قرب قیامت سے متعلق ایک طویل روایت میں ایک قول رسول اِن الفاظ میں آیا ہے: ’لاتقوم الساعةُ حتی یُبعثَ دجّالون کذّابون، قریبٌ من ثلاثین.کُلُّھم یزعُمُ أنّه رسولُ اللّٰه‘ (مسلم، رقم ۱۵۷۔ بخاری، رقم ۳۶۰۹)۔اِس کے علاوہ، اِس سے متعلق سنن ابو داؤد کے الفاظ یہ ہیں: ’... وإنّه سیکون في أمتي ثلاثون کذّابون، کُلُّھم یزعُمُ أنّه نبيٌّ، وأنا خاتَم النبیین، لا نبیَّ بَعدي‘ (رقم ۴۲۵۲)۔ اِن دونوں اقوال رسول کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی،جب تک تیس کے قریب دجال اور کذاب پیدا نہ ہوجائیں۔ اِن میں سے ہر اٹھنے والاشخص اِس زعم میں مبتلا ہوگا کہ وہ کوئی عام مصلح اور داعی نہیں، بلکہ وہ اللہ کے ایک منتخب پیغمبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘
’’قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک میری امت میں تیس کذاب پیدا نہ ہوجائیں۔ اِن میں سے ہر اٹھنے والاشخص اِس زعم میں مبتلا ہوگا کہ وہ خدا کا پیغمبر ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں تمام پیغمبروں کے آخر میں ظاہرہو نے والا پیغمبر ہوں،اب میرے بعد اور کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔‘‘
یہ ایک بے حد اہم روایت ہے۔تاہم اِس تحریر میں روایت کا صرف درج ذیل حصہ ہمارے پیش نظر ہے: ’کُلُّھم یَزْعُمُ أنّه رَسُولُ اللّٰه‘۔روایت کے مذکورہ الفاظ دور آخر میں ظاہر ہونے والے فتنوں کی نسبت سے، بلاشبہ انتہائی بامعنی ہیں۔اِس سے مراد دراصل پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عرصۂ نبوت (بعثت تا قیامت) میں اٹھنے والے وہ ’مذہبی‘ اور سیکولر، دونوں قسم کے علما، فلاسفہ اورمفکرین ہیں جومرشد، داعی، معلم اور استاذ کے مطلوب مقام سے گزر کر عملاً لوگوں کے درمیان”رسول اللہ“ کا درجہ حاصل کر لیں گے۔ کوئی مفکر، فلسفی اور سائنس دان کے سیکولر نام پر، اور کوئی امام، مرشد، رَبائی، عالم، پوپ اورگرو جیسے مقدس ’مذہبی‘ نام پر۔ یہی وہ ظاہرہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الأئمة الْمُضِلُّون‘ (صحیح الجامع، رقم ۱۵۵۱)قرار دیا ہے، یعنی ”سلطانی وملائی وپیری“ کا جھوٹا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو گم راہ کرنے والے ’مذہبی‘ اور سیاسی رہنما۔
دور جدید میں فکری اعتبار سے، عملاً یہی ’مذہبی‘ اور سیکولر مفکرین دنیا کے اعلیٰ ذہنوں کے لیے عملاً ایک بے خطا (infallable) قسم کا رول ماڈل (role model)بن گئے ہیں۔وہ اکثراپنے خودساختہ نظریات کے مطابق، عملاً اُن کے پورے نظام فکر وعمل کی تشکیل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، اعلیٰ ذہن کے حامل اِن افراد کے علاوہ، بقیہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کی اکثریت عملاً آزادی اور انٹرنیٹ کے مرشد مطلق سے فیض حاصل کرتی ہوئی حیا باختگی اور منشیات کے سرطان میں مبتلا ہوکر محض تفریحی کلچر اور فلم انڈسٹری کے مذکراور مؤنث ’ہیروز‘ کواپنے لیے رول ماڈل بنائے ہوئے ہے۔ اِسی طرح ’مذہبی‘ دنیا کے بیش تر افرادصرف مراسم اور ’عقائد‘ کواپنا معبود بناکر اُس خدا کو فراموش کرچکے ہیں جس کی عبادت اور جس کا خوف و محبت دین اللہ کا اصل جوہر تھا۔ اِس طرح پوری دنیا عملاً اللہ کے سچے پیغمبروں کے بجاے،اِن ’جھوٹے پیغمبروں‘ (false prophets) کو اپنا فکری اور عملی ماڈل بنا چکی ہے۔ گویا اب یہی ’مذہبی‘ اور سیکولر مفکرین عملاً اُن کے لیے ’اللہ اور رسول‘ کا قائم مقام بن چکے ہیں۔
مذکورہ ارشاد رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ دور آخر میں ظاہر ہونے والے یہ ’دجاجلہ‘ محض عام قسم کے معلم، مرشد، داعی اور مفکر نہیں ہوں گے، بلکہ وہ اپنے تمام تر علم و تفلسف اور رشد و ارشاد کے ساتھ عملاً اِس زعم میں بھی مبتلا ہوں گے کہ اُن کا کیس کوئی سادہ کیس نہیں، بلکہ اُن کی حیثیت پیغمبر ہی کی طرح ’خدا کے ایک منتخب‘ (chosen) داعی اور مفکر کی ہے۔اُن کا یہی اِدعا اور اِذعان اُن کے باطل افکار کا اسیر بناکر لوگوں کو خدا کی کتاب اوراُس کے رسول کی اصل صراط مستقیم سے برگشتہ کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گا۔
تاریخ کاتجربہ ہے کہ’مذہبی‘ اور سیکولر، دونوں میدانوں میں اِس طرح کے ’دجاجلہ‘اسودبن کعب عنسی (وفات: ۱۱ ھ) اور مسیلمہ بن حبیب حنفی الکذاب (وفات:۱۲ھ) سے لے کر عہد حاضر کے اِس پورے عرصۂ نبوت میں ہمیشہ اٹھتے رہے ہیں۔اِن سب میں جو چیز قدر مشترک کے طورپر پائی جاتی ہے، وہ اپنے متعلق اُن کا یہی مذکورہ قسم کا جھوٹا اور بے اصل دعویٰ و اِذعان تھا۔
تاہم متعین طورپر کسی شخص یا افراد پر کوئی حکم لگا نا ہمارا کام نہیں،یہ صرف اللہ کا کام ہے جسے وہ صرف آخرت میں انجام دے گا(البقرہ ۲: ۱۱۳)۔ اِسی طرح اللہ کے ہاں کسی آدمی کے فکر وعمل کا فیصلہ اُس کی نیت کے اعتبار سے ہوگا اور نیت، یعنی اصل جذبۂ محرکہ اور روح عمل کاحتمی علم صرف اللہ کو ہے، کسی اور شخص کو نہیں، اِلاّ یہ کہ وہ خود اپنے قول و فعل سے واضح طورپر اِس کا اظہار کردے۔ چنانچہ وہ اہل علم، خادمان دین، داعیان اسلام اور اساتذۂ کرام مذکورہ ارشاد رسول میں بیان کردہ اِس ظاہرے سے بالکل پاک قرارپائیں گے، جو صدق و امانت کے ساتھ ہمیشہ اللہ اور اُس کے رسول کی طرف بلاتے رہے؛نیز بوقت یاددہانی وہ دل کی پوری گہرائی کے ساتھ اپنی اصلاح کے لیے ہر وقت ایک مرد مومن کی طرح تیار رہے اورنہ صرف اصولاً، بلکہ عملاً خود اپنے متعلق ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ:
میں تمھارے ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ میرے ساتھ بھی نفس و شیطان کی آزمایش جاری ہے۔اللہ اُس شخص پر رحم فرمائے جو میرے عیوب سے آشنا کرے اور مجھ پر میری غلطی واضح کرے۔میری ذات امر بالمعروف اور نہی عن المنکرسے ہرگز بالاتر نہیں۔ نہ مجھ پر وحی آتی ہے اور نہ میری بات حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔میں صرف کتاب وسنت کا ایک داعی اور معلم ہوں۔غلطی سے پاک ہستی صرف اللہ کی ہے اور غلو وبے اعتدالی سے بلند صرف اُس کے رسول کی ثابت شدہ تعلیمات ہیں۔کتاب وسنت کے سوا، کسی بھی چیزکو ’معصومیت‘ کا یہ درجہ حاصل نہیں۔ لہٰذا، میں یا میرے افکار ہرگز سچائی کا حتمی معیار نہیں بن سکتے۔ یہ صرف اللہ کی کتاب قرآن مجید اور پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ اور آپ کی ثابت شدہ سنت ہے جس کو حق و باطل کے درمیان معیار حق کادرجہ حاصل رہے گا۔
(لکھنؤ ۵/جنوری ۲۰۲۲ء)
ـــــــــــــــــــــــــ