بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِﵐ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ ٢٢ وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗ٘ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗﵧ حَتّٰ٘ي اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ قَالُوْا مَاذَاﶈ قَالَ رَبُّكُمْﵧ قَالُوا الْحَقَّﵐ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ ٢٣
اِن سے کہو کہ ذرا بلاؤ اُنھیں جن کو تم نے خدا کے سوا معبود سمجھ رکھا ہے۔[52] وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر اختیار رکھتے ہیں نہ زمین میں، اور نہ اِن دونوں کے بنانے میں اُن کا کوئی ساجھا ہے اور نہ (اِس کائنات کا نظم چلانے کے لیے) اُن میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے۔ اُس کے حضور کوئی شفاعت کام نہیں آتی، الاّ یہ کہ وہ خود کسی کے لیے اُس کی اجازت دے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن جب اُن کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگی تو تمھارے یہی معبود ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ تمھارے پروردگار نے کیا حکم فرمایا؟ وہ جواب دیں گے کہ حق ارشاد ہوا اور وہ عالی مقام ہے، بڑی عظمت والا ہے۔[53] ۲۲- ۲۳
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﵧ قُلِ اللّٰهُﶈ وَاِنَّا٘ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰي هُدًي اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ٢٤ قُلْ لَّا تُسْـَٔلُوْنَ عَمَّا٘ اَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ٢٥ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّﵧ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيْمُ ٢٦
اِن سے پوچھو، تمھیں زمین اور آسمانوں[54] سے کون روزی بہم پہنچاتا ہے؟ کہو، اللہ۔[55] اب ہم میں اور تم میں کوئی ایک ہدایت پر ہے یا کھلی ہوئی گم راہی میں، (اِس کا فیصلہ خدا ہی کے سپرد ہے)۔[56] اِن سے کہو، نہ ہمارے کسی جرم کی تم سے کوئی پرسش ہونی ہے اور نہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اُس کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ کہو، ہمارا پروردگار ہم سب کو (ایک دن) اپنی عدالت کے لیے جمع کرے گا، پھرہمارے درمیان بالکل انصاف کے مطابق فیصلہ کر دے گا۔ وہی بہت بڑا فیصلہ کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۲۴ -۲۶
قُلْ اَرُوْنِيَ الَّذِيْنَ اَلْحَقْتُمْ بِهٖ شُرَكَآءَ كَلَّاﵧ بَلْ هُوَ اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٢٧
اِن سے کہو، ذرا مجھے دکھاؤتو سہی جنھیں تم نے شریک بناکر خدا سے ملا رکھا ہے۔[57] ہرگز نہیں، بلکہ وہی اللہ عزیز و حکیم ہے۔۲۷
وَمَا٘ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٢٨ وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰي هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٢٩ قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَ ٣٠
(یہ نہیں سنتے تو ہم دوسروں کو مخاطب بنا لیں گے)۔ ہم نے، (اے پیغمبر)، تم کو جو بھیجا ہے تو تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے،[58] لیکن (لوگوں پر افسوس ہے کہ) اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔[59] کہتے ہیں کہ اگر تم لوگ سچے ہو تو عذاب کا یہ وعدہ کب پورا ہو گا (جس کی دھمکی سنا رہے ہو)؟ اِنھیں بتا دو کہ تمھارے لیے ایک ایسے دن کی میعاد مقرر ہے جس سے نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹو گے ، نہ آگے بڑھو گے۔[60] ۲۸- ۳۰
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِﵧ وَلَوْ تَرٰ٘ي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْﵗ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰي بَعْضِ اِۨلْقَوْلَﵐ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْلَا٘ اَنْتُمْ لَكُنَّامُؤْمِنِيْنَ ٣١ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْ٘ا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰي بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ ٣٢ وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَا٘ اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗ٘ اَنْدَادًاﵧ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَﵧ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْ٘ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْاﵧ هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ٣٣
یہ منکرین کہتے ہیں کہ ہم اِس قرآن کو کبھی نہ مانیں گے اور نہ اُس کو جس کی یہ آگے خبر دے رہا ہے۔[61] اور اگر تم دیکھتے، جب یہ ظالم اپنے پروردگار کے حضور کھڑے ہوں گے، اِس طرح کہ اِن میں سے ایک دوسرے پر بات ڈال رہا ہو گا، پھر تم دیکھتے کہ یہ کس انجام کو پہنچے ہیں۔[62] جو لوگ دبا کر رکھے گئے تھے،[63] اُس وقت وہ اپنے متکبرین سے کہیں گے کہ اگر تم لوگ نہ ہوتے تو (پیغمبر کی بعثت کے بعد حق اِس قدر واضح ہو گیا تھا کہ) ہم ایمان لے آئے ہوتے۔ اِس کے جواب میں متکبرین اُنھیں جو دبا کر رکھے گئے، کہیں گے: کیا ہم نے تمھیں ہدایت سے روکا تھا، اِس کے بعد کہ وہ تمھارے پاس آگئی تھی؟ ہرگز نہیں، بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔ دبے ہوئے لوگ متکبرین کو جواب دیں گے: بلکہ تمھاری دن رات کی چالیں تھیں جو یہاں تک لے آئی ہیں، جب کہ تم ہمیں سمجھاتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور اُس کے شریک ٹھیرائیں۔[64] (پھر) جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو دلوں میں پچھتائیں گے۔[65] (مگراُس وقت پچھتانے سے کیا حاصل)! ہم اِن منکروں کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے۔[66] یہ وہی بدلہ پائیں گے جو کرتے رہے تھے۔ ۳۱ -۳۳
وَمَا٘ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْهَا٘ﶈ اِنَّا بِمَا٘ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ ٣٤ وَقَالُوْا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّاَوْلَادًاﶈ وَّمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ٣٥ قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ٣٦ وَمَا٘ اَمْوَالُكُمْ وَلَا٘ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰ٘ي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًاﵟ فَاُولٰٓئِكَ لَهُمْ جَزَآءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ ٣٧
(یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اے پیغمبر)، ہم نے جس بستی میں بھی کوئی خبردار کرنے والا بھیجا ہے، اُس کے اغنیا نے یہی کہا کہ جو تم دے کر بھیجے گئے ہو، ہم اُس کو نہیں مانیں گے۔ اور کہا کہ ہم مال و اولاد میں تم سے بڑھ کر ہیں اور ہم پر کوئی عذاب بھی آنے والا نہیں ہے۔ اِن سے کہو، حقیقت یہ ہے کہ میرا پروردگار ہی جس کے لیے چاہتا ہے، روزی کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔[67] (خدا کے بندو)، تمھارے مال اور تمھاری اولاد وہ چیز نہیں ہے جو تم کو ہمارا مقرب بنا دے۔ البتہ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، وہی ہیں کہ جن کے لیے اُن کے عمل کا کئی گنا[68] صلہ ہے اور وہ بالاخانوں میں اطمینان سے بیٹھے ہوں گے۔ ۳۴ -۳۷
وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰٓئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ ٣٨
اور جو نیچا دکھانے کے لیے ہماری آیتوں کے جھٹلانے میں سرگرم ہیں،[69] وہ پکڑے ہوئے عذاب میں داخل کیے جائیں گے۔[70] ۳۸
قُلْ اِنَّ رَبِّيْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗﵧ وَمَا٘ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗﵐ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ٣٩
کہہ دو، میرا پروردگار ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے، رزق کشادہ کرتا ہے اورجس کے لیے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ اُس کی راہ میں جو چیز بھی تم خرچ کرو گے، وہ اُس کا بدلہ دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔[71] ۳۹
[52]۔ یعنی بلاؤ کہ ہم بھی اُن کی صورت دیکھیں، وہ کیسے اور کہاں ہیں؟
[53]۔ سورہ کے مخاطب چونکہ قریش ہیں اور وہ فرشتوں کو خدا کی چہیتی بیٹیاں سمجھ کر اُن کی پرستش کرتے تھے، اِس لیے یہ اُنھی فرشتوں کا ماجرا ہے کہ آگے بڑھ کر ناز و تدلل کے ساتھ کسی کی سفارش کرنا تو الگ رہا، دوسرے سب لوگوں کی طرح اُن میں سے بہتوں پر بھی ایسا ہول طاری ہو گا کہ اُنھیں کچھ خبر نہ ہو گی کہ کیا ہوا اور اُن کے پروردگار نے اِس کے دوران میں کیا فرمایا ہے۔
[54]۔ زمین کے ساتھ آسمان کا ذکر اِس لیے کیا ہے کہ پانی آسمان سے برستا، سورج آسمان پر چمکتا اور تمام موسمی تغیرات آسمان ہی سے پیدا ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں زمین سے بیج اگتے، سبزہ لہلہاتا اور فصلیں بہار دکھاتی ہیں۔
[55]۔ قرآن کے مخاطبین یہ بات چونکہ مانتے تھے، اِس وجہ سے قرآن نے سوال کرنے کے بعد اُس کا جواب بھی خود ہی دیا اور بات آگے بڑھا دی ہے۔
[56]۔ یعنی جب ہم اور تم، دونوں خدا ہی کو رازق مانتے ہیں تو آگے جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، وہ اُس کا بدیہی نتیجہ ہے۔ اِس کے بعد بھی بحث کرنا چاہتے ہو تو تمھارا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ ہم میں سے کون حق پر ہے اور کون گم راہی میں پڑا ہوا ہے، اِس پر اب کسی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس طرح کی بات، ظاہر ہے کہ اُسی وقت کہی جاتی ہے، جب مخاطب دھاندلی پر اتر آئے اور اپنے مسلمات کے بدیہی نتائج کو بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہو۔
[57]۔ یہ تہدید ووعید اور طنز و تحقیر کا اسلوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخر وہ کون اور کہاں ہیں جو ایسے عالی مقام اورصاحب حکمت ہیں کہ خدا کی خدائی میں اُس کے ساجھی بنا دیے گئے ہیں؟ یہ آخر میں اُسی مضمون کو دوسرے اسلوب میں ادا کرکے بات ختم کر دی ہے جس کی ابتدا آیت ۲۲سے ہوئی تھی۔
[58]۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ دوسرے رسولوں کی طرح آپ کی بعثت محض اپنی قوم کی طرف نہیں، بلکہ تمام خلق کی طرف ہوئی ہے۔اپنی قوم کے اعیان و اکابر کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ کر آپ نے اِسی بنا پر اوس و خزرج کے لوگوں کو دعوت دی اور اُن کے بعد اہل کتاب اور اپنے گردوپیش کے حکمرانوں کو بھی۔ اِس کے نتیجے میں جو لوگ ایمان لائے، یہ اُنھی کی مدد تھی جس سے عالمی سطح پر اتمام حجت کا اہتمام ممکن ہوا اور نبوت و رسالت کا منصب ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ اب اِس دعوت کا ابلاغ اُس امت کی ذمہ داری ہے جو نسلاً بعد نسلٍ اُنھی انصار کے تابعین اور تبع تابعین کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں کو بھی خدا نے یہ سعادت عطا فرمائی کہ بعد میں اُن کی بڑی اکثریت ایمان لا کر اُس منصب کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تیار ہو گئی جسے قرآن میں ذریت ابراہیم کا منصب شہادت کہا گیا ہے۔
[59]۔ یعنی اِس بات کو نہیں جانتے کہ اُن کے لیے یہ کتنی بڑی محرومی ہے اور اِس کے نتائج کتنے سنگین ہوں گے۔
[60]۔ مطلب یہ ہے کہ آخر کس برتے پر عذاب کا وقت معلوم کرنا چاہتے ہو؟ کیا جانتے نہیں ہو کہ وہ جب آئے گا تو کسی کے ٹالے ٹل نہ سکے گا۔
[61]۔ یعنی عذاب اور عذاب کے بعد قیامت۔
[62]۔ اِس مفہوم کے الفاظ اصل میں حذف کر دیے گئے ہیں۔ جواب شرط کا یہ حذف عربیت کے معروف اسلوب کے مطابق ہے اور اُن موقعوں پر کیا جاتا ہے، جہاں صورت حال کی ہول ناکی تعبیر و تصویر سے ماورا ہو جائے۔
[63]۔ یعنی غربا اور عوام جو اپنی غربت اور بے مایگی کے سبب سے ہمیشہ اپنے بڑوں اور سرداروں کے آلۂ کار بنتے رہے ہیں۔
[64]۔ اِس توتکار سے واضح ہے کہ دونوں جانتے بوجھتے حق کا انکار کرتے رہے۔ وہ نہ لیڈروں پر مخفی تھا اور نہ اُن کے پیرووں پر، اِس لیے کہ خدا کے رسول نے اُن پر حجت تمام کر دی تھی۔
[65]۔ مطلب یہ ہے کہ اُن کا کوئی عذرمسموع نہ ہو گا اور اُنھیں عذاب کے آگے پیش کر دیا جائے گا۔ اُس وقت دلوں میں پچھتائیں گے کہ اپنے ضمیر کی گواہی کے خلاف ہم نے اپنے لیڈروں کی پیروی کی اور بالآخر اِس انجام کو پہنچ گئے۔
[66]۔ یہ سزا اِس جرم کی پاداش میں ہو گی کہ دنیا میں دوسروں کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالے رہے۔
[67]۔ یعنی اِس بات کو سمجھتے نہیں ہیں کہ یہ صبر و شکر کا امتحان ہے جو خدا نے اِس طریقے سے برپا کر رکھا ہے، بلکہ اِس کی بنیاد پر حق و باطل کے فیصلے کرنے لگتے ہیں۔
[68]۔ اصل میں ’جَزَآءُ الضِّعْفِ‘کے الفاظ ہیں۔ یہ مثل کے لیے بھی آتا ہے اور کسی چیز کے امثال کے لیے بھی۔اِس کو دگنے اجر کے محدود مفہوم میں لینا ضروری نہیں ہے۔
[69]۔ اصل الفاظ ہیں:’يَسْعَوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ‘۔ اِن میں ’فِيْ‘کے بعد مضاف محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
[70]۔ اِس میں ذلت اور بے بسی کی جو تصویر ہے، وہ ظاہر ہے۔
[71]۔ مطلب یہ ہے کہ خدا زیادہ دیتا ہے تو اِس لیے نہیں کہ اُس کی بنیاد پر حق و باطل کے فیصلے کیے جائیں، بلکہ اِس لیے کہ اُس کے بخشے ہوئے رزق کو اُس کی خوشنودی کے لیے اُس کی راہ میں خرچ کیا جائے کہ یہی شکر کا تقاضا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ وہی بات جو اوپر کہی گئی تھی، یہاں کس مقصد سے دہرائی گئی ہے۔ دونوں جگہ، اگر غور کیجیے تو تمہید ایک ، لیکن مدعا الگ الگ ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ