نوحہ گری ہمارے اجتماعی لاشعور میں کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ اب ہماری فطرت ثانیہ ہے۔
مجھ سمیت ہرکوئی اداروں کے زوال کا نوحہ لکھ رہا ہے۔اپنے تئیں اخلاقی مدرس ہے۔’اگر‘ سے بات شروع ہوتی اور’چاہیے‘پر تمام ہو جا تی ہے۔سب جانتے ہیں کہ ’اگر‘ ہی وہ بھاری پتھر ہے جو کسی سے اٹھایا نہیں جا رہا۔یہ محض ایک لفظ نہیں، نو من تیل ہے۔نہ ہو گا، نہ رادھا ناچے گی۔یہاں عام آدمی کی نگاہ پردہ اٹھنے کی منتظر رہتی ہے اور یہ انتظار کبھی ختم نہیں ہو تا۔ناچ کبھی شروع نہیں ہو تا۔
اہل اسلام کے دانش وروں نے جتنی کتابیں ’اسباب زوال امت‘ پر لکھیں،شاید ہی کسی موضوع پر لکھی ہوں۔ ڈور الجھتی اس وقت ہے جب اسباب کی دوری زیر بحث آتی ہے۔ہم یہ تو جان لیتے ہیں کہ یہ اسباب ہیں کیا؟ یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ انھیں دور کر لیا جائے تو زوال کا دور ختم ہو جائے گا،مگر یہ اسباب دور کیسے ہوں؟یہی وہ موڑ ہے جہاں سے آگے راستہ ختم ہو جاتا ہے۔’اگر‘ کوئی راستہ نہیں،اس لیے ہمارا قافلہ اسی موڑ پر رکا ہواہے۔
اب ایسا بھی نہیں کہ کسی نے راہ دکھائی نہیں۔کسی نے اگرسنجیدہ کوشش کی تو ہمیں پسند نہیں آئی کہ اجتماعی شعور اس کا متحمل نہیں ہو سکا۔ہم نے یہ چاہا کہ مسائل کا کوئی سادہ اور زود اثر حل ہمیں مل جا ئے۔ ہماری صفوں میں ایسے لوگ پیدا ہوئے،جنھوں نے ہماری اس خواہش کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔اس طرح کے سادہ حل پیش کیے جو اکثریت کو بھا گئے۔ان کا کام چل نکلا۔یہ الگ بات کہ مسائل اپنی جگہ موجود رہے۔نہ صرف موجود رہے، بلکہ ہر اتائی صاحب حل نے ان میں حسب توفیق اضافہ بھی کر دیا۔ چند ایسے ہی حل ملاحظہ کیجیے:”اگر پانچ سو افراد کو لٹکا دیا جائے تو سب سیدھے ہو جائیں“یا”صرف بارہ افراد ٹھیک ہو جائیں تو ملک ٹھیک ہو جائے“ یا پھر ”اس ملک کو ایک خمینی چاہیے“۔فرقہ داریت یا مذہبی انتشار کا حل دیا جاتا ہے:”سب مولویوں کو ایک جہاز میں بٹھا کر اسے سمندر میں ڈبو دیناچاہیے۔“
ہر معاشرے میں ایسے اخلاقی واعظین ہو نے چاہییں جو ’اگر‘ اور ’چاہیے‘ کی بات کرتے رہیں۔یہ اجتماعی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کے لیے ضروری ہے۔یہ تلقین اور نصیحت تو ہو سکتی ہے، مگر مسئلے کا بنیادی حل نہیں ہوتی۔ یہ ایک اضافی قوت فراہم کرتی ہے جو بہتری کے سفر کو مہمیز دے دیتی ہے۔زندگی ان حقائق سے عبارت ہوتی ہے جو صفحۂ ہستی پر لکھ دیے گئے ہیں۔سردی کا موسم جب اترتاہے تو ہمارے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے۔اس موقع پر گرم کپڑوں کی اہمیت پر واعظ کی خوش گفتاری اور وعظ، سردی دور نہیں کر سکتے۔سردی سے بچاؤکے لیے کوٹ چاہیے؛کوٹ کہاں سے آئے گا؟اس سوال کا جواب واعظ کی ذمہ داری نہیں،اہل دانش کا کام ہے۔
مسائل کا سادہ حل اگر ممکن ہو تا تو انسانی تاریخ کچھ اور طرح کی ہوتی۔مشرقی پاکستان میں بھی ’فوجی آپریشن‘ کو ایک سادہ حل کے طور پر اختیار کیا گیا۔یہ خیال کیا گیا کہ ریاست کی قوت فیصلہ کن ہو تی ہے،جب بروے کار آئے گی تو سب خس و خاشاک کی طرح بہ جا ئیں گے۔معاملہ، مگر اتنا سادہ نہیں تھا۔خرم مراد مرحوم نے جنرل یحییٰ خان کو توجہ د لائی تھی کہ مسائل اگر طاقت سے حل ہو سکتے تو عالم کا پروردگار،انبیا کے بجاے فیلڈ مارشل اور جنرل مبعوث کرتا۔اس بات کو سمجھنے کے بجاے،اس پر برا منایا گیا۔نتیجہ ہم نے بہ چشم سر دیکھ لیا۔
ہم آج اس ہمہ گیر زوال سے کیسے نکلیں جس نے ہمارے قومی وجود کا حصار کر لیا ہے؟میرا احساس یہ ہے کہ حل سے زیادہ اہم وہ طریقہ ہے جواس حل کے لیے اختیار کیا جا تا ہے۔فطرت نے اس باب میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ انسانی جسم میں خرابی ہو تو طبیب کے پاس جاتے ہیں۔پانی کی موٹر خراب ہو جائے تو مکینک سے رجوع کیا جا تا ہے۔اسی کا اطلاق سماج اور ریاست کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے۔سماج بھی ایک مشین کی طرح ہے۔اس کے بھی ماہرین ہیں۔سماجی مسائل کا حل وہی بتا سکتے ہیں۔ریاست بھی ایک مشین ہے۔دنیا میں اس کے ماہرین بھی پائے جاتے ہیں۔
کامیاب ملکوں نے اس بنیادی بات کو سمجھ لیا ہے۔جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ ماہرین کی راے میں ترجیح کے لیے ایک طریقۂ کار طے کر دیاگیا ہے جس میں انتخاب کا حق عوام کے پاس ہے۔ساتھ ہی عوام یہ اختیار بھی رکھتے ہیں کہ جب چاہیں،اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لیں۔اگر ایک راے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو ئی تو ان کے پاس یہ راستہ موجود ہے کہ وہ کسی دوسری راے کو اپنا لیں۔اس سے قائم شدہ آرا کی صحت کافیصلہ خود وقت کر دیتا ہے۔یہ ایک فطری طریقہ ہے جو کامیابی سے جاری ہے۔
مثال کے طور پر ایک ملک کو ایک معاشی مسئلے کا سامنا ہے۔کئی معاشی ماہرین،مختلف حل تجویز کر رہے ہیں۔ عوام کی منتخب پارلیمان ان میں سے کسی ایک حل کو اختیار کر لیتی ہے۔دنیا میں اس مقصد کے لیے تھنک ٹینکس بنائے جا تے ہیں۔یہ تھنک ٹینکس حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کے لیے رہنما اصول دیتے ہیں۔یہ اصول پھر پالیسیوں میں منعکس ہوتے ہیں۔اسی سے سماج بہترین کی راہیں تلاش کر تا ہے اور مثبت ارتقا اس کا امتیاز بن جا تا ہے۔
مسلم معاشروں میں جو ذہنی ڈھانچا تشکیل پایا ہے،اس میں ایک فرد واحد کو مسیحا ماناجاتاہے اور پھر اس کا انتظار کیا جاتاہے۔اقبال جیسا نابغۂ روزگار بھی سوال اٹھاتا ہے:’کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں‘؟گویا کوئی فرد واحد،کوئی مسیحا ہوگا جو سب بت توڑ کر قافلۂ حیات کواسلام اور توحید کی شاہ راہ پر ڈال دے گا،جس طرح غزنوی نے سومنات کے بت توڑ کراس خطے میں توحید کا علم لہرایا تھا۔(اقبال اپنی نثر میں بالکل دوسری بات کہتے ہیں، مگر اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔)
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہر مسئلے کا حل مذہب میں تلاش کرتے ہیں۔’اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے‘ کا مطلب ہم نے یہ سمجھا ہے کہ وہ ہمیں زندگی کی جزئیات تک طے کر کے دیتا ہے۔جو فیصلے عقل نے کرنے ہیں، ہم ان کی ذمہ داری بھی مذہب کو سونپ دیتے ہیں۔اسے سادہ اسلوب میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ ’ہمارے تمام مسائل کاحل اسلام کے نفاذمیں ہے۔‘ یہ مذہب اور سماج،دونوں کی ناقص تفہیم کا نتیجہ ہے۔ ہم مذہب سے ایک ایسی بات منسوب کرتے ہیں جس کا خوداس نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ وجہ وہی سادہ حل کی تلاش ہے۔
اسی انداز نظر کا ایک مظہر یہ ہے کہ آج ہم اپنے تمام سیاسی،معاشی اور سماجی مسائل عدالت سے حل کرانا چاہتے ہیں۔اگر ہم یہ جان لیں کہ عدالت ہر کام کے لیے نہیں بنی تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ڈیم بنانا چیف جسٹس کی ذمہ داری نہیں ہے۔صفائی،بلدیہ کا کام ہے،عدالت عظمیٰ کا نہیں۔سپریم کورٹ کے دو معزز جج صاحبان نے ہمیں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
اگر ہم نے اس بنیادی بات کا ادراک نہ کیا تو ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے،مزید الجھتے چلے جائیں گے۔ پھر ہم اسباب زوال امت تلاش کریں گے یا پھر نوحہ گری کریں گے۔انسانی جسم کو لاحق عوارض کے لیے مشین مکینک کی نہیں،ایک حاذق طبیب کی ضرورت ہوتی ہے:
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
(بشکریہ: روزنامہ دنیا، لاہور، ۳۰/ مارچ ۲۰۲۳ء)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ