HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۰)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت سلمہ بن ہشام رضی اللہ عنہ

قبیلہ اور کنبہ

حضرت سلمہ بن ہشام نے مكہ میں قریش كی شاخ بنو مخزوم میں جنم لیا۔ مغیرہ بن عبدالله دادا اور عمر بن مخزوم سكڑ دادا تھے۔ تمام حالات نویسوں نے ان كی والده كا نام حضرت ضباعہ بنت عامرلكھا ہے، جب كہ ابن حبان نے ضبابہ بتایا(كتاب الثقات۳/ ۱۶۴)۔ ابو ہاشم حضرت سلمہ كی كنیت تھی۔

ابو جہل بن ہشام، عاص بن ہشام،حضرت حارث بن ہشام اور خالد بن ہشام ان كےسوتیلے بھائی، حضرت خالد بن ولید اور حضرت ولید بن ولیدچچازاد تھے۔ ابوجہل اور عاص نے جنگ بدر میں مشركین مكہ كی فوج میں شامل ہو كر قتال كیا اور جہنم واصل ہوئے، خالدغزوۂ فرقان میں مسلمانوں كی قید میں آیا،فدیہ دے كر چھوٹا اور حالت كفر میں مر ا۔حضرت سلمہ اور حضرت حارث نے اسلام قبول كیا اور مخلص اہل ایمان میں شمار ہوئے۔

حضرت ضباعہ بنت عامرعرب كی انتہائی حسین عورتوں میں سےتھیں۔ زمانۂ جاہلیت میں بكر بن وائل كے شاعر اور خطیب ہوذه بن حنفی كے عقد میں تھیں۔اس كے بعدبنو تیم كے سردار عبدالله بن جدعان سے نكاح كیا،كوئی اولاد نہ ہوئی تو طلاق لے كر ہشام بن مغیرہ سے بیاه كیا۔ان سے حضرت سلمہ كی ولادت ہوئی۔ حضرت ضباعہ نے ۱۰ھ میں وفات پائی۔

قبول اسلام

مكہ میں اسلام كی روشنی پھیلی توحضرت سلمہ بن ہشام اس سے مستفید ہونے والے پہلے اصحاب میں شامل تھے۔ ان كی والده بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔

ہجرت حبشہ

حضرت ولید بن ولید نےاسلام قبول كیا تو بنو مخزوم كے كچھ لوگ ان كے بھائی ہشام بن ولید كے پاس گئے اور كہا:ہمارے قبیلے كے سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور ولید بن ولید اپنے دین سے پھرگئے ہیں۔ہم انھیں گرفتار كر كے سزا دینا چاہتے ہیں تاكہ دوسرے نوجوانوں كی سركشی سے مامون ہو جائیں۔ہشام نے كہا :اگر تم نے میرے بھائی كو قتل كیاتو میں تمھارے سردار كوجان سے ما رڈالوں گا۔تب وه ہشام كو برا بھلا كہتے ہوئے واپس چلے آئے۔

ان حالات میں كہ جب كئی كم زور مسلمان مشركین كی ایذاؤں كا شكار تھے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو حبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت فرمائی۔حضرت سلمہ بن ہشام حضرت جعفر بن ابوطالب كے قافلہ ٔ ہجرت میں شامل ہوئے۔بنو مخزوم كے حضرت شماس بن عثمان،حضرت ہبار بن سفیان،حضرت عبد الله بن سفیان، حضرت ہشام بن ابوحذیفہ اور حضرت عیاش بن ابو ربیعہ حبشہ كی اس ہجرت ثانیہ میں ان كے ہم سفر تھے۔

حبشہ سے مراجعت

شوال ۵/؍نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی غلط خبرحبشہ میں موجود اصحاب تک پہنچی تو کچھ نے یہ کہہ کر مکہ كا رخ كیا کہ ہمارے کنبے ہی ہمیں زیادہ محبوب ہیں۔مکہ پہنچنے سے پہلے ہی ان کومعلوم ہو گیا کہ جوخبر انھیں سنائی گئی، جھوٹ تھی تو ان میں سے اکثرحبشہ لوٹ گئے۔ابن ہشام نے مکہ میں داخل ہونے والے اصحاب كی گنتی تینتیس بتائی ہے، حالاں كہ انھی كی مرتبہ فہرست كا شمار اڑتیس بنتا ہے۔ بنومخزوم كے حضرت ابوسلمہ بن عبد الاسد نے اپنے ماموں ابوطالب بن عبدالمطلب كی پناه لی،حضرت شماس كفار كی دست برد سے محفوظ رہے، جب كہ حضرت سلمہ بن ہشام كو ان كے بھائی ابوجہل نے قید كر لیا،مارا پیٹا اور بھوكا پیاسا ركھا۔

مكہ كے محبوسین كے لیے دعاے قنوت

مكہ میں حضرت سلمہ بن ہشام،حضرت ولید بن ولید، حضرت عیاش بن ابوربیعہ اور دیگر مستضعفین اپنے رشتہ داروں كے ظلم و ستم اور قید و بند كا شكار تھے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں فجر اور عشا كی نماز وں میں ان كے لیے خصوصی دعاے قنوت فرماتے۔

حضرت ابو ہریره روایت كرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نماز كی آخری ركعت میں،ركوع سے سر اٹھاتے ہوئے ’سمع الله لمن حمده‘ كہتے، پھر حالت قیام میں كچھ اصحاب كا نام لے كر دعا فرماتے: ’اللهم انج الولید بن الولید وسلمة بن هشام وعیاش بن أبي ربیعة والمستضعفین من المومنین، اللهم اشدد وطأتك علی مضر، اللهم اجعلها علیهم سنین كسنی یوسف‘، ’’اے اللہ، ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور کم زور اہل ایمان کو مشرکوں سے رہائی دے۔اے اللہ،مضرکے کافروں کو خوب پیس ڈال۔یا اللہ، یوسف کے قحط کے سالوں کی طرح ان کے ایام و سال سخت کر دے‘‘ (بخاری، رقم ۸۰۴۔مسلم، رقم ۱۴۸۵۔نسائی، رقم ۱۰۷۵۔ابن ماجہ، رقم ۱۲۴۴۔ احمد، رقم ۷۴۶۵  )۔

آپ نے ۱۵/ رمضان سے آخر رمضان تک (ایك ماه،مسلم، رقم ۱۴۸۷۔ ابوداؤد، رقم ۱۴۴۲) مسلسل یہ دعا مانگی اورعید کی صبح چھوڑ دی (مسلم ، رقم  ۱۴۸۵۔نسائی، رقم ۱۰۷۴۔ ابن ماجہ، رقم ۱۲۴۴۔ احمد، رقم ۷۲۶۰، ۷۶۶۹۔ صحیح ابن حبان، رقم ۱۹۶۹)۔مصنف عبدالرزاق، رقم ۴۰۲۸میں نماز فجر، احمد، رقم ۹۲۸۵میں نما ز ظہر اور بخاری ، رقم ۴۵۹۸، ۶۳۹۳۔ ابوداؤد، رقم ۱۴۴۲۔احمد، رقم ۱۰۰۷۲۔صحیح ابن حبان، رقم ۱۹۸۶ میں نماز عشا كے آخر میں یہ دعا مانگنے كا ذكر ہے۔شعیب الارنؤوط نے’ نماز ظہر كے بعد ‘والے حصے كو ضعیف قرار دیا ہے۔ ابن سعدكی ایك روایت كے مطابق آپ نے ہر نماز كے بعد یہ دعا مانگی۔آپ وقتاً فوقتاً یہ دعا مانگتے رہے، تاآنکہ حضرت ولید بن ولید، حضرت سلمہ بن ہشام اور حضرت عیاش بن ابو ربیعہ کفار کی قید سے چھوٹ گئے۔ حضرت ابوہریرہ بتاتے ہیں :ایك روز آپ نے یہ دعانہ مانگی۔ میں نے اس كا سبب پوچھا تو فرمایا :كیا تمھیں معلوم نہیں كہ وه آ چكے ہیں (ابوداؤد، رقم ۱۴۴۲۔ صحیح ابن حبان، رقم ۱۹۸۶)۔

رہائی كے بعد مدینہ كا سفر

حضرت سلمہ كے بھائی ابوجہل اور عاص بن ہشام غزوهٔ بدر میں جہنم رسید ہوئے،اس كے باوجود انھیں اپنے بھائیوں كی قید سے رہائی نہ مل سكی۔ جنگ خندق کے بعد حضرت ولید بن ولید بچ کر مدینہ آگئے۔انھوں نے بتایا کہ حضرت عیاش بن ابوربیعہ اور حضرت سلمہ بن ہشام سخت تنگی میں ہیں۔ان دونوں کے پاؤں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چھڑا كر واپس لانے كی ذمہ داری حضرت ولید ہی کو سونپ دی۔ حضرت ولید مکہ پہنچے اور ان اصحاب کے کھانے پر مامورباندی کا پیچھا کر تے ان کے قید خانے تک جا پہنچے، دیوار پھلانگ کر ان کی رسیاں کاٹیں اور اونٹ پر سوار کركے مدینہ كا رخ كیا۔ قریش کوان کے نکلنے کی خبر ہوئی تو خالد بن ولید كچھ لوگوں کے ساتھ ان کے پیچھےنكلے۔یہ اصحاب سمندر کے کنارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق ہجرت پر گام زن تھے۔خالد بن ولیدعسفان تک آئے اور انھیں نہ پا سکے۔

حضرت سلمہ كااونٹ كھینچتے ہوئے حضرت ولید كے پاؤ ں كی انگلی زخمی ہوگئی تو انھوں نے یہ شعر پڑھا:

هل أنت إلا إصبع دميت

وفي سبيل اللّٰه ما لقيت

’’تیری حقیقت ایک زخمی انگلی کے سوا کیا ہے اورمجھے جو تكلیف ملی ہے، اللہ کے راستے میں ملی ہے ۔‘‘

نبی صلی الله علیہ وسلم كوحضرت سلمہ اور حضرت عیاش كے آنے كی خبر پہلے ہو گئی۔

ماں كا اظہار مسرت

بیٹا قید سے چھوٹ گیا تو حضرت سلمہ كی والده حضرت ضباعہ نے یہ اشعار كہے:

لا هم رب الكعبة المحرمة

اظهر علی كل عدو سلمه

’’اے الله،محترم كعبہ كے رب، سلمہ كو ہر دشمن پر غالب كر دے ۔‘‘

له یدان في الأمور المبهمه

إحداهما تردی و أخری منعمه

’’مشكل غیر یقینی معاملات میں د و ہاتھ ركھتا ہے،ایك ہاتھ ہلاك كرتا ہے اور دوسرا سخاوت كرنے والا ہے۔‘‘

حضرت ضباعہ كو پیغام نكاح

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ضباعہ بنت عامر سے نكاح كا پیغام ان كے بیٹے حضرت سلمہ بن ہشام كو دیا تو انھوں نے كہا:میں ان سے مشورہ كر لوں۔ وه اپنی والده كے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا:تم نے كیا جواب دیا؟حضرت سلمہ نے بتایا كہ میں نے آپ سے مشوره كرنے كا كہا۔حضرت ضباعہ نے كہا:كیا نبی كے رشتے میں بھی مشوره كیا جاتا ہے؟میں چاہتی ہوں كہ میرا حشر آپ كی ازواج میں ہوجائے۔جاؤ اور نكاح كر دو۔حضرت سلمہ لوٹ كر آئے اور والدہ كی رضامندی كا بتایا، لیكن آپ خاموش رہے، آپ كو بتایا گیا تھا كہ حضرت ضباعہ سن رسیدہ ہیں۔یہ نكاح نہ ہو سكا۔

جنگ موتہ

مدینہ ہجرت كرنے كے بعد حضرت سلمہ بن ہشام نبی صلی الله علیہ وسلم كے ساتھ رہے۔۹ ھ میں آپ نے انھیں موتہ جانےوالے لشكر میں شامل ہونے كا حكم دیا۔آپ كے فرمان كے مطابق تین اصحاب حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر بن ابو طالب اور حضرت عبد الله بن رواحہ باری باری اسلامی فوج كی كمان كرتے ہوئے شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولید نے آگے بڑھ كر فوج كی قیادت سنبھالی اور ایك دن كی مختصر جنگ كرنے كے بعد فوج كو بہ حفاظت مدینہ واپس لے آئے۔

 مدینہ آمد كے بعد حضرت سلمہ بن ہشام گھر میں مقید ہو گئے۔ان كی اہلیہ ام المومنین حضرت ام سلمہ سے ملنے گئیں توانھوں نے پوچھا: كیا بات ہے،سلمہ مسجد میں نظر نہیں آتے،رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مسلمانوں كے ساتھ نماز میں شریك نہیں ہوتے،كیا ان كو كوئی عارضہ لا حق ہے؟ان كی اہلیہ نے بتایا كہ لوگ انھیں اور جنگ موتہ كے دوسرے غازیوں كو بھگوڑا ہونے كا طعنہ دیتے ہیں۔حضرت ام سلمہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے ذكر كیا تو آپ نے فرمایا:وه فرار ہونے والے نہیں،ان شاء الله دوباره حملہ كریں گے۔وه مسجد میں آیا كریں، تب حضرت سلمہ گھر سے نكلنے لگے۔

شہادت فی سبیل الله

مشہور روایت كے مطابق حضرت سلمہ بن ہشام جمادی الاولیٰ ۱۳ھ كو حضرت ابوبكر كی وفات سے چوبیس دن پہلےجنگ اجنادین میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے، جب كہ طبری اور ابن كثیر نے حضرت سلمہ بن ہشام كا شمار جنگ یرموك كے شہدا میں كیا ہے۔دونوں مؤرخین نے جنگ اجنادین كے شہیدوں میں بھی ان كانام شامل كیا ہے۔ان دونوں معركوں كے شہیدوں میں بڑا التباس پایا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے كہ ذہبی نے اجنادین اور یرموك كے شہدا كا بیان ایك فصل میں یكجا كردیا ہے(سیر اعلام النبلاء۱/ ۳۱۴)۔ ابن سعد كے بیان كے مطابق حضرت سلمہ بن ہشام كی شہادت ۱۴ھ (۶۳۵ء)میں،عہد فاروقی كی ابتدا میں مرج الصفر كے معركہ میں ہوئی۔ ابن جوزی نے اسی روایت كو اختیار كیا۔ ’’فتوح البلدان‘‘ میں بلاذری نے جنگ اجنادین اور ’’انساب الاشراف‘‘ میں مرج الصفر كو ترجیح دی۔

روایت حدیث

حضرت سلمہ بن ہشام سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،تاریخ الامم والملوك (طبری) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف(بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، سیر اعلام النبلاء(ذہبی)،البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ

حضرت ہشام بن ابوحذیفہ رضی الله عنہ

نسب

حضرت ہشام بن ابو حذیفہ كے والدكا اصل نام مہشم تھا،ٍاپنی كنیت ابوحذیفہ سے جانے جاتےتھے۔ مغیره بن عبدالله ان كے دادا اور بانی قبیلہ مخزوم بن یقظہ پانچویں جد تھے۔بنو مخزوم كی حضرت ام حذیفہ بنت اسد ان كی والده تھیں۔ ابن سعد او ر بلاذری نے ان كا نام ہاشم بن ابو حذیفہ بتایا ہے۔ ابن سعد كہتے ہیں : محمد بن اسحٰق كی غلطی ہے كہ انھوں نے نام ہشام بن ابو حذیفہ لكھا۔

نعمت ایمان كا ملنا

حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے اعلان نبوت كیا تو حضرت ہشام جلدایمان لے آئے۔

اہل قبیلہ كا رد عمل

شہر میں اسلام كا ظہور ہوا تو بنومخزوم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كے جانی دشمن بن گئے۔ انھوں نے كم زور مسلمانوں كو طرح طرح كی اذیتیں پہنچائیں۔بنو ہاشم كا بائیكاٹ كرنے اور انھیں شعب ابوطالب میں شہر بدر كرانے میں ابوجہل مخزومی نے اہم كردار ادا كیا۔

بنومخزوم سےتعلق ركھنے والے افراد كی ایك بڑی تعداد ایمان بھی لائی۔اس قبیلہ كے اصحاب رسول میں حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد،ام المومنین حضرت ام سلمہ، حضرت عیاش بن ابو ربیعہ، حضرت شماس بن عثمان، حضرت عبدالله بن سفیان،حضرت ہبار بن سفیان،حضرت ہشام بن ولید، حضرت سلمہ بن ہشام اورحضرت عبدالله بن ابو ربیعہ شامل ہیں۔اس فہرست میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت عكرمہ بن ابوجہل كا اضافہ بعد میں ہو ا۔

سرزمین امن كی طرف ہجرت

مكہ كے نادار مسلمانوں پركفار كا ظلم و ستم بڑھتا گیا تو حضرت ہشام بن ابوحذیفہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی ہدایت پر سوے حبشہ روانہ ہوئے۔ وه حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں شامل ہوئے۔ ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ كی فہرست میں حضرت ہشام بن ابوحذیفہ كا نام شامل نہیں كیا۔

حبشہ سے واپسی

ابن اثیر كہتے ہیں كہ حضرت ہشام ۷ھ میں حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں مدینہ پہنچے، جب كہ ابن ہشا م نے بیان كیا ہے كہ وه جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچے او رانھوں نے شاه نجاشی كی عطیہ كی ہوئی كشتیوں میں سفر نہ كیا۔بلاذری كا كہنا ہے كہ وہ حضرت جعفر بن ابوطالب كی واپسی سے پہلے مدینہ چلے آئے۔

حضرت ہشام اورغزوات

حبشہ سے واپسی كے بعدوفات تك حضرت ہشام بن ابوحذیفہ كا مدینہ میں قیام مختصر رہا۔غزوات میں ان كی شركت كے بارے میں ہمیں كوئی رہنمائی نہیں ملی۔

حضرت عبدالله بن عباس كے قول كے مطابق غزوهٔ بدر میں ستر مشرك اہل ایمان سے قتال كرتے ہوئے جہنم واصل ہوئے۔ بنو مخزوم كے آٹھ كٹر كافر ان میں شامل تھے۔ابن اسحٰق نے اپنی سیرت میں ان میں سے چند كے نام گنوائے۔ابن ہشا م نے ان كی سیرت كو بنیادبنا كر ’’السیرة النبویۃ‘‘ ترتیب دی تو پچاس كافروں كے نام مكمل كیے، پھریہ كہہ كر جنگ بدر كے ان مقتولین كا ابن اسحٰق نے ذكر نہیں كیا،اٹھارہ مشركین كے اسما كا اضافہ كیا۔ان اسما میں بنومخزوم كے ہشام بن حذیفہ بن مغیره كا نام بھی شامل كیا اور بتایا كہ اسے حضرت صہیب بن سنان نے قتل كیا۔ابن ہشام كا یہ بیان محل نظر ہے، كیونكہ ہشام بن ابوحذیفہ بن مغیر ہ نام كے ایك ہی شخص ہیں جو اوائل اسلام میں ایمان لائے، اپنے چچا زاد ابوجہل كی اسلام دشمن سرگرمیوں سے تنگ آ كر حبشہ ہجرت كی اور جنگ بدر كے كہیں بعد مدینہ لوٹے۔

بنو مخزوم كے خالد بن ولیداور عكرمہ بن ابوجہل نے جنگ احد میں مسلمانوں كو زبردست جانی نقصان پہنچایا۔

 وفات

بلاذری كا كہنا ہے كہ حضرت ہشام بن ابوحذیفہ نے جنگ تبوك كے زمانہ میں مدینہ میں وفات پائی۔

اولاد

حضرت ہشام بن ابوحذیفہ كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔صحابہ كے سیرت نگار جب یہ كہتے ہیں كہ فلاں صاحب كی كوئی اولاد نہ تھی تو اس كا مطلب یہ ہو سكتا ہےكہ ان كی سرے سے كوئی اولادنہ ہوئی اور یہ بھی ہو سكتا ہے كہ حالات زندگی تحریر كرنے كے وقت ان كی اولاد میں سے كوئی زنده فرد موجود نہیں۔

مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،Wikipedia۔

ــــــــــــــــــــ

حضرت خالد بن حزام رضی الله عنہ

نسب نامہ

خویلد بن اسد حضرت خالد بن حزام كے داداتھے، ام حكیم بنت زہیر ان كی والده تھیں۔ اپنی كنیت سے مشہور ام حكیم كا نام زینب، صفیہ یا فاختہ(ابن سعد) بتایا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلدحضرت خالد كی پھوپھی تھیں۔اسد بن عبدالعزیٰ جن سے قریش كی یہ شاخ منسوب ہے اور جن كی نسبت سے حضرت خالد اسدی كہلاتے ہیں،ان كے اور ان كی والده ام حكیم كے پردادا تھے۔ قصی بن كلاب پر حضرت خالد بن حزام كا سلسلہ ٔنسب نبی صلی الله علیہ وسلم كے شجرہ سے جا ملتا ہے۔ قصی آپ كےاور حضرت خالد بن حزام كے پانچویں جد تھے۔ حضرت حكیم بن حزام اور ہشام بن حزام ان كے بھائی تھے۔تاریخ ابن جوزی میں حضرت خالد بن حزام كے والد كا نام حرام لكھا ہے، یقیناًیہ كتابت كی غلطی ہے۔

 قبول اسلام

اگرچہ حضرت خالد بن حزام كو السابقون الاولون میں شمار نہیں كیا گیا، تاہم وه ام المومنین حضرت خدیجہ كے بھتیجے ہونے كی وجہ سے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كی بعثت سے جلد آ گاه ہو گئے اور فوراً اسلام قبول كرلیا۔ حضرت خالد كے چچا حضرت حكیم بن حزام اور چچا زاد حضرت خالد بن حكیم،حضرت ہشام بن حكیم،حضرت عبدالله بن حكیم اورحضرت یحییٰ بن حكیم فتح مكہ كے موقع پر ایمان لائے۔

ہجرت حبشہ اور وفات

مشركین مكہ كی ایذاؤں كا سلسلہ بعثت نبوی كے چوتھے سال كے وسط میں شروع ہوا۔دن بہ دن بڑھتے بڑھتے پانچویں سال كے وسط تك یہ اپنے عروج كو پہنچ گیااورمسلمانوں كے لیے مكہ میں رہنا دشوار ہو گیا۔تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: بہتر ہو اگر تم حبشہ کی سرزمین چلے جاؤ، جہاں ایسا بادشاہ حکمران ہے جس کی بادشاہی میں ظلم نہیں۔چنانچہ رجب ۵؍ نبوی میں گیاره مرد اورچار عورتوں پر مشتمل پہلا قافلہ سوے حبشہ روانہ ہوا۔پھر حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں اسّی افراد نے حبشہ كو ہجرت كی۔ حضرت خالد بن حز ام ہجرت ثانیہ كے اسی قافلے كا حصہ تھے۔

حضرت خالد بن حزام سفر ہجرت پر تھے كہ ایك سانپ نے ان كو ڈس لیا اور وه راستے ہی میں وفات پا گئے۔یہ فرمان الہٰی ان كی وفات پر منطبق ہوتا ہے:’وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۣ بَيْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَي اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا‘، ’’اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر اُسے موت آجائے تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہوگیا، اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے‘‘ (النساء۴: ۱۰۰)۔ بلاذری كا كہنا ہے كہ اس ارشاد كا حضرت خالد كے بارے میں نازل ہونا ثابت نہیں۔ ابن حجركہتےہیں: یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اور حضرت جندب بن ضمرہ كے سفر ہجرت سے متعلق ہے۔ابن كثیرنے فیصلہ كیا:یہ آیت مدنی ہے، تاہم اس كا اطلاق حضرت خالد بن حزام كی وفات پر بھی ہو سكتا ہے۔

حضرت خالد بن حزام كے ہم قبیلہ حضرت زبیر بن عوام مہاجرین حبشہ كے پہلے قافلے كے ساتھ حبشہ پہنچ چكے تھے اور شدت سے حضرت خالد بن حزام كی آمد كے منتظر تھے۔ان كی وفات كی خبرسن كر بہت دل گرفتہ ہوئے۔حبشہ میں اس وقت وه قریش كی شاخ بنو اسد بن عبدالعزیٰ كے واحدفرد تھے۔ہجرت ثانیہ میں بنو اسد بن عبدالعزیٰ كے حضرت عمرو بن امیہ، حضرت یزید بن معاویہ اور حضرت اسود بن نوفل نے حضرت خالد بن حزام كے ساتھ سفركیا اور بخیر و عافیت وہاں پہنچ گئے۔حضرت یزید جنگ بدر كے بعد اور حضرت اسود جنگ خیبر كے موقع پر مدینہ لوٹ آئے، جب كہ حضرت عمرو نے حبشہ میں وفات پائی اور مسجد نجاشی كے عقب میں واقع صحابہ كے قبرستان میں جگہ پائی۔

ابن اسحٰق اور ابن ہشام نے حضرت خالد بن حزام كو مہاجرین حبشہ میں شمار نہیں كیا۔

كیا ہجرت حبشہ اہل ایمان پر فرض تھی؟

الله تعالیٰ كا یہ ارشادجنگ بدر كے بعد نازل ہوا، جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرما كر دارالاسلام كی بنا ركھ چكے تھے:

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْﵧ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِﵧ قَالُوْ٘ا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاﵧ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُﵧ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا. (النساء۴: ۹۷)
’’بے شك، وہ لوگ جن کی روحیں فرشتوں نے اس حال میں سلب كیں کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے،فرشتوں نے پوچھا: تمھارا شمار كن لوگوں میں تھا؟( محمد صلی الله علیہ وسلم كے صحابہ میں یا مشركوں كے ساتھیوں میں)،انھوں نے جواب دیا: ہم اس زمین میں بالكل بے بس تھے۔ فرشتوں نے سرزنش كی: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسے لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ حكم مكہ كے مسلمانوں تك پہنچایا تو ضعیف العمر حضرت جندع (یا جندب) بن ضمرہ نے اپنے بیٹوں سے كہا:میں ناچار نہیں ہوں،مجھے مدینہ لے چلو۔ ان كے بیٹے ان كو چارپائی پر اٹھا كر چلے تو مكہ كے مضافات میں و اقع مقام تنعیم پر پہنچ كروه فوت ہو گئے۔ اس كے برعكس، قریش كے نوجوان قیس بن فاكہ، حارث بن زمعہ،قیس بن ولید، ابوالعاص بن منبہ(یا منیہ) اور علی بن امیہ جنھوں نے اپنے مسلمان ہونے كا اعلان نہ كیا تھا اور مكہ ہی میں مقیم تھے، مشركین انھیں مكانات مسمار كرنے، مال مویشی سلب كرنے كی دھمكی دے كر، فوج كی نفری بڑھانے كے لیے بدر میں گھسیٹ لائے۔ یہ پانچوں غزوۂ بدرمیں مارے گئے اور ہجرت نہ كرنے كی وجہ سے ایمان كے اجر وثواب سے محروم ٹھیرے۔ایك روایت كے مطابق یہ اصل میں منافقین تھے۔

عہد نبوی كے اس واقعے سے مشابہت ركھنے كی وجہ سےحضرت عبدالله بن زبیر كے دور حكومت میں حضرت عبدالله بن عباس كے آزاد كرده عكرمہ نے شام یا یمن كی طرف بھیجی جانے والی مہم میں حدیث كے راوی محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسودكو شامل ہونے سے منع كر دیا (بخاری،فتح الباری، رقم ۴۵۹۶۔ السنن الكبریٰ، نسائی، رقم ۱۱۰۵۴۔السنن الكبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۷۴۹)۔ابن حجر كہتے ہیں:مسلمانوں كی باہمی لڑائیوں كے اس دور میں دونوں طرف كےمسلمانوں كا خون ناحق بہنا تھا، اس لیے عكرمہ نے سختی سے منع كیا۔

جب دارالاسلام وجود پذیر ہو جائے تو كفار كے ظلم و ستم كا شكار بے بس اور ناچار مسلمانوں پرفرض ہو جاتا ہے كہ وه دار الكفر سے ہجرت كر كے دارالاسلام منتقل ہوجانے كی سعی كریں۔ وہ لوگ جو ہجرت كی مقدرت ركھتے ہوئے كفار كی محكومیت میں ذلت اور پستی كی زندگی گزارنے پر آماده ہو جائیں،قابل مواخذه ہیں۔

الله تعالیٰ كا یہ فرمان مہاجربن كے لیے ترغیب اور تسلی كا باعث ہے:

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۣ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةًﵧ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ.(النحل۱۶: ۴۱)
 ’’اورجن لوگوں نے بعد اس كے كہ ان پر ظلم ڈھائے گئے الله كی راه میں ہجرت كی،ہم انھیں دنیا میں ضرور اچھا ٹھكانا مہیا كر یں گے اور آخرت كا اجرتو اس سے كہیں بڑا ہے،كاش یہ جان لیں۔‘‘

۵/نبوی میں جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مظلوم اہل ایمان كوحبشہ ہجرت كرنے كی ہدایت كی، دارالاسلام وجود میں نہ آیا تھا۔ یہ ایك ایسے دار الكفر سے، جہاں دین پر عمل كرنا مشكل تھا،ایك دوسرے دارالكفر كی طرف ہجرت تھی، جہاں فرائض دینیہ پر عمل پیرا ہونے كی آزادی تھی۔اس لیے یہ ہجرت ہجرت مدینہ كی طرح فرض نہ تھی، تاہم حبشہ كو ہجرت كرنے والے اصحاب ’انبیاے مہاجرین‘ كی طرح صاحب فضیلت اور اجر عظیم كے مستحق ٹھیرے۔

اہل وعیال

حضرت خالد بن حزام كا بیاه حضرت زبیر بن عوام كی بہن حضرت ام حبیب بنت عوام سے ہوا۔

كتب رجال سے حضرت خالد بن حزام كے ایك بیٹے عبدالله كا نام معلوم ہوتا ہے۔راویان حدیث ضحاك بن عثمان حزامی اور مغیرہ بن عبدالرحمٰن حزامی عبدالله بن خالد كے پوتے تھے۔حضرت خالد بن حزام كی بیٹی ام الحسن بنت خالد مكہ میں یا حبشہ كے راستے میں پیدا ہوئیں۔

مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف (بلاذری)، الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل(زمخشری)، المنتظم فی تواریخ الملوك و الامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،الدر المنثور فی التفسیر الماثور(سیوطی)، Wikipedia۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B