HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

’’میزان‘‘ ــــ توضیحی مطالعہ: حدود وتعزیرات (۱)

حدود کی نوعیت

’’انسانی تاریخ میں اِس فساد کا سب سے پہلا ظہور ابو البشر آدم کے بیٹے قابیل کے ہاتھ سے ہوا، لہٰذا یہ ضرورت اِس کے ساتھ ہی سامنے آ گئی کہ انسان کو خود انسان کے شروفساد سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر ہونی چاہیے ۔جرم و سزا کے تمام ضابطے اِسی ضرورت سے وضع کیے گئے ہیں۔اِن میں اصلی مقصود شروفساد کا استیصال ہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہیے، لیکن جو لوگ خدا کی ہدایت قبول کرکے اُس کے رسولوں پر ایمان لے آئیں، اُن کا معاملہ عام مجرموں کا نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر جان، مال، آبرو یا نظم اجتماعی کے خلاف کسی بڑے جرم کا ارتکاب کریں تو خدا کا فیصلہ ہے کہ اُن کو اِسی دنیا میں عذاب دیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اوروہ خدا کی اِس عقوبت کو دیکھ کر آخرت کے عذاب کی یاددہانی حاصل کریں۔(میزان ۶۱۱)

مصنف نے یہاں حدود کی جو نوعیت واضح کی ہے، اس میں بہت اہم نکتے مضمر ہیں، جن میں سے بعض کی تفصیل وتوضیح مصنف نے دوسرے مقامات پر کی ہے۔

پہلا نکتہ حدود کی مشروعیت کے بنیادی پہلو سے متعلق ہے۔ فقہا عموماً‌ حدود کو زو اجر قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزائیں شریعت میں بنیادی طور پر جرائم کی روک تھام کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ علامہ ابن الہمام نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے کہ شریعت میں جو بھی سزا مشروع کی گئی ہے، وہ درحقیقت اس دنیا میں مقصود چند مصالح کے لیے کی گئی ہے، مثلاً قصاص کو جانوں کی، حد قذف کو آبرو کی، حد شرب کو عقل کی، حد زنا کو نسب کی اور حد سرقہ کو مال کی حفاظت کے لیے مشروع کیا گیا ہے (فتح القدیر ۶/ ۷۲) ۔

مصنف کا نقطۂ نظر اس ضمن میں یہ ہے کہ جرم وسزا کے عام ضابطوں میں تو یقیناً‌ اصل مقصد جرائم کی روک تھام اور فساد کا سدباب ہوتا ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت میں یہ مقصد ثانوی اور ضمنی ہو جاتا ہے، جب کہ خدا کی مقرر کردہ سزاوں کا اصل مقصد خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے والوں کو خدا کی طرف سے عذاب کا مزہ چکھانا اور انھیں آخرت کی عذاب کی یاددہانی کرانا ہوتا ہے۔

سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸ میں ’جَزَآءًۣ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ‘ کی تفسیر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:

’’یعنی یہ پاداش عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بھی کہ وہ اِس سزا کو دیکھ کر جان لیں کہ جس خدا کی عقوبت دنیا میں یہ ہے ، وہ آخرت میں اپنے نافرمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ چنانچہ دنیا کی حرص میں اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ سزا کا اصلی مقصد یہی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس طرح کی سزائیں کسی معاشرے میں نافذ ہوں تو اِس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک ضمنی فائدہ ہے، اِس کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔“ (میزان ۶۳۰)

دوسرا نکتہ ان سزاؤں کے نفاذ واجرا سے متعلق ہے۔ مصنف کی راے میں ان سزاؤں کا بنیادی مقصد چونکہ استیصال جرم نہیں، بلکہ یہ اللہ اور رسول پر ایمان لے آنے کے بعد اس کے حدود کو پامال کرنے پر خدا کی طرف سے عقوبت اور عذاب کی حیثیت رکھتی ہیں، اس لیے ان کا نفا ذبھی انھی مجرموں پر کیا جائے گا جو مسلمان ہوں، غیر مسلم نہ ہوں۔

ابن حزم اور حنفی فقہا کی راے اس سے مختلف ہے اور وہ اسلامی ریاست کے دیگر عمومی قوانین کی طرح غیرمسلموں پر شرعی حدود کو بھی قابل تنفیذ قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ابن حزم کا استدلال کلامی نوعیت کا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ شریعت کے احکام پر عمل کے مکلف تمام انسان ہیں، یعنی جیسے مسلمان ان کے مخاطب ہیں، ویسے ہی غیر مسلم بھی ہیں۔ اس کے برخلاف حنفی فقہا اس حوالے سے اسلامی ریاست کے ساتھ غیر مسلموں کے سیاسی معاہدے سے استدلال کرتے ہیں، جس میں ان کے نقطۂ نظر سے یہ بات مضمر ہے کہ غیر مسلموں کو اپنے خاص مذہبی اور نجی معاملات میں تو مذہبی آزادی حاصل ہوگی، لیکن ریاست کے عمومی قوانین میں وہ اسلامی شریعت کی پابندی قبول کریں گے۔

مصنف کی راے اس بحث میں ان اہل علم کے موقف کے مطابق ہے جو غیر مسلموں پر حدود کے نفاذ کو لازم نہیں سمجھتے۔ یہ راے صحابہ وتابعین میں سے سیدنا علی، عبد اللہ بن عباس، عمر بن عبد العزیز، ابراہیم نخعی، شعبی، ربیعۃ الراے، عطاء اور حسن بصری سے منقول ہے اور امام ترمذی نے اس کو اکثر اہل علم کی راے کے طور پر بیان کیا ہے۔[*] 

حدود اور اخروی سزا

’’مجرموں کے لیے بھی یہ عذاب، اگر وہ توبہ اور اصلاح کا رویہ اختیار کریں تو گناہ سے تطہیر کا ذریعہ بن جائے۔“ (میزان ۶۱۱)
’’چور کے لیے یہ محض دنیوی سزا ہے ۔رہی آخرت تو اُس میں نجات توبہ اور اصلاح ہی سے ہو سکتی ہے ۔ یہ دنیوی سزا نہ توبہ کا بدل ہے اور نہ توبہ اِس کے لیے بدل کی حیثیت ر کھتی ہے ۔ چنانچہ توبہ و اصلاح کے باوجود حکومت یہ سزا لازماً نافذ کرے گی اور دنیا میں یہ سزا پا لینے کے باوجود آخرت کا معاملہ توبہ اور اصلاح ہی سے درست ہوگا جس کے ساتھ البتہ، توقع ہے کہ یہ مجرم کے لیے اُس کے گناہ سے تطہیر کا ذریعہ بن جائے گی۔“ (میزان ۶۳۱)

اہل علم کے مابین اس حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے کہ ان سزاؤں کا نفاذ مجرم کو اخروی سزا سے بچا لیتا ہے یا وہ اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ بعض حنفیہ سے منقول ہے کہ حدود، اخروی سزا کا بدل نہیں بنتے، جب کہ جمہور محدثین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث کی روشنی میں حدود کو کفارہ قرار دیتے ہیں، جس کے بعد آخرت میں دوبارہ مجرم کا مواخذہ نہیں ہوگا (بخاری، رقم ۱۸)۔ تاہم سیدنا ابو ہریرہ کی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں کہ حدود کفارہ بن جاتے ہیں یا نہیں (المستدرک للحاکم، رقم ۳۶۱۱)۔  ابن حجر اور دیگر شارحین ان کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حدود کا اخروی حکم ابتدا میں واضح نہیں تھا، اس لیے آپ نے ان کے کفارہ ہونے کے متعلق تردد ظاہر فرمایا، لیکن پھر بعد میں آپ کو بتا دیا گیا کہ حدود کفارہ بن جاتے ہیں (فتح الباری ۱/ ۶۶) ۔

عہد نبوی میں بعض مجرموں پر حدود کے نفاذ کے واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر سزا کے ساتھ مجرم نے مخلصانہ طور پر گناہ سے توبہ بھی کر لی ہو اور اس جذبے کے ساتھ خود کو نفاذ حد کے لیے پیش کیا ہو کہ وہ گناہ سے پاک ہو جائے تو پھر اس کی سزا لازماً‌ اخروی مغفرت کی ضامن بن جاتی ہے۔ چنانچہ قبیلۂ بنو غامد کی خاتون کے متعلق آپ نے فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ میں سے ستر لوگوں کے مابین تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اس سے بہتر کوئی توبہ ہو سکتی ہے کہ اس نے اپنی جان کو قربان کر دیا؟ (مسلم، رقم ۱۶۹۶) ۔

البتہ اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ کیا دنیا میں صرف حد کا نافذ ہو جانا کفارہ بننے کے لیے کافی ہے یا اس کے ساتھ مجرم کی طرف سے توبہ واصلاح بھی شامل حال ہونی چاہیے؟ بہت سے اہل علم اس کے لیے توبہ کو شرط قرار نہیں دیتے، جب کہ دیگر اہل علم کے نزدیک توبہ کا پایا جانا کفارہ بننے کے لیے ناگزیر ہے (فتح الباری ۱/ ۶۸۔ عقیدۃ السفارینی ۱/ ۳۲۰ بحوالہ ہامش فیض الباری)۔ علامہ انور شاہ کشمیری توبہ کے لازم ہونے کے قائل ہیں اور اس حوالے سے اپنی تحقیق کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر مجرم سزا کے ساتھ باقاعدہ توبہ کر لے تو اس کی سزا بلا اختلاف کفارہ بن جائے گی۔ اسی طرح اگر وہ باقاعدہ توبہ نہ کرے، لیکن سزا کے بعد آیندہ کے لیے عملاً‌ گناہ سے دور رہے تو بھی سزا ا س کے لیے کفارہ بن جائے گی۔ تاہم اگر وہ توبہ بھی نہ کرے اور گناہ سے عملاً‌ بھی اجتناب نہ کرے، بلکہ بار بار ارتکاب کرتا رہے تو پھر اس کی سزا کفارہ نہیں بنے گی۔ مزید لکھتے ہیں کہ عہد نبوی میں چونکہ جن افراد پر حدود کیے جاتے تھے، وہ عموماً‌ توبہ اور اصلاح بھی کر لیتے تھے اور اس کا امکان بہت کم تھا کہ کوئی صاحب ایمان سزا پانے کے باوجود توبہ اور اصلاح نہ کرے، اس لیے حدیث میں اس پہلو سے حدود کے نفاذ کو مطلقاً‌ کفارہ قرار دیا گیا ہے، ورنہ اصولاً‌ اس میں توبہ کی شرط بھی مضمر ہے (فیض الباری ۱ / ۱۶۷)۔

 مصنف کا نقطۂ نظر اس بحث میں ان اہل علم کے قریب تر دکھائی دیتا ہے جو مجرم کی توبہ اور اصلاح کے ساتھ حدود کے کفارہ بن جانے کے قائل ہیں۔

حدود کا ناقابل تغییر ہونا

’’شریعت میں جن جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ یہی ہیں ۔اِن کی ادنیٰ صورتوں اور اِن کے علاوہ باقی سب جرائم کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ارباب حل و عقد پر چھوڑ دیا ہے۔ “ (میزان ۶۱۲)

مصنف کے بیان سے واضح ہے کہ جن جرائم کی سزائیں شریعت میں بطور حدمقرر کی گئی ہیں، ان میں ترمیم و تغییر کا اجتہادی اختیار امت کو حاصل نہیں ہے اور ان کی جگہ سزا کی متبادل صورتیں اختیار کر لینے کی گنجایش بھی شریعت میں نہیں رکھی گئی۔ سورۂ نور کی ابتدا میں ’اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا‘کی تفسیر میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’البیان‘‘ میں لکھا ہے:

’’یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ اِسی نوعیت کے احکام تھے جو پچھلی امتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہوئے اور اُنھوں نے اُن سے گریز وفرار کے راستے تلاش کرنا چاہے۔ چنانچہ تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ سفارشات نہیں ہیں، بلکہ خدا کے عائد کردہ فرائض اور اُس کے قطعی احکام ہیں جن کی ہر جگہ اور ہر زمانے میں بے چون وچرا تعمیل ہونی چاہیے۔ اِن میں کسی کے لیے بے پروائی یا سہل انگاری کی گنجایش نہیں ہے۔‘‘ (۳/ ۴۱۵)

سورۂ مائدہ کی آیت ۴۳ (وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ) میں اللہ تعالیٰ نے علماے یہود پر یہ تنقید کی ہے کہ وہ اپنے پاس تورات کے موجود ہوتے ہوئے کسی معاملے میں فیصلے کرانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیونکر رجوع کر سکتے ہیں؟ مصنف نے اس سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ:

’’اِس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ خداکا قانون اگر قانون کی حیثیت سے دیا گیا ہے تو اُس پر عمل بجاے خود مطلوب ہوتا ہے۔ اُس کے مقاصد کو سامنے رکھ کر کوئی شخص اُس کی جگہ کوئی دوسرا قانون نہیں بناسکتا۔ آیت میں دیکھ لیجیے، نزول تورات کے کم و بیش دوہزار سال بعد بھی اللہ تعالیٰ کا اصرار ہے کہ اُس کے ماننے والے اُس کے احکام کے پابند ہیں۔ اِس کے بعد کسی مسلمان کے لیے یہ بات کس طرح جائز ہوسکتی ہے کہ اللہ کے قانون کو ایک طرف رکھ کر وہ اُس کے مقاصد کی رعایت سے اپنے لیے خود کوئی قانون بنالے؟ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ حدود ہی کے احکام تھے جن سے فرار کے لیے یہود نے مختلف قسم کے حیلے نکالنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ یہ صرف ظالم، فاسق اور کافر ہی ہیں جو اُس کے احکام سے اِس طرح فرار کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔“ (البیان ۱/ ۶۳۷)

یہ فقہا کا متفقہ موقف ہے اور فقہی روایت میں اس کو بالعموم یوں بیان کیا جاتا ہےکہ یہ سزائیں حق اللہ ہیں جنھیں معاف کرنے یا تبدیل کرنے کا حق مسلمانوں کو نہیں ہے اور وہ اللہ کے ایک حق کے طور پر انھیں مجرموں پرنافذ کرنے کے پابند ہیں۔ البتہ مصنف نے حدود کے ناقابل تبدیل ہونے کی توضیح میں ان کے عذاب الٰہی ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا ہے جو حق اللہ کی روایتی فقہی تعبیر میں اس طرح نمایاں نہیں ہے۔

حدود کے نفاذ کے اخلاقی اصول

’’اِن سزاؤں کا مقصد محض جرم کا استیصال نہیں، بلکہ اُن سب لوگوں کو خدا کے عذاب کا مزہ چکھانا اور دوسروں کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے جنھوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنے آپ کو خدا اور اُس کے رسولوں کے حوالے کیا، اُن سے عہد اطاعت باندھا، اُن کے دین کو دین کی حیثیت سے قبول کیااور اِس کے بعد اِس نوعیت کے بڑے جرائم میں اِس حد تک ملوث ہو گئے کہ خدا نے اُن کا پردہ فاش کر دیا اور معاملات عدالت تک پہنچ گئے۔ “ (میزان ۶۱۱)
’’یہ سزا بھی اِس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف اُنھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری صورت میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں ۔ چنانچہ سزا کے تحمل سے معذور،مجبور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اِس سے یقیناً   مستثنیٰ ہیں۔“ (میزان ۶۲۷)

مصنف نے ان اقتباسات میں انتہائی سزا کے نفاذ سے مختلف طرح کے مجرموں کو مستثنیٰ قرار دینے کے کچھ بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔

پہلے اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک حدود کا نفاذ انھی مسلمانوں پر ہونا چاہیے جنھوں نے پورے شعور سے ایمان کو اختیار کیا اور خدا کے حکموں کی پابندی قبول کی ہو۔ اس شرط کی بناے استدلال مصنف نے ایک دوسری تحریر میں یوں واضح کی ہے:

’’زنا اور چوری کی جو سزائیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، وہ اِن جرائم کی انتہائی سزائیں ہیں اور صرف اُنھی مجرموں کو دی جائیں گی جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔ اِن میں اہم ترین چیز اُن کا دینی شعور ہے۔ یہ سزائیں اُن لوگوں کے لیے نہیں ہیں جو غیرمسلم ہیں یا پیدایشی لحاظ سے مسلمان تو ہیں، مگر دینی شعور کے لحاظ سے غیرمسلموں ہی کے حکم میں ہیں۔ اِس لیے کہ اِن سزاؤں سے مقصود محض جرم کا استیصال نہیں ہے، بلکہ اُ ن مجرموں کو خدا کے عذاب کا مزہ چکھانا اور دوسروں کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے جنھوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنے آپ کو خدا اور اُس کے رسول کے حوالے کیا، اُن سے عہد اطاعت باندھا، اُن کے دین کو دین کی حیثیت سے قبول کیا اور اِس کے بعد چوری اور زنا جیسے جرائم میں اِس حد تک ملوث ہو گئے کہ خدا نے اُن کا پردہ فاش کر دیا اور معاملات عدالت تک پہنچ گئے۔(مقامات ۲۳۳)

گویا مصنف کے نزدیک جس طرح ضروری دینی واخلاقی تربیت سے محروم مجرموں کو حدود کے نفاذ میں رعایت دی جاتی ہے، اسی طرح دینی وایمانی شعور سے نابلد ایسے مسلمان بھی ان سزاؤں کے نفاذ کا محل نہیں ہیں جو مسلمان گھرانوں میں پیدا تو ہوئے ہیں اور اسلام کے ساتھ ایک پیدایشی نسبت بھی رکھتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے ارادی فیصلے سے پورے شعور کے ساتھ ایمان اور اس کے مطالبات کو قبول نہیں کیا۔ غالباً‌ مصنف کے پیش نظر ، آج کی مسلمان نسلوں کے وہ افراد ہیں جو ذہنی طور پر تشکیک یا الحاد کا شکار ہیں اور خاص طور پر شرعی حدود سے متعلق دور جدید کے انسانی حقوق کے فلسفے سے متاثر ہیں، جو ان سزاؤں کو وحشیانہ اور غیر انسانی تصور کرتا ہے۔ مصنف کا زاویۂ نظر یہ ہے کہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شمار کیے جانے کے باوجود، شرعی احکام اور پابندیوں کی تنفیذ کے پہلو سے ایسے مسلمانوں کو غیر مسلموں ہی کے حکم میں سمجھنا چاہیے۔

دوسرے اقتباس میں انتہائی سزا سے استثنا کے کچھ مزید اہم اصولوں کا ذکر ہوا ہے۔

سزا کے تحمل سے معذور، مثلاً‌ انتہائی بیمار یا ضعیف افراد کا استثنا ایک بدیہی عقلی اور اخلاقی اصول پر مبنی ہے، جس کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ نے بدکاری کی مرتکب ایک حاملہ عورت کو اس وقت تک رجم نہیں کیا جب تک وہ بچے کی ولادت سے فارغ نہیں ہو گئی (مسلم، رقم ۳۲۰۷)۔ اسی طرح سیدنا علی نے ایک لونڈی پر زنا کی سزا نافذ کرنے سے اس لیے گریز کیا کہ وہ بچے کی ولادت کے بعد ابھی حالت نفاس میں تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تحسین فرمائی (مسلم، رقم ۳۲۱۷)۔ آپ نے ایک بوڑھے کو، جو کوڑوں کی سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، حقیقی طور پر سو کوڑے لگوانے کے بجاے یہ حکم دیا کہ کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی لے کر جس میں سو پتلی شاخیں ہوں، ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر مار دی جائے (سنن ابی داؤد، رقم ۳۸۷۸)۔ سیدنا عمر کے پاس ایک شخص لایا گیا جس کا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں چوری کے جرم میں پہلے ہی کاٹا جا چکا تھا۔ سیدنا عمر نے اس کا دوسرا پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تو سیدنا علی نے کہا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں، کیونکہ اس کے پاس چلنے کے لیے ایک پاؤں اور اپنی ضروریات کے لیے ایک ہاتھ رہنا چاہیے (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۶۶)۔

مجبور افراد کو سزا سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے مصنف نے سورۂ نور کی آیت ۳۳ سے استدلال کیا ہے، جس میں ان باندیوں کو گناہ سے مبرا قرار دیا گیا ہے جن کے مالک ان کی رضامندی کے برخلاف انھیں زنا پر مجبور کریں۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک عورت کا مقدمہ پیش کیا گیا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک سفر کے دوران میں اس نے ایک چرواہے سے پینے کے لیے پانی مانگا تو اس نے اس شرط پر پانی دینے پر رضامندی ظاہر کی کہ خاتون اسے اپنے ساتھ زنا کرنے کی اجازت دے۔ چنانچہ خاتون نے شدید پیاس سے مجبور ہو کر اس کی شرط پوری کر کے اس سے پانی حاصل کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس ضمن میں صحابہ سے مشورہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے حالت اضطرار میں ایسا کیا ہے۔ چنانچہ اس خاتون کو کوئی سزا نہیں دی گئی (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۸۲۷)۔

تیسرے استثنا کے لیے مصنف نے غلاموں اور باندیوں کے لیے زنا کی سزا نصف مقرر کیے جانے سے استدلال کیا ہے۔ مصنف کے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ غلام اور لونڈیاں، چونکہ خاندان کی حفاظت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے مناسب اخلاقی تربیت سے محروم تھیں اور انھیں اپنی عصمت کی حفاظت کے لیے نکاح کا حق بھی آزاد لوگوں کی طرح حاصل نہیں تھا، اس لیے زنا میں ملوث ہونے کی صورت میں ان کے اس معاشرتی پس منظر کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے لیے کم تر سزا تجویز کی گئی۔

احادیث اور صحابہ وتابعین کے آثار میں اس کے علاوہ بھی کئی اسباب کا ذکر ملتا ہے جو سزا میں تخفیف کا موجب ہو سکتے ہیں۔

مثلاً‌ بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مجرم کسی فعل کی حرمت سے ناواقف ہو تو یہ چیز سرے سے سزا کے سقوط یا اس میں تخفیف کا سبب بن سکتی ہے۔ چنانچہ شام میں ایک شخص نے کسی جھجک کے بغیر لوگوں کے سامنے اپنے زنا کرنے کا ذکر کیا۔ لوگوں کی طرف سے ناگواری کے اظہار پر اس نے تعجب سے کہا کہ اچھا، اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کہا ہے! میں تو اس بات سے واقف نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو لکھا کہ اگر یہ شخص زنا کی حرمت سے واقف تھا تو اس پر حد قائم کرو، ورنہ اسے بتاؤ کہ یہ حرام ہے اور اگر دوبارہ اس کا مرتکب ہو تو پھر حد جاری کرو (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۳۷۱۴) ۔

اسی طرح حرمت محل میں واقع ہونے والے اشتباہ کی بنا پر سزا میں تخفیف کے نظائر بھی روایات و آثار میں موجود ہیں۔ مثلاً‌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقدمے میں، جس میں شوہر نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کیا تھا، یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر تو خاوند نے بیوی کی اجازت کے بغیر ایسا کیا ہے تو اسے رجم کیا جائے گا، لیکن اگر اس میں بیوی کی رضامندی شامل تھی تو خاوندکو صرف سو کوڑے لگائے جائیں گے(ترمذی، رقم ۱۳۷۱)۔ اسی نوعیت کے ایک دوسرے مقدمے میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر شوہر نے لونڈی کے ساتھ زبردستی جماع کیا ہے تو لونڈی آزاد ہے، لیکن اگر لونڈی رضامند تھی تو پھر وہ شوہر کی ملکیت قرار پائے گی اور دونوں صورتوں میں شوہر کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو اس جیسی کوئی دوسری لونڈی خرید کر دے (سنن ابی داؤد، رقم ۳۸۶۸)۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*]   اس بحث کی تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث ۲۹۵-  ۲۹۶۔

B