HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

پروفیسر نجات اللہ صدیقی: ایک فکری مسافر (۲)

ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی جماعت اسلامی کی product تھے۔ وہ اسی جماعت سے تادم اخیروابستہ رہے، اگرچہ امریکی شہریت کے حوالے سے جماعت نے ان کی رکنیت شایدختم کردی تھی، جس کا ان کوملال تھا، جیسا کہ ان کے بھتیجے جناب صدیق صاحب نے بتایاتھا۔ انھوں نے مولانامودودی اورسیدقطب کوبہت تفصیل سے پڑھا تھا، بلکہ مولانا مودودی سے مراسلت بھی کی اوربالمشافہ گفتگوئیں بھی کیں ۔ عصرحاضرمیں اسلام کی ضرورتوں کا جیسا کچھ ادراک ان کوتھا،تحریک میں شایدہی کسی کوہو۔ راقم کے خیا ل میں ان کے بہت سے خیالات و افکار مولانا مودودی کی بنیادی فکر غلبہ ٔاسلام سے صاف اختلاف پر مبنی ہے ۔ اوربعض افکارمیں انھوں نے فکرمودودی پر اضافے کیے ہیں، جیساکہ اوپر گزرا، جن کا اعتراف جماعت میں مولاناموودی کے غالی مقلدین کبھی نہ کرسکیں گے۔[12]  خواتین کے پردہ اورکارگاہ حیات میں ان کی فعال شرکت سے متعلق صدیقی مرحوم اور مولانامودودی کے خیالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اس سلسلہ میں صدیقی اخوانی علماکی راے اوراجتہادکوقبول کرتے ہیں، مثلاً شیخ عبدالحلیم ابوشقہ، محمدالغزالی، وصفی عاشورابوزید، لوئی صافی وغیرہم۔ اسی طرح مذہبی آزادی ، آزادی اظہارراے اورغیرمسلموں کواسلامی ریاست میں وہ تمام حقوق دینے کا مسئلہ ہے جوموجوزہ زمانہ کا norm ہے، یعنی شہریت اورحقوق مدنیت میں مساوات ۔ نجات صاحب اس کے قائل ہیں کہ جس طرح مسلمان غیرمسلم ریاستوں میں اپنے لیے مساوی حقوق شہریت کا مطالبہ کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کووہ سارے حقوق دینے چاہییں، جو آج تمام شہریوں کے حقوق سمجھے جاتے ہیں، جب کہ مولانا مودودی اسلامی ریاست کوایک نظریاتی ریاست قراردیتے ہوئے غیرمسلموں کوریاست میں کلیدی عہدے دینے کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اسی طرح نجات صاحب کی راے میں ارتقا (evolution) کی تھیوری کوعلمی بنیادوں پر سمجھنا چاہیے، اوراس کے لیے وہ ماضی کے علمی ورثہ میں ابن مسکویہ اوررومی وغیرہ کاحوالہ دیتے ہیں، ڈارون کا نہیں ۔ جمہوریت اورسیکولرزم کے بارے میں مولانامودودی نے جس تشددکا اظہارکیاہے اورخواہ مخواہ جمہوریت کو حاکمیت الٰہ سے متصادم کرادیاہے اورجماعت کے سارے اصاغرواکابرابھی تک اسی راگ کوالاپ رہے ہیں۔  ’’زندگی نو‘‘ میں چھپے ایک مضمون میں نجات صاحب نے اس بارے میں لکھاہے کہ :

’’جمہوریت کے بارے میں ہمارے لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، مگرجمہوریت سے دنیامیں کیا سمجھا جاتا ہے، اس پرغورکرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ جمہوریت سے عام طور پر دنیامیں یہ سمجھاجاتاہے کہ اب صرف حکمراں ہی قانون کا مطلق سورس نہیں ہے، بلکہ عام لوگوں کوبھی ریاست کے معاملات چلانے میں کچھ عمل دخل ہے۔‘‘  (جون ۲۰۰۴ء)

مولانامودودی کی ٹھیٹ اوراندھی تقلیدکی وجہ سے جماعت اسلامی ہندملکی سیاست میں شرکت کے حوالے سے اپنے آپ کوایک بندگلی میں پاتی رہی اوراس مخمصہ سے نکلنے میں اسے دہائیاں لگ گئیں۔[13]

ڈاکٹرنجات صاحب کوئی چیز یونہی روا روی میں نہیں لکھتے تھے، نہ لفاظی کرتے، ان کے ہاں اصل مصادر اور ریسورسز سے بھرپوراستفادہ کے ساتھ ہی عصری ضرورتوں اورمسائل کا ادراک ، زمانہ سے بھرپورآگہی اورایسی بصیرت ملتی تھی جوصرف کسی فن کے ائمہ کا خاصہ ہوتی ہے۔ وہ سامنے کی مثالوں سے اپنی بات ثابت کرتے اور دل نشیں اور عقلی اندازاستعمال کرتے ۔ انھوں نے انگریزی میں ’’Islamic Thought‘‘ کے نام سے ایک مجلہ بھی کئی برسوں تک نکالا، جو علمی وفکری حلقوں میں دل چسپی سے پڑھا جاتا تھا، خاص طورپر intellectual کلاس کے درمیان۔

راقم نے ان کوپڑھاتوبچپن سے ہی تھا، مگر کبھی ملاقات کا یامراسلت کا خیال نہیں آیا۔ یہ غالباًبیسویں صدی کی آخری دہائی کی بات تھی ، راقم نے لکھنؤ کے ایک مجوزہ اخوانی الفکرادارہ معہدالفکرالاسلامی (مجوز مولانا ظہیر احمد صدیقی ندوی )کے ساتھ مل کرمدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لیے ایک خصوصی تربیتی نصاب ترتیب دیا۔ اوراس کولے کرعلی گڑھ کا سفر کیا، جہاں کے علما و دانش وروں سے ایک ہفتہ تک استفادہ، مشاورت اورملاقاتیں کیں، مگرکوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہوا ۔ البتہ مولاناظہیرصاحب نے یہ تربیتی کورس ڈاکٹرنجات صاحب کی خدمت میں بھی بھیج دیا تھا، جس پر ایک نپاتلاتجزیاتی اورتنقیدی جامع تبصرہ انھوں نے ایک صفحہ میں لکھ کرارسال فرمایا۔ ان کے تبصرے نے چودہ طبق روشن کردیے تھے۔ بس اس کے بعددل نے شدت سے چاہاکہ ان کی خدمت میں حاضری دی جائے اوران سے کسب فیض کیاجائے۔ چنانچہ اس کے بعداسلامی تحریکات کی موجودہ فکراوران کی ناکامیوں سے متعلق ایک مراسلہ علی گڑھ کے پتا پر لکھا، جس میں مولانامودودی کی فکر پرمولاناوحیدالدین خاں وغیرہ کی تنقیدکا ذکربھی تھا۔ امیدتھی کہ جواب توشایدہی ملے (جیساکہ عام طورپر قائدین، علما اور دانش وروں کا اب تک کا تجربہ رہاتھا)۔ ایک ہفتہ بعدحیرت ہوئی جب علی گڑھ سے ایک فون آیااورادھرسے آواز آئی: ’’میں نجات اللہ صدیقی بول رہاہوں ‘‘۔ اس کے بعدانھوں نے میرے مراسلہ پراظہار خیال کیا، ملاقات کی خواہش بھی ظاہرکی ۔ قریبی زمانہ میں کسی سیمینارمیں علی گڑھ جاناہوا۔ اُس وقت علی گڑھ سے واقفیت سرسری سی تھی۔ رفیق سفرتصوف کے معروف اسکالرمفتی مشتاق تجارو ی تھے، جورابطہ عامہ کے بڑے ماہرہیں ۔ میں نے نجات صاحب کی علی گڑھ میں موجودگی کا تیقن کرلیاتھا، اُن کوفون کیا، وقت لیااورشام کے خالی وقت میں ہم دونوں مستقرسے باہرجانے کے لیے نکلے تومزمل منزل کی طرف جانکلے، جس کے قریب ہی نجات صاحب کا مکا ن تھا۔ تجاروی صاحب کوکسی پروفیسرصاحبہ کے آستانہ پر حاضری دینی تھی، وہ مجھے نجات صاحب کے دروازے پر چھوڑ کر رفوچکر ہوئے اورمیں ان کے گھرپر حاضرہوا۔ یہ ان سے بالمشافہ پہلی دیدوشنیدتھی۔ تفصیل سے بات چیت ہوئی۔

قومی کونسل برائے فروغ اردوکے تعاون سے جامعہ ملیہ کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیزنے مختلف جامعات کے اسلامک اسڈیزکے نصاب سے متعلق ایک ورکشاپ منعقدکیاتھا۔ راقم گواس میں شریک نہ تھا، مگر صدر شعبہ پروفیسر اختر الواسع صاحب نے افتتاحی اجلاس میں اسے بلالیا، جس میں کلیدی نوٹ پروفیسرنجات اللہ نے پڑھا تھا، جس کوراقم نے ماہنامہ ’’افکارملی‘‘ میں شائع کردیا۔ کچھ عرصہ بعدراقم نے ایک مقالہ ’’ہندوستان میں اسلام،  مسلمان اورسیکولرزم‘‘کے عنوان پرلکھااوران کی خدمت میں روانہ کیا۔ راقم نے ا س میں لکھاتھاکہ ’’قرآن میں خداکی حاکمیت تکوینی معنی میں استعمال کی گئی ہے۔ اُسے زمین پر اتارکرجمہوریت اورسیکولرزم کواُس سے ٹکرانا مناسب رویہ نہیں۔‘‘نجات صاحب نے اس میں ترمیم کی اورکہاکہ’’ حاکمیت الٰہتکوینی وتشریعی، دونوں معنوں میں ہے۔‘‘ انھی دنوں اسلام میں آزادی فکرکے موضوع پر میرا ایک مضمون ’’افکار ملی‘‘ میں شائع ہوا، جس کو انھوں نے بہت پسندکیااورفون کرکے اس پر مبارک باد دی ۔ تقریباًایک سال بعدشاہین باغ نئی دہلی میں ان کے فلیٹ پر ملاقا ت ہوئی اورراقم نے ان کا ایک تفصیلی انٹرویوکیا، جس میں انھوں نے یہ اظہارخیال کیاکہ  ’’ایسی دینی فکرکی ضرورت ہے جوبدلتے وقت میں زمانہ کی ضرورتوں کا ساتھ دے سکے، اس کے لیے آزادی اظہار راے کی ضرورت ہے اورجولوگ آزادی اظہارراے پر چیں بہ جبیں ہوں، ان کوقرون اولیٰ کے اسلامی معاشرہ کی صحت مندانہ اورصالح اقداردوبارہ یاددلانے کی ضرورت ہے ۔ ‘‘

ایک سوال کے جوا ب میں انھوں نے فرمایا:

’’جونصوص ہیں، ان کے جومعانی ومطالب ساتویں صدی میں لیے گئے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ آج ڈیڑھ ہزار سال بعدبھی متعلق اور relevant ہوں ۔ مثال کے طورمعاشرت میں یہ تصورعام ہے کہ مردحکمراں ہے اور عورت اس کے ماتحت۔ اس کے لیے دلیل ’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَآءِ‘ (النساء ۴:۳۴) جیسے نصوص سے دی جاتی ہے، حالاں کہ ان کا ایک مخصوص پس منظرہے۔ آج کی دنیامیں تیزرفتارسائنس، ٹیکنالوجی اورتمدنی ترقیوں نے یہ ناممکن بنادیاہے کہ عورت کومکمل طورپر مردکے کنٹرول میں دے دیاجائے۔ آج عورت ہرمیدان میں آگے بڑھناچاہتی ہے ، اس کے حوصلوں کو دبایا نہیں جاسکتا ‘‘۔[14]

اس کے بعدان سے مسلسل ملاقاتیں اورگفتگوئیں رہیں ۔ آخری جوتفصیلی ملاقات یاد ہے، اس میں رفیق محترم مولانا وارث مظہری، مولانا محمد ذکوان ندوی اورراقم خاک سارنے مشترکہ طورپر کی تھی۔ یہ بڑی یادگار ملاقات تھی اوراس میں نجات صاحب نے تفصیل سے مختلف سوالوں کے جواب دیے تھے۔ ہم لوگوں نے گروپ فوٹو بھی بنوایاجس کومولاناذکوان صاحب نے شوٹ کیاتھا۔ حضرت ذکوان کی اِس مہارت پر ہم لوگ حیران رہ گئے تھے۔

یہ بات بھی دیکھی گئی کہ نجات صاحب بعض اوقات بعض متعین سوالوں کا جواب نہیں دیتے تھے۔ ایک ملاقات میں راقم نے ان کے سامنے ایک متعین سوال رکھا:مسلمانوں میں ایک سوچ یہ بھی پیداہوئی ہے کہ حکومت ، اقتدارکاحصول یااس کے لیے جدوجہداسلام کامنشا نہیں ۔ مولاناوحیدالدین خاں اور جاویداحمدغامدی کے نزدیک یہ اسلام کی سیاسی تعبیرہے (اقتدار امر موعود ہے، امرمقصودنہیں ۔ وحیدالدین خاں، حکومت کا نہیں امت کا تصورہے ، جمال البنا معاشرہ مقصودہے، اقتدارنشانہ نہیں ، محموداحمدغازی )آپ کیاسمجھتے ہیں ؟

اس سوال کے جوا ب میں انھوں نے کہاکہ کوئی راے قائم کرنے کے دوطریقے ہیں : پہلا، استدلالی طریقہ، یعنی نصوص کودیکھاجائے ، ان پر غوروفکر کیا جائے ۔ میراخیال ہے کہ یہ کام بہت ہوچکاہے۔ دوسرا، تجرباتی طریقہ، یعنی یہ دیکھاجائے کہ دونوں گروہوں میں (سیاسی تعبیرکے علم بردار و غیر سیاسی اصلاح کے حاملین) اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں کون آگے رہا۔ کس کا کتناحصہ ہے اورموجودہ حالات میں کس کا contribution  زیادہ ہے۔ میدانی تجربہ کیاہے، یہ ضروردیکھناچاہیے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے ، ہمارے ہاں یہ بحث محض اکیڈیمک ہے، عملی نہیں ۔ اس ملک میں اسلامی سیاست ہمارافوری ہدف نہیں، نہ ہی کوئی یہ بات کہہ رہا ہے۔ ’’ ... آج سے ۷۰سال پہلے جب مولانامودودی اوردوسروں نے حکومت الٰہیہ یااسلامی حکومت کی باتیں کہی تھیں ، اس وقت کی صورت حال جداتھی۔ اس وقت یہاں انگریزحکمراں تھااوراس وقت اسلامی سیاست یا اسلام کے اقتدارکی بات سمجھ میں آتی تھی۔ اس وقت کی عبارتوں کوabsolute اورمطلق معنوں میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ نیک خواہش کی بات الگ ہے، ورنہ ابھی یہاں اسلامی اقتدارکی بات کہناایک بہت بعیداوربہت دور کی بات ہے۔‘‘[15] یہاں دیکھاجاسکتاہے کہ بعض متعین سوالوں کا جواب دینے سے انھوں نے گریز کیا ہے۔  بعض حضرات نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ ڈاکٹرصاحب چاہتے تھے کہ لوگ خودآزادی کے ساتھ غور و خوض کریں اور خود کسی نتیجہ تک پہنچیں ۔

مقاصدشریعت

مقاصدشریعت پر سلف میں علامہ عزالدین ابن عبدالسلام ، امام شاطبی غرناطی اورامام غزالی نے کلام کیا ہے۔ اس کے بعدشاہ ولی اللہ دہلوی اورشیخ الطاہربن عاشورنے بھی اس سے اعتناکیا۔ بیسویں صدی کے اواخرمیں عالمی ادارہ برائے فکراسلامی (واشنگٹن ڈی سی) [16]  نے اس موضوع کواپنی ریسرچ اور تحقیقی سرگرمیوں کا باضابطہ محور بنایااوراس پر مختلف زبانوں میں بہت سالٹریچر شائع کیا اور شاطبی کے نظریہ ٔمقاصدکودنیابھرمیں متعارف کرایا۔  ہندوستان میں مذکورہ ادارہ کے اشتراک سے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز اوراسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے بھی اِس کی طرف علما ا ورطالبان علوم نبوت کومتوجہ کیا۔ مولانامجاہدالاسلام قاسمی ، مولاناامین عثمانی اور اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیاکے دوسرے ذمہ داروں نے اس کے لیے علمی وعملی کاوشیں کیں اورورکشاپ و مذاکرے منعقدکیے۔ تاہم برصغیرکے علما کے لیے یہ موضوع ابھی تک خاصاغیرمتعارف ہے، بلکہ زیادہ تر کو اس پر سخت تحفظات ہیں ۔ پروفیسرنجات اللہ صدیقی کی مقاصدکے موضو ع پر معروف کتاب ’’مقاصد شریعت‘‘[17] غالباً ان کی آخری باضابطہ تصنیف ہے، جوپہلے پاکستان سے اوراس کے بعدہندوستان سے شائع ہوئی ہے۔ نجات صاحب نے ’’مقاصد شریعت‘‘ کا استعمال نہ صرف عصر حاضرکے بعض معاشی مسائل کے حل کے لیے کیاہے ، بلکہ بعض سلگتے ہوئے عالمی ایشوز، نیز مختلف فکری، سیاسی وسماجی مسائل کے سلسلے میں ’’مقاصدشریعت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بعض نئی رائیں ظاہرکی ہیں ۔ انھوں نے یورپین افتاکمیٹی اورعالمی فقہ اکیڈمیوں کے، نیز شیخ یوسف القرضاوی وغیرہ کے بعض متنازع فیہ فتووں کا سہارا لے کر بعض ایسی رائیں بھی دیں جن پر برصغیرکے علماکا عموماً سخت موقف رہا ہے۔ اس کتاب کے خلاف بعض روایتی علما نے سخت ردعمل کا اظہارکیااورجماعت کے بعض اکابرنے بھی غیرعلمی رویوں کا اظہارکیا۔ نجات صاحب کی توجہ جب اس جانب دلائی گئی توانھوں نے کہا کہ ’’ وہ ناقدین کی باتوں کوسنجیدگی سے پڑھیں گے اوراگران کی تنقیدمیں کوئی وزن محسوس ہواتواپنی راے سے رجوع کرلیں گے۔‘‘[18]

’’مقاصدشریعت‘‘ میں انھوں نے لکھا:

’’اسلام تسلط پسندی (hegemony)کوردکرتاہے۔ وہ اللہ کی بندگی کی طر ف دعوت دیتاہے نہ کہ مسلمانوں کی غلامی کی طرف ... مکہ میں نبی ﷺ کے  ۱۳سال دعوت واصلاح وتزکیہ کے کام میں گزرے تھے نہ کہ حصول اقتدارکی مہم میں ۔ مکہ میں آپ کے شب وروزکیسے گزرتے تھے اس کا اندازہ قرآن کریم کی ان سورتوں اورآیات کے مطالعہ سے بخوبی لگایاجاسکتاہے جواس دوران نازل ہوئیں ۔ ‘‘(۲۸۴،  ۲۹۰)

بہرحال مقاصد شریعت پر ان کی کتاب اردومیں ایک قابل قدراضافہ ہے اورایک شان دارعلمی وفکری خدمت، جس کا ادراک ہمارے فقہی جامدذہن کوابھی تک نہیں ہوسکاہے۔

ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی کہتے تھے کہ اگلی صدی میں نئی اسلامی تحریک پیداہوگی۔ نجات صاحب کی زندگی ایک فکری مسافرکی سی ہے، جومسلسل فکری ارتقا سے گزررہا تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اہل فکرمیں عبد الحمید ابوسلیمان اورڈاکٹرنجات اللہ صدیقی، دونوں کے ہاں یہ فکری ارتقا موجودہے، جو اور علماو دانش وروں میں عنقا ہے۔

ڈاکٹرنجا ت اللہ صدیقی کی آخری زمانہ کی دوانگریزی تحریریں خوداپنااحتساب اوراپنے علمی کاموں کے ناقدانہ جائزہ کی بہترین مثال ہیں :

 ۱۔     My Life in Islamic Economics۔

 ۲۔ Islamization of Knowledge: Reflections on Priorities۔

یہ دونوں مضمون ان کے فکری اضطراب، بتدریج فکری ارتقا اوراس راہ میں پیش آنے والی غلطیوں کے ادراک کی غمازی کرتے ہیں ۔

ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی کی تصانیف میں تجدیدی شان پائی جاتی ہے۔ وہ وسعت مطالعہ، نشترتحقیق اور جرأت دانش سے بہرہ ور تھے۔ ان کی فکری کاوشیں آیندہ زمانے کے لیے نقوش راہ ثابت ہوں گی:

       ان کے جانے کا منظر تماشا نہیں     

دورتک دیکھیے دور تک سوچیے

____________

[12]۔ اس سلسلہ میں راقم نے ۲۰۱۴ءمیں شائع شدہ اپنی کتاب ’’عالم اسلام کے مشاہیر‘‘ (ص ۲۴۷) میں جماعت اسلامی اور مولانا موددوی کے بارے میں جوکچھ لکھاہے، وہ بالکل مناسب حال ہے :

’’جماعت اسلامی میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ دین کومولانامودودی کے علاوہ کسی اورنے نہیں سمجھا اور دین کا جامع اورصحیح تصورتاریخ میں پہلی بارانھوں نے ہی پیش کیاہے ۔‘‘

یہ کتاب ffosi.org پربھی دست یاب ہے۔

[13]۔ اس سلسلے میں مزیدگفتگوکے لیے ملاحظہ ہو:مولاناسلطان احمداصلاحی ، حاکمیت الٰہ پر تنقیدی سلسلہ، جوان کے رسالہ علم وادب میں ۲۱  اقساط میں شائع ہوا۔ نیز’’غیرمسلم اکثریت کے ممالک میں مسلم اقلیت کا مطلوبہ کردار‘‘ اور ’’آزاد ہند میں مسلم سیاست ‘‘شائع کردہ ادارہ علم وادب، دارالانس ۴/۲۱ بی،  نزد پان والی کوٹھی، دودھ پور، علی گڑھ۔

[14]۔ افکارملی، فروری ۲۰۱۴ء،نئی دہلی ۔

[15]۔ افکارملی فروری ۲۰۱۴ء۔

[16]۔ المعہد العالمی للفکر الاسلامی ، فلسطینی نژادامریکن مسلمان اسکالر و مفکر ڈاکٹر اسمٰعیل راجی الفاروقی شہیداوران کے رفقا نے  ۱۹۸۱ءمیں واشنگٹن میں قائم کیاتھا، اس کے بعداس کی شاخیں اورممالک میں بھی قائم ہوئیں ۔ فاروقی کے رفقا میں زیادہ معروف نام ہیں :ڈاکٹر عبد الحمید احمد ابوسلیمان اورشیخ طٰہٰ جابرالعلوانی ۔ اس ادارہ کی بنیادی فکراسلامائزین آف نالج تھی، لیکن اس کے علاوہ اوربھی مختلف موضوعات پر ان حضرات نے سرگرمی سے کام کیاہے ، جن میں سرفہرست مقاصد شریعت کا موضوع بھی ہے۔

[17]۔ یہ کتاب پہلے قسط واراسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل اسلامک یوینورسٹی اسلام آبادپاکستان کے مجلہ ’’فکر و نظر‘‘ میں شائع ہوئی۔ بعدازاں اسی انسٹی ٹیوٹ نے اس کوکتابی شکل میں شائع کیا۔ ہندوستان میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی نے شائع کیاہے۔ دوایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔

[18]۔ ڈاکٹرصاحب کے بھتیجے جناب صدیق صاحب نے آن لائن تعزیتی میٹنگ میں یہ بات بتائی ۔

B