منفرد شکل و صورت کی طرح ہر بچہ منفرد شخصیت اور خاص صلاحیت یا ٹیلنٹ کا مالک بھی ہوتا ہے۔ بچوں کو دوسرے بچوں کی نقالی اور پیروی کی تلقین ان کی اپنی شخصیت کی نشو و نما اور ان کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ والدین کا کام اپنے بچے کو دوسرے بچوں جیسا بنانا نہیں، بلکہ اپنے بچے کی منفرد شخصیت اور مخصوص صلاحیت کو پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
بچہ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری مواد اپنے ماحول سے خود لے لیتا ہے۔ چنانچہ اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اس کے ماحول میں منفی رجحانات اور رویے موجود نہ ہوں، اور اگر ہوں تو اسے متاثر نہ کر پائیں۔
شخصیت کی پرورش میں والدین کو صرف سہولت کار کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھیں بچوں کی شخصیت سازی نہیں کرنی چاہیے۔ شخصیت ان میں خدا نے پہلے سے ودیعت کر رکھی ہوتی ہے۔ انھیں بس اسی کو ابھارنا اور اجاگر کرنا ہوتا ہے۔
سیکھنے کے عمل میں بچوں کو ان کی ابتدائی غلطیوں پر بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ انھوں نے کوشش تو کی۔ کرنے کا اصل کام کوشش ہی ہے۔ بڑے صبر اور سکون سے ان کی غلطیوں کو سیکھنے کے عمل کا حصہ بنا دینا چاہیے۔
بچے کی اپنی خاص صلاحیت کے علاوہ دوسرے مضامین اور شعبہ جات میں بچے کی کم کارکردگی ان کی قابلیت ماپنے کا درست پیمانہ نہیں ہوتی۔
بچے کا فطری ہنر اگر بچے کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ بھی بن جائے تو دنیا میں اس سے بڑھ کر لطف اور مسرت کوئی نہیں۔ اکثر و بیش تر یہ کیرئیر میں کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔
بچے کی خاص صلاحیت یا ٹیلنٹ کی دریافت کے اس عمل میں دھیرج برتنا ضروری ہے۔ بچے پر دباؤ نہ ڈالا جائے، ورنہ اس کی صلاحیت کھلنے سے پہلے ہی دب سکتی ہے۔ علامہ اقبال کے بیٹے، ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: انھیں بچپن میں مصوری کا شوق تھا۔ علامہ اقبال کو توقع ہوئی کہ شاید یہ بہت اچھا مصور بن سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے یورپ سے نام ور مصوروں کی کچھ پینٹنگز منگوا کر انھیں دیں۔ ان کو دیکھ کر جاوید اقبال کا حوصلہ جواب دے گیا کہ وہ ایسے مصور کبھی نہیں بن سکیں گے۔ چنانچہ انھوں نے مصوری چھوڑ دی۔
توقعات کا بوجھ ذہنی دباؤ اور تناؤ پیدا کرتا ہے، جو بہت نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ ان توقعات کے ہاتھوں بعض ذہین طلبہ بھی ذہنی مریض بن جاتے ہیں، تعلیم ترک کر بیٹھتے ہیں، کم نمبر آنے پر طلبہ کی خود کشی کے سلسلہ وار واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔
والدین اور اساتذہ کو مشاہدہ کرتے رہنا چاہیے کہ ان کا بچہ کس قسم کے طبعی رجحانات رکھتا ہے۔ کس مضمون یا کام میں مہارت دکھاتا ہے، جسے کرتے ہوئے اسے زیادہ دقت نہیں ہوتی اور اس کی مشغولیت اسے لطف دیتی ہے، بس یہی اس کی فطری صلاحیت یا ٹیلنٹ ہے، یہی اس کا میدان عمل ہے۔
کسی گھرانے کے تمام بچے اگر تعلیم اور فکر کے لحاظ سے ایک ہی سانچے میں ڈھلے نظر آئیں تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کی انفرادی شخصیت مسخ کر دی گئی ہوگی، انھیں ایک ہی سانچے میں ڈھلنے پر مجبور کیا گیا ہوگا۔
بچے کا فکر و ہنر تعلیمی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے اور غیر تعلیمی نوعیت کا بھی، جیسےکھیل، کاروبار، فنون لطیفہ وغیرہ کا۔ دونوں صورتوں میں بچے کا اصل میدان عمل وہی شعبہ ہوگا۔ اسی میں بچے کو آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے۔ فکر اور عمل کی رنگا رنگی قدرت کی فیاضی کا اظہار اور زندگی کے حسن و ارتقا کا سبب ہے، اس سے خوف زدہ ہونے کے بجاے اسے اپنی فطری جگہ حاصل کرنے اور نشو و ونما دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہی کرنے کا اصل کام ہے۔
مقولہ مشہور ہے کہ فارغ ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے۔ اس بنا پر کوشش کی جاتی ہے کہ بچوں کو فارغ نہ رہنے دیا جائے، لیکن ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ تخلیقی ذہانت کی نمو اور نمود فراغت کے دوران میں ہی ہوتی ہے۔ بڑے تخلیق کار خود کو باقاعدہ فراغت میں مبتلا کرتے ہیں تو نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔
یہ چلن ہو گیا ہے کہ بچہ اسکول میں چھ آٹھ گھنٹے گزار کر واپس آئے تو ٹیوشن پڑھنے بھیج دیا جائے، وہاں سے چھوٹے تو قاری صاحب اسے دھر لیں، اس کےبعد کچھ دیر ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ پر وقت بِتایا جائے اور پھر سونے کا وقت ہو جاتا ہے، اس طرح بچوں کی تخلیقی ذہانت کو سانس لینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
ادھر والدین مطمئن رہتے ہیں کہ انھوں نے بچے کو مصروف کر رکھا ہے، کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں، لیکن اس طرح بچے کی شخصیت میں ایک سطحی ذہن کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا، جس کا کام دو اور دو چار کی طرح اپنی روٹین پوری کرنا ہوتا ہے۔
انھی وجوہات سے بچوں میں تفہیم و تخلیق کی صلاحیت میں شدید کمی نظر آتی ہے۔ بچپن کے زمانے میں نئی نئی باتیں اور سوال کرنے والے بچے، کسی نئی یا گہری بات کو سمجھنے، سوچنے، تجزیہ کرنے جیسی مشقت میں پڑنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں کرتے، کوئی نیا خیال ان کو نہیں سوجھتا۔ دنیا بھر کی تخلیقی کاوشوں میں، خاص طور پر پاکستانی تعلیمی نظام اور سماج میں پروان چڑھے افراد کا حصہ اسی وجہ سے بہت کم ہے۔ کچھ سخت جان، البتہ پھر بھی نکل آتے ہیں جو کچھ تخلیقات اور اکتشافات کر دکھاتے ہیں، لیکن وہ مستثنیات ہیں جو ہر سماج میں زبردستی پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ کسی تعلیمی اور سماجی نظام کے پروردہ نہیں ہوتے۔ ان کے وجود پر شکر تو کیا جا سکتا ہے، مگر اپنے نظام پر فخر نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ یہ افراد نظام کی وجہ سے نہیں، بلکہ نظام کے باوجود پیدا ہو جاتے ہیں۔
کچھ وقت فارغ رہنے سے بچوں کے ذہن میں زندگی اور مذہب وغیرہ سے متعلق سوال ابھرنے لگتے ہیں۔ ان سوالات کو ہمارے ہاں شیطانی وساوس قرار دے کر ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ بالکل فطری سوال ہوتے ہیں جو ہر سوچنے والے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ انسان کے اندر علم اور حق کی تلاش کے فطری داعیات کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اور یہ فطرت خدا کی پیدا کردہ ہے۔ انھیں شیطان سے منسوب کرنا غلط فہمی اور بد ذوقی ہے۔ ان سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینےکے لیے والدین اور اساتذہ کو خود بھی علمی اور فکری تیاری کرنی چاہیے اور بچوں کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے کہ وہ آزادی سے خود ان کے جوابات تلاش کریں۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ بچوں کو ان کے تمام سوالات کے تیار جوابات دے دیے جائیں۔ انھیں خود غور و فکر کی محنت سے جواب تلاش کرنے کا موقع اور ترغیب دینی چاہیے۔ فوری جوابات سے ان کی فکری نشوونما پوری طرح پنپ نہیں پاتی اور سہل انگاری بھی پیدا ہوتی ہے۔
فراغت کا مطلب یہ نہیں کہ بچے ٹیب یا موبائل فون لے کربیٹھ جائیں۔ کسی وقت ان سے پڑھائی، ٹی وی، فون وغیرہ سب چھڑوا کر مکمل طور پر فارغ کر دینا چاہیے۔ کچھ بڑے بچوں کو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ پیدل یا سائیکل وغیرہ پرکبھی لمبی سیر کو نکل جایا کریں یا گھر ہی میں کچھ وقت صرف اپنی ذات کے ساتھ گزارا کریں۔ اس کے بعد وہ کیا کرتے ہیں ،یہ ان کی فطری تخلیقی صلاحیت، اگر ان میں ہے تو انھیں خود بتا دے گی۔
ـــــــــــــــــــــــــ