بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اَهٰ٘ؤُلَآءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ ٤٠ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْﵐ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّﵐ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ٤١
اُس دن کو یاد رکھو، جس دن وہ سب کو اکٹھا کرے گا،[72] پھر فرشتوں سے پوچھے گا: کیایہ لوگ تمھاری ہی پرستش کرتے رہے ہیں؟[73] وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے۔[74] اِن کے مقابل میں تو ہی ہمارا کارساز ہے۔[75] یہ درحقیقت ہماری نہیں، بلکہ جنوں کی پرستش کرتے تھے۔[76] اِن میں سے اکثر اُنھی پر ایمان لائے ہوئے تھے۔[77] ۴۰- ۴۱
فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّاﵧ وَنَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ ٤٢
سو (تم نے دیکھ لیا کہ) آج تم میں سے کوئی نہ ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکتا ہے، نہ نقصان۔ ہم اِن ظالموں سے کہیں گے کہ اب اُس آگ کے عذاب کا مزہ چکھو جس کو جھٹلاتے رہے ہو۔ ۴۲
وَاِذَا تُتْلٰي عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَا٘ اِلَّا رَجُلٌ يُّرِيْدُ اَنْ يَّصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَآؤُكُمْﵐ وَقَالُوْا مَا هٰذَا٘ اِلَّا٘ اِفْكٌ مُّفْتَرًيﵧ وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْﶈ اِنْ هٰذَا٘ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ ٤٣ وَمَا٘ اٰتَيْنٰهُمْ مِّنْ كُتُبٍ يَّدْرُسُوْنَهَا وَمَا٘ اَرْسَلْنَا٘ اِلَيْهِمْ قَبْلَكَ مِنْ نَّذِيْرٍ ٤٤ﶠ
(اِن پر افسوس)، اِنھیں جب ہماری کھلی ہوئی آیتیں[78] سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو محض ایک شخص [79] ہے جو چاہتا ہے کہ تم کو اُن چیزوں سے روک دے جنھیں تمھارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن بس ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا۔ (ہرگز نہیں، یہ قطعی حق ہے) اور اِن منکروں نے اِس حق کے بارے میں، جب وہ اِن کے پاس آگیا[80] تو کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔[81] ہم نے اِن کو کتابیں نہیں دی تھیں جنھیں یہ پڑھتے ہوں،(جس طرح بنی اسرائیل کو دیں) اور نہ تم سے پہلے اِن کی طرف کوئی خبردار کرنے والا بھیجا تھا۔ (اِن پر افسوس، اِس پر بھی یہ ناقدری کر رہے ہیں)! ۴۳- ۴۴
وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْﶈ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَا٘ اٰتَيْنٰهُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْﵴ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ ٤٥
اِن سے اگلوں نے بھی اِسی طرح جھٹلا دیا تھا اور یہ تو اُس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے جو ہم نے اُن کو دیا تھا۔[82] مگر جب اُنھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کیسی تھی میری پھٹکار! ۴۵
قُلْ اِنَّمَا٘ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍﵐ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰي وَفُرَادٰي ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْاﵴ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍﵧ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ ٤٦قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْﵧ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِﵐ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ٤٧
اِن سے کہو، میں تمھیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ کہ خدارا، تم دو دو، ایک ایک کرکے اٹھو، [83] پھر غور کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارے ساتھی کو کوئی جنون نہیں ہے۔[84] وہ تو ایک عذاب شدیدسے پہلے تمھیں خبردار کرنے والا ہے۔[85] اِن سے کہو،میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تمھارےہی لیے مانگا ہے۔[86] میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔[87] ۴۶- ۴۷
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَقْذِفُ بِالْحَقِّﵐ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ٤٨ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ٤٩
اِن سے کہہ دو، میرا پروردگار حق کو لازماً باطل پر[88] مارے گا۔[89] وہ سب بھیدوں کاجاننے والا ہے۔[90] کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا،[91] اور (اُسے مٹنا ہی تھا)، حقیقت یہ ہے کہ باطل نہ ابتدا کرتا ہے، نہ اعادہ۔[92] ۴۸- ۴۹
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَا٘ اَضِلُّ عَلٰي نَفْسِيْﵐ وَاِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوْحِيْ٘ اِلَيَّ رَبِّيْﵧ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ ٥٠
کہہ دو کہ اگر میں گم راہی پر ہوں تو میری گم راہی کا وبال مجھی پر ہے اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اُس وحی کی بدولت ہے جو میرا پروردگار میری طرف بھیج رہا ہے۔[93] (مجھے اب جو کچھ کہنا ہے، اُسی سے کہوں گا)۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ سننے والا بھی ہے اور قریب بھی ہے۔ ۵۰
وَلَوْ تَرٰ٘ي اِذْ فَزِعُوْا فَلَا فَوْتَ وَاُخِذُوْا مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ ٥١ﶫ وَّقَالُوْ٘ا اٰمَنَّا بِهٖﵐ وَاَنّٰي لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۣ بَعِيْدٍ ٥٢ﶔ وَّقَدْ كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُﵐ وَيَقْذِفُوْنَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍۣ بَعِيْدٍ ٥٣ وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُﵧ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ ٥٤
اگر تم دیکھ پاتے (تو اِن کی بے بسی دیکھتے،اے پیغمبر[94])،جب یہ گھبرائے ہوئے پھریں گے، پھرکہیں بھاگ نہ سکیں گے، بلکہ قریب ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔ اُس وقت بول اٹھیں گے کہ ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں جس پر ایمان کا مطالبہ ہم سے کیا گیا تھا۔ پر اتنی دور سے اب وہ ایمان کہاں اِن کے ہاتھ آئے گا! اِس سے پہلے یہ اُس کا انکار کر چکے اور دور ہی سے اٹکل کے تیر تکے چلاتے رہے۔[95] اِن کے اور اِن کی آرزوؤں کے درمیان دیوار حائل ہو جائے گی،[96] جیسا اِس سے پہلے اِن کے ہم مشربوں کے ساتھ کیا گیا۔[97] اِس لیے کہ وہ بھی اِسی طرح الجھا دینے والے شک میں پڑے رہے تھے۔ ۵۱- ۵۴
[72]۔ یعنی مشرکین کو بھی اور اُن کو بھی جنھیں وہ معبود بنائے ہوئے تھے۔
[73]۔ یہ سوال اُسی مقصد سے ہو گا جس کے لیے انبیا علیہم السلام کی شہادت کا ذکر قرآن میں ہوا ہے، یعنی فرشتوں کی طرف سے اظہار براء ت اور مشرکین پر اتمام حجت کے لیے۔
[74]۔ یہ شرک کا ذکر سنتے ہی اُس سے نفرت کا اظہار ہے کہ خدا کا کوئی شریک و سہیم کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ایسی چیزوں سے پاک ہے۔ ہم پر یہ تہمت جنھوں نے لگائی ہے، اِس کی ذمہ داری اُنھی پر ہے۔
[75]۔ یہ استغاثے کا جملہ ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ ہمیں ملوث کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو اِن کے مقابل میں اب تو ہی ہمارا حامی و ناصر ہے اور اِن کی تہمت سے ہم تیری ہی مدد سے بری ہو سکتے ہیں۔ اِس لیے کہ تو علام الغیوب ہے، تجھ سے ہماری کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہے۔
[76]۔ یعنی ہمارے بت بنا کر جب یہ اپنے زعم کے مطابق ہماری پرستش کرتے تھے تو درحقیقت جنوں کی پرستش کرتے تھے۔ اِس وجہ سے کہ اِن کے کاہن اور پروہت اُنھی کی مدد اور رضامندی سے شرک اوربت پرستی کا یہ سارا کاروبار چلا رہے تھے۔
[77]۔ یعنی اُنھی کو عالم الغیب اور نافع و ضار سمجھے ہوئے تھے اور اُنھی کے شیاطین اِس پر راضی بھی تھے۔
[78]۔ یعنی واضح، محکم اور دل و دماغ کو روشن کر دینے والی آیتیں۔
[79]۔ یعنی اُسی طرح کا آدمی ہے، جیسے ہم ہیں۔ یہ کوئی فرستادۂ الٰہی نہیں ہے، جیسا کہ دعویٰ کر رہا ہے۔
[80]۔ یعنی جب اُس کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہا۔ اِنھوں نے اُسے نصف النہار پر چمکتے ہوئے سورج کی طرح دیکھ لیا ہے۔ آیت میں ’لِلْحَقِّ‘ کا ’ل‘’فِيْ‘کے مفہوم میں ہے اور اِس کااستعمال اِس مفہوم میں معروف ہے۔
[81]۔ یہ بات وہ اِس لیے کہتے تھے کہ قرآن کی معجزانہ فصاحت و بلاغت اور تاثیر و تسخیر کا انکار تو اُس کے دشمن بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا ایک ہی صورت تھی کہ اُسے جادوبیانی کا کرشمہ قرار دے کر لوگوں کو باور کرایا جائے کہ وہ اُسے آسمان کی کوئی چیز نہ سمجھیں، بلکہ اُسی طرح کی شاعری اور خطابت سمجھ کر سنیں جو اِس سے پہلے وہ اپنے شعرا اور خطبا سے سنتے رہے ہیں۔
[82]۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تنک ظرف توبہت تھوڑے میں بہک گئے ہیں۔اِن سے کہیں زیادہ شان و شوکت، کروفر اور اسباب و و سائل رکھنے والے بھی خدا کی ایک پھونک میں اڑ گئے، اِن کی کیا حقیقت ہے!
[83]۔ اصل میں ’اَنْ تَقُوْمُوْا‘کے الفاظ ہیں۔ یہ ارادے اور اقدام کی تعبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بھیڑ کا ذہن حقائق پر غور کرنے اور اُن کو سمجھنے کا اہل نہیں ہوتا۔لوگ اگر کسی بات کو ضد اور تعصب سے پاک ہو کرسمجھنا چاہتے ہوں تو اُس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ دو دو ، ایک ایک کرکے اِس ارادے سے آئیں کہ کہنے والے کی بات میں اگر معقولیت ہوئی تووہ لازماً اُس پر غور کریں گے۔ اِس لیے کہ یہ ارادہ نہ ہو تو آدمی کسی معاملے پر بھی غیر جانب دار ہو کر غور نہیں کر سکتا۔
[84]۔ یہ جملہ تھوڑی دیر توقف کرکے فرمایا ہے تاکہ مخاطب چاہے تو ذرا سا غور کرکے اگلی بات سنے۔ ساتھی سے مراد یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اِس کے لیے اصل میں ’صَاحِب‘ کا لفظ آیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’لفظ ’صَاحِب‘ یہاں اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس شخص کو تم خبطی اور دیوانہ قرار دے رہے ہو، اُس سے تمھیں کوئی نیا نیا سابقہ پیش نہیں آیا ہے، بلکہ یہ تمھارے ہی اندر پیدا ہوا، تمھارے ہی سامنے پلا اور بڑھا اور تمھارے ہی آگے یہ اپنی اِس عمر کو پہنچا۔ اِس پورے زمانے میں تم نے دیکھا کہ یہ تمھارے ہر خیر میں شریک اور تمھارے ہر شر سے مجتنب رہا ہے۔ تم نے ہر آزمایش میں اِس کو صادق اور امین پایا۔ اِس کی سوجھ بوجھ اور اِس کی عقل و بصیرت پر تم نے اعتماد کیا اور اِس کو اپنے اندر سب سے بڑا عاقل و فرزانہ مانتے رہے، لیکن آج اُسی فرزانہ کو دیوانہ قرار دے رہے ہو! غور کرو، دیوانہ وہ ہے یا تم!‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۳۷)
[85]۔ یعنی تمھاری طرف سے نا قدری، دل آزاری اور ستم رانی کے باوجود اِس کے اندر اپنی دعوت کے لیے جو اضطراب اور بے قراری تم دیکھ رہے ہو، اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اِسے کوئی جنون لاحق ہو گیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ خدا کا جو عذاب تمھارے سروں پر منڈلا رہا ہے، یہ اُس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ایک رسول کو اپنی قوم پر آنے والے عذاب کا نظر آنا کوئی مجاز نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے۔ رسول اپنی قوم کے لیے رحمت کی گھٹا بن کر آتا ہے، لیکن اِس رحمت کی گھٹا کے اندر ہی اُس کی قوم کے لیے صاعقۂ عذاب بھی پوشیدہ ہوتا ہے، اگر قوم اُس کی تکذیب کر دیتی ہے۔ یہی عذاب آخرت کے عذاب کا دیباچہ ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے ہر رسول نے اپنی قوم کو اِن دونوں عذابوں سے ڈرایا ہے اور اِس یقین کے ساتھ ڈرایا ہے کہ گویا وہ اپنی دونوں آنکھوں سے اُس عذاب کو دیکھ رہا ہو۔ لیکن عقل کے اندھوں نے اُس کے اِس یقین کو جنون پر محمول کیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر ’واصباحا‘ کا جو نعرہ لگایا ،وہ اِسی یقین کا مظاہرہ تھا ،لیکن قریش کے لیڈروں نے اُس سے متنبہ ہو نے کے بجاے اُس کا مذاق اڑایا۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۳۳۸)
[86]۔ یعنی اپنے لیے کچھ نہیں مانگا۔ اگر کچھ مانگا ہے تو تمھارے لیے مانگا ہے کہ تم میں سے جو خدا کی راہ پر چلنے کی خواہش رکھتا ہو، وہ میرے پاس آئے اور پوری توجہ کے ساتھ میری بات سنے تاکہ میں اُسے یہ راہ دکھادوں۔
[87]۔ یعنی اِس پربھی گواہ ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کس بے غرضی کے ساتھ کر رہا ہوں اور اِس پر بھی کہ تم کس بے پروائی کے ساتھ میری بات رد کر رہے ہو، دراں حالیکہ وہ تمھارے ہی بھلے کی بات ہے۔
[88]۔ یہ الفاظ بربناے قرینہ اصل میں محذوف ہیں۔سورۂ انبیاء (۲۱) کی آیت ۱۸ میں اِس کی وضاحت کر دی ہے۔
[89]۔یعنی یہاں بھی مارے گا،اِس لیے کہ رسول نے تم پر حجت پوری کر دی ہے اور آخرت میں بھی، جہاں وہ عدالت کبریٰ قائم ہوگی جس کی منادی اللہ کے پیغمبر کرتے رہے ہیں۔
[90]۔ اِس لیے کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جب یہ عدالت قائم ہو گی تو اُسے فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش آئے گی۔
[91]۔ یہ الفاظ بھی بر بناے قرینہ اصل میں محذوف ہیں۔ آگے اِس کی وضاحت ہوگئی ہے۔
[92]۔ یعنی نہ خلق کی ابتدا میں باطل کا کوئی حصہ ہے اور نہ اُس وقت ہو گا، جب اُس کا اعادہ کیا جائے گا۔
[93]۔ چنانچہ سوچ لو کہ اگر یہی دوسری بات ہے تو تم وحی الٰہی کے جھٹلانے والے ٹھیرتے ہو اور تمھیں معلوم ہی ہے کہ وحی الٰہی کے جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا کرتا ہے۔
[94]۔ یہ جواب شرط ہے اور جس طرح پیچھے آیت ۳۱ میں محذوف ہے، اُسی طرح یہاں بھی حذف کر دیا گیا ہے۔
[95]۔ یعنی کبھی یہ کہا کہ پیغمبر کا دعویٰ محض افترا ہے، عذاب کی دھمکی محض دھونس ہے، قیامت کا ڈراوا محض خلل دماغ کا نتیجہ ہے اور کبھی پیغمبر کو برخود غلط کہا اور اُس کے دعویٰ نبوت کو افترا قرار دے کر فارغ ہو گئے۔ غرض یہ کہ بے سوچے سمجھے جو منہ میں آیا، کہہ دیا۔
[96]۔ یعنی کوئی آرزو بر نہ آئے گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... وہ ایمان لانا چاہیں گے، لیکن اُن کا یہ چاہنا بے سود ہو گا۔ وہ مہلت کی درخواست کریں گے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو گی۔ وہ اپنے شریکوں کو پکاریں گے، لیکن اُن کی طرف سے بھی کوئی فریاد رسی نہیں ہو گی۔ غرض، امید کے تمام دروازے اُن پر بند ہو جائیں گے اور ایک ابدی مایوسی سے اُن کو سابقہ پیش آئے گا۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۴۳)
[97]۔ یہ عاد و ثمود، قوم فرعون اور اہل مدین وغیرہ کی طرف اشارہ ہے جن کی سرگذشتیں قرآن میں سنائی گئی ہیں۔ آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ قیامت کی عدالت میں قوموں کے فیصلے ایک ترتیب کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی جو پہلے ہوئے، اُن کا فیصلہ پہلے اور جو بعد میں ہوئے، اُن کا فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ