ہیں اور حضرت ابوبكر كو خط لكھتے ہیں كہ وه ہمیں كمك بھیجیں۔ حضرت ہشام بن العاص نے كہا: اگر تم سمجھتے ہو كہ مدد الله عزیز و حكیم كی طرف سے ہوتی ہے تو لڑنے كے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر تم ابوبكر كی مدد كا انتظار كرنا چاہتے ہو تو میں اونٹ پر بیٹھ كر ان سے ملنے چلا جاتا ہوں۔ سپاہی حضرت ہشام كی بات پر لاجواب ہو گئے اور جی داری سے لڑے۔ جنگ اجنادین میں اپنے ساتھیوں كی پست ہمتی دیكھ كرحضرت ہشام نے ان كو غیرت دلائی اورللكارے:مسلمانو، یہ بودے تلوار كا سامنا نہیں كر سكتے، میں ہشام بن العاص ہوں، میری طرح آگے بڑھو، كیا تم جنت سے بھاگ رہے ہو؟یہ كہتے ہوئے خود اتارا اورغنیم كی صفوں میں گس گئے، كئی دشمنوں كو مارا اور خود بھی شہید ہو گئے(مستدرك حاكم، رقم ۵۰۵۲)۔ ان كے پیچھے كئی اور مسلمان شہید ہوئے۔ ایك غازی حضرت ہشام كی میت پر كھڑا ہو كر كہنے لگا:یہ شہادت ہی آپ چاہتے تھے۔
عبیدالله بن عبدالله بن عتبہ كی روایت كے مطابق حضرت ہشام بن العاص نے جنگ كے دوران میں ایك غسانی پر ایسا وار كیا كہ اس كی شہ رگ كاٹ دی۔ غسانیوں نے پلٹ كر اپنی تلواریں ان كے جسم میں گھونپ دیں۔ پھر گھڑ سواروں نے ان كا جثہ كچل ڈالا۔ حضرت عمرو بن العاص نے ان كے اعضا اكٹھے كر كے تدفین كی۔
اگلی روایت میں مختلف صورت بیان كی گئی ہے:جنگ اجنادین كے دن رومی شكست كھا كر ایسی جگہ پھنس گئےجہاں ایك شخص كے گزرنے كی گنجایش تھی۔ حضرت ہشام بن العاص لڑتے لڑتے آگے بڑھے، رومیوں كے ہاتھوں قتل ہوئے اور اس جگہ كو اپنے لاشے سے پر كر دیا۔ مسلمان سپاہی اس جگہ پہنچے تو حضرت ہشام كی میت كےپاس آ كر رك گئے۔ حضرت عمرو بن العاص پكارے:الله نے انھیں شہادت بخش دی ہے، اب تو ایك جثہ ہیں، گھوڑے اوپرسے گزا ر لو۔ گھوڑے گزرنے كے بعد ان كی میت پرزہ پرزہ ہو گئی(مستدرك حاكم، رقم ۵۰۵۱)۔ رومیوں كو شكست ہو گئی توجنگ ختم ہونے كے بعد حضرت عمرو نے ان كے اعضا اور گوشت جمع كر كے چٹائی پر ڈالا اور سپرد خاك كر دیا۔
خلافت راشده كے ابتدائی دور میں اسلامی افواج سے پے درپے شکست کھانے كے بعد رومیوں نے ایك بڑی فوج اكٹھی كر كے انتقام لینےكا اراده كیا۔ نتیجہ جنگ یرموك كی صورت میں نكلا۔ ۱۳ھ(طبری، ابن كثیر)یا رجب ۱۵ھ(بلاذری، ابن عساكر)كو اردن كے دریاے یرموك كے كنارے دو لاكھ چالیس ہزار كی رومی سپاه جمع ہوئی، جس كا سامنا چھتیس ہزار مسلم مجاہدین نے كیا۔ چھ روزه جنگ میں حضرت خالد بن ولید نے اپنی بہترین حکمت عملی کے ذریعے سے اپنے دستوں كو آگے پیچھے کیا، رومی لشكر كے کم زور مقامات پر اپنی قوت مرکوز کر کے کئی گنا زیادہ فوج رکھنے والے دشمن کو حركت سے بے بس کر دیا اور اس کی فرار کی راہیں مسدود کركے برے انجام سے دوچار کیا۔ میدان جنگ ایك لاكھ بیس ہزاررومیوں كے خون سے لت پت ہو گیا، جب كہ تین ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ شہدا میں حضرت عكرمہ بن ابو جہل، حضرت عبدالله بن سفیان، حضرت عمرو بن سعید، حضرت ابان بن سعید، حضرت سہیل بن عمرو، حضرت ہشام بن العاص اور حضرت سعید بن حارث شامل تھے۔
شكست كے بعد شاہ روم ہرقل یہ كہہ كر انطاکیہ سے رخصت ہوگیا کہ اے شام، تو کتنی اچھی سر زمین ہے جو دشمن کے ہاتھ لگی ہے۔ تجھے الوداعی سلام۔
جنگ یرموك میں حضرت ابوجہم بن حذیفہ پانی كی چھاگل لے كر زخمیوں میں اپنے چچا زاد كو ڈھونڈنے نكلے۔ اس كے آخری سانس چل رہے تھے، وه اس كے منہ میں پانی ٹپكانے لگے تھے كہ پاس ہی ایك اور زخمی كے كراہنے كی آواز آئی۔ چچیرے نے اسے دیكھنے كا اشاره كیا، وه اس طرف لپكے تو دیكھا كہ حضرت ہشام بن العاص آخری دموں پر ہیں۔ انھیں پانی پلانے لگے تھے كہ تیسرے مجروح كی آہ سنائی دی۔ حضرت ہشام نے اس كی طرف توجہ كرنے كو كہا۔ حضرت ابوجہم تیسرے زخمی كے پاس پہنچے تو دیكھا كہ اس كی روح پرواز كر چكی ہے، وہ جلدی سے حضرت ہشام كی طرف پلٹے تو دیكھا كہ ان كی سانس بند ہو چكی ہے۔ حضرت ابوجہم تیزی سے اپنے چچیرے كی طرف بڑھے، لیكن وه بھی وفات پا چكے تھے( الزهد والرقائق، عبدالله بن مبارك، رقم ۴۸۱۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۴۸۳)۔ جنگ یرموك كی فصل میں ابن جوزی نے بھی یہ واقعہ بیان كیا ہے، تاہم انھوں نےشہیدہونے والے زخمی صحابہ كے نام اس طرح بتائے ہیں:حضرت عكرمہ بن ابوجہل، حضرت سہیل بن عمرو اور حضرت حارث بن ہشام(المنتظم۹۸۵)۔
حضرت ہشام بن العاص كا وقت شہادت متعین كرنے سے ہم قاصرہیں۔ اجنادین اور یرموك میں ہونے والےدونوں معركوں كا بیان كرتے ہوئے اہل تاریخ نےان كی شہادت سے منسلك مختلف واقعات كا ذكر كیا ہے۔ ایك صحابی كی شہادت دو مختلف مقامات پر دو مختلف اوقات میں كیسے ممكن ہے۔
جن مورخین نے حضرت ہشام بن العاص كو اجنادین اور یرموك، دونوں جنگوں كے شہدا میں شمار كیاہے:
ابن سعد، طبری، ابن اثیر۔
جن مورخین كا رجحان جنگ اجنادین كی طرف ہے، اگرچہ وه جنگ یرموك كا احتمال مانتے ہیں، وہ بلاذری، ابن عبدالبر، ابن حجر اور ابن كثیر ہیں۔
حضرت ہشام كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔
نبی صلی الله علیہ وسلم كا ارشاد ہے :عاص كے دونوں بیٹے (عمرو اور ہشام )مومن ہیں(السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۸۲۴۲۔ مسند احمد، رقم ۸۰۴۲۔ المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۱۷۹۱۴۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۰۵۳)۔ حضرت ہشام کی شہادت کے بعد ایک دن قریش كے كچھ افراد بیت الله كے عقب میں واقع جگہ میں حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ حضرت عمرو بن العاص طواف کرنے كے لیے آئے۔ انھیں دیکھ کر وه آپس میں باتیں كرنے لگے کہ ہشام زیاده صا حب فضیلت تھےیاان كے بھائی عمرو بن العاص۔ حضرت عمرو بن العاص طواف سے فارغ ہونے كے بعد ان کے حلقہ كے پاس ركے اور پوچھا: مجھے دیكھ كر تم لوگوں نے کیا گفتگو كی ؟انھوں نے بتایا: ہم آپ دونوں بھائیوں کا موازنہ کررہے تھے کہ ہشام افضل ہیں یا عمرو ؟ حضرت عمرو بولے:تمھارا سامنا ایك واقف حال سے ہوا ہے۔ ہشام كی والده ہشام بن مغیره كی بیٹی تھیں اور میری والده نابغہ عنزہ كی جنگی قیدی تھیں۔ وه مجھ سے زیاده والد كو محبوب تھے۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں : جنگ یرموك میں رات سونے سے پہلے ہم دونوں نے نہا كر خوشبو لگائی اور الله سے شہادت پانے كی دعا مانگی۔ اگلی صبح ہشام كی دعا قبول ہو گئی اور میں شہادت سے محروم رہا۔ اب آپ خود فضیلت كا اندازه لگا لیں (الطبقات الكبریٰ، ابن سعد۴۰۶۔ تاریخ دمشق الكبیر، رقم ۸۲۸۸ )۔
حضرت عمر كو حضرت ہشام كی شہادت كی خبر ملی تو فرمایا: وه اسلام كے بہترین معاون تھے۔
فتح مكہ كے موقع پر جب حضرت ہشام بن العاص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی كمر پر مہر نبوت پر ہاتھ پھیرا توآپ نے ان كے سینے كو تین دفعہ ٹھوك كر دعا فرمائی : الله اس سے خیانت اورحسد دور كر دے، وه حضرت ہشام بن العاص سہمی نہیں، بلكہ حضرت ہشام بن العاص (دادا كا نام: ہشام بن مغیرہ)مخزومی تھے (الاستیعاب، ابن عبدالبر، رقم ۲۶۸۴۔ اسد الغابۃ، ابن اثیر۵/ ۶۴۔ الاصابۃ، ابن حجر، رقم ۸۹۷۰)۔
حضرت ابوبكر صدیق نے جب حضرت ہشام بن العاص كو شاه روم ہرقل كی طرف د اعی بنا كر بھیجا اور ہرقل نےانھیں مہمان خانے میں ٹھیرا كرریشمی پارچہ جات پر بنی ہوئی انبیاكی تصاویر دكھائیں، وه حضرت ہشام سہمی نہیں، بلكہ حضرت ہشام بن العاص اموی تھے (دلائل النبوة، بیہقی ۱/ ۳۸۶۔ تفسیرالقرآن العظیم، ابن كثیر:تفسیر سورۂ اعراف، آیت۱۵۷۔ البدایۃ والنہایۃ، ابن كثیر ۳/ ۱۴۱)۔ ابن عساكر نے حضرت ہشام اموی كا ذكر نہیں كیا اور یہ واقعہ حضرت ہشام بن العاص سہمی سے منسوب كیا ہے (تاریخ دمشق الكبیر، رقم ۸۲۸۸)۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق )، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، انساب الاشراف(بلاذری)، تاریخ الامم و الملوك(طبری)، معرفۃ الصحابۃ(ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، تاریخ دمشق الكبیر(ابن عساكر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ