HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــ توضیحی مطالعہ: حدود وتعزیرات (۳)

زنا کی عبوری سزا

’’زنا کی سزا کا پہلا حکم سورۂ نساء میں آیا ہے۔ اُس میں کوئی متعین سزا بیان نہیں کی گئی، بلکہ صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ زنا کی عادی قحبہ عورتوں کے لیے جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہو جاتا، اُنھیں گھروں میں بند کر دیا جائے اور اِس جرم کے عام مرتکبین کو ایذا دی جائے، یہاں تک کہ وہ توبہ کر کے اپنے طرز عمل کی اصلاح پر آمادہ ہو جائیں۔ ‘‘ (میزان ۶۲۵)

سورۂ نساء کی آیات ۱۵-  ۱۶ میں زنا کی ایک عبوری سزا اس وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں حتمی احکام بعد میں دیے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْﵐ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰي يَتَوَفّٰىهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِيْلًاe. وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَاﵐ فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَاﵧ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا.
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کرتی ہوں، ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں محبوس کر دو، یہاں تک کہ انھیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ بیان کر دیں۔ اور تم میں سے جو مرد و عورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہوں، انھیں اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے درگذر کرو۔ بے شک، اللہ توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘

ان میں سے پہلی آیت میں صرف خواتین کی سزا ، جب کہ دوسری آیت میں زانی مرد اور عورت، دونوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ ان آیتوں کے مفہوم کی تعیین میں مفسرین کو اس الجھن کا سامنا ہے کہ خواتین کی سزا کو پہلے الگ ذکر کرنے اور پھر اس کے بعد مرد وعورت، دونوں کی سزا بیان کرنے کا مقصد اور باعث کیا ہے؟

مفسرین کے ایک گروہ کی راے میں دوسری آیت میں مردوں کے ساتھ جن خواتین کا ذکر ہوا ہے، وہ وہی ہیں جنھیں پہلی آیت میں گھروں میں محبوس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا گھروں میں محبوس کرنے کی سزا تو خواتین کے ساتھ مخصوص تھی، جب کہ اذیت کی سزا زانی مرد اور عورت، دونوں کے لیے مشترک طور پر مقرر کی گئی تھی (ابو حیان، البحر المحیط۳/ ۲۰۶۔ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۵/ ۸۷)۔

بعض مفسرین نے اس اشکال کے جواب میں یہ راے ظاہر کی ہے کہ زیر بحث آیتوں کی نزولی ترتیب قرآن میں ان کی ظاہری ترتیب کے برعکس ہے اور ان میں دوسری آیت جس میں زانی مرد و عورت کو اذیت دینے کا حکم دیا گیا ہے، پہلے نازل ہوئی تھی۔ پھر اس کے بعد پہلی آیت میں خواتین کے لیے محبوس کیے جانے کی مزید سزا مقرر کی گئی( جصاص، احکام القرآن ۳/ ۴۳)۔

ایک راے یہ ہے کہ ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ‘میں شادی شدہ خواتین کی سزا بیان ہوئی ہے، جب کہ ’وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘میں کنوارے زانی اور زانیہ کی (طبری، جامع البیان ۴/ ۲۹۴)۔

ایک اور راے یہ ہے کہ پہلی آیت صرف زانی خواتین کی سزا بیان کرتی ہے، جب کہ دوسری آیت صرف مرد زانیوں کی اور یہاں تثنیہ کا صیغہ لانے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ زانی چاہے شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، اس کے لیے ایک ہی سزا ہے (ا بن عطیہ، المحرر الوجیز ۲/ ۲۲۔ ابن العربی، احکام القرآن ۱/ ۴۶۵)۔

ایک راے یہ ہے کہ پہلی آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب بدکاری کے فعل پر چار گواہ میسر ہوں اور مقدمے پر باقاعدہ عدالتی کارروائی کی جاسکتی ہو، جب کہ دوسری آیت میں اس صورت کا حکم بیان ہوا ہے جب چار گواہ موجود نہ ہوں (ر ازی، التفسیر الکبیر۹/ ۱۹۰)۔

ابو مسلم اصفہانی نے زیر بحث آیات کو زنا کے بجاے لواطت اور ’سحاق‘، یعنی خواتین کی ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دیا ہے۔ ان کی راے میں ’وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ‘میں خواتین کی ہم جنس پرستی کی، جب کہ ’وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِهَا‘میں لواطت کی سزا بیان کی گئی ہے (رازی، التفسیر الکبیر۹/ ۱۸۷)۔

ان تمام توجیہات میں زبان وبیان کے اسالیب کسی نہ کسی پہلو سے نظرانداز ہو جاتے ہیں، جس کی تفصیل ہماری کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انھی اشکالات کے تناظر میں قاضی ابن العربی نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ’هذہ معضلة في الآیات لم أجد من یعرفها‘(ا حکام القرآن ۱/ ۴۵۷)، یعنی یہ ایک بے حد مشکل آیت ہے اور مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اس کا مطلب جانتا ہو۔

صاحب ’’ تدبر قرآن‘‘ مولانا اصلاحی نے اس کی تاویل میں سابق مفسرین سے ایک بنیادی اختلاف کیا ہے، وہ یہ کہ مفسرین نے اس کو عموماً‌ زنا کے ہر قسم کے مجرموں پر محمول کرتے ہوئے آیت کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ مولانا اصلاحی کی راے میں ان آیات میں خاص طور پر زنا کے وہ عادی مجرم زیر بحث ہیں جن کے مابین باقاعدہ یاری آشنائی کا تعلق استوار ہو۔ مولانا کی راے میں یہاں پہلی آیت اس صورت کو بیان کرتی ہے جب زنا کی مرتکب عورت کا تعلق مسلمانوں سے، جب کہ مرد کا تعلق کسی غیر مسلم گروہ سے ہو، جب کہ دوسری آیت میں وہ صورت زیر بحث ہے جب دونوں مسلمان اور اسلامی ریاست کے قانونی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوں۔ دوسری صورت میں مرتکبین کو توبہ واصلاح کا موقع دینے کی حکمت یہ تھی کہ دونوں فریق اسلامی معاشرہ کی نظر میں تھے اور ان کے اصلاح احوال کی کیفیت لوگوں کے سامنے تھی، جب کہ پہلی صورت میں خواتین کو تامرگ محبوس کر دینے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرا فریق، یعنی مرد مسلمان معاشرہ کے دباؤ سے بالکل آزاد تھا اور ایسی حالت میں عورت کی سماجی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے توبہ اور اصلاح کا موقع دیا جانا مختلف غیرمطلوب نتائج کا موجب ہو سکتا تھا (تدبر قرآن ۲/ ۲۶۵)۔

مصنف نے مولانا اصلاحی کی راے کے اس پہلو سے تو اتفاق کیا ہے کہ یہ آیت زنا کے ان مجرموں سے متعلق نہیں جو کسی وقت جذبات کے غلبے میں زنا کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، بلکہ دراصل زنا کو ایک عادت اور معمول کے طورپر اختیار کرنے والے مجرموں سے متعلق ہے، البتہ دونوں آیتوں کے باہمی فرق کے حوالے سے ان کی راے یہ ہے کہ پہلی آیت کا مصداق وہ پیشہ ور بدکار عورتیں ہیں جن کے لیے زنا شب وروز کا شغل تھا، جب کہ دوسری آیت میں ایسے مردوں اور عورتوں کی سزا بیان ہوئی ہے جن کا ناجائز تعلق یاری آشنائی کی صورت میں روز مرہ کے معمول کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ ان کی راے میں قرآن مجید نے دوسرے مقامات پر ان میں سے پہلی صورت کو ’مُسٰفِحِيْنَ‘ اور ’مُسٰفِحٰتٍ‘، جب کہ دوسری صورت کو ’مُتَّخِذِيْ٘ اَخْدَانٍ‘ اور ’مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے (برہان ۱۲۵- ۱۲۶) ۔

گویا پہلی آیت میں صرف خواتین کی سزا کو موضوع بنانے کی وجہ یہ ہے کہ پیشہ ورانہ بدکاری میں بنیادی کردار خواتین ہی کا ہوتا ہے اور جرم کے سدباب کے لیے اصلاً انھی کی سرگرمیوں پر پہرہ بٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، مرد وعورت میں یاری آشنائی کے تعلق کی صورت میں دونوں جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی تادیب وتنبیہ کو قانون کا موضوع بنانا پڑتا ہے۔

مصنف کی اس تاویل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے زنا کی عبوری سزا بیان کرتے ہوئے صرف زنا کے عادی مجرموں کو موضوع بنایا ہے، جب کہ اتفاقیہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اصول تدریج کے تناظر میں اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں مناسب اخلاقی تربیت کے فقدان اور زنا کے محرکات کی کثرت کے سبب سے کسی جرم کا سدباب فوری طور پر ممکن نہ ہو تو ابتدائی مرحلے پر ہلکی سزاؤں پر اکتفا کرنا اور سزا کے لیے جرم کو عادت اور معمول بنا لینے والے مجرموں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

زنا کی حتمی سزا

’’زانی مرد ہو یا عورت،اُس کا جرم اگر ثابت ہو جائے تو اِس کی پاداش میں اُسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ ‘‘ (میزان ۶۲۵)

یہاں مصنف نے جمہور اہل علم کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اس راے سے اتفاق کیا ہے جو مولانا امین احسن اصلاحی نے پیش کی ہے۔ جمہور فقہا کے نزدیک سورۂ نور میں زنا کی جو سزا بیان کی گئی ہے، وہ غیر شادی شدہ زانیوں کے لیے ہے، جب کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے جو احادیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ظاہراً‌ یہ تخصیص بیان نہیں ہوئی، چنانچہ جمہور اصولیین میں سے بعض اس مثال میں حدیث کو قرآن کا بیان قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مراد غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرنا ہی ہے اور اس مراد کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ذریعے سے فرمائی ہے۔ بعض دیگر اہل علم اس کو تبیین کے بجاے قرآن مجید کے حکم میں نسخ کی مثال قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا میں ہر طرح کے زانی کی سزا یہی مقرر کی گئی تھی جو قرآن میں مذکور ہے، لیکن بعد میں اس کو تبدیل کر کے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی گئی اور یہ نسخ، حدیث کے ذریعے سے عمل میں لایا گیا۔ فقہا کا ایک تیسرا گروہ اس آیت کو کنوارے زانیوں کے ساتھ خاص نہیں کرتا اور کوڑوں کی سزا کو شادی شدہ زانیوں کے لیے بھی عام مانتا ہے، تاہم حدیث کی روشنی میں وہ شادی شدہ زانیوں کے لیے سو کوڑوں کے بعد رجم کی اضافی سزا کا بھی قائل ہے۔

جمہور کے موقف کے برخلاف مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ سورۂ نور کا یہ حکم زنا کی تمام صورتوں کو شامل ہے اور اس میں بیان ہونے والی سزا زنا کی ہر صورت پر یکساں قابل نفاذ ہے۔ چونکہ قرآن نے نفس زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے مجرم کی ازدواجی حیثیت کو موضوع نہیں بنایا اور زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے بیان کی ہے، اس لیے قرآن کا مدعا یہی ہے کہ ہر طرح کے زانی کو، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، یہی سزا دی جائے۔ جرم کی نوعیت اور اس کی سنگینی اگر تقاضا کرے تو یقیناً مجرم کو اس کے علاوہ کوئی مزید سزا بھی دی جا سکتی ہے، تاہم اگر جرم صرف زنا ہے تو قرآن کا بیان اس سزا میں کسی اضافے کو قبول کرنے سے مانع ہے۔

 جمہور فقہا کے موقف سے مولانا اصلاحی کے اختلاف کی بنیاد اسی نکتے پر ہے کہ ان کے نزدیک حدیث کے ذریعے سے نہ تو قرآن کے حکم میں کوئی تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ قرآن کے عموم کے اندر سے کسی ایسی چیز کو خارج کیا جا سکتا ہے جو لفظ کے مفہوم میں واضح طو رپر داخل ہو۔ مولانا ایسی تخصیص کو نسخ ہی قرار دیتے ہیں جس کا اختیار ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں تھا (مبادی تدبر حدیث ۴۱)۔ مولانا کا کہنا ہے کہ سورۂ نور میں مذکور زنا کی سزا کو بعض روایات کی بنا پر غیر شادی شدہ کے ساتھ خاص کرنا اور شادی شدہ کے لیے اس سے الگ ایک مستقل اور اس سے زیادہ سخت حکم مقرر کرنا تبیین نہیں، بلکہ نسخ ہے، کیونکہ الفاظ اور آیت کے اندر اس امتیاز کے لیے کوئی قرینہ یا اشارہ موجود نہیں (ایضاً ۴۵)۔

مصنف نے بھی اپنی کتاب ’’برہانمیں سورۂ نور کے اس حکم کی وضاحت اور اس کے تمام زانیوں کے لیے عام ہونے پر تفصیلی گفتگو کی ہے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کا اسلوب اس حکم کی کنوارے زانیوں کے ساتھ تخصیص کو قبول نہیں کرتا اور اگر ایسی کوئی تخصیص حکم میں شامل کی جائے تو وہ قرآن کا بیان نہیں ہو سکتی، اسے لازماً‌ قرآن کے حکم میں تغییر قرار دینا پڑے گا جو خود قرآن کے علاوہ کسی دوسری دلیل سے نہیں کی جا سکتی۔ مصنف کے الفاظ یہ ہیں:

’’عربی زبان کے اسالیب بیان میں اِس کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ لغت قرآن سے واقف کوئی شخص اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے الفاظ سے محض کنوارا زانی اور کنواری زانیہ بھی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ آیت کے الفاظ اپنے لغوی مفہوم کے اعتبار سے اِس کی نفی کرتے ہیں ۔ جملے کی ترکیب و تالیف اِس سے ابا کرتی ہے۔ کلام کے سیاق و سباق کو اِسے قبول کرنے سے انکار ہے۔ عرف و عادت کی دلالت کی بناپر اِسے متکلم کا منشا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ قاضی عقل بالصراحت اِس کے عدم جواز کا فتویٰ دیتا ہے۔ غرض کسی لحاظ سے اِسے قرآن مجید کے مدعا کی شرح و تبیین قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘(برہان۵۵)

اس حکم کے، تمام زانیوں کے لیے عام ہونے کی تائید میں مصنف نے آیت کے اسلوب کے علاوہ دیگر دو آیات سے بھی استدلال کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

سورۂ نور کی آیت ۲- ۳میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ۴ -۵میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ۶- ۱۰میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے، جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:

وَيَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۣ بِاللّٰهِﶈ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِيْنَ. (النور ۲۴: ۸)
’’اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘

یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے ’الْعَذَاب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا ،یعنی ۱۰۰کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ۲میں ’وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ‘کے الفاظ سے ہوا ہے۔

سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورۂ نساء (۴) کی آیت ۲۵سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

فَاِذَا٘ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ
’’پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔‘‘

کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم ’الْعَذَاب‘،یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے اور یہ اشارہ سورۂ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے، جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ یوں ’نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ‘کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔

مصنف کے مذکورہ تمام استدلالات کا حاصل یہ ہے کہ ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے عموم کے علاوہ سورۂ نور کی آیت ۸ میں ’يَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ‘اور سورۂ نساء کی آیت ۲۵میں ’نِصْفُ مَا عَلَي الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ‘ کے الفاظ بھی شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑے ہی کی سزا پر دلالت کرتے ہیں۔

جلاوطنی اور رجم کا ماخذ

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی طرح کے مجرموں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ چونکہ محض زنا ہی کے مجرم نہیں ہیں، بلکہ اِس کے ساتھ آوارہ منشی اور جنسی بے راہ روی کو اپنا معمول بنا لینے کی وجہ سے فساد فی الارض کے مجرم بھی ہیں، اِس وجہ سے اِن میں سے ایسے مجرموں کو جو اپنے حالات کے لحاظ سے رعایت کے مستحق ہیں، زنا کے جرم میں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ کے تحت سو کوڑے اور معاشرے کو اُن کے شروفساد سے بچانے کے لیے اُن کی اوباشی کی پاداش میں مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ کے تحت نفی،یعنی جلاوطنی کی سزا دی جائے اور اِن میں سے وہ مجرم جنھیں کوئی رعایت دینا ممکن نہیں ہے،مائدہ کی اِسی آیت کے حکم ’اَنْ يُّقَتَّلُوْا‘ کے تحت رجم کر دیے جائیں۔‘‘ (میزان ۶۱۶)
’’آیت میں اِس سزا کے لیے ’اَنْ يُّقَتَّلُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اِن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ و رسول سے محاربہ یا فساد فی الارض کے یہ مجرم صرف قتل ہی نہیں،بلکہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں۔ ... رجم،یعنی سنگ ساری بھی،ہمارے نزدیک اِسی کے تحت داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اوباشی کے بعض مجرموں کو یہ سزا اِسی آیت کے حکم کی پیروی میں دی ہے۔ ‘‘ (میزان ۶۱۳)

جلاوطنی اور رجم کی سزا کے حوالے سے مصنف نے جمہور اہل علم کی راے کے برخلاف مولانا امین احسن اصلاحی کے نقطۂ نظر سے اتفاق کیا ہے اور اس اقتباس میں اسی کی روشنی میں ان احادیث کا محل واضح کیا ہے جن میں زانی کو کوڑے لگانے کے ساتھ ساتھ کنوارے کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ کو سنگ سار کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک یہ دونوں سزائیں زنا کی اصل سزا کا حصہ نہیں اور اسی لیے سورۂ نور میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بجاے یہ فساد فی الارض کی سزائیں ہیں جن کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ ہے اور ان کا نفاذ زنا کے عام مجرموں پر نہیں، بلکہ انھی مجرموں پر کیا جائے گا جن کا جرم اپنی نوعیت کے لحاظ سے فساد فی الارض کے دائرے میں آتا ہو۔

جہاں تک جلاوطنی کو حد کا حصہ شمار نہ کرنے کا تعلق ہے تو اس میں مولانا اصلاحی منفرد نہیں، بلکہ حنفی فقہا بھی یہی راے رکھتے ہیں۔ اگرچہ جمہور فقہا ومحدثین کنوارے زانی کے لیے روایت میں بیان ہونے والی سزا، یعنی جلاوطنی کو بھی سزا کا لازمی حصہ قرار دیتے ہیں، تاہم فقہاے احناف نے اس سے اختلاف کیا ہے ۔ احناف کی راے میں جلاوطنی کی سزا محض ایک تعزیری سزا ہے اور اس کے نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ احناف کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید زانی کے لیے صرف سو کوڑوں کی سزا بیان کرنے کے حوالے سے بالکل واضح اور قطعی ہے اور اس سزا پر کوئی اضافہ کسی قطعی دلیل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ حدیث میں بیان ہونے والی اضافی سزا، یعنی ایک سال کی جلاوطنی کو خبر واحد سے ثابت ہونے کی بنا پر سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی راے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ زانی کو جلا وطن کرنے کو ایک صواب دیدی سزا کے طور پر قبول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اگر قاضی کسی مجرم کی آوارہ منشی کو دیکھتے ہوئے اس کے اس علاقے میں رہنے کو خطرے کا باعث سمجھے یا مزید تنبیہ کی غرض سے اسے گھر در سے دور اور اعزہ واقربا کی حمایت سے محروم کرنے کو بھی قرین مصلحت دیکھے تو وہ سو کوڑے لگانے کے بعد اسے جلا وطن بھی کر سکتا ہے (سرخسی، المبسوط ۹/ ۵۰- ۵۱۔ جصاص، احکام القرآن ۳/ ۲۵۵- ۲۵۶)۔

احناف کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ جلا وطن کرنا فی نفسہٖ زنا کی مستقل اور باقاعدہ سزا نہیں ہے، بلکہ اسے جرم کی نوعیت اور حالات کی مناسبت کے لحاظ سے اصل سزا کے ساتھ تعزیری طور پر شامل کیا جا سکتا ہے، اس لیے اگر حکمت ومصلحت کی رو سے مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجاے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔

امام طحاوی نے یہ استدلال بھی پیش کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی سزا بیان کرتے ہوئے صرف کوڑے لگانے کا ذکر کیا ہے اور انھیں جلا وطن کرنے کا حکم نہیں دیا (بخاری، رقم ۲۳۶۹)۔ چونکہ قرآن مجید نے لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں سے نصف بیان کی ہے، اس لیے اگر جلاوطن کرنا آزاد عورتوں کی سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی رو سے لونڈیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے جلا وطن کرنا ضروری ہوتا، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے لیے یہ سزا بیان نہیں فرمائی اور نہ اہل علم میں سے کوئی اس کا قائل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد عورتوں کے لیے بھی جلا وطن کرنا زنا کی سزا کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ پھر چونکہ آزاد عورتوں اور آزاد مردوں کی سزا میں کوئی فرق نصوص سے ثابت نہیں، اس لیے مردوں کے بارے میں بھی لازماً یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا (شرح معانی الآثار ۳/ ۱۳۷) ۔

شاہ ولی اللہ نے بھی اس موقف سے اتفاق کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانا تو ضروری ہے، لیکن جلا وطن کرنے کی سزا معاف کی جا سکتی ہے (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۵ - ۴۲۸)۔

مولانا اصلاحی کا نقطۂ نظر بھی اس سزا سے متعلق یہی ہے، تاہم ان کا طرز استدلال مختلف ہے اور وہ جلاوطنی کی سزا کا ماخذ قرآن مجید کی آیت محاربہ کو قرار دیتے ہیں جہاں حرابہ کے مجرموں کے لیے علاقہ بدر کر دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔

جلاوطنی کے حوالے سے احناف کے مذکورہ طرز استدلال ہی کی توسیع کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی نے رجم کو بھی زنا کی سزا کا لازمی حصہ تسلیم کرنے کے حوالے سے جمہور فقہا سے اختلاف کیا ہے جو احادیث کی روشنی میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کے قائل ہیں اور سورۂ نور کے حکم کو صرف غیرشادی شدہ زانیوں کے حق میں قابل عمل مانتے ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ قرآن میں اس فرق کی کوئی بنیاد موجود نہیں اور سورۂ نور کی آیت اپنے اسلوب کے لحاظ سے اس پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ شارع نے کسی قسم کے فرق کے بغیر ہر طرح کے زانیوں کے لیے یہی سزا مقرر کی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی اصولی طور پر درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وفعل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مدعا میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا نہیں کرتے، بلکہ آپ کے تمام استنباطات اور اجتہادات قرآن ہی پر مبنی اور اسی کے تحت ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں مولانا نے رجم کی سزا کا ماخذ قرآن مجید ہی میں متعین کیا اور اس کا ماخذ آیت محاربہ کو قرار دیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے ، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔

اس استدلال کا حاصل یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جب کہ رجم کی سزا اس صورت میں دی جائے گی جب مجرم زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کا بھی مرتکب ہو۔ اس نقطۂ نظر کے تحت مولانا نے رجم سے متعلق احادیث کی توجیہ یوں کی ہے کہ وہ سورۂ نور کے حکم کے خلاف نہیں اور نہ ان احادیث نے قرآن کے حکم کو منسوخ کیا ہے، کیونکہ زنا کے جن مجرموں کو ان واقعات میں سنگ سار کیا گیا، وہ زنا کے ساتھ ساتھ فساد فی الارض کے بھی مرتکب تھے، جس کی سزا قرآن نے آیت محاربہ میں بیان کی ہے۔ یہاں حرابہ اور فساد فی الارض کی پاداش میں ziتقتیل، یعنی عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی جس سزا کا ذکر ہوا ہے، مولانا کی راے میں رجم بھی اسی کی ایک صورت ہے۔ یوں آیت محاربہ کی رو سے کسی بھی مجرم کو، چاہے وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ، اس کی آوارہ منشی اور اوباشی یا جرم میں کسی بھی نوعیت کی سنگینی شامل ہونے کی وجہ سے سنگ سار کیا جاسکتا ہے اور احادیث میں رجم کے جن واقعات کا ذکر ہوا ہے، ان کی نوعیت یہی تھی، یعنی وہ زنا کے عام مجرم نہیں تھے جن کی سزا سورۂ نور میں بیان کی گئی ہے (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۶۔ ۵/ ۳۶۷- ۳۶۹)۔

مصنف نے اس پوری بحث میں مولانا اصلاحی کے موقف اور استدلال سے اتفاق کیا ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B