[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
مخزوم بن یقظہ بنو مخزوم كے جد تھے۔ ان كی تیسری پشت پر كعب بن لؤی،آٹھویں پرقریش بن كنانہ اور تیرھویں پشت پرمضر بن نزار تھے۔زمانۂ جاہلیت میں ایك وقت ایسا تھا كہ طاقت اور اثر و رسوخ میں بنومخزوم بنوہاشم اور بنو امیہ كے برابر شمار ہوتےتھے۔بنو مخزوم كی بیس سے زیاده شاخیں ہوئیں، تاہم عمر بن مخزوم كےپوتے مغیرہ بن عبدالله كی اولاد كو زیادہ اہمیت ملی،مغیره ابوجہل كا دادا تھا۔آمد اسلام كے بعد یہی خاندان رسول الله صلی الله علیہ وسلم كا جانی دشمن ثابت ہوااور انھوں نے كم زور مسلمانوں پر تشدد كی انتہا كر دی۔
۶۱۶ء تا ۶۱۸ء : حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ كے خاندان بنوہاشم كو شعب ابوطالب میں محصور كرانے میں ابوجہل نے اہم كردار ادا كیا۔جنگ بدرمیں اسلامی فوج كا مقابلہ كرتے ہوئےبنو مخزوم كے آٹھ كٹر كافر جہنم واصل ہوئے۔ اسی خاندان كے خالد بن ولیداور عكرمہ بن ابوجہل نے جنگ احد میں مسلمانوں كو زبردست جانی نقصان پہنچایا۔فتح مكہ سے پہلے حضرت خالد بن ولید ایمان لائے اور فتح كے بعدحضرت مہاجر بن ابوامیہ، حضرت عكرمہ بن ابوجہل،حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سعید بن یربوع كے مسلمان ہونے كے بعد پورا بنو مخزوم دائرۂ اسلام میں داخل ہو گیا۔
حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد، ام المومنین حضرت ام سلمہ ، حضرت عیاش بن ابو ربیعہ، حضرت شماس بن عثمان، حضرت عبدالله بن سفیان،حضرت ہبار بن سفیان،حضرت ہشام بن ولید،حضرت خالد بن ولید،حضرت عكرمہ بن ابوجہل، حضرت حارث بن ہشام، حضرت سلمہ بن ہشام،حضرت مہاجر بن ابو امیہ،حضرت عبدالله بن ابو ربیعہ،ابوبكر بن عبدالرحمٰن اورسعید بن مسیب۔
حضرت خالد بن ولید كا باپ ولید بن مغیره قریش كا معزز اور صاحب ثروت سردار تھا،نوے برس سے زیاده عمر پائی۔اپنی سرداری كے زعم میں آخر دم تك ایمان نہ لایا۔
حضرت ہبار بن سفيان مخزومی مكہ میں پیدا ہوئے۔ عبد الاسد بن ہلال ان كے دادا اور عمر بن مخزوم پانچویں جد تھے۔حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسدان كے چچا تھے۔جنگ خندق میں حضرت علی كے ہاتھوں ہلاك ہونے والے قریش كے سورما عمروبن عبد ود كی بہن ریطہ بنت عبد ان كی والده تھیں۔حضرت عبدالله بن سفیان ان كے سگے بھائی تھے۔
اسلام كے ابتدائی زمانے میں ایمان لائے۔
اپنےبھائی حضرت عبدالله بن سفیان كے ساتھ حبشہ ہجرت كی۔بنو مخزوم كےحضرت عیاش بن ربیعہ اور حضرت سلمہ بن ہشام بھی ان كے ہم راه تھے۔ ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ كی فہرست میں حضرت ہبار بن سفیان كانام شامل نہیں كیا۔
ہجرت مدینہ
حضرت ہبار بن سفیان جنگ بدر كےبعدكسی وقت مدینہ پہنچے۔وه حبشہ سے لوٹنے والے اس قافلے میں شامل نہ تھے جو ۷ھ میں شاه نجاشی كی دی ہوئی دو كشتیوں میں سوار ہو كر مدینہ پہنچا۔
ایك شاذ روایت ہے كہ حضرت ہبار بن سفیان نے عہد رسالت میں ہونے والی جنگ موتہ میں شہادت پائی۔جنگ موتہ میں گنتی كے آٹھ یا بارہ اہل ایمان شہید ہوئے۔ موسیٰ بن عقبہ واحد مؤرخ ہیں جنھوں نے غزوۂ موتہ میں ایك مخزومی صحابی كی شہادت كا ذكر كیا ہے۔ انھوں نے شہدا كا شمار كرتے ہوئے ہبار كے بجاے نام ہناد بن سفیان بن عبدالاسد لكھا، جب كہ اس نام كے كوئی صحابی نہ تھے۔ ابن حجر كہتے ہیں: ہناد ہبار كی تصحیف ہے۔ طبری كا كہنا ہے كہ حضرت ہبار نے جنگ یرموك میں شہادت پائی۔اكبر شاه نجیب آبادی نے اسی راے كو اختیار كیا ہے۔ واقدی، ابن اسحٰق، ابن سعد،ابن ہشام اورابن كثیر كہتے ہیں: حضرت ہبار نے ۱۳ھ میں دور صدیقی میں برپا ہونے والی جنگ اجنادین میں جام شہادت نوش كیا۔ابن كثیر كہتے ہیں:یہی بات درست ہے۔بلاذری كا رجحان بھی یہی ہے۔
جنگ اجنادین یا فتح قیساریہ ۱۳ ھ(۶ جولائی ۶۳۴ء) یا ۱۵ھ (۶۳۶ء) میں موجوده اسرائیل كے بیت غوفرین یا بیت جبرین (Beit Guvrin) اور رملہ كے درمیان واقع مقام اجنادین پر رومی بازنطینی اور اسلامی فوج كے درمیان لڑی گئی۔نوے ہزار پر مشتمل رومی فوج كی كمان تھیوڈر س یا ارطبون كے ہاتھ میں تھی، جب كہ حضرت خالد بن ولید تینتیس ہزار كی اسلامی فوج كی قیادت كر رہے تھے۔جنگ میں پانچ سو پچھتر مسلمانوں نے شہادت كا نذرانہ پیش كر كے فتح حاصل كی۔شہدا میں حضرت ہبار بن سفیان،حضرت عكرمہ بن ابو جہل،حضرت ابان بن سعید اورحضرت حارث بن ہشام شامل تھے۔ پچاس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے۔
صدر اسلام كے شاعرحضرت زیاد بن حنظلہ تمیمی جنگ اجنادین كا بیان كرتے ہوئے كہتے ہیں:
و نحن تركنا ارطبون مطردا
إلی المسجد الأقصی وفیه حسور
’’ہم نے ارطبون، Tribuneكو مسجد اقصی ٰكی جانب دھتكارا ہوا چھوڑا،وه وہاں درمانده تھا۔‘‘
عشیة اجنادین لما تتابعوا
و قامت علیهم بالعراء نسور
’’معركۂ اجنادین كی شام، جب رومی چٹیل میدان میں اس حال میں ایك دوسرے پر گرے كہ ان پرگدھ مسلط ہو چكے تھے ۔‘‘
حضرت زیاد كو صحابہ كے تمام سوانح نویسوں نے صحابی قرار دیا ہے، جب كہ ’ایك سو پچاس جعلی اصحاب ‘كے شیعہ مصنف مرتضیٰ عسكری نے ان پر جعلی صحابی ہونے كا الزام دھرا ہے۔
حضرت ہبار كی كوئی اولاد نہ تھی۔
مطالعۂ مزید:المغازی(موسیٰ بن عقبہ)،السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق )،السیرة النبویۃ (ابن ہشام)،j الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم و الملوك(طبری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثير)، البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)،Wikipedia۔
ــــــــــــــــــــ
حضرت عبدالله بن سفیان مكہ میں پیدا ہوئے۔ان كے دادا كا نام عبدالاسد بن ہلال تھا۔عمر بن مخزوم ان كے پانچویں جد تھے۔ ریطہ بنت عبد ان كی والده تھیں۔حضرت ہبار بن سفیان سگے بھائی اور حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسدچچا تھے۔بلاذری نے حضرت عبدالله بن سفیان كے بجاے ان كا نام عبیدالله بن سفیان لكھا ہے۔ ابن عبدالبر،ابن اثیر اور ابن حجر نے عبدالله اور عبیدالله، دونوں نقل كیے ہیں۔ایك روایت كے مطابق حضرت عبدالله بن سفیان اور حضرت عبیدالله حضرت ہبار بن سفیان كے دوسگے بھائی تھے۔دونوں كے ایك جیسے حالات زندگی دیكھ كر لگتا ہے كہ یہ بات درست نہیں۔ ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے ایك نام عبید الله بن شقیر بن عبدالاسد مخزومی لكھا ہے،ابن اثیر كہتے ہیں: حضرت عبدالله كے والد كا نام سفیان بن عبدالاسد تو مشہور ہے، جب كہ شقیربن عبدالاسد نام كو كوئی نہیں جانتا،یہ راوی ابوعمر كا وہم ہے۔
حضرت عبدالله بن سفیان نے بعثت نبوی كے فوراً بعد ایمان كی سعادت حاصل كی۔
حضرت عبدالله بن سفیان نے اپنےبھائی حضرت ہبار كے ساتھ حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔بنو مخزوم كےحضرت عیاش بن ربیعہ،حضرت ہشام بن ابو حذیفہ اور حضرت سلمہ بن ہشام بھی ان كے ہم راه تھے۔
حضرت عبدالله بن سفیان جنگ بدر كےبعدكسی وقت مدینہ پہنچے۔وه حبشہ سے لوٹنے والے اس قافلے میں شامل نہ تھے جو ۷ھ میں شاه نجاشی كی دی ہوئی دو كشتیوں میں سوار ہو كر مدینہ پہنچا۔عہد رسالت كی كسی مہم میں ان كی شركت كی اطلاع نہیں ملتی۔
حضرت عبدالله بن سفیان۸ تا ۱۳ رجب ۱۵ھ (۱۵تا۲۰ اگست ۶۳۶ء) كو رومی اور اسلامی فوجوں كے درمیان لڑی جانے والی جنگ یرموك میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ غزوۂ خندق كے موقع پر كھدائی كرتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فتح شام كی بشارت دی تھی جو جنگ یرموك میں پوری ہوئی۔
۱۲ھ كا حج كرنے كے بعد خلیفہ ٔ اول حضرت ابوبكر نے حضرت عمرو بن العاص،حضرت یزید بن ابو سفیان ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت شرحبیل بن حسنہ كی قیادت میں چار فوجیں شام كی طرف بھیجیں۔ وہاں حضرت عكرمہ بن ابوجہل اپنی چھ ہزاركی فوج كے ساتھ ان كی مدد كے لیے موجود تھے۔اسلامی افواج كی آمد كی خبر سن كر شاه روم ہرقل خود انطاكیہ آیا اور چاروں فوجوں كا مقابلہ كرنے كے لیے الگ الگ كمان میں چار لشكر ترتیب دیے۔ رومیوں كی زبردست تیاریاں دیكھ كر حضرت ابوبكر نے حضرت عمرو بن العاص كے مشورے پر چاروں فوجوں كو یكجا ہونے كا حكم دیا۔حضرت خالد بن ولید اس وقت عراق كی مہمات میں مصروف تھے، انھوں نے ان كو بھی سپاه لے كرفوراً اسلامی افواج میں شامل ہونے كی تاكید كی۔حضرت خالد جس وقت شام پہنچے،ان كا سامنا رومی جرنیل باہان كی فوج سے ہوگیا، جسے انھوں نے سخت مقابلہ كر كے خندقوں میں گھسنے پر مجبور كر دیا۔
اب یرموك میں دو لاكھ ستر ہزاررومی بازنطینی فوجیوں كاسامنا كرنے كے لیے چالیس (چھیالیس:طبری) ہزار مسلمان موجود تھے جن میں ایک سو بدریوں كو ملا كر كل ایک ہزار صحابہ شامل تھے۔
یرموک(Hieromyax) شام كے دریاے یرموك كے كنارے، گولان کی پہاڑیوں سےچالیس میل دور ایک سطح مرتفع ہے جوموجودہ اسرائیل، اردن اور شام کی درمیانی سرحد پر واقع ہے۔اسلامی فوج طلال جموع (Hill of Samein) پر اکٹھی ہوئی اوررومی فوج نے دیر ایوب اور دریاے یرموک کے بیچ وادی واقوصہ میں پڑاؤ ڈالا۔اسلامی فوج کے سارے دستے اكٹھے ہو گئے تو كمان حضرت خالد بن ولیدكے حصے میں آئی۔انھوں نے فوج کو بے ترتیب پایا تو ایک خطبہ دے کر فوج کی صف بندی اور تنظیم کی اہمیت واضح کی۔
یرموک كی چھ روزه جنگ میں ایک کم تر فوج نے ایک برتر فوج کو برتر جنرل شپ کے ذریعے سے شکست دی۔ حضرت خالد بن ولید كو میدان جنگ کے اونچ نیچ کا خوب علم تھا، وہ خوب جانتے تھے کہ اس کارزارمیں اپنی قلیل فوج سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔انھوں نے اپنی بہترین اسٹریٹیجی کے ذریعے سے اپنے دستوں کو اپنی مرضی کے مطابق آگے پیچھے کیا، کم زور مقامات پر اپنی قوت مرکوز کر کے کئی گنا زیادہ فوج رکھنے والے دشمن کو حركت (movement) سے بے بس کر دیا اور اس کی فرار کی راہیں مسدود کركے برے انجام سے دوچار کیا۔ رومی جرنیل اس صلاحیت سے عاری تھے۔ ان کی گھڑ سوار فوج (cavalry) نے کوئی کارکردگی دکھائی نہ چوتھے دن حاصل ہونے والی برتری سے ان کے کمانڈروں نے کوئی فائدہ اٹھایا۔ میدان جنگ ایك لاكھ بیس ہزاررومیوں كے خون سے لت پت ہو گیا۔ بلاذری نے رومی مقتولین كی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔ تین ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔شہدا میں حضرت عكرمہ بن ابو جہل،حضرت عبدالله بن سفیان، حضرت عمرو بن سعید،حضرت ابان بن سعید،حضرت سہیل بن عمرو، حضرت ہشام بن العاص اورحضرت سعید بن حارث شامل تھے۔ كچھ مؤرخین كو شبہ ہے كہ حضرت عبدالله بن سفیان كی شہادت جنگ یرموك میں ہوئی۔ ابن خلدون نے شہداے یرموك میں نام سیار بن سفیان لكھا ہے جو كتابت كی غلطی ہو سكتی ہے، كیونكہ اس نام كے كسی صحابی رسول كا ذكر نہیں ملتا۔
شكست كے بعد شاہ روم ہرقل انطاکیہ سے نكلتے ہوئے بولا: اے ارض شام، تجھے الوداعی سلام، اب کوئی رومی كبھی بھی تیری طرف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اے شام،تو کتنی اچھی سر زمین ہے جو دشمن کے ہاتھ لگی ہے۔ تجھے الوداعی سلام۔
حضرت عبدالله بن سفیان كی كوئی اولاد نہ ہوئی۔
علی بن ابوبكر الہیثمی نے طبرانی كی ’’المعجم الكبیر‘‘ كے حوالے سے حضرت عبدالله بن سفیان كی دو روایتیں نقل كی ہیں:’ان النبی صلی اللّٰه علیه وسلم احتجم و هو صائم‘’’نبی صلی الله علیہ وسلم نے روزے كی حالت میں پچھنا لگوایا‘‘ (مجمع الزوائد، رقم ۵۰۰۱)۔’لا صام من صام الأبد‘ ’’جس نے ہمیشہ روزه ركھا، اس كا كوئی روزہ شمار نہ ہو گا‘‘(مجمع الزوائد، رقم ۵۱۶۷)۔
افسوس ہے كہ یہ روایات علی الترتیب حضرت عبدالله بن عباس،حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص اور كچھ دوسرے راویوں سے تو منقول ہیں،لیكن حضرت عبدالله بن سفیان كے طریق سے حدیث كی كسی كتاب، حتیٰ كہ المعجم الكبیر،طبرانی میں بھی نہیں پائی جاتیں۔
مطالعۂ مزید:السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،r الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف(بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثير)، البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)،Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ