HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

حج و عمرہ کی تاریخ

حج وعمرہ کی تاریخ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اُس منادی سے شروع ہوتی ہے جس کا ذکر ہم اوپر جگہ جگہ کر چکے ہیں۔ اِس کے بعد یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی عرب کے لوگ ہر جگہ سے گروہ در گروہ حج و عمرہ کے لیے آتے تھے اور آپ کی بعثت کے بعد بھی یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہا۔ قرآن نے ایک جگہ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا.(آل عمران ۳: ۹۷)
’’اور جو لوگ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اُن پراللہ کے لیے اِس گھر کا حج ہمیشہ فرض رہا ہے ۔‘‘

اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کے مناسک اور رسوم و آداب میں بعض بدعتیں اِن لوگوں نے داخل کردی تھیں، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِنھی میں سے بعض لوگ اِن بدعتوں پرپوری طرح متنبہ بھی تھے اور اپنا حج ابراہیمی طریقے کے مطابق ہی کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ بعثت سے پہلے جبیر بن مطعم نے آپ کو عرفات میں دیکھا تو اُسے حیرت ہوئی کہ قریش کے لوگ تو مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے اور بنی ہاشم کا یہ فرزند وقوف عرفہ کے لیے یہاں حاضر ہے۔ اُس کا بیان ہے:

أضللت بعیرًا لي، فذھبت أطلبه یوم عرفة، فرأیت النبي واقفًا بعرفة، فقلت: ھٰذا، واللّٰه، من الحمس، فما شأنه ھاھنا؟(بخاری،رقم۱۶۶۴)
’’میرا اونٹ کھو گیا۔ عرفہ کے دن میں اُسے تلاش کرتا ہوا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔[1]  میں نے خیال کیا: بخدا یہ تو قریش میں سے ہیں، پھر یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟‘‘

اِس سے واضح ہے کہ قرآن نے جب حج کا حکم دیا تو اُس کے مخاطبین کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ دین میں اِس کی اہمیت اور اِس کے رسوم وآداب سے پوری طرح واقف تھے اور ہر سال نہایت اہتمام کے ساتھ اِس کے لیے حاضر ہوتے اور اِس کے مناسک ادا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن نے اِس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ اِن کی بدعتوں اور انحرافات کو ختم کرکے حج و عمرہ، دونوں کو اُن کے اصل ابراہیمی طریقے پربحال کردیا۔ یہ اِس عظیم عبادت کی تاریخ کا آخری باب ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے رقم ہوا ہے۔ اِس کے بعد اب اِس کے تمام مناسک مسلمانوں کے اجماع اور تواتر عملی سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہورہے ہیں، اِن میں کسی نوعیت کا کوئی ترمیم وتغیر یا اضافہ نہیں ہوا۔ قرآن نے جو اصلاحات، البتہ اُس وقت کی تھیں اوراب قرآن کی آیات میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردی گئی ہیں، وہ ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں:

۱۔بیت الحرام کے متولی ہونے کی وجہ سے قریش اپنا یہ حق سمجھتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں حج وعمرہ کے لیے حرم میں آنے دیں اور جس کو چاہیں، اُس کی حاضری سے محروم کردیں۔ قرآن نے اِسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور واضح کیا کہ یہ کسی خاندان کا اجارہ نہیں ہے۔ ہر شخص جو اللہ کی عبادت اور حج وعمرہ کے لیے اِس گھر کا قصدکرے، وہ قریشی ہویا غیر قریشی، عربی ہو یا عجمی، شرقی ہو یا غربی ، اُس پر کسی کو کوئی پابندی عائد کرنے کا حق نہیں ہے۔مقیم اورآفاقی، سب کے حقوق اِس میں بالکل برابر ہیں۔ قریش کی حیثیت اِس کے حکمرانوں اور اجارہ داروں کی نہیں ہے، بلکہ اِس کے پاسبانوں اور خدمت گزاروں کی ہے۔ اُن کا فرض ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی طرح وہ بھی اِسے تمام دنیا کے لیے عبادت کا مرکز بنائیں اور تمام انسانوں کو دعوت دیں کہ اِس کی برکتوں سے بہرہ یاب ہونے کے لیے اِس آستا نۂ الٰہی پرحاضر ہوں:

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِيْ جَعَلْنٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءَ اِۨلْعَاكِفُ فِيْهِ وَالْبَادِ، وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۣ بِظُلْمٍ، نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ.(الحج ۲۲: ۲۵)  
’’یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے (خدا کے پیغمبر کو) ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اب وہ خدا کی راہ سے روک رہے ہیں اور مسجد حرام سے بھی جسے ہم نے لوگوں کے لیے یکساں بنایا ہے، خواہ وہ وہاں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے، اُنھوں نے بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ (اِس لیے کہ اِس مسجد کا معاملہ تو یہ ہے کہ) جو اِس میں کسی انحراف ، کسی ظلم کے ارتکاب کا ارادہ کرے گا، اُس کو ہم دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘

۲۔شرک کی غلاظت توحید کے اِس سب سے بڑے اور قدیم ترین مرکز میں بھی داخل کردی گئی تھی۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ ابراہیم واسمٰعیل کو جب اِس گھرکی تولیت عطا ہوئی اوراُنھیں یہاں آباد ہونے کے لیے کہا گیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے پہلی ہدایت یہ فرمائی تھی کہ اِس طرح کی غلاظتوں سے اِس گھر کو بالکل پاک رکھا جائے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قریش کو بھی یہی کرنا چاہیے ، ورنہ یہ عظیم امانت اُن سے چھین کراِ س کے اصل حق داروں کے سپرد کر دی جائے گی:

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـًٔا، وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآئِفِيْنَ وَالْقَآئِمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ.(الحج۲۲: ۲۶)
’’اِنھیں یاد دلاؤ، جب ہم نے ابراہیم کے لیے اِس گھر کی جگہ کو ٹھکانا بنایا تھا، اِس ہدایت کے ساتھ کہ کسی چیز کو میرا شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھنا۔‘‘

۳۔ رجب کا مہینا عمرے کے لیے اور ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم کے مہینے حج کے لیے ہمیشہ حرام رہے ہیں۔ مشرکین عرب جنگ و جدل ، غارت گری اور خون کا انتقام لینے کی خاطر جب چاہتے، اِن میں سے کسی مہینے کو حلال اور کسی کو حرام قرار دے لیتے تھے ۔ اِسی طرح قمری سال کو بھی شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبیسہ کا ایک مہینا بڑھا دیتے تھے تاکہ حج ایک ہی موسم میں آتا رہے ۔ اصطلاح میں اِسے ’نسی‘ کہا جاتا ہے ۔ قرآن نے اِس کو کفر میں ایک اور اضافہ کہا اوراعلان کردیا کہ یہ طریقہ بالکل باطل ہے ، اِسے اب ختم ہو جانا چاہیے:

اِنَّمَا النَّسِيْٓءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا، يُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِـُٔوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ، زُيِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْ، وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ.(التوبہ ۹: ۳۷)
’’حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کا ہٹا دینا اِن کے کفر ہی میں ایک اضافہ ہے جس سے یہ منکرین گم راہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ کسی سال یہ حرام مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام ٹھیراتے ہیں تاکہ خدا کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی گنتی پوری کرکے خدا کے حرام کیے ہوئے کو (اپنے لیے) حلال بنا لیں۔ اِن کے برے اعمال اِن کے لیے خوش نما بنا دیے گئے ہیں۔ اللہ کا فیصلہ ہے کہ اِس طرح کے منکر لوگوں کو وہ راہ یاب نہیں کرے گا۔‘‘

۴۔ اپنے بتوں کے تعلق سے بعض جانور قریش نے حرام قرار دے رکھے تھے،[2]چنانچہ وہ اُن کی قربانی بھی نہیں کرتے تھے۔ اِسی طرح اِس گھرسے متعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی مقدس روایات بھی اپنے دنیوی مفادات کی خاطر اُنھوں نے بڑی حد تک بدل ڈالی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس پر اُنھیں تنبیہ کی اوربتایا کہ جانور وہی حرام ہیں جن کی وضاحت قرآن میں کردی گئی ہے، اِس لیے اِس ’إفتراء علي اللّٰه‘ سے بچو اور اللہ کی قائم کردہ تمام حرمتوں کی تعظیم بجا لاؤ۔ یہی تمھارے حق میں بہتر ہے:

ذٰلِكَ، وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ، وَاُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ، فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ، حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ، وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ، فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ. ذٰلِكَ، وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ.(الحج۲۲: ۳۰- ۳۲)
’’یہ باتیں ہیں (جو ابراہیم کو بتائی گئی تھیں۔ اِن کو اچھی طرح سمجھ لو) او ر(یاد رکھو کہ) جو اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں کی تعظیم کرے گا تو اُس کے پروردگار کے نزدیک یہ اُس کے حق میں بہتر ہے ۔ اور (یہ بھی کہ جانوروں کے بارے میں اِن مشرکین کے توہمات بالکل بے بنیاد ہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے چوپایے حلال ٹھیرائے گئے ہیں، سواے اُن کے جو تمھیں (قرآن میں) بتائے جا رہے ہیں۔ سوبتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بھی (جو اُن کے حوالے سے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام ٹھیرا کر اللہ پر باندھتے ہو) اور اُس کے شعائر کی تعظیم کرو، اللہ کی طرف یک سو ہو کر، کسی کو اُس کا شریک کرکے نہیں۔ اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے شریک ٹھیراتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑاہے۔ اب پرندے اُس کو اچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو کسی دور دراز جگہ پر لے جا کر پھینک دے گی۔یہ باتیں ہیں، (اِنھیں اچھی طرح سمجھ لو) اور (یاد رکھو کہ)جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ دلوں کی پرہیزگاری میں داخل ہے۔‘‘

۵۔ قربانی کے جانوروں سے کوئی فائدہ اٹھانا بالعموم ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اِس مقصد کے لیے خاص کردینے کے بعد لوگ نہ اُن کا دودھ استعمال کرتے تھے اورنہ اُن سے باربرداری کا کوئی کام لیتے تھے۔[3]  قرآن نے وضاحت فرمائی کہ اِن شعائر کی تعظیم کے لیے یہ چیز ضروری نہیں ہے۔ قربانی کا وقت آجانے تک اِن جانوروں سے ہر طرح کا فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے:

لَكُمْ فِيْهَا مَنَافِعُ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي، ثُمَّ مَحِلُّهَا٘ اِلَي الْبَيْتِ الْعَتِيْقِ.(الحج ۲۲: ۳۳)
’’ اِن میں تمھارے لیے ایک مقرر وقت تک طرح طرح کی منفعتیں ہیں، پھر اِن کو (قربانی کے لیے) خدا کے اُسی قدیم گھر کی طرف لے جانا ہے۔‘‘

۶۔ عرب میں یہود بھی تھے اور ایک کم زور روایت کی بنا پر اُنھوں نے اونٹ کو حرام قرار دے رکھا تھا۔[4] اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ محض واہمہ ہے، لہٰذا اونٹ کی قربانی بھی بغیر کسی تردد کے کی جائے گی۔ بلکہ عربوں کو یہ جانور چونکہ نہایت عزیز ہے، لہٰذاوہ اگر اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے اِس کی قربانی کریں گے تو اُن کے لیے یقیناً یہ اللہ کے تقرب کابہت بڑا ذریعہ ہوگی:

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ، لَكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ، فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ، فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ، كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.(الحج۲۲: ۳۶)
’’اونٹوں کو ہم نے تمھارے لیے شعائر الٰہی میں شامل کیا ہے۔ اُن میں تمھارے لیے بڑے خیر ہیں۔ سواُن کوصف بستہ کرکے اُن پر بھی اللہ کا نام لو۔ پھر جب (قربانی کے بعد) وہ اپنے پہلوؤں پر گر پڑیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو (محتاج ہیں، مگر) قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو بے قرار ہو کر مانگنے کے لیے آجائیں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِسی طرح تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘

۷۔قربانی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھاکہ اللہ تعالیٰ اُس کے گوشت اور خون سے محظوظ ہوتا ہے۔ قرآن نے متنبہ کیا کہ یہ محض حماقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن چیزوں سے نہیں، بلکہ اُس تقویٰ سے محظوظ ہوتا ہے جو اِن قربانیوں سے اُن کے پیش کرنے والوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے:

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا، وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ، كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ، وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ.(الحج۲۲: ۳۷)
’’اللہ کو نہ اِن کا گوشت پہنچتا ہے نہ اِن کا خون، بلکہ اُس کو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اِسی طرح اللہ نے اُن کو تمھارے لیے مسخر کر دیا ہے تاکہ اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے ، اُس پر تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ (یہی طریقہ ہے اُن کا جو خوبی کا رویہ اختیار کریں) اور (اے پیغمبر) ، اُن لوگوں کو بشارت دو جو خوبی کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں۔‘‘

۸۔ مروہ سیدنااسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ ہے۔ یہود چونکہ اِس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، اِس لیے صفا ومروہ کے طواف کے بارے میں بھی طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے رہتے تھے۔ قرآن نے اِس کتمان حق پر اُنھیں تنبیہ کی اور صاف واضح کردیاکہ یہ دونوں پہاڑیاں اللہ کے شعائر میں سے ہیں اوراِن کا طواف ایک نیکی کا کام ہے۔ کسی مسلمان کو اِس معاملے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے :

اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا، وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيْمٌ، اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَا٘ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰي مِنْۣ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ، اُولٰٓئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۵۸- ۱۵۹)

’’صفا اور مروہ یقیناً اللہ کے شعائر میں سے ہیں ۔ چنانچہ وہ لوگ جو اِس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں ، اُن پر کوئی حرج نہیں کہ وہ اِن دونوں میں طواف بھی کر لیں، (بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے) اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا تو اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے ، اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (اِس معاملے میں) جو حقائق ہم نے نازل کیے اور جو ہدایت بھیجی تھی، اُسے جو لوگ چھپاتے ہیں، اِس کے باوجود کہ اِن لوگوں کے لیے اپنی کتاب میں ہم نے اُسے کھول کھول کر بیان کر دیا تھا، یقیناً وہی ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی جن پر لعنت کریں گے۔‘‘

۹۔ حج کے سلسلے میں ایک بدعت یہ بھی ایجاد کرلی گئی تھی کہ حج سے واپسی پراور احرام کی حالت میں لوگ اپنے گھروں میں اُن کے دروازوں سے نہیں، بلکہ پیچھے سے داخل ہوتے تھے۔[5] اِس عجیب و غریب حرکت کا محرک غالباًیہ وہم تھا کہ جن دروازوں سے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں، پاک ہو جانے کے بعد بھی اُنھی سے گھروں میں داخل ہونا اب خلاف تقویٰ ہے۔ قرآن نے اِس احمقانہ حرکت سے روکا اورفرمایا کہ یہ ہرگز کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اِس لیے اب اِس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے : 

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا، وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰي، وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۹)
’’اور یہ ہرگز کوئی نیکی نہیں ہے کہ (احرام کی حالت میں اور حج سے واپسی پر) تم گھروں کے پیچھے سے داخل ہوتے ہو۔بلکہ نیکی تو اصل میں اُس کی ہے جو تقویٰ اختیار کرے۔ اِس لیے اب گھروں میں اُن کے دروازوں ہی سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔‘‘

۱۰۔ زمانۂ جاہلیت میں حج نے عبادت سے زیادہ ایک نیم مذہبی میلے کی صورت اختیار کرلی تھی۔ چنانچہ لوگ اُس کے لیے ہر طرح کا اہتمام کرتے، لیکن اِس بات کو بہت کم اہمیت دیتے تھے کہ اِس سفرمیں اصل زادراہ تقویٰ کا زاد راہ ہے اور وہ حج کے لیے نکلے ہیں تو اُنھیں اب کوئی شہوت یا نافرمانی یا لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اِس عظیم عبادت کی روح کے منافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ اِس سفر کے لیے آدمی کوسب سے زیادہ اِسی تقویٰ کے زاد راہ کا اہتمام کرنا چاہیے :

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ يَّعْلَمْهُ اللّٰهُ، وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰي وَاتَّقُوْنِ، يٰ٘اُولِي الْاَلْبَابِ.(البقرہ ۲: ۱۹۷)
’’حج کے متعین مہینے ہیں۔ سو اِن میں جو شخص بھی (احرام باندھ کر)حج کا ارادہ کر لے ، اُسے پھر حج کے اِس زمانے میں نہ کوئی شہوت کی بات کرنی ہے، نہ خدا کی نافرمانی کی اور نہ لڑائی جھگڑے کی کوئی بات اُس سے سرزد ہونی چاہیے ۔ اور (یاد رہے کہ) جو نیکی بھی تم کرو گے ، اللہ اُسے جانتا ہے۔  اور (حج کے اِس سفر میں تقویٰ کا) زاد راہ لے کر نکلو، اِس لیے کہ بہترین زاد راہ یہی تقویٰ کا زاد راہ ہے ۔ اور اِس کے لیے، عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘

۱۱۔ حج کے بارے میں اِسی غفلت کا نتیجہ تھا کہ لوگ مزدلفہ پہنچتے تووہاں تسبیح وتہلیل اور ذکر و عبادت کے بجاے بیع وشرا، تجارت اور اِس طرح کے دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ قرآن نے بتایا کہ اِس میں تو کوئی مضایقہ نہیں کہ حج کے ساتھ آدمی بیع وشرا کی نوعیت کا کوئی کام کرلے، لیکن حج کے مقامات اِن چیزوں کی جگہ نہیں ہیں، علم ومعرفت کی یہ جلوہ گاہیں تو صرف اللہ کی یاد کے لیے خاص رہنی چاہییں:

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ، فَاِذَا٘ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ، وَاِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّيْنَ. (البقرہ ۲: ۱۹۸)
’’ (اِس کے ساتھ، البتہ) تم پر کوئی حرج نہیں کہ اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو، لیکن (یاد رہے کہ مزدلفہ کوئی کھیل تماشے اور تجارت کی جگہ نہیں ہے ، اِس لیے) جب عرفات سے چلو تو مشعر حرام کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اُس کو اُسی طرح یاد کرو، جس طرح اُس نے تمھیں ہدایت فرمائی ہے۔ اور اِس سے پہلے تو، بلاشبہ تم لوگ گم راہوں میں تھے۔‘‘

۱۲۔ قریش نے اپنے لیے یہ امتیاز قائم کرلیا تھاکہ مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ بیت اللہ کے پروہت اورمجاور ہیں، لہٰذا اُن کے لیے حدودحرم سے باہر نکلنا مناسب نہیں ہے۔[6] اللہ تعالیٰ نے یہ توجیہ قبول نہیں کی اورحکم دیا کہ اُنھیں بھی عرفات میں اُسی طرح حاضر ہونا چاہیے، جس طرح دوسرے سب لوگ ہوتے ہیں:

ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ، اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(البقرہ  ۲: ۱۹۹)
’’پھر (یہ بھی ضروری ہے کہ) جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں، تم بھی، (قریش کے لوگو)، وہیں سے پلٹو اور اللہ سے مغفرت چاہو ۔ یقیناً اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

۱۳۔ منٰی کے ایام بھی زیادہ تر قصیدہ خوانی، داستان گوئی اور مفاخرت کی مجلسوں میں گزرتے تھے۔[7] پھر یہی نہیں، بعض لوگ حج جیسی عظیم عبادت کو بھی اپنے دنیوی مفادات کے حوالے ہی سے دیکھتے تھے اوراِس موقع پر بھی اللہ سے اگر کچھ مانگتے تو اِسی دنیا کے لیے مانگتے تھے۔ قرآن نے اِس پرتنبیہ کی اورفرمایا کہ اِس طرح کے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا:

فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ: رَبَّنَا٘ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ. وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ: رَبَّنَا٘ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ، اُولٰٓئِكَ لَهُمْ نَصِيْبٌ مِّمَّا كَسَبُوْا، وَاللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ.(البقرہ  ۲: ۲۰۰- ۲۰۲) 
’’(اور یہ بھی کہ) اِس کے بعد جب اپنے حج کے مناسک پورے کر لو تو جس طرح پہلے اپنے باپ دادا کو یاد کرتے رہے ہو ، اُسی طرح اب اللہ کو یاد کرو، بلکہ اُس سے بھی زیادہ ۔ (یہ اللہ سے مانگنے کا موقع ہے ) ، مگر لوگوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ (اِس موقع پر بھی) یہی کہتے ہیں کہ پروردگار ، ہمیں(جو کچھ دینا ہے، اِسی) دنیا میں دے دے ، اور (اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر) آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔ اور اُن میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ پروردگار، ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔ یہی ہیں جو اپنی کمائی کا حصہ پا لیں گے ، اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی ۔‘‘

۱۴۔ اِس سلسلہ کی بدترین چیز عریاں طواف کی بدعت تھی۔ بیت اللہ میں اِس غرض سے لکڑی کا ایک تختہ رکھا ہوا تھا جس پر لوگ کپڑے اتار اتار کر رکھ دیتے تھے۔ پھر صرف قریش کی فیاضی ہی اُن کی ستر پوشی کرتی تھی۔ اُن کے مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑے مستعار دیتی تھیں،لیکن جو لوگ محروم رہ جاتے تھے، وہ برہنہ طواف کرتے اوراِسی کو نیکی سمجھتے تھے۔[8] قرآن نے اِسے ممنوع قرار دیا اورفرمایا کہ عبادت کی ہر جگہ پر آدمی کو ستر چھپا کر اور پورا لباس پہن کر جانا چاہیے:

يٰبَنِيْ٘ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ. (الاعراف ۷: ۳۱)
’’ آدم کے بیٹو، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنی زینت کے ساتھ آؤ۔‘‘

(میزان  ۳۷۶- ۳۸۴)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ یہ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے، لیکن اِس کو چونکہ جبیر بن مطعم نے مسلمان ہونے کے بعد بیان کیا ہے، اِس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اِس میں اِس طریقے سے ہوا ہے۔

[2]۔ الانعام ۶: ۱۳۸- ۱۵۰۔

[3]۔ بخاری، رقم ۱۶۸۹۔ مسلم، رقم ۳۲۰۸۔ جامع البیان، الطبری ۱۷/ ۱۸۵۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر ۳/ ۲۲۰۔

[4]۔ استثنا ۱۴: ۷۔

[5]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۶/ ۳۷۱۔

[6]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۸۲۔

[7]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۹۰۔

[8]۔ المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی۶/ ۳۵۹۔

B