محمد رضوان سلیم سندھو
[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
۱۔وہ کیا وجوہات ہیں جو ایک معاشرے کو تخلیقی انحطا ط میں مبتلا کر دیتی ہیں ؟
۲۔کسی معاشرے میں تخلیقی روایت کو مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے ؟
۳۔ایک فرد میں تخلیقی صلاحیت کیسے پیدا کی جا سکتی ہے ؟
۴۔کیا مذہب جدت پسندی کی مخالفت کرتا ہے ؟
۵۔ہمارے ہاں کا عمومی معیار تحقیق پست کیوں ہے ؟
۶۔ہم اپنا معیار تحقیق کیسے بلند کر سکتے ہیں ؟
ورچوئل یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین نے استاذ جاوید احمد صاحب غامدی کے ساتھ نومبر ۲۰۱۹ء میں درج بالا موضوع اور سوالات پر مشتمل ایک نشست میں تفصیلی گفتگو کی، جو ’’دنیا‘‘ ٹی وی پر دواقساط میں نشر بھی کی گئی۔ ذیل کا مضمون اسی گفتگو سے ماخوذ ہے۔
ان باتوں میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں نکالی جا سکتی کہ انسان کی زندگی تجسس اور جستجو سے عبارت ہے۔ آج ہمارے ارد گرد جتنے بھی شاہ کار ہیں ، جتنی بھی ترقی انسانی تہذیب نے کی ہے، وہ تجسس اور جستجو کا حاصل ہے۔ انسان کو خدا نے جو بڑے بڑے انعامات دیے ہیں۔ ان میں تجسس اور جستجو غیر معمولی حیثیت کے حامل ہیں۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جان داروں میں سے صرف انسان کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ بے شمار دائروں میں تحقیق بھی کر سکتا ہے اور تخلیق بھی۔ تحقیق و تخلیق کے روح رواں تجسس اور جستجو ہیں۔
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ اقوام جنھوں نے عظیم تہذیبیں پیدا کیں، وہ تحقیق و تخلیق میں دوسروں سے آگے تھیں۔ آج بھی جب ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہمیں دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے: ایک طرف وہ اقوام اور تہذیبیں ہیں جو مادی اور اخلاقی طور پر دوسروں سے بہت آگے ہیں اور دوسری طرف وہ اقوام ہیں جو بہت پیچھے رہ گئی ہیں یا آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اقوام کے ان دو گروہوں پر جب نگاہ ڈالی جاتی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ایک، دوسرے سے آگے کیوں ہے؟ تو ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ جو تحقیق و تخلیق میں آگے ہیں، وہ ہر چیز میں آگے ہیں ، اور جن کے ہاں یہ دونوں اوصاف انحطاط کا شکار ہیں، وہ خود بھی زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
وطن عزیز میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارا تعلق اقوام کے اس گروہ کے ساتھ ہے جو پیچھے رہ گیا ہے ، اور بلا شبہ ہمارے ہاں تحقیق و تخلیق، دونوں انحطاط کا شکار ہیں۔ یہ تو وہ حقیقت ہے جو ہم سب جانتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ہمارے تحقیقی اور تخلیقی انحطاط کا سبب کیا ہے؟ اور بقول شاعر ’’ایسے بیمار کی دوا کیا ہے‘‘(عصمتؔ)۔ شاید یہ وہ بات ہے جس پر ہمیں سب سے زیادہ غور بھی کرنا چاہیے اور اپنے عمل سے اس انحطاط سے نپٹنا بھی چاہیے۔
ہمارا یہ انحطاط اب اس قدر واضح ہے کہ ہر شعبۂ زندگی میں اس کی شہادت موجود ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس انحطاط کے اسباب ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، البتہ ہم نے آنکھیں ضرور بند کر رکھی ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ معاشرے جہاں تحقیق و تخلیق اعلیٰ معیار پر ہیں، وہ جبر ، استبداد ، اندھی تقلید ، اظہار راے اور سوچ کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔ وہاں کی حکومتیں اور ادارے شخصی آزادیوں پر قدغن لگانے سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں۔
اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہمارے ہاں اس انحطاط کا سبب کیا ہے؟ تو بلا شبہ یہ بات سامنے آتی ہے کہ پابندیاں لگانے کا ہمارا حد سے بڑھا ہوا شوق اس کی وجہ ہے۔ ویسے تو خدا کے فضل سے ہم ایک آزاد مملکت ہیں، مگر باقی ہر چیز پابندی کی زد میں ہے، وہ سوچ ہو، صلاحیت ہو ، اظہار ہو ، تحقیق ہو یا تخلیق۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر سطح پر ، وہ معاشرہ ہو، ریاست ہو ، حکومت ہو ، خاندان ہو یا فرد ، جبر روا رکھنا ایک روایت بن چکی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تحقیق اور تخلیق آزادی مانگتے ہیں اور یہ آزادی معاشرہ دیتا ہے، جسے ریاست حکومت اور دوسرے اداروں کی مدد سے یقینی بناتی ہے۔ یہ بھی اہم سوال ہے کہ تحقیق اور تخلیق کا کوئی باہمی تعلق ہے جو یہ ساتھ ساتھ آرہی ہیں؟ ہاں ، آپ غور کیجیے آئے روز یہ جو نت نئی ایجادات دست انسانی سے رونما ہو رہی ہیں یہ تخلیق کی مجسم شکلیں ہیں اور تحقیق کا نتیجہ۔
ہمیں غور کرنا چاہیے کہ دنیا میں ہونے والی تحقیق و تخلیق میں ہمارا کتنا حصہ ہے ؟ یہ پریشان کن بات ہے کہ ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مٹی بانجھ ہےجو ایسے اہل علم و ہنر و فکر پیدا نہیں کر سکی جو تحقیق و تخلیق کر سکیں؟ نہیں، یہ سچ نہیں ہے، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ اعلیٰ اہل علم و ہنر و فکر تو پست ترین معاشروں میں بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ تو پھر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ اس ماحول کا نہ ہونا ہے جس میں تحقیق و تخلیق پنپ سکتی ہیں۔ وہ کیا ماحول ہوتا ہے جس میں یہ دونوں پنپ سکتی ہیں؟ وہ ایسا ماحول ہوتا ہے جس میں سوچنے پر ، اظہار پر اور عمل پر صرف اس صورت میں پابندی ہوتی ہے جب وہ کسی کے جان ، مال اور آبرو کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی آزادی بھی میسر آتی ہے اور سہولت بھی۔
دراصل کسی بھی ملک میں آزادی کا ایسا ماحول جو تحقیق اور تخلیق کے لیے درکار ہوتا ہے، اسے بنانے میں ریاست سے لے کر فرد تک سب اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ریاست ، معاشرہ ، خاندان ، استاد اور فرد ہر روز ایک ایسا نیا ستم ایجاد کرتے ہیں کہ کہیں کوئی آزاد سوچ نہ پیدا ہو سکے ، کہیں کسی نئی بات کا اظہار نہ کرسکے۔ ہمارے ہاں کے مدارس ، وہ دینی تعلیم سے متعلق ہوں یا دنیاوی تعلیم سے ، ان میں رائج نصاب اور موجود استاد اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ کوئی نئی سوچ نہ پیدا ہوجائے۔ عام طور پر ہماری درس گاہوں میں مختلف سوچنے والا استاد اور شاگرد، دونوں ہی زیر عتاب رہتے ہیں۔ استاد، نصاب اور انتظامیہ جن کا کام فرد کی عقل ، اخلاق اور جمالیات کو فروغ دینا ہوتا ہے، وہ ان کے بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اس کو تجسس اور جستجو کی صلاحیت دی ہے تاکہ وہ آزادانہ تحقیق کر سکے اور تخلیق میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں معیار تحقیق اور تخلیق بلند ہو تو ہمیں ہر سطح پر اپنی سوچ اور عمل کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں سوچ، فکر ، ذکر اور اظہار کی آزادی کو یقینی بنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے نظام تعلیم میں ایسی اصلاحات کرنی ہوں گی کہ ہمارے ہاں تقلید کے خوگر نہیں، بلکہ تحقیق کے دل دادہ پیدا ہوں۔ ہمیں معاشرے سے ہر قسم کے جبر و استبداد کو بتدریج کم کرنا ہوگا۔ ہمیں مختلف سوچ رکھنے والوں کو گوارا کرنا ہوگا ، انھیں ایسا ماحول دینا ہوگا کہ وہ بلا خوف و خطر اپنی راے کا اظہار کر سکیں۔ ہاں ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ کسی کی جان ، مال اور آبرو کسی طرح بھی غیر محفوظ نہ ہو۔ ایسا انتظام بھی کرنا ہوگا کہ طالب علموں کی صلاحیتیں اجاگر ہوں اور ایسے اہل ہنر و فن و فکر جن کی صلاحیتیں ظاہر ہوں انھیں ریاست ہر طرح کی مالی و عملی سرپرستی فراہم کرے تاکہ وہ تحقیقی اور تخلیقی کام کر سکیں۔
ہم چونکہ ایک مذہبی معاشرہ ہیں، اس لیے اس سوال کا جواب بھی ضرور تلاش کرنا چاہیے کہ کیا مذہب تحقیق و تخلیق کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب تو نہیں، البتہ مذہبی لوگ ضرور رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔ یورپ جو آج دنیا میں مادی اور کسی حد تک اخلاقی ترقی کی بھی مثال ہے، ایک زمانے میں مذہبی لوگوں کے استبداد کا شکار تھا اور اس نے ترقی اس وقت شروع کی جب اس نے استبداد کا خاتمہ کر لیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنی اصل میں الہامی مذاہب کبھی بھی تحقیق و تخلیق کی مخالفت نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس آخری الہامی دین اسلام کی کتاب قرآن حکیم اپنی اصل حالت میں موجود ہے ، اس کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ خدا نے غور و فکر اور سوچنے سمجھنے پر جتنا زور دیا ہے اتنا کسی اور چیز پر نہیں دیا۔ خدا اپنے بندوں کو غور و فکر اور تحقیق کی کھلی دعوت دیتا ہے۔ خدا کے آخری پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور سنت کا مطالعہ بھی تحقیق و تخلیق کی تائید کرتا ہے۔ ہم اپنی دنیا کا بغور جائزہ لیں ، جو خدا کی اعلیٰ تخلیق کا نمونہ ہے ، تو یہ ہمیں ہر دم دعوت تحقیق اور تخلیق دے رہی ہے۔ دین کے ماخذ تو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ ہم لوگ تحقیق و تخلیق کریں، تو پھر ہمارے ہاں یہ انحطاط کیسا ؟ اس کی وجہ لوگوں کا دین کو اس کے اصل سے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ جیسے ٹھیرے ہوے پانی میں سڑاند پیدا ہو جاتی ہے، ایسے ہی علم کا روکنا بھی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ تحقیق اگر سانچوں میں ڈھل جا ے تو تخلیق رک جاتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ