ترجمہ و تحقیق: ڈاکٹر محمد عامر گزدر
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ۱ «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ [فِيكُمْ۲ ] عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا وَإِمَامًا عَادِلًا۳ فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ۴ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت اُس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک عیسیٰ ابن مریم تمھارے درمیان حق و باطل کے معاملے میں انصاف کی بات کرنے والے ایک حکم اور رہنما کی حیثیت سے نازل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ وہ صلیب کو توڑدیں گے ،سؤر کو قتل کریں گے اورجزیہ ختم کردیں گے۔ اُس وقت مال کی ہر طرف ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی اُسے لینے والا نہیں ہوگا ۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ یہ اور اِس سے آگےنزول مسیح کی جو روایتیں نقل ہوئی ہیں، اُن کے بارے میں ہم پیچھے وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن کی تصریحات اِس نزول کو واقعے کی حیثیت سے قبول نہیں کرتیں۔ اِسی طرح وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ اگر فی الواقع اِسی طرح ہونا ہے تو روایتوں میں اِس کا جو وقت بیان ہوا ہے، وہ فتح قسطنطنیہ کے فوراً بعد تھا، اور یہ فتح ۱۴۵۳ء میں ہو چکی ہے۔اِس کے بعد دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں:
ایک یہ کہ لوگ انتظار ہی کرتے رہیں اور قیامت برپا ہو جائے۔ اِس صورت میں، ظاہر ہے کہ اِس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ اِن روایتوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں تھی۔ پھر یہ کہاں سے آئیں؟ اُس دن جس طرح دوسرے حقائق واضح ہوں گے، اِن کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔
دوسرے یہ کہ قیامت سے پہلے اِن کا کوئی ایسا مصداق سامنے آجائے،جسے دیکھ کر لوگ پکار اُٹھیں کہ درحقیقت یہی معاملہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسرا کے رؤیا میں، جس طرح کہ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۵۲۵ میں بیان ہوا ہے، خود سیدنا مسیح کی زبان سے بتایا گیا اور جس طرح بتایا گیا، اُس کی کوئی تعبیر کرنے کے بجاے آپ نے اُسی طرح بیان کردیا تھا۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۴۹۵سے لیا گیا ہے۔ اِس کے باقی طرق اِن مراجع میں نقل ہوئے ہیں: صحيح بخاری، رقم ۲۴۷۶۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۸۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۵۸۷۷۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۱۳۴۲۔ الايمان، ابن مندہ، رقم۴۰۸۔
۲۔ صحيح بخاری، رقم۲۴۷۶۔
۳۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۷۸میں یہاں ’عَادِلًا‘ کے بجاے ’عَدْلًا‘ کا لفظ آیا ہے، مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۸۷۷ میں ’مُقْسِطًا‘ کا لفظ ہے۔معنی کے لحاظ سے تینوں مترادف ہیں۔
۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۵۸۷۷میں ’وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ‘ ، ’’ اورجزیہ ختم کردیں گے ‘‘کے بجاے ’وَتُوضَعُ الْجِزْيَةُ‘ ، ’’ اورجزیہ ختم کردیا جائے گا‘‘کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ۱ «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا،۲ [وَإِمَامًا عَدْلًا۳ ] فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ، [وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا،۴ ] وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، [حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا۵ ]».
وَعَنْهُ فِي لَفْظٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:۶ «وَاللّٰهِ، لَيَنْزِلَنَّ [عِيسَى۷ ] ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلًا، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيرَ، وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ، وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا، [وَلَيُصْلِحَنَّ ذَاتَ الْبَيْنِ،۸ ] وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ، وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلَا يَقْبَلُهُ أَحَدٌ».
وَعَنْهُ أَيْضًا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ:۹ أّنَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، فَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَيَمْحُو الصَّلِيبَ، وَتُجْمَعُ لَهُ الصَّلَاةُ، وَيُعْطَى الْمَالُ حَتَّى لَا يُقْبَلَ، وَيَضَعُ الْخَرَاجَ، وَيَنْزِلُ الرَّوْحَاءَ، فَيَحُجُّ مِنْهَا أَوْ يَعْتَمِرُ، أَوْ يَجْمَعُهُمَا».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، عیسیٰ ابن مریم عنقریب تمھارے اندر حق و باطل کے معاملے میں انصاف کی بات کرنے والے ایک حکم اور رہنما کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ چنانچہ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سؤر کو قتل کریں گے اورجزیہ ختم کردیں گے۔ اُس وقت مال کی ہر طرف ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی اُسے لینے والا نہیں ہوگا ۔
اِنھی سے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخدا، عیسیٰ ابن مریم حق و باطل کے معاملے میں انصاف کی بات کرنے والے ایک حکم اور رہنما کی حیثیت سے ضرور اُتریں گے۔ وہ صلیب کو ضرورتوڑیں گے اور سؤر کو یقیناً ہلاک کریں گے، جزیے کو لازماً اُٹھادیں گے اور جوان اونٹنیوں کو اُن کے زمانے میں بالکل بے پروا ہوکر کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔ وہ لوگوں کے باہمی معاملات کی ضرور اصلاح کردیں گے، لوگوں کی عداوت، باہمی بغض اورحسد کرنا بھی ضرورختم ہو جائے گا اور لوگ (انفاق کے لیےدوسروں کو) اپنے مال کی طرف بلائیں گے، لیکن کوئی اُسے لینے والا نہیں ہوگا ۔
اِنھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم نزول فرمائیں گے، سؤر کو ہلاک کریں گے، صلیب کو مٹادیں گے، اُن کی موجودگی میں لوگ نماز کے لیےبہت جمع ہوں گے،مال عطا کرنے کے لیے پیش ہوگا، لیکن قبول نہیں کیا جائے گا۔وہ محصول کو ختم کردیں گے اورروحاء کے مقام پر پڑاؤ کر کے وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے یا (فرمایا کہ) دونوں کا احرام باندھیں گے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحيح بخاری، رقم ۲۲۲۲سے لیا گیا ہے۔ متن کے کچھ اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم۲۰۸۴۰۔ مسند حميدی، رقم۱۱۲۸۔ مسند ابن جعد، رقم۲۸۶۷۔ مسند احمد، رقم۷۲۶۹، ۷۶۷۹، ۷۹۰۳، ۹۱۲۱، ۹۳۲۳، ۱۰۴۰۴، ۱۰۹۴۴۔صحيح بخاری، رقم۳۴۴۸۔ صحيح مسلم، رقم۱۵۵۔ سنن ترمذی، رقم۲۲۳۳۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۶۵۸۴۔ مستخرج ابی عوانۃ، رقم ۳۰۹، ۳۱۰، ۳۱۱، ۳۱۲، ۳۱۳، ۳۱۴۔ شرح مشكل الآثار، طحاوی، رقم۱۰۳، ۱۰۴، ۱۰۵۔ تفسير ابن ابی حاتم، رقم۶۲۴۹۔ صحيح ابن حبان، رقم۶۸۱۶، ۶۸۱۸۔ الشريعۃ، آجری، رقم۸۸۷، ۸۸۹۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم۱۳۰۹۔ المعجم الصغير، طبرانی، رقم۸۴۔ الايمان، ابن مندہ، رقم۴۰۷، ۴۰۹، ۴۱۱۔ امالی ابن بشران، رقم ۴۱۳، ۵۰۳۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم۱۱۵۴، ۱۱۵۴۹، ۱۸۶۱۴۔
۲۔ بعض روایتوں، مثلاً مسند احمد، رقم ۹۳۲۳میں اِس روایت کے پہلے جملے کا آغاز اِن الفاظ سے ہے : ’«يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا»‘، ’’تم میں سے جو زندہ رہا ،وہ عنقریب عیسیٰ ابن مریم سے ملاقات کرے گا ،جن کی حیثیت ایک ہدایت یافتہ رہنما اور حق و باطل کے معاملے میں انصاف کی بات کرنے والے ایک حکم اور منصف کی ہوگی ‘‘۔
۳۔ مسند احمد، رقم۹۱۲۱۔
۴۔ مسند احمد، رقم ۹۳۲۳۔
۵۔ صحيح بخاری، رقم۳۴۴۸۔
۶۔ صحيح مسلم ۱۵۵۔
۷۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۶۵۸۴۔
۸۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۶۵۸۴۔
۹۔ مسند احمد، رقم ۷۹۰۳۔
سَمِعَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ۱ «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، قَالَ: «فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ [بَيْنَ الْأَذَانَيْنِ۲ ] فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ بِنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللّٰهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ»۳.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ آپ نےفرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت کے دن تک حق کی مدافعت میں جنگ کرتا رہے گا، اِس طرح کہ وہی غالب بھی ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: پھر عیسیٰ ابن مریم (کسی نماز کی) اذان اقامت کے مابین نازل ہو جائیں گے تو مسلمانوں کا حکمران اُنھیں دیکھ کر عرض کرے گا: تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں۔ اِس پروہ جواب دیں گے: نہیں، (میں نماز نہیں پڑھاؤں گا، اِس لیے کہ) اللہ نے اِس امت کو یہ عزت بخشی ہے کہ تمھی میں سے بعض بعض کی سربراہی کریں گے ۔
۱۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۱۵۱۲۷سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا جابر رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحيح مسلم، رقم ۱۵۶۔ المنتقى،ابن جارود، رقم ۱۰۳۱۔ تہذيب الآثار، طبرى، رقم ۱۱۶۴۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۱۷۔صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۱۹۔ الايمان،ابن منده، رقم ۴۱۸۔ الامالی، ابن بشران، رقم ۹۷۰۔ السنن الكبرىٰ، بیہقی، رقم ۱۸۶۱۵۔
۲۔ تہذيب الآثار، طبرى، رقم ۱۱۶۴۔
۳۔ تہذيب الآثار، طبرى، رقم ۱۱۶۴ میں یہاں سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ اِس طرح روایت ہوئے ہیں: ’«إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أَمِيرٌ، لِتَكْرِمَةِ اللّٰهِ هَذِهِ الْأُمَّةِ»‘ ،’’بلاشہ، تم میں سے بعض بعض کے امیر رہیں گے، اِس لیےکہ اللہ تعالیٰ اِس امت کو عزت دے‘‘ ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ۱ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَيْفَ بِكُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمُ [عِيسَى۲ ] ابْنُ مَرْيَمَ [مِنَ السَّمَاءِ۳ ] حَكَمًا، فَأَمَّكُمْ - أَوْ قَالَ: إِمَامُكُمْ – مِنْكُمْ؟». وَجَاءَ عَنْهُ فِي طَرِيقٍ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَأَمَّكُمْ؟»۴.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمھاری کیا حالت ہو گی، جب عیسیٰ ابن مریم تمھارے درمیان ایک حکم کے طور پر آسمان سے نازل ہوں گے، پھر تمھاری امامت کریں گے، یا فرمایا کہ تمھارا امام تمھی میں سے ہوگا۔اِنھی ابو ہریرہ سے ایک طریق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس وقت تمھاری کیا شان ہوگی، جب عیسیٰ ابن مریم تمھارے درمیان نازل ہوں گے اور وہ تمھاری امامت کریں گے۔۱
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ پچھلی روایت میں صراحت ہے کہ مسیح امامت نہیں کرائیں گے، مگر راوی کے تصرفات نے یہاں اِس کو بالکل الٹ دیا ہے۔ ہمارے نزدیک اصل بات غالباً وہی تھی جو پیچھے جابر بن عبداللہ کی روایت میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکی ہے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً جامع معمر بن راشد، رقم ۲۰۸۴۱ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۲۰۸۴۱۔ مسند احمد، رقم ۷۶۸۰، ۸۴۳۱۔صحيح بخاری، رقم۳۴۴۹۔ صحيح مسلم، رقم ۱۵۵۔مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۱۵۔ صحيح ابن حبان، رقم ۶۸۰۲۔الایمان،ابن منده، رقم ۴۱۳، ۴۱۵، ۴۱۶۔الاسماء والصفات، بیہقی، رقم ۸۹۵۔
۲۔مسند احمد، رقم ۷۶۸۰، ۸۴۳۱۔
۳۔الاسماء والصفات، بیہقی، رقم ۸۹۵۔
۴۔ صحيح مسلم، رقم ۱۵۵۔
ابن أبي حاتم أبو محمد عبد الرحمٰن بن محمد الرازي. (1419هـ). تفسير القرآن العظيم. ط3. تحقيق: أسعد محمد الطيب. الناشر: مكة المكرمة: مكتبة نزار مصطفى الباز.
ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1997م). المسند. ط1. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي وأحمد بن فريد المزيدي. الرياض: دار الوطن.
ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (1409ه). المصنف في الأحاديث والآثار. ط1. تحقيق: كمال يوسف الحوت. الرياض: مكتبة الرشد.
ابن بشران أبو القاسم عبد الملك بن محمد. (1418هـ/1997م). الأمالي. ط1. الرياض: دار الوطن.
ابن الجارود، أبو محمد عبد الله النيسابوري. (1408ه/1988م). المنتقى من السنن المسندة. ط1. تحقيق: عبد الله عمر البارودي. بيروت: مؤسسة الكتاب الثقافية.
ابن الجعد علي بن الجعد بن عبيد الجَوْهَري البغدادي. (1410ه/1990م). المسند. ط1. تحقيق: عامر أحمد حيدر. بيروت: مؤسسة نادر.
ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1414ه/1993م). الصحيح. ط2. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (1396ﻫ). المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين. ط1. تحقيق: محمود إبراهيم زايد. حلب: دار الوعي.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406ﻫ/1986م). تقريب التهذيب. ط1. تحقيق: محمد عوامة. سوريا: دار الرشيد.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404ﻫ/1984م). تهذيب التهذيب. ط1. بيروت: دار الفكر.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1379ه). فتح الباري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار المعرفة.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (2002م). لسان الميزان. ط1. تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة. د.م: دار البشائر الإسلامية.
ابن ماجه أبو عبد الله محمد القزويني. (د.ت). السنن. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي د.م: دار إحياء الكتب العربية.
ابن منده أبو عبد الله محمد بن إسحٰق العبدي. (1406هــ). الإيمان. ط2. تحقيق: د. علي بن محمد بن ناصر الفقيهي، بيروت: مؤسسة الرسالة.
أبو عوانة يعقوب بن إسحٰق الإسفراييني النيسابوري. (1419هـ/1998م). المستخرج. ط1. تحقيق: أيمن بن عارف الدمشقي. بيروت: دار المعرفة.
أبو يعلى أحمد بن علي التميمي الموصلي. المسند. (1404ه/1984م) ط1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.
الآجُري أبو بكر محمد بن الحسين البغدادي. (1420هـ/1999م). الشريعة. ط2. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي. الرياض: دار الوطن.
أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني. (1421هـ/2001م). المسند. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بيروت: مؤسسة الرسالة.
البخاري محمد بن إسمٰعيل أبو عبد الله الجعفي. (1422هـ). الجامع الصحيح. ط1. تحقيق: محمد زهير بن ناصر الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1417هـ). الأسماء والصفات. ط1. تحقيق: أ. د. عبد الرحمٰن عميرة. بيروت: دار الجيل.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين الخراساني. (1424هـ/2003م). السنن الكبرى. ط3. تحقيق: محمد عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.
الترمذي أبو عيسى محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). السنن. ط2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر، ومحمد فؤاد عبد الباقي، وإبراهيم عطوة عوض. مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.
الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري. (1411ه/1990م). المستدرك على الصحيحين. ط1. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا. بيروت: دار الكتب العلمية.
الحميدي أبو بكر عبد الله بن الزبير القرشي الأسدي. (1996م). المسند. ط1. تحقيق وتخريج: حسن سليم أسد الداراني. دمشق: دار السقا.
الخطابي أبو سليمان حمد بن محمد الخطاب البستي. (1351هـ/1932م). معالم السنن. ط1. حلب: المطبعة العلمية.
الخطيب أبو بكر أحمد بن علي البغدادي. (د.ت). الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع. (د.ط). تحقيق: د. محمود الطحان. الرياض: مكتبة المعارف.
الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1405ﻫ/1985م). سير أعلام النبلاء. ط3. تحقيق: مجموعة من المحققين بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط. د.م: مؤسسة الرسالة.
الذهبي شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد. (1413ﻫ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تحقيق: محمد عوامة أحمد محمد نمر الخطيب. جدة: دار القبلة للثقافة الإسلامية-مؤسسة علوم القرآن.
سعيد بن منصور بن شعبة أبو عثمان الجوزجاني. (1403هـ/1982م). السنن. ط1. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. الهند: الدار السلفية.
السيوطي جلال الدين عبد الرحمٰن بن أبي بكر. (1416هـ/1996م). الديباج على صحيح مسلم بن الحجاج. ط1. تحقيق وتعليق: أبو اسحٰق الحويني الأثري. الخبر: دار ابن عفان للنشر والتوزيع.
الشاشي أبو سعيد الهيثم بن كليب البِنْكَثي. (1410ه). المسند. ط1. تحقيق: د. محفوظ الرحمٰن زين الله. المدينة المنورة: مكتبة العلوم والحكم.
الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقيق: طارق بن عوض الله بن محمد، عبد المحسن بن إبراهيم الحسيني. القاهرة: دار الحرمين.
الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (1405ه/1985م). المعجم الصغير. ط1. تحقيق: محمد شكور محمود الحاج أمرير. بيروت: المكتب الإسلامي.
الطبري أبو جعفر محمد بن جرير الآملي. د.ت. تهذيب الآثار وتفصيل الثابت عن رسول الله من الأخبار. د.ط. تحقيق: محمود محمد شاكر. القاهرة: مطبعة المدني.
الطبري أبو جعفر محمد بن جرير الآملي. (1422هـ/2001م). جامع البيان عن تأويل آي القرآن. ط1. تحقيق: الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي. الجيزة: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان.
الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد الأزدي المصري. (1415هـ/1494م). شرح مشكل الآثار. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.
العينى بدر الدين أبو محمد محمود بن أحمد الغيتابى الحنفى. (د.ت). عمدة القاري شرح صحيح البخاري. د.ط. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
القاضى عياض بن موسى أبو الفضل اليحصبي. (1419هـ/1998م). إكمال المعلم بفوائد مسلم. ط1. تحقيق: الدكتور يحيى إسمٰعيل. مصر: دار الوفاء للطباعة والنشر والتوزيع.
الكشميري محمد أنور شاه بن معظم شاه الهندي ثم الديوبندي. (1426هـ/2005م). فيض الباري على صحيح البخاري. ط1. تحقيق: محمد بدر عالم الميرتهي. بيروت: دار الكتب العلمية.
المزي أبو الحجاج يوسف بن الزكي عبدالرحمٰن. (1400ه/1980م). تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق : د. بشار عواد معروف. بيروت: مؤسسة الرسالة.
مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي البصري. (1403هـ). الجامع. ط2. تحقيق: حبيب الرحمٰن الأعظمي. بيروت: توزيع المكتب الإسلامي.
الملا القاري علي بن سلطان محمد أبو الحسن الهروي. (1422هـ/2002م). مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح. ط1. بيروت: دار الفكر.
المناوي زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين القاهري. (1356هـ). فيض القدير شرح الجامع الصغير. ط1. مصر: المكتبة التجارية الكبرى.
موسى شاهين لاشين. (1423هـ/2002م). فتح المنعم شرح صحيح مسلم. ط1. القاهرة: دار الشروق.
النووي يحيى بن شرف أبو زكريا. (1392ه). المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج. ط2. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ