’’اِن کی سزا کا حکم مسلمانوں کو اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں ، بلکہ پورے مسلمان معاشرے کو دیا گیا ہے اور اِس لحاظ سے اُن کے نظم اجتماعی سے متعلق ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کا حکم ہی قرآن کی اُن سورتوں میں بیان ہوا ہے جو اُس وقت نازل ہوئی ہیں جب یثرب کا اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل ہو چکا تھا اور مسلمانوں کی ایک باقاعدہ حکومت وہاں قائم ہو گئی تھی۔چنانچہ کوئی شخص یا جماعت اگر کسی خطۂ ارض میں سیاسی اقتدار نہیں ر کھتی تو اُسے یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ وہ اِن میں سے کوئی سزا کسی مجرم پر نافذ کرے۔“(میزان ۶۱۲)
مصنف نے یہاں فقہا کے متفقہ موقف کی ترجمانی کی ہے، جس کی رو سے معاشرتی جرائم کے ارتکاب پر مجرم کو سزا دینے کا اختیار افراد کو نہیں، بلکہ نظم اجتماعی، یعنی ریاستی اداروں کو حاصل ہے۔ فقہا کا یہ اتفاق عقل عام کے اس اصول پر مبنی ہے کہ اگر اس نوعیت کے معاملات میں ہر شخص کو ازخود اقدام کرنے کا حق دے دیا جائے تو یہ چیز معاشرتی اور قانونی نظم کو درہم برہم کر دے گی اور اس کے نتیجے میں انصاف اور ظلم کے مابین عملاً کوئی فرق کرنا ہی سرے سے ممکن ہی نہیں رہے گا۔ جلیل القدر حنفی فقیہ علامہ کاسانی نے اس ضمن میں بعض اہم مصالح کو نمایاں کیا ہے جو اولو الامرکے بجاے عام لوگوں کو سزا کے نفاذ کا اختیار سونپنے سے فوت ہو سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ قاضی کو ریاستی مشینری کی پوری معاونت حاصل ہوتی ہے اور وہ مجرم کی طرف سے معارضے یا جوابی کارروائی کے خدشے سے بے نیاز ہوکر سزا نافذ کر سکتا ہے، جب کہ کسی عام فرد کو دوسرے فرد پر یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا اور اس کا امکان ہوتا ہے کہ وہ سزا کے نفاذ کی مزاحمت کرے گا یا انتقاماً اپنے مخالف کی جان ومال کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ مزید برآں قاضی کے حق میں مجرم کے لیے رعایت، جانب داری اور مداہنت کے دواعی عموماً نہیں پائے جاتے، جس کی وجہ سے وہ انصاف اور قانون کے تقاضوں کے مطابق سزا کو نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ کسی مقدمے کے فریق کے بارے میں نہ صرف یہ کہ اس کا امکان، بلکہ ظن غالب ہے کہ وہ عدل وانصاف کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجاے جانب داری کامرتکب ہوگا (بدائع الصنائع ۷/۵۷- ۵۸)۔
ایک روایت میں ہے کہ سعد بن عبادہ نے ایک موقع پر زنا کے مجرم کو خود ہی قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غیرت کی تعریف فرمائی، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو یہ بات پسند نہیں کہ مجرم کو صفائی پیش کرنے یا اپنی براءت ثابت کرنے کا موقع دیا جائے (بخاری، رقم ۶۹۸۰)۔
امام ابن عبد البر اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
في هذا الحدیث النهي عن قتل من هذہ حاله تعظیمًا للدم وخوفًا من التطرق إلی إراقة دماء المسلمین بغیر ما أمرنا اللّٰه به من البینات أو الإقرار الذي یقام علیه وسد باب الافتیات علی السلطان في الحدود التي جعلت في الشریعة إلیه وأمر فیها بإقامة الحق علی الوجوہ التي ورد التوقیف به..... والمعنی الموجود في هذا الحدیث مجتمع علیه قد نطق به الکتاب المحکم وقد وردت به السنة الثابتة واجتمعت علیه الأمة.(التمہید ۲۱/ ۲۵۳، ۲۵۵)
”اس حدیث میں ایسی حالت میں قتل کرنے کی ممانعت کی گئی ہے تاکہ انسانی جان کی حرمت کو نمایاں کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے گواہوں یا مجرم کے اقرار کی بنیاد پر سزا نافذ کرنے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے، اس سے ہٹ کر مسلمانوں کا خون بہانے کا راستہ نہ کھل جائے۔ اس سے حکمران کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کا سد باب بھی مقصود ہے، کیونکہ شریعت میں سزائیں نافذ کرنے کا اختیار حکمران ہی کے سپرد کیا گیا ہے اور اسے ان ہدایات کے مطابق سزا نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو شریعت میں بیان کیے گئے ہیں۔ ... اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ متفق علیہ ہے۔ یہ بات قرآن نے بھی بیان کی ہے، سنت ثابتہ سے بھی ثابت ہے اور امت کا بھی اس پر اجماع ہے۔“
البتہ مصنف نے اس میں ایک استثنا قرآن مجید کی روشنی میں قصاص کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ قاتل کو سزا میں کوئی رعایت دینے کے ضمن میں مقتول کے اولیا کی رضامندی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:
’’تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ حکومت اگر کسی جگہ قائم نہ ہو اور قصاص کا معاملہ مقتول کے اولیا ہی سے متعلق ہوجائے تو وہ اپنی اِس حیثیت میں حدود سے تجاوز کریں۔“ (میزان ۶۲۱)
یہ استثنا مصنف نے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۳۳ سے اخذ کیا ہے، جس میں مقتول کے وارثوں کو قاتل سے انتقام لینے کا حق دیا گیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ مکہ مکرمہ میں جب مسلمانوں کا اقتدار اور حکومت قائم نہیں ہوئی تھی تو قبائلی رواج کے مطابق ہر شخص کو اپنا بدلہ خود لینے کی اجازت تھی، لیکن ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت قائم ہو گئی تو ازخود ایسا کوئی اقدام کرنے سے انھیں روک دیا گیا۔ فرماتے ہیں:
ومن انتصر لنفسه دون السلطان فهو عاص مسرف قد عمل بحمیة الجاهلیة ولم یرض بحکم اللّٰه. (السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۸۵۹)
”جو شخص حکمران کے پاس جائے بغیر اپنا انتقام خود ہی لے، وہ گناہ گار اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔ اس نے جاہلیت کی حمیت پر عمل کیا ہے، لیکن اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوا۔“
’’موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو شریعت دی گئی تو اُسی وقت لکھ دیا گیا تھا کہ اِن دو جرائم کو چھوڑ کر ، فرد ہو یا حکومت ، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اُسے قتل کر ڈالے ۔“(میزان ۶۱۲)
مصنف کا نقطۂ نظر یہاں بعض اہم حوالوں سے اہل علم کی عمومی راے سے مختلف ہے ۔
قتل کی سزا کی تحدید کے ضمن میں فقہا کے ہاں سورۂ مائدہ کی محولہ آیت زیر بحث نہیں لائی جاتی، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث کے ضمن میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ کیا موت کی سزا کچھ خاص جرائم تک محدود ہے یا نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کی جان لینا اس کے علاوہ حلال نہیں کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہونے کی حالت میں زنا کیا ہو یا دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے ( بخاری، رقم ۶۸۷۸)۔ تاہم ان کے علاوہ متعدد دیگر جرائم کے لیے بھی موت کی سزا بیان کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جن میں سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح کرنا (ترمذی، رقم ۱۲۸۲)، کسی محرم خاتون کے ساتھ بدکاری (ترمذی، رقم ۱۴۶۲)، زنا بالجبر (ابوداؤد،ر قم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴)، لواطت (المستدرک، رقم ۸۰۴۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۵)، شراب نوشی کا عادی مجرم ہونا (ابو داؤد، رقم ۴۴۸۴-۴۴۸۲) اور شراب نوشی ترک کرنے سے انکار کرنا ( مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۳۷۴۲) شامل ہیں۔ ان تمام مثالوں میں موت کی سزا مسلمانوں کے لیے بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح جب بعض کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور زبان درازی کی پاداش میں قتل کر دیا گیا تو آپ نے ان کے خون کو رائگاں قرار دے دیا (ابو داؤد، رقم ۳۷۹۵۔ نسائی، رقم ۴۰۰۲۔ ابن ابی عاصم، الدیات ۱/۷۳)۔ ان تمام نظائر کی روشنی میں جمہور فقہا مذکورہ حدیث میں مذکور تین جرائم کے علاوہ بھی کسی جرم میں تعزیری طور پر موت کی سزا دینے کو درست سمجھتے ہیں۔
مصنف نے اس سوال کو مذکورہ حدیث کے بجاے سورۂ مائدہ کی محولہ آیت کے تناظر میں موضوع بنایا ہے جہاں بنی اسرائیل کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ قتل اور فساد فی الارض کے علاوہ کسی ایک انسان کی جان لینا گویا ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ اس نقطۂ نظر کی رو سے نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں، بلکہ شریعت موسوی میں بھی قتل کی سزا اسی صورت میں دی جا سکتی تھی جب مجرم یا تو قتل ناحق کا مرتکب ہوا ہو یا اس کا جرم فساد فی الارض کے تحت آتا ہو۔ یوں مصنف کے سامنے نہ صرف ان احادیث میں مذکور ان واقعات کی توجیہ کا سوال ہے، جن میں مختلف مجرموں کے لیے سزاے موت تجویز کی گئی ہے، بلکہ وہ حدیث بھی توجیہ طلب بن جاتی ہے جس میں قتل کے علاوہ شادی شدہ زانی اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے کو بھی مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تورات میں مذکور ان تمام مثالوں کی توجیہ بھی ضروری ہو جاتی ہے جن میں ناحق قتل (گنتی ۳۵: ۱۶ -۲۱) کے علاوہ متعدد جرائم پر موت کی سزا مقرر کی گئی ہے، مثلاً کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچنا ( استثنا ۷:۲۴)، شادی شدہ عورت یا کسی کی منگیتر کے ساتھ بدکاری (استثنا ۲۲: ۲۲ - ۲۴)، قاضی کے سامنے گستاخی کرنا یا اس کا فیصلہ نہ ماننا ( استثنا ۱۷: ۱۲- ۱۳)، باپ کے سامنے سرکشی اور اس کی نافرمانی (استثنا ۱۸:۲۱ -۲۱)، باپ یا ماں پر لعنت کرنا (احبار ۲۰: ۹)، کہانت کی خدمت میں بنی لاوی کے ساتھ شریک ہونے کی کوشش کرنا )گنتی ۱۸: ۷(، لواطت )احبار ۲۰: ۱۳(، جانور کے ساتھ جماع)احبار ۲۰: ۱۶-۱۵(، اپنی بہن یا بھائی کے بدن کو بے پردہ دیکھنا ) احبار ۱۷:۲۰(، خدا کے علاوہ کسی اور معبود یا سورج یا چاند یا اجرام فلکی کی عبادت )استثنا ۱:۱۳ - ۱۸، ۱۷: ۲ - ۷(، اولاد کو مولک کی نذر کرنا)احبار ۲۰: ۲(، خدا کے نام کی بے حرمتی کرنا)احبار ۲۴: ۱۳ -۱۶(، نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا(استثنا ۱۸: ۲۰ -۲۲(، سبت کے دن کی پابندی کو توڑنا ) گنتی ۱۵: ۳۲ -۳۶(، اور سفلی عمل یا جادو کرنا ) احبار ۲۰: ۲۷( وغیرہ۔
مصنف نے مختلف مقامات پر ان میں سے بعض مثالوں کی جو توجیہ وتعبیر کی ہے، اس سے ان کا زاویۂ نظر سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر تورات میں شادی شدہ خاتون کے ساتھ زنا کو مستوجب قتل قرار دینے کی توجیہ مصنف نے یوں کی ہے کہ ’’بنی اسرائیل کی مخصوص حیثیت اور اُن پر خدا کی براہ راست حکومت کی وجہ سے زنا بہ زن غیر (adultery) کو اُن کی شریعت میں حرابہ قرار دے دیا گیا تھا۔ عورت کنواری ہو تو البتہ، رعایت کی ہدایت کی گئی تھی اور مرد پر مالی تاوان عائد کر کے اُسے پابند کر دیا گیا تھا کہ باقی عمر کے لیے وہ اُسے بیوی بنا کر رکھے گا ‘‘ (البیان۳ / ۴۱۶)۔ اس توجیہ سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہےکہ مصنف کے نزدیک، Mخدا کی شریعت کا حامل ہونے اور خدا کے ساتھ اس کی پابندی اور اقوام عالم کے سامنے اس کی شہادت کا عہد ومیثاق باندھنے کے بعد مذکورہ جرائم کا ارتکاب بنی اسرائیل کے حق میں اللہ تعالیٰ کے خلاف محاربہ او ر اس کی شریعت سے سرکشی کا درجہ رکھتا تھا، جس پر ان کے لیے موت کی سزا مقرر کی گئی۔
جہاں تک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور جرائم، یعنی مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے اور شادی شدہ ہوتے ہوئے زنا کرنے کا تعلق ہے، تو مصنف ان کو بھی حرابہ کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان میں سے مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانے سے مراد مصنف کے نزدیک نظم اجتماعی کے خلاف بغاوت کرنا ہے، جو واضح طور پر فساد فی الارض کی مثال ہے، جب کہ شادی شدہ کے لیے قتل کی سزا کا ذکر اس پہلو سے کیا گیا ہے کہ زنا کے بعض مجرموں کو بھی ان کے جرم کی نوعیت اور شخصی حالات کے لحاظ سے فساد فی الارض کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔ مصنف کے نزدیک مجرم کا شادی شدہ ہونا، سزا کی واحد بنیاد نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ مل کر ایک ایسا قابل لحاظ پہلو بن جاتا ہے جس پر مجرم کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے۔
اسی نوعیت کی توجیہ مصنف نے احادیث میں منقول واقعات میں سے توہین رسالت کے مجرموں کو قتل کرنے سے متعلق بیان کی ہے۔ ان کی راے میں اگر کوئی غیر مسلم معاند مستقل طور پر یہ روش اختیار کر لے اور تنبیہ وتادیب کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو اسے محاربہ اور فساد فی الارض کا مجرم قرار دے کر موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے اور عہد نبوی میں جن مجرموں کو یہ سزا دی گئی، ان کے جرم کی نوعیت یہی تھی۔
حاصل یہ ہے کہ مصنف کے نقطۂ نظر کے مطابق سورۂ مائدہ کی زیر بحث آیت کی رو سے موت کی سزا کے لیے کسی جرم کا ’فساد فی الارض‘ کا مصداق ہونا ضروری ہے اور تورات میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں جن جرائم پر بھی سزاے موت دی گئی، وہ اس کا مصداق تھے۔ مصنف کی ذکر کردہ توجیہات سے کسی جرم کے فساد فی الارض کے تحت شمار ہونے کے جو اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ بعض جرائم، مثلاً بغاوت، ڈاکا زنی اور زنا بالجبر وغیرہ نظم اجتماعی اور امن عامہ کو براہ راست منہدم کرنے کی وجہ سے فساد فی الارض کے تحت آتے ہیں۔
۲۔ بعض میں مجرم کا رویہ اور ناقابل اصلاح روش ان جرائم کو فساد کا مصداق بنا دیتی ہے، جیسے شراب نوشی، زنا اور توہین رسالت وغیرہ کو مستقل معمول بنا لینا اور توبہ واصلاح کی طرف مائل نہ ہونا۔
۳۔ بعض جرائم کو مجرموں کی مخصوص حیثیت کی وجہ سے فساد فی الارض کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے، جیسے وہ مختلف جرائم جن کو تورات میں بنی اسرائیل کے لیے مستوجب قتل قرار دیا گیا ہے، مثلاً کسی شادی شدہ عورت سے بدکاری یا کسی آزاد کو غلام بنا کر بیچ دینا۔
۴۔ اسی ضمن میں بنی اسرائیل کی سرکشی کی پاداش میں ان کے لیے زیادہ سنگین سزائیں مقرر کیے جانے کو بھی ایک مستقل اصول شمار کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے حلال اور حرام جانوروں کے تعلق سے بعض پابندیوں کی یہ نوعیت تو تصریحاً واضح کی ہے، جب کہ احکام شریعت کی پامالی پر بہت سی صورتوں میں سزاے موت مقرر کیے جانے کو بھی اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
۵۔ بعض جرائم اس پہلو سے سرکشی اور محاربہ کا مصداق ہیں کہ ان میں شریعت کی بعض ایسی حدود کو پامال کیا جاتا ہے جن کو عام حالات میں کوئی پامال کرنے کی جسارت نہیں کرتا اور ان کی پامالی، شریعت اور حدود اللہ سے متعلق مجرم کے باغیانہ ذہنی رویے کا اظہار کرتی ہے، مثلا ً سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح یا کسی محرم خاتون سے بدکاری کرنا وغیرہ۔
’’اللہ کا رسول دنیا میں موجود ہو اور لوگ اُس کی حکومت میں اُس کے کسی حکم یا فیصلے کے خلاف سرکشی اختیار کرلیں تو یہ اللہ و رسول سے لڑائی ہے۔ اِسی طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی تعبیر ہے۔ یہ اُس صورت حال کے لیے آتی ہے، جب کوئی شخص یا گروہ قانون سے بغاوت کرکے لوگوں کی جان و مال ، آبرو اور عقل و راے کے خلاف برسر جنگ ہو جائے۔ چنانچہ قتل دہشت گردی، زنا زنا بالجبر اور چوری ڈاکا بن جائے یا لوگ بدکاری کو پیشہ بنا لیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں یا نظم ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا اغوا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیں تو وہ اِسی فساد فی الارض کے مجرم ہوں گے۔“(میزان ۶۱۳)
مصنف نے یہاں حرابہ اور فساد فی الارض کے مفہوم ومصداق سے متعلق اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے۔ فقہا اور مفسرین نے بالعموم محاربہ کا مصداق راہ زنی اور ڈکیتی کو قرار دیا ہے۔ تاہم جلیل القدر تابعی مفسر مجاہد سے یہ راے منقول ہے کہ آیت حرابہ میں مذکور’فساد فی الارض‘ کے دائرے میں چوری، زنا،قتل اور حرث ونسل کی بربادی وغیرہ بھی شامل ہیں (طبری، جامع البیان ۶/۱۳۲)۔ امام قرطبی اس راے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اللهم إلا أن يريد إخافة الطريق بإظهار السلاح قصدًا للغلبة على الفروج فهذا أفحش المحاربة وأقبح من أخذ الأموال وقد دخل في معنى قوله تعالىٰ: ﴿وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا﴾.(احکام القرآن ۷/ ۴۴۴)
’’اگر مجاہد کی مراد عورتوں کی عصمت دری کے لیے ہتھیاروں کے بل بوتے پر غنڈہ گردی کرنا ہے تو یقیناً یہ محاربہ کی بدترین صورت ہے، جو بدمعاشی کے زور پر لوگوں کے مال لوٹنے سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ یہ صورت یقیناً اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مصداق ہے کہ ’’جو لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں۔“
دور جدید کے اہل علم کے ہاں بھی آیت حرابہ کو معاشرے اور ریاست کے خلاف جرائم کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا رجحان نمایاں ہے اور وہ قانون کو ہاتھ میں لینے، ریاست کے اختیار اور اتھارٹی کو چیلنج کرنے، معاشرے کے امن وامان کو درہم برہم کرنے اور جان ومال اور آبرو کے حوالے سے خوف وہراس کی صورت حال پیدا کردینے کی ہر صورت کو اس کے مفہوم میں داخل مانتے ہیں۔ چنانچہ علامہ رشید رضا لکھتے ہیں کہ جان و مال اور آبرو کے خلاف عام نوعیت کے جرائم اگر جتھا بندی کی صورت میں کیے جائیں، جس سے’فساد فی الارض‘ کی کیفیت پیدا ہو جائے تو وہ ’حرابہ‘ کے تحت آ جاتے ہیں (تفسیر المنار ۶/ ۲۹۶)۔
مولانا حمید الدین فراہی کے نزدیک سیدنا عمر کے نجران کے نصاریٰ کو سود کھانے کی بنا پر جزیرۂ عرب سے جلاوطن کرنے کا ماخذ بھی آیت محاربہ ہے، کیونکہ اس میں فساد فی الارض کی سزا بیان ہوئی ہے اور سود بھی اسی کی ایک صورت ہے (تفسیر نظام القرآن، البقرہ ۲۸۵)۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کے مفہوم میں ’زنا‘کی بعض صورتوں کو بھی شامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ”وہ گنڈے اور بدمعاش جو شریفوں کے عزت وناموس کے لیے خطرہ بن جائیں، جو اغوا اور زنا کو پیشہ بنا لیں، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالیں اور کھلم کھلا زنا بالجبر کے مرتکب ہوں، ان کے لیے رجم کی سزا اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہے“ (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۶)۔ مولانا کی راے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عکل اور عرینہ کے لٹیروں اور بنونضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے یہود کے خلاف، جب کہ صحابہ نے مسیلمہ کذاب اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ اور خیبر کے یہود کو جزیرۂ عرب سے جلا وطن کرنے کے جو اقدامات کیے، ان سب کا ماخذ بھی یہی آیت ہے ( تدبر قرآن۲/ ۵۰۷)۔
مولانا شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
”...اکثر مفسرین نے اس جگہ رہزنی اور ڈکیتی مراد لی ہے، مگر الفاظ کو عموم پر رکھا جائے تو مضمون زیادہ وسیع ہو جاتا ہے۔ آیت کی جو شان نزول احادیث صحیحہ میں بیان ہوئی، وہ بھی اسی کو مقتضی ہے کہ الفاظ کو ان کے عموم پر رکھا جائے۔ ”اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنا“ یا ”زمین میں فساد اور بد امنی پھیلانا“ یہ دو لفظ ایسے ہیں جن میں کفار کے حملے، ارتداد کا فتنہ، رہزنی، ڈکیتی، ناحق قتل ونہب، مجرمانہ سازشیں اور مغویانہ پروپیگنڈا سب داخل ہو سکتے ہیں اور ان میں سے ہر جرم ایسا ہے جس کا ارتکاب کرنے والا ان چار سزاؤں میں سے جو آگے مذکور ہیں، کسی نہ کسی سزا کا ضرور مستحق ٹھہرتا ہے“ (تفسیر عثمانی ۱۵۰)۔
مصنف کا رجحان بھی حرابہ اور فساد کے مصداق کی تعیین میں فقہا کی تعبیر کے بجاے اہل علم کے مذکورہ رجحان کے قریب تر ہے۔ ایک دوسری بحث میں مصنف نے حرابہ کے مفہوم میں توسیعاً توہین رسالت کے جرم کو بھی شامل کرنے کے امکان کو تسلیم کیا ہے۔ مصنف کی راے میں اگر توہین رسالت کا کوئی مجرم ’’ جب وہ توبہ اور رجوع سے انکار کر دے؛ سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛ فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور باربار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے “ تو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اسے آیت محاربہ میں مذکورہ مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
’’اِس سزا کے لیے ’اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے،یعنی یہ کہ اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔... قرآن کے الفاظ کا تقاضا ہے کہ عام حالات میں یہ سزا اِسی صورت میں دی جائے ، لیکن کسی وجہ سے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجرم کو کسی خاص علاقے میں پابند یا اُس کے گھر میں نظر بند کر دینے سے بھی حکم کا منشا یقیناً پورا ہو جائے گا ۔“ (میزان، ۶۱۴)
یہ راے مالکیہ اور احناف کے موقف سے ہم آہنگ ہے اور اس کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ مجرم کو ایک علاقے سے جلاوطن کرنے کی مصلحت اسے جرم سے باز رکھنا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجاے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہ کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی کی راے یہ نقل ہوئی ہے کہ انھوں نے مجرم کو جلاوطن کرنے کو ’فتنہ‘ سے تعبیر کیا (الشیبانی، کتاب الآثار، رقم ۶۱۴- ۶۱۵)، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے مجرم کی اصلاح کے بجاے مزید برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ حنفی فقہا اسی کی روشنی میں ’نفی‘ کی صورت عموماً یہی بیان کرتے ہیں کہ مجرم کو قید کر دیا جائے، کیونکہ اس سزا کا مقصد مجرم کے شر وفساد سے لوگوں کو محفوظ بنانا ہے، جب کہ جلا وطن کرنے سے خدشہ ہے کہ مجرم کو جس علاقے کی طرف جلاوطن کیا جائے، وہ بھی اس کی شر انگیزی کا نشانہ بن جائیں گے (جصاص، احکام القرآن ۴/ ۵۹)۔ یہی راے مالکی فقہا میں سے قاضی ابوبکر ابن العربی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجرم کو کسی دوسرے علاقے کی طرف جلا وطن کرنا الٹا اس کے لیے مزید جرائم کے ارتکاب میں معاون ہو سکتا ہے، اس لیے اسے قید کر دینا چاہیے، کیونکہ نقل وحرکت کی آزادی سے محروم کر دینا بھی ایک طرح سے جلا وطن کر دینے کے ہی ہم معنی ہے (احکام القرآن ۲/ ۹۹) ۔
’’یہ کسی شخص کے غلطی سے قتل ہو جانے کا حکم ہے ،لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے ۔ چنانچہ اُن میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اِس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی ،مثال کے طور پر ،اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے ۔“ (میزان۶۲۳)
قرآن مجید نے قتل خطا کی صورت میں، جب کہ مقتول مسلمان ہو، کفارے کے طور پر ایک غلام آزاد کرنے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ مصنف نے اس پر قیاس کرتے ہوئے یہ اخذ کیا ہے کہ قتل کے علاوہ جراحات کی صورت میں بھی دیت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ کفارے کے طور پر روزے رکھنا لازم ہونا چاہیے۔ فقہی ذخیرے میں بہ ظاہر یہ ایک بالکل منفرد راے ہے ۔
’’خطا اور عمد ، دونوں میں قرآن کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے ۔ قرآن نے خود دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے نہ عورت اور مرد ،غلام اور آزاد، مسلم اور غیرمسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے ۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں ، وہ اِسی دستور کے مطابق ہیں ۔... قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے ، چنانچہ اُس نے اِس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے ۔قرآن کے اِس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے ۔“ (میزان۶۲۴)
مصنف نے یہاں جمہور اہل علم کے برخلاف مولانا امین احسن اصلاحی کی راے سے اتفاق کیا ہے۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی مقدار سو اونٹ مقرر فرمائی۔ فقہی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقریر و تصویب کو شرعی حکم کی حیثیت دی گئی اور دیت کے باب میں سو اونٹوں ہی کو ایک ابدی معیار تسلیم کیا گیا ہے، تاہم مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ قرآن مجید نے ’فَاتِّبَاعٌۣ بِالْمَعْرُوْفِ‘ (البقرہ۲: ۱۷۸) کے الفاظ سے اس معاملے کو ’معروف‘ پر مبنی قرار دیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ہدایت کی پیروی میں اپنے دور میں دیت کی وہی مقدار، یعنی سو اونٹ مقرر فرمائی جو اسلام سے پہلے اہل عرب میں رائج تھی۔ چونکہ معروف سے متعلق معاملات زمانہ اور حالات کے تغیر سے اپنے اصل مقصدکو باقی رکھتے ہوئے بدل جاتے ہیں، اس لیے دیت کی ادائیگی کی صورتیں اور اس کی مقدار وغیرہ طے کرنا ارباب اجتہاد کا کام ہے (تدبر قرآن ۲/ ۳۶۱)۔
مصنف نے اس استدلال سے اتفاق کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ دیت کی مقدار کی تعیین کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی حیثیت ابدی تشریع کی نہیں، بلکہ ایک اصولی شرعی حکم کے وقتی اور زمان ومکان میں محدود اطلاق کی ہے۔ مصنف نے اس مسئلے کے مبنی بر عرف ہونے کی تائید میں ’فَاتِّبَاعٌۣ بِالْمَعْرُوْفِ‘ کے علاوہ سورۂ نساء میں ’دِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ‘ میں اختیار کردہ اسلوب کو بھی پیش کیا ہے*۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اس پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: حدود وتعزیرات چند اہم مباحث۔