سلام اُس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اُس پرکہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اُس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
سلام اُس پر کہ دشمن کو حیاتِ جاوداں دے دی
سلام اُس پر ابو سفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اُس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں
سلام اُس پر ہوا مجروح جو بازارِ طائف میں
سلام اُس پر وطن کے لوگ جس کو تنگ کرتے تھے
سلام اُس پر کہ گھر والے بھی جس سے جنگ کرتے تھے
سلام اُس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی، نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اُس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اُس پر جو بھوکا رہ کے اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اُس پر جو امت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اُس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
سلام اُس پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے
سلام اُس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیّت ہے
سلام اُس پر کہ جس نے جھولیاں بھردیں فقیروں کی
سلام اُس پر کہ مشکیں کھول دیں جس نے اسیروں کی
سلام اُس پر کہ جس کا نام لے کر اُس کے شیدائی
الٹ دیتے ہیں تخت ِ قیصریت، اوجِ دارائی
سلام اُس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
سلام اُس ذات پر کہ جس کے یہ پریشاں حال دیوانے
سنا سکتے ہیں اب بھی خالد و حیدر کے افسانے
درود اُس پر کہ جس کا نام تسکینِ دل وجاں ہے
درود اُس پر کہ جس کے خُلق کی تفسیر قرآں ہے
درود اُس پر کہ جس کی بزم میں قسمت نہیں سوتی
درود اُس پر کہ جس کے ذکر سے سیری نہیں ہوتی
درود اُس پر کہ جس کے تذکرے ہیں پاک بازوں میں
درود اُس پر کہ جس کا نام لیتے ہیں نمازوں میں
درود اُس پر، جسے شمعِ شبستانِ ازل کہیے
درود اُس پر، ابد کی بزم کا جس کو کنول کہیے
درود اُس پر، بہارِ گلشن عالم جسے کہیے
درود اُس ذات پر فخر بنی آدم جسے کہیے
رسولِ مجتبیٰ کہیے، محمد مصطفیٰ کہیے
وہ جس کو ہادیِ ’دَعْ مَاكَدِرْ، خُذْ مَا صَفَا‘ کہیے
ماہر القادری (وفات: ۱۹۷۸ء)کا یہ کلام سادہ اسلوب میں گویا سیرت رسول کا ایک بہترین خلاصہ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج ہر طرح کے تعصب، بے روح ’مذہبیت‘، فنی اور رسمی قسم کے نظام تعلیم وتعلم اور ہر قسم کی متعصبانہ گروہ پرستی سے بلند ہوکرہماری مجلسوں ، اداروں اور مسجدوں میں درود وسلام کی یہ صدا پھراُسی انداز میں گونج اٹھے، جس طرح وہ آج کے اِس ماحول سے پہلے ہر طرف گونجتی تھی۔آج کے مادی اور الحادی ماحول میں ضرورت ہے کہ نوجوانان ملت کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے تعلق کی دبی ہوئی چنگاری کو ایک بار پھر سے شعلہ زن کر دیا جائے کہ:
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اِسے دورِ زماں میٹ رہا ہے!
اِس کے لیے ضروری ہوگا کہ ذکر ودعا اور صلوٰۃ وسلام کے اعتبار سے، یوم جمعہ کی خصوصی اہمیت کی بناپر (کنزالعمال، رقم ۲۱۰۳۷)اِس دن خاص طورپر اپنے گھروں اور مسجدوں میں منعقدتذکیر ی اور تربیتی مجالس کے دوران میں سنجیدہ و باادب انداز میں حمد ونعت پر مبنی کلام اور کثرت صلوٰۃ وسلام کا اہتمام کیا جائے۔اِس طرح عام طورپر لوگوں کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و اطاعت کے پاکیزہ اور فطری جذبات پیدا کیے جاسکتے ہیں ۔ اِس قسم کے دعوتی اور تذکیری حلقے گویا ایمان بالرسالت کی تجدید کے ہم معنی ثابت ہوں گے۔
امید ہے کہ اِس سے دل کی ویران کھیتیاں سر سبز وشاداب ہوں گی اور اُن میں اللہ اور رسول کی محبت و حرارت پیدا ہو گی۔ یہ دین کا منشا اور ایمان کا اولین تقاضا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل ایمان کا سچا تعلق قائم ہو۔آپ کے ساتھ یہ زندہ تعلق دلوں میں ایمان کی روح پھونکنے کابہترین ذریعہ، آپ کے اسوۂ حسنہ، آپ کے لائے ہوئے دین سے وابستگی اور موجودہ مادی اور الحادی طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تازہ دم فوج (سپاہ تازہ)کی حیثیت رکھتا ہے:
سپاہِ تازہ بر انگیزم ازولایت عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوتِ خرد است!
’’عقل کی بے باکی اور سرکشی کی بناپر حرم کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اِس طوفان سے مقابلہ کرنے کے لیے ہم مملکت عشق سے جنوں کی ایک تازہ دم فوج لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
محبت رسول کے اِ س پاکیزہ جذبے کا اُس پر شور ’’جذباتیت‘‘سے کوئی تعلق نہیں جس کے بعض مظاہر ہمارے ہاں اکثر ’’حب رسول‘‘ کے نام پر خود آپ اور آپ کے لائے ہوئے دین و پیغام کی بدنامی کا سبب بنتے رہے ہیں ۔ حب رسول ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے۔
حب رسول وہی ہے جواپنے ذہنی اور قومی مفروضات کے بجاے خود رسول کے بتائے ہوئے ارشادات کے مطابق ہو۔اِس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن کی سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۲۴، اور سورۂ احزاب (۳۳)کی آیت ۲۱ سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔اِس میں بتایا گیا ہے کہ اہل ایمان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پسند وناپسنداور اُن کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کا معیار بنائیں ۔وہ اُنھیں اپنے ماں باپ، مال و اولاد، تمام محبوب اشیااور تمام محبوب افراد و شخصیات سے زیادہ محبوب سمجھیں ۔ وہ اُنھیں ہر دوسری محبت اور اپنے تمام مادی، نفسانی اور دنیوی تقاضوں پر ترجیح دیں ۔
اللہ اور رسول کی محبت کے درمیان اِس طرح کی قانونی تقسیم درست نہیں کہ اللہ کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ محبت ہے، اور رسول کی نسبت سے جو چیز مطلوب ہے، وہ محض آپ کا اتباع ہے۔ محبت کے بغیر نہ اتباع ممکن ہے اور نہ دین میں ایسے میکانکی اتباع کی کوئی اہمیت ہے جس میں محبت کا جذبہ کارفرما نہ ہو۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، اللہ اور رسول کی محبت گویا ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں ۔
اصل یہ ہے کہ ہم آپ کو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ کے بجاے ’’محمد رسول اللہ‘‘ مانتے ہیں ۔اللہ رب ا لعٰلمین سے آپ کا یہی مخصوص تعلق اِس بات کا متقاضی ہے کہ ہم آپ سے محبت کریں ۔اللہ سے محبت رب العٰلمین سے محبت ہے اور رب ا لعٰلمین سے محبت کا یہ فطری تقاضا ہے کہ اُس کے فرستادہ و پیغمبر سے محبت کی جائے۔ رسول سے یہ محبت کسی مجرد بنیاد پر نہیں ہوتی،بلکہ اللہ ہی کے لیے اور اللہ ہی کی وجہ سے قائم ہوتی ہے۔ حب رسول، دراصل حب خداوندی ہی کا ایک فطری تقاضا ہے۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
أحِبُّوا اللّٰهَ لِمَا یَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وأحِبُّوْني بِحُبِّ اللّٰه، وَأحِبُّوا اَهْلَ بَیْتي لِحُبِّي. (ترمذی، رقم ۳۷۸۹)
’’اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اُن نعمتوں کی وجہ سے جو اُس نے تمھیں عطا فرمائی ہیں ، اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر محبت کرو۔‘‘
اِس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن قیم (وفات : ۷۵۱ ھ) فرماتے ہیں :
وکلّ محبَّة وتعظیم للبشر، فإنّما تجوز تبعاً لمحبة اللّٰه وتعظیمه کمحبة رسوله وتعظیمه، فإنّها من تمام محبّة مرسله وتعظیمه، فإِن أمته یحبونه لحبّ اللّٰه له ویعظّمونه ویجلّونه لإجلال اللّٰه له، فهي محبَّة للّٰه من مُوجبات محبّة اللّٰه وکذلک محبّة أهل العلم والإیمان ومحبة الصّحابة رضي اللّٰه عنھم وإجلالهم تابعٌ لمحبة اللّٰه ورسوله لھم. والمقصود أن النَّبِي صلی اللّٰه علیه وسلم ألقی اللّٰه سبحانه وتعالٰی علیه منه المهابة والمحبة. ولکلّ مؤمن مخلص حظّ من ذلک.(جلاء الافہام فی فضل الصلاة والسلام ۱۸۷)
’’انسان کی ہر محبت و تعظیم اللہ کی محبت و تعظیم کے تابع ہوگی۔مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور تعظیم درحقیقت آپ کو مبعوث کرنے والے پروردگار سے محبت کی بنا پر ہے۔لہٰذا امت کے افراد جو آپ سے محبت رکھتے ، وہ اللہ ہی کی وجہ سے محبت رکھتے، اور آپ کی جو قدر ومنزلت کرتے ، وہ اللہ کی محبت اور اُس کی عظمت ہی کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ اہل علم وایمان اور صحابہ سے محبت کا سبب بھی یہی ہے۔یہ سب اللہ اور رسول کی محبت کے تابع ہے۔غرض، اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی عظمت و محبت کا ایک بڑا حصہ عنایت کیا ہے۔ نیز ہر سچے اور مخلص مومن کو بھی اِس میں سے ایک حصہ عطا فرمایا گیاہے۔‘‘
اِس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے استاذ جاوید احمد غامدی تحریر فرماتے ہیں :
’’ نبی کونبی مان لینے کا لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنی کتاب میں خود واضح فرما دی ہے کہ نبی صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اِس لیے نہیں آتا کہ لوگ اُس کو نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اُس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اُس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اُس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ. (النساء ۴: ۶۴)
’’اِنھیں بتاؤ کہ ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اِسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اُس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اِس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اُس کے نبیوں کی اطاعت کی جائے۔ ...
لہٰذا یہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کامطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اورا نتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔ انسان کو خداکی محبت اِسی اطاعت اور اِسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْﵧ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.(آل عمران ۳: ۳۱)
’’اِن سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتومیری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گااورتمھارے گناہوں کو بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والاہے، اُس کی شفقت ابدی ہے ۔‘‘(میزان ۱۴۸ -۱۴۹)
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بار بار ’اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ‘ (النساء ۴: ۵۹۔ النور ۲۴: ۵۴) کہہ کر اللہ او ررسول کی اطاعت کا ایک ساتھ حکم فرمایا اورسول کی اطاعت کو خود اللہ کی اطاعت (النساء ۴: ۸۰) قراردیا ہے۔اِسی طرح آپ نے واضح طورپر فرمایا ہے:
مَن أطاعني فقد أطاع اللّٰه، ومَن عصاني فقد عصی اللّٰه.(بخاری، رقم ۷۱۳۷)
’’جس نے میری اطاعت کی، اُس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی، اُس نے براہ راست اللہ رب العٰلمین کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔‘‘
چنانچہ خود اللہ کے پیغمبر کی زبان سے اہل ایمان کو اِس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اگر وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں تو اُنھیں اِس محبت الٰہی کے حصول اوراِس دعوے کے ثبوت کے لیے دین کی پیروی اور رسول کے اتباع کا طریقہ لازماً اختیار کرنا ہوگا(آل عمران۳: ۳۱)۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
لا یؤمن أحدُکم حتی یکون ھواہ تَبَعاً لِما جئتُ به. (الاربعین۴۱)[1]
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک کامل الایمان نہیں ہوسکتا، جب تک اُس کی خواہشات میرے لائے ہوئے دین کے تابع فرمان نہ ہو جائیں ۔‘‘
ایمان اور محبت رسول کے مابین تعلق پر مبنی چند پیغمبرانہ ارشادات وواقعات ملاحظہ فرمائیں :
٭ عَنْ أنسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُونَ أحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ وَالنَّاسِ أجْمَعِین‘‘.(مسلم، رقم ۴۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُس کے نزدیک اُس کی اولاد، اُس کے والد اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘
٭ عَنْ أبي ھریرة و عن أ نَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’والذي نفسي بیدہ، لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُونَ أحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَلَدِہِ وَوَالِدِہِ [ومِنْ أھلِه وَمالِه ] وَالنَّاسِ أَجْمَعِین‘‘. (بخاری، رقم ۱۴- ۱۵۔ فتح الباری ۱/ ۸۲)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اُس کا یہ حال نہ ہوجائے کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والدین، اُس کے آل و اولاد، اُس کے مال و منال، غرض تمام محبوب چیزوں اور تمام محبوب افراد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘
٭ عَنْ أنسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’لا یجد أحدٌ حلاوةَ الإیمان، حتیّ یُحِبَّ المرئُ لا یحبُّه إلا للّٰه، وحتیّ أن یُقذَفَ في النارِ أحبُّ إلیه مِنْ أن یَرجِعَ إلی الکفرِ بَعدَ إذ أنقذہ اللہُ، وحتیّ یکونَ اللّٰهُ ورسولُه أحبُّ إلیه ممّا سِواھما‘‘. (بخاری، رقم ۱۴۰۶ ۔مسلم، رقم ۵۶۱)
’’ کوئی شخص اُس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پا سکتا، جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے؛ اور ایمان کے بعد دوبارہ کفر کی طرف پھر جانے سے ، آگ میں ڈال دیا جانا اُس کو محبوب ہو، مگر کفر میں جانا اُس کو پسند نہ ہو؛ اور جب تک دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں ، اللہ اور رسول اُس کوزیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔‘‘
٭ عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ ہِشَامٍ رضي اللّٰه عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ النبِيّ صلی اللّٰه علیه وسلم، وَهوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَه عُمَرُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ، لأنتَ أحبُّ إليَّ مِنْ کُلِّ شَيءٍ إلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النبِيّ صلی اللّٰه علیه وسلم: ’’لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہ، حَتّٰی أکُوْنَ أحبَّ إلَیْكَ مِنْ نَفْسِك‘‘. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فإنَّه الآنَ، وَ اللّٰهِ، لَأنتَ أحبُّ إليّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِي صلی اللّٰه علیه وسلم: ’’الآنَ یَا عُمَر!‘‘. (بخاری، رقم ۲۵۲۶)
’’ عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ آپ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ۔ اِس پر آپ نے فرمایا: نہیں ، قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے(تم اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے)، یہاں تک کہ میں تمھیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ انھوں نے عرض کیا: اے خدا کے رسول ،اللہ کی قسم، اب مجھے آپ اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اے عمر، اب تمھاری محبت کامل ہوئی ہے۔‘‘
٭ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ صحابۂ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی محبت رکھتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:
کان و اللّٰه، أحبَّ إِلَیْنا مِن أموالنا، وأولادِنا، وآبائنا، وأمّھاتِنا، ومِن الماءِ الباردِعلی الظَّمَأُ.(المناہل، السیوطی ۹۵۷۔الشفا، القاضی عیاض ۴۹۷)
’’خدا کی قسم، آپ ہمارے مال واولاداور ہمارے ماں باپ سے زیادہ ہمیں محبوب،اور حالت پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ مرغوب تھے۔‘‘
یہاں ذکر رسول سے ہماری مراد تذکیر ودعوت کے دوران میں رسول اور اصحاب ِ رسول کی سیرت و اخلاق، آپ کے اسوۂ حسنہ کا بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے حلقے ہیں ۔ اپنی اصل کے اعتبار سے، ذکر رسول اور ذکر الہٰی، دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں ۔ذکر الٰہی اگراِس لیے مطلوب ہے کہ اللہ ہمارا خالق و مالک اور منعم و کارساز ہے تواتباع رسول کے جذبے سے آپ کی سیرت واخلاق کا ذکر و بیان اللہ سے آپ کے اِسی مخصوص تعلق کی بنا پر مطلوب ہوگا۔یہ صرف اللہ کا رسول ہے جو ہمارے اور اللہ کے درمیان وسیلۂ ایمان و معرفت ہے۔اب آپ کی پیروی اور آپ ہی کی سیرت کے ذریعے سے ایک شخص ایمان باللہ اور اُس کی حقیقی معرفت و محبت حاصل کرسکتا ہے۔
اِس معاملے میں اتباع اور محبت کا سوال بھی محض ایک کلامی نوعیت کی چیز ہے۔ اللہ اور رسول کی محبت جب اپنی اصل مطلوب صورت میں پیدا ہوجائے تو پھر اِس کے بعد اِس قسم کا تکنیکی سوال درست نہیں کہ رسول کی نسبت سے جوچیزمطلوب ہے، وہ اُس کی محبت ہے یا صرف اتباع؟ اللہ کے رسول سے سچی محبت اور تعلق کے بعد اُس کی محبت اور اتباع میں فرق کرنا بے معنی ہوگا۔
محبت گہرے قلبی تعلق (emotional attachment)کا نام ہے،اوراِس طرح کے سچے قلبی تعلق کے بعد کسی انسان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے محبوب کی نافرمانی کرے اور اُس کی پیروی کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو۔ چنانچہ مشہور قول ہے: ’کُلّما ازْداد الحبُّ، زادتِ الطاعات‘ (محبت میں جس قدر اضافہ ہوگا، اطاعت میں اُسی قدر اضافہ ہوتا جائے گا)۔اما م شافعی (وفات: ۲۰۴ ھ) نے اپنے ایک شعر میں اِس حقیقت پر بہت خوب روشنی ڈالی ہے:
لوکان حبُّك صادقًا، لأطعتَه
إنّ المُحبَّ لِمَنْ یُحبُّ مُطيعٗ
’’اگر اللہ اور رسول سے تمھاری محبت سچی ہو توتم اُن کی اطاعت ضرورکروگے۔ اِس لیے کہ ایک محبت کرنے والاشخص اپنے محبوب کا فرماں بردار ہوا کرتاہے ۔‘‘
چنانچہ تیسری صدی کے ایک مشہور عالم ابو سلیمان دارانی (وفات: ۲۱۵ھ) نے فرمایاکہ لوگوں نے جب محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے اِس دعوے کو جانچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ’آیت محبت‘(آل عمران ۳: ۳۱) کو ایک معیار کے طورپر نازل فرمادیا (’لمّا ادّعت القلوبُ محبّةَ اللّٰه تعالیٰ، أنزل اللّٰهُ لھا مِحْنةً‘ مدارج السالکین، ابن القیم۳/ ۲۲)۔
اِس معاملے میں سورۂ آل عمران کی آیت ’قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ‘ (۳: ۳۱) کے حوالے سے یہ کہنا درست نہیں کہ رسول کی صرف پیروی مطلوب ہے، محبت مطلوب نہیں ۔ اِس آیت میں محبت کی تعریف (definition) یااُس کے تمام حدود بیان نہیں کیے گئے ہیں ، بلکہ یہاں محبت کا اصل تقا ضا بیان کیاگیا ہے۔ آیت میں انسان کی نسبت سے مطلوب فطری جذبات محبت کی نفی ہرگز نہیں ۔ایسا سمجھنا انسان اور محبت، دونوں کی تصغیر کے ہم معنی ہوگا۔
اِسی طرح آیۂ زیر بحث کایہ مطلب بھی نہیں کہ رسول کی یہ اتباع،محبت سے خالی اور جذبات سے عاری ہو۔ آیت میں جس بات کی تاکید کی گئی ہے، وہ بے روح قسم کی کوئی جامد تقلید یاظاہردارانہ دین داری نہیں ،بلکہ اتباع رسول کا حقیقی ثبوت دے کررسول سے اپنے دعواے محبت کی تصدیق کرناہے۔اصل یہ ہے کہ جو اطاعت طوعاً ہو،وہی مطلوب ہے، کرہاً کی جانے والی اطاعت، جس میں قلبی تعلق شامل نہ ہو، وہ اطاعت نہیں، بلکہ صرف بے روح ’مذہبیت‘ ہے جو خدا کے یہاں مقبول نہیں ۔
خدا کے دین میں ایسا ایمان باللہ اور ایمان بالرسول جس میں قلبی تعلق کارفرما نہ ہو، اکثر حالات میں محض ظاہرداری کے ہم معنی ہواکرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا حقیقی تعلق اُس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اِس کی بنیاد دو چیزوں پر نہ ہو ـــ ـ ـــ ایمان، اور اطاعت۔اور اطاعت وہی ہے جوطوعاً ہو ، نہ کہ کرہاً،یعنی قلبی تصدیق اور دل کی پوری رضا مندی کے ساتھ ، جس میں جبرو اِکراہ شامل نہ ہو۔اِس روح سے خالی تصور اطاعت صرف ایک ایسا مبتدعانہ تصور ہوگا جو کتاب و سنت میں سرتا سر اجنبی ہے (ملاحظہ فرمائیں: تزکیۂ نفس، امین احسن اصلاحی) ۔
قرآن میں اِس بات کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ اہل ایمان دعوت و اقامت دین کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست وبازو بن کرنہ صرف پوری طرح آپ کا ساتھ دیں ، بلکہ اللہ کے پیغمبر کی حیثیت سے وہ آپ کی بھر پور تعظیم و توقیر کا طریقہ اختیار کریں ۔ چنانچہ ارشاد ہواہے:
اِنَّا٘ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا. لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُﵧ وَتُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا. (الفتح ۴۸: ۸- ۹)
’’اے پیغمبر ، ہم نے تم کو گواہی دینے والے، خوش خبری پہنچانے والے اور آ گاہ و خبردار کرنے والے کی حیثیت سے مبعوث کیا ہے تاکہ، (اے لوگو)، تم اللہ کے رسول پر سچا ایمان لاؤ اور رسول (کے مشن میں اُس )کا ساتھ دو، اُس کی بھرپور تعظیم اور توقیر کرو، اور اِس طرح تم صبح و شام اللہ کی خوب تسبیح بیان کرتے رہو۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ ایک لازمی تقاضا ہے کہ آدمی آپ کی سیرت واخلاق ، آپ کی لائی ہوئی دعوت کے ابلاغ اور احیاے سنت کے لیے بھر پور کوشش کرتے ہوئے آپ کی زندگی کو اپنی زندگی اورآپ کی ایمانی اور اخلاقی دعوت کو اپنا مشن بنائے (’حبُّ النبي صلی اللّٰه علیه وسلم یُوجِبُ السعيَ إلی إحیاءِ سنّته، والحِفاظَ علٰی دعوته‘)۔ چنانچہ آپ نے اپنے ایک ساتھی انس بن مالک کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
مَن أحیا سنّتي فقد أحبّني، ومَن أحبّني،کان معي في الجنة. (ترمذی، رقم ۲۶۰۲)
’’جس نے میری سنت اور میری تعلیمات کو زندہ کیا، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جو مجھ سے محبت کرے گا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
حافظ ابن قیم (وفات : ۷۵۱ھ) علم دین کی دعوت و اشاعت کے متعلق فرماتے ہیں :
...ولولم یکن في تبلیغ العلم عنه إلاحصولُ ما یحبُّه صلی اللّٰهُ علیه وسلم، لکفٰی به فضلاً. ومعلومٌ أنه لا شيء أحبُّ إلٰی رسولِ اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم من إیصاله الھُدیٰ إلی جمیع الأمة، فالمبلّغ عنه مسارعٌ في حصولِ محبته، فھو أقربُ الناسِ منه وأحبّھم إلیه، وھو نائبه وخلیفته في أمته، وکفیٰ به فضلًا وشرفًا للعلم وأھله. (مفتاح دارالسعادۃ۲۷۹)
’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملے ہوئے علم کی اشاعت سے آپ کے پسندیدہ عمل پر کاربند ہونے کے سوااور کوئی مقصد نہ ہوتا، جب بھی یہ اُس کی اہمیت کے لیے کافی تھا۔ یہ ایک معلوم بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اِس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہ تھی کہ اللہ کی ہدایت تمام امت دعوت و اجابت تک پہنچ جائے۔ لہٰذا پیغمبرانہ علم کو پہنچانے والا آدمی عملاً اُس کی محبت کے حصول میں کوشاں ہے۔چنانچہ ایسا شخص سب سے زیادہ قریب اور محبوب تر ہوگا۔وہ گویا امت میں آپ کا نائب اور خلیفہ ہے۔لہٰذا یہی ایک بات علم نبوت اوراُس کے حامل افراد کے فضل و شرف کے لیے کافی ہے۔ ‘‘
انسان عقلی اور جذباتی وجود(emotional being)، دونوں کا مجموعہ ہے۔یہ جذبہ اگر اپنے فطری دائرے میں ہو تو وہ نہ صرف ایک مطلوب چیز ہے، بلکہ وہ انسان کے لیے اُس کے خالق کی طرف سے استثنائی قسم کے ایک عظیم عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان کا یہی جذباتی وجود ہے جس سے وہ رحمی اور خاندانی رشتے وجود میں آتے ہیں جن کے بغیر دنیا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔جذبات کا یہی وہ قیمتی بندھن ہے جس نے انسان کو حیوان سے بالکل ممتاز کردیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر ادب وآرٹ اور رنگ و جمال کاایک فردوس حسن ومعنی یہاں آباد دکھائی دیتا ہے۔ صحابہ و تابعین کے واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اطاعت کے ساتھ آپ سے قلبی اور جذباتی تعلق ایمان بالرسول کے بالکل ایک فطری اور بدیہی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس سلسلے میں چند ارشادات وواقعات یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔
٭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ۔ وہ فرماتی ہیں :
جاءَ رجلٌ إلی النبيِّ صلَّی اللّٰهُ علیْهِ وسلَّمَ فقالَ: یا رسولَ اللّٰهِ، إنَّكَ لأحَبُّ إليَّ من نَفسي وإنَّكَ لأحبُّ إليَّ من ولدي. وإنِّي لأَكونُ في البیتِ فأذْکرُكَ، فما أصبِرُ حتَّی آتي فأنظُرَ إلیْكَ. وإذا ذَکرتُ موتي وموتَكَ عرفتُ أنَّكَ إذا دخلتَ الجنَّةَ، رفعتَ معَ النَّبیِّینَ وأنِّي إذا دَخلتُ الجنَّةَ، خَشیتُ أن لا أراكَ. فلم یردَّ علیْهِ النَّبيُ صلَّی اللّٰهُ علیْهِ وسلَّمَ شیئًا، حتَّی نزلَ جبریلُ بِهذِہِ الآیة: ’’وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ‘‘ الخ.(المعجم الکبیر، الطبرانی، رقم ۱۲۵۵۹)
’’ اصحاب رسول میں سے ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول، آپ مجھے میری جان اور میرے اہل وعیال سے زیادہ محبوب ہیں ۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں اور آپ مجھے یاد آتے ہیں تو مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ چنانچہ میں آپ کے پاس آتااور آپ کا دیدار کرلیتاہوں ۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کی وفات کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ وہاں جنت میں آپ انبیا کے ساتھ ہوں گے۔ اور اگر میں جنت میں داخل ہوا تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہاں میں آپ کا دیدار نہ کر سکوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو کوئی جواب نہیں دیا، حتیٰ کہ جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے: ’وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَﵐ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيْقًا‘(النساء۴ :۶۹)۔‘‘
٭ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
أنَّ رَجُلًا سَأَلَ النبي صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلَّمَ عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ: مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ: ’’ومَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا‘‘. قَالَ: لا شيءَ، إلَّا أنِّي أُحِبُّ اللّٰهَ ورَسولَه صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلَّمَ. فَقَالَ: ’’أنْتَ مع مَن أحْبَبْتَ‘‘. قَالَ أنَسٌ: فَما فَرِحْنَا بشيءٍ، فَرَحَنَا بقَوْلِ النبيِ صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلَّمَ: ’’أنْتَ مع مَن أحْبَبْتَ‘‘. قَالَ أنَسٌ: فأنَا أحِبُّ النبي صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلَّمَ وأبا بَکْرٍ، وعُمَرَ، وأرْجُو أنْ أکُونَ معهُمْ بحُبِّي إیَّاهُمْ، وإنْ لَمْ أعْمَلْ بمِثْلِ أعْمَالِهِمْ. (بخاری، رقم ۳۶۸۸)
’’ایک صاحب (ذوالخویصرہ یمانی یا ابوموسیٰ اشعری) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا کہ قیامت کب قائم ہو گی؟آپ نے فرمایا کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کررکھی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: کچھ بھی نہیں ، سوا اِس کے کہ میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر تمھارا حشر بھی اُنھی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔سیدنا انس کہتے ہیں کہ ہمیں کبھی اتنی خوشی کسی اور بات سے بھی نہیں ہوئی، جتنی آپ کا یہ ارشاد سن کر ہوئی کہ تمھارا حشر انھی کے ساتھ ہو گا جن سے تمھیں محبت ہے۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور اُن سے اپنی اِس محبت کی وجہ سے امید رکھتا ہوں کہ میرا حشربھی اُنھی کے ساتھ ہو گا، اگرچہ میں اُن جیسے عمل نہ کر سکا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ارشاد ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس سوال پر کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ سائل نے عرض کیا : میرے پاس اِس کے لیے بہت ساری نمازیں اور روزے اوربہت زیادہ صدقہ وخیرات تو نہیں ہے، البتہ میں اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتاہوں ۔ اِس پر آپ نے فرمایا: تم اُس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو: ’قالَ: ما أعْدَدْتَ لَهَا قالَ: ما أعْدَدْتُ لَهَا مِن کَثِیرِ صَلَاةٍٍ ولَا صَوْمٍ ولَا صَدَقَةٍ، ولَکِنِّی أُحِبُّ اللّٰهَ ورَسولَهُ، قالَ: أنْتَ مع مَن أحْبَبْتَ‘ (بخاری، رقم ۶۱۷۱۔ مسلم، رقم ۲۶۳۹)۔
٭ غزوۂ احد(۳ ھ) کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ بنو دینار کی ایک خاتون (سُمَیراء بنت قیس) کے اہل خانہ میں سے تین افراد(باپ، بھائی اور شوہر)اِس غزوے میں شہید ہوگئے۔اُس کو جب یہ خبر دی گئی تو انھوں نے پوچھا: ’فما فعل رسولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم؟‘ (یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں)؟۔ اُنھیں بتایا گیا کہ آپ بخیر وعافیت ہیں ۔ چنانچہ وہ آپ کے پاس پہنچیں اور آپ کو دیکھ کرعرض کیا: ’کُلُّ مصیبةٍ بَعْدَك جَلَلٌ، یارسولَ اللّٰه‘، ’’آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے، اے اللہ کے رسول ‘‘ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام۳/ ۵۱)۔
٭ عن ابْنِ سِیْرِین قال: قلتُ لِعُبَیْدَة: عندَنَا مِنْ شَعْرِ النبيّ صلی اللّٰه علیه وسلم، أصَبْنَاہُ مِنْ قِبَلِ أنسٍ، أومِنْ قِبَلِ أهْلِ أنسٍ، فَقَالَ: لأَن تَکُوْنَ عِندِي شَعْرَةٌ مِنه أحَبُّ إليَّ مِنَ الدنیَا وَمَا فِیْهَا.(بخاری ، رقم ۱۶۸۔ احمد، رقم ۱۳۷۱۰)
’’ محمد بن سیرین تابعی (وفات: ۱۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے (مشہور تابعی) عبیدہ بن عمرو سلمانی (وفات: ۷۲ ھ) کو بتایا کہ ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موے مبارک موجود ہیں، جنھیں ہم نے سیدنا انس ، یااُن کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ انھوں نے فرمایا: اگر اِن میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا کی ساری نعمتوں سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
امام ذہبی(وفات:۷۴۸ ھ) فرماتے ہیں کہ سیدنا عبیدہ کا یہ قول کمال محبت کا ایک عجیب نمونہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک موے مبارک کو ساری دنیامیں موجود سونے چاندی کے خزانوں پر ترجیح دی جائے(’هذا القولُ مِن عبیدة هو معیارُ کمالِ الحُبِّ، وهوأن یُؤثر شعرة نبویة علٰی کلِّ ذهبٍ وفضَّةٍ بأیدي النَّاس‘۔سیر اعلام النبلاء ۴/ ۴۲)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی محبت اورآپ سے یہی جذباتی تعلق ہے جسے بعد کے اہل ایمان کی نسبت سے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
عن أبي ھریرة، أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم، قال: ’’مِنْ أشدِّ أمتي لي حُبًّا، ناسٌ یكونون بعدي، یود أحدُهم لو رآني بأهله وماله‘‘. (مسلم، رقم ۲۸۳۲)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں مجھ سے شدید محبت والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے۔ اُن میں سے ایک شخص کی بہترین آرزو یہ ہوگی کہ کاش، وہ اپنا تمام مال و دولت اور اپنے اہل و عیال سب کو قربان کرکے میرا دیدارکر سکے۔‘‘
صحابہ و تابعین کے مذکورہ واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ مومن کوئی بے روح مشینی مخلوق نہیں کہ وہ جامد انداز میں ایک عمل کو دہراتا رہے۔مومن ایک زندہ انسان ہوتاہے، اور ایک ایسا انسان کبھی محبت و جذبات سے خالی نہیں ہوسکتا۔یہ تابعین اور اصحاب، بلاشبہ اتباع رسول کے راستے پر گام زن تھے ، مگر اِسی کے ساتھ وہ آپ کی محبت میں سرشار،آپ کی سلامتی کے لیے بے چین، نیز آپ اور آپ سے منسوب ہر چیزکے لیے سراپا اشتیاق رہا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ایمان بالرسول کاوہ بدیہی تقاضاہے جو آپ کی نسبت سے ایک سچے مومن کے اندر فطری طورپر موجزن ہواکرتا ہے۔ میڈیا سنامی کے اِس دور میں ، جب کہ عام طورپر ’بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًي وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ‘(الحج ۲۲: ۸) کے مصداق، بہت سے ’مذہبی‘ اور غیر’مذہبی‘ فلسفہ و افکار کی اشاعت دن رات جاری اور اُن کے بانی علما ومفکرین سے ایسی والہانہ محبت اور عقیدت کا ثبوت دیا جارہاہے جو صرف اللہ اور رسول کا حصہ ہے(البقرہ ۲ :۱۶۵)۔
اِس صورت حال میں ضرورت ہے کہ ہر قسم کی گروہ بندی اور مسلک پرستی سے بلند ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق قائم ہو اور ہر جگہ آپ کی سیرت اورآپ کی تعلیما ت کا اِس کثر ت کے ساتھ تذکرہ کیا جائے کہ وہی وقت کا غالب موضوع بن کر تمام فلسفہ ہاے حیات پر چھاجائے۔
ایمان و محبت کی اِ س عظیم دعوتی اور ربانی مہم کو عمومی بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر جگہ تذکیر بالقرآن، سیرت نبوی اور اُسوۂ صحابہ کے سنجیدہ دعوتی اور تربیتی حلقے قائم کیے جائیں ۔ آپ کی سنت اور آپ کی سیرت سے بڑھ کر کوئی ’فکر وفلسفہ ‘ اور آئیڈیالوجی (ideology)نہیں جو انسانیت کے لیے حیات بخش ثابت ہو۔ شخصی ’آئیڈیالوجی‘ اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے اکثر ’خیال پرستی‘ہوا کرتی ہے، وہ وحی الہٰی پر مبنی کوئی نظریۂ حیات نہیں ۔لہٰذا خدا کی کتاب اور اُس کے پیغمبر سے بڑھ کر دوسری اور کوئی چیز نہیں جو ہمارے لیے محبت و اتباع کا مرکز اور ربانی ہدایت کا مستند خدائی ماخذ بن سکے۔
[لکھنؤ،۹/ اگست ۲۰۲۲ء، یوم عاشوراء،۱۴۴۴ ھ]
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ امام نووی (وفات: ۶۷۶ھ)نے اِس روایت کو نصر بن ابراہیم مقدسی(وفات:۴۹۰ھ) کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے اِسے حسن صحیح قرار دیا ہے: ’وقال النووي: حدیث حسن صحیح، رویناہ في کتاب ’’الحُجّة علیٰ تارک المحبّة‘‘۔ نصر بن إبراھیم المقدسي-بإسناد صحیح‘ (فتح الباری ۱۳/ ۲۸۹)۔