بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ١٠ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِي السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّيْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ١١
(خدا کے بندو، یہی نشانیاں اُن سرگذشتوں میں بھی ہیں جو ہم تمھیں سنا رہے ہیں)۔ ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے خاص فضل عطا فرمایا تھا۔[16] ہم نے حکم دیا تھا کہ پہاڑو، تم بھی اُس کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاؤ اور یہی حکم ہم نے پرندوں کو بھی دیا تھا۔[17] ہم نے لوہے کو اُس کے لیے نرم کر دیا تھا[18] کہ پوری اور کشادہ ڈھیلی ڈھیلی زرہیں بناؤ اور اُن کی بناوٹ میں بھی پورے تناسب کو ملحوظ رکھو[19] اور تم سب اچھا عمل کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اُسے میں دیکھ رہا ہوں۔[20] ۱۰- ۱۱
وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّرَوَاحُهَا شَهْرٌﵐ وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ يَّعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِاِذْنِ رَبِّهٖﵧ وَمَنْ يَّزِغْ مِنْهُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيْرِ ١٢ يَعْمَلُوْنَ لَهٗ مَا يَشَآءُ مِنْ مَّحَارِيْبَ وَتَمَاثِيْلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رّٰسِيٰتٍﵧ اِعْمَلُوْ٘ا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاﵧ وَقَلِيْلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُوْرُ ١٣
اِسی طرح سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا۔[21] (اُس کے جہازوں کو لے کر) ہوا کا جانا بھی مہینے بھر کا ہوتا تھا اور آنا بھی مہینے بھر کا ہوتا تھا۔[22] اور ہم نے اُس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا[23] اور ایسے جنات بھی مسخر کر دیے تھے جو اُس کے پروردگارکے حکم سے اُس کے آگے کام کرتے تھے[24] اور فرمادیا تھا کہ اُن میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرے گا، اُسے ہم آگ کا عذاب چکھائیں گے۔[25] وہ[26] اُس کے لیے جو وہ چاہتا تھا، بناتے تھے: محرابیں،[27]مجسمے،[28] بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور پہاڑ جیسی چولھوں پر جمی ہوئی دیگیں[29] ــــــ داؤد کے گھر والو، (اپنے پروردگار کا) شکر ادا کرتے رہو۔[30] حقیقت یہ ہے کہ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔[31] ۱۲- ۱۳
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰي مَوْتِهٖ٘ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗﵐ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ ١٤
(یہی جنات ہیں جنھیں تم عالم الغیب سمجھ کر خدا کے شریک ٹھیراتے ہو۔ یہ سلیمان کی غلامی کرتے رہے)۔پھر جب ہم نے اُس پر موت کا فیصلہ نافذ کیا تو اُن کو زمین کے کیڑے[32] ہی نے اُس کی موت کا پتا دیا جو اُس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ چنانچہ سلیمان جب گر پڑا، تب جنوں کی حقیقت خود اُن پر بھی کھل گئی کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اِس ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔[33] ۱۴
لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌﵐ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّشِمَالٍﵾ كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗﵧ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ ١٥ فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ ١٦ ذٰلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْاﵧ وَهَلْ نُجٰزِيْ٘ اِلَّا الْكَفُوْرَ ١٧
(قریش کے لوگو، سبا[34] نے بھی وہی کیا تھا جو تم کر رہے ہو، دراں حالیکہ)اہل سبا کے لیے اُن کے مسکن ہی میں بہت بڑی نشانی تھی۔[35] دائیں بائیں، باغوں کی دو قطاریں۔[36] (یہ سب زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ) اپنے پروردگار کی بخشی ہوئی روزی کھاؤ اور اُس کے شکر گزار رہو۔ زمین زرخیز و شاداب اور پروردگار[37] بخشش فرمانے والا۔ پھر بھی اُنھوں نے سرتابی کی تو بالآخرہم نے اُن پر بند کا سیلاب[38] بھیج دیا اور اُن کے باغوں کو اُن کے لیے دو ایسے باغوں میں بدل دیا جن میں بدمزہ پھل اور جھاؤ کے درخت اور بیری کی کچھ تھوڑی سی جھاڑیاں تھیں۔ یہ ہم نے اُن کی ناشکری کا بدلہ اُنھیں دیا اور ایسا بدلہ ہم ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں۔[39] ۱۵- ۱۷
وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَي الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا قُرًي ظَاهِرَةً وَّقَدَّرْنَا فِيْهَا السَّيْرَﵧ سِيْرُوْا فِيْهَا لَيَالِيَ وَاَيَّامًا اٰمِنِيْنَ ١٨ فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا وَظَلَمُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ وَمَزَّقْنٰهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَلَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ١٩
ہم نے اُن کے اور اُن بستیوں کے درمیان، جہاں ہم نے برکتیں رکھی تھیں،[40] ایسی بستیاں آباد کیں جو سامنے راستے پر تھیں[41] اور اُن کے اندر (اُن کے لیے) سفر کی منزلیں ٹھیرا دیں[42] کہ اُن میں دن رات بے خوف و خطر سفر کرو۔[43] مگر اُنھوں نے (جو رویہ اختیار کیا تو گویا زبان حال سے) کہہ دیا کہ پروردگار، ہماری منزلوں کو دور دور کر دے۔[44] اور اِس طرح اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے بالآخر اُنھیں افسانہ بنا دیا[45] اور اُن کو بالکل تتر بتر کر ڈالا۔[46] یقیناً اِس میں ہر اُس شخص کے لیے نشانیاں ہیں جو صبر کرنے والا اور شکر کرنے والا ہو۔[47] ۱۸- ۱۹
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ٢٠ وَمَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّﵧ وَرَبُّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ ٢١
اِس میں کیا شبہ ہے کہ اُن پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا۔[48] سو وہ اُسی کے راستے پر چلے، ایمان والوں کے ایک گروہ قلیل کے سوا۔[49] حقیقت یہ ہے کہ ابلیس کو اُن پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ ہم نے یہ مہلت اُس کو دی تو صرف اِس لیے کہ ہم اُن لوگوں کو جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اُن لوگوں سے الگ معلوم کر لیں جو اُس کی طرف سے[50] شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اورتیرا پروردگار، (اے پیغمبر)، ہر چیزپر نگران ہے۔[51]۲۰- ۲۱
[16]۔ داؤد علیہ السلام بیت اللحم کے رہنے والے قبیلۂ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ طالوت کی پہلی جنگ میں، جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲) میں ہو چکا ہے، اُنھوں نے جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر دیا۔ یہ چیز کافی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن جاتے۔ چنانچہ یہی ہوا اور طالوت کی وفات کے بعد وہ پہلے حبرون میں یہودیہ کے فرماں روا بنائے گئے، پھر چند سال بعد بنی اسرائیل کے تمام قبائل نے مل کر اُن کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ یروشلم اُنھی کے زمانے میں فتح ہوا اور اُسے دولت اسرائیل کا پایۂ تخت بنایا گیا۔ اُن کی سلطنت کے حدود خلیج عقبہ سے دریاے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے جن پر وہ ۹۶۵ ق م تک حکومت کرتے رہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کی مزید عنایت یہ ہوئی کہ اُنھیں پیغمبر بنا دیا گیااور اُن پر زبور نازل ہوئی جو تورات کے بعد دوسری باقاعدہ کتاب ہے۔
[17]۔ یہ اُس سوز و گداز کی طرف اشارہ کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو عطا فرمایا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... یوں تو اِس کائنات کی ہر چیز خدا کی تسبیح کرتی ہے اور جب وہ تسبیح کرتی ہے تو لازماً تسبیح کرنے والوں کی ہم نوائی بھی کرتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت داؤد کو خاص نوع کا دل گداختہ اور خاص قسم کا لحن عطا فرمایا تھا، اُسی طرح اپنے خاص حکم سے پہاڑوں اور پرندوں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ جس وقت حضرت داؤد اپنے رب کی حمد و تسبیح کریں، وہ بھی اُن کے ساتھ اُس میں شریک ہوں۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۰۰)
[18]۔ یعنی اُس کو لوہا پگھلانے کا فن سکھا دیا تھا۔ آیت میں اِس کے لیے ’اَلَنَّا لَهُ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ضمیر کا مرجع داؤد علیہ السلام ہیں۔ لیکن اِس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اُسی طرح کی نسبت ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ تاج محل شاہ جہاں نے بنایا تھا۔
[19]۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اُن کے دور میں سائنسی علوم میں ایسی ترقی ہوئی کہ لوہے کی زرہیں ایسی ڈھیلی ڈھالی بننے لگیں کہ معلوم ہوتا تھا کسی کپڑے سے بنائی گئی ہیں جن کا پہننا نہایت آسان تھا، لیکن حفاظت اُسی طرح کرتی تھیں، جس طرح لوہے کی کوئی مضبوط چیز کر سکتی ہے۔ اُن کے دور کی یہی صنعت تھی جس نے اُن کی فوج کو ناقابل تسخیر بنا دیا اور اِس کے نتیجے میں وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن گئے۔
[20]۔ یعنی اِس نعمت کو پا کر اِس سے جو اخلاقی تقاضے پیدا ہوتے ہیں، وہ بھی اُنھیں بتائے گئے کہ اِسے خدا کی امانت سمجھ کر استعمال کریں اور یاد رکھیں کہ جس خدا نے یہ نعمت بخشی ہے، وہ ہر وقت دیکھ رہا ہے کہ وہ اِسے کہاں استعمال کرتے ہیں۔
[21]۔ یعنی خدمت میں لگا دیا تھا۔ آیت میں ’سُلَيْمٰن‘کا’ل‘اِس بات کا قرینہ ہے کہ فعل ’سَخَّرْنَا‘ یہاں محذوف ہے۔ سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد کے بیٹے تھے جو اُن کے بعد نبوت اور بادشاہی، دونوں میں اُن کے جانشین ہوئے۔ اُن کا زمانۂ سلطنت ۹۶۵ ق م سے ۹۲۶ ق م تک ہے۔ اُن کے لیے ہوا کو مسخر کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے بحری بیڑے اِس قدر ترقی یافتہ تھے کہ سمندر میں مہینوں تک سفر کر سکتے تھے۔ آگے اِسی کی وضاحت ہے۔
[22]۔ یہ عامل کا ذکر کرکے معمول کی طرف اشارہ کرنے کا اسلوب ہے اور اِس سے مقصود وہی جہازوں کا آنا جانا ہے جو ہم نے ترجمے میں واضح کر دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس لیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا اصل تصرف ہواؤں ہی میں ظاہر ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ لمبے لمبے سفر اِسی صورت میں ممکن تھے، جب یہ جہازات نہایت بڑے بڑے بھی ہوں اور اُن کے ساتھ ہوا کے کنٹرول کرنے کا نظام اتنا اعلیٰ اور مستحکم ہو کہ وہ ہر قسم کے سمندروں کے اندر ہر نوع کی ہواؤں کا نہایت خوبی کے ساتھ مقابلہ کر سکیں۔ ‘‘(تدبر قرآن ۶/ ۳۰۱)
[23]۔ یعنی تانبا نکال کر اتنی بڑی مقدار میں پگھلایا جاتا تھا کہ اُن کی سلطنت میں گویا تانبے کا چشمہ بہ رہا تھا۔
[24]۔ یعنی اُن کو ہم نے ایک ایسا علم بھی عطا فرمایا تھا جس کے ذریعے سے وہ شریر جنوں کو قابو کرکے اُن سے مختلف قسم کے کام لیتے تھے۔
[25]۔ مطلب یہ ہے کہ جنوں پر تصرف کا یہ معجزہ براہ راست ہمارے حکم سے صادر ہوتا تھا اور اگر وہ حکم عدولی کرتے تو اُن کو سزا بھی ہم ہی دیتے تھے۔
[26]۔ یہاں سے آگے اُن کاموں کی تفصیل ہے جو حضرت سلیمان جنوں سے لیتے تھے۔
[27]۔ زمانۂ قدیم میں جو عمارتیں بنائی جاتی تھیں، اُن کا سب سے نمایاں حصہ اُن کی محرابیں ہی ہوتی تھیں اور تعمیری آرٹ کا سب سے زیادہ مظاہرہ بھی اُنھی پر کیا جاتا تھا۔ قرآن نے یہ ذکر اِسی بنا پر کیا ہے۔ اِس سے عظیم الشان عمارتوں کی طرف ذہن آپ سے آپ منتقل ہو جاتا ہے، اُن کا علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
[28]۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُسی قسم کے مجسمے اور تصویریں ہوں گی جن میں مذہبی تقدس کا کوئی شائبہ نہ ہو، بلکہ مجرد آرٹ کے پہلو سے بنائی گئی ہوں۔ اِس لیے کہ حضرت سلیمان کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے تھے جسے اُن کی شریعت میں واضح طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ استثنا میں ہے:
’’لعنت اُس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خدا کے نزدیک مکروہ ہے، اُس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے۔‘‘ (۲۷: ۱۵)
اِسی طرح خروج میں فرمایا ہے:
’’خداوند تیرا خدا جو تجھے ملک مصر سے اور غلامی کے گھر سے نکال لایا ، میں ہوں۔ میرے حضور تو غیرمعبودوں کو نہ ماننا۔ تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے، تو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں۔‘‘(۲۰: ۲ -۵)
[29]۔ یہ اُن کے جود و کرم کو نمایاں کیا ہے کہ اُن کی سلطنت میں جس طرح سائنس اور آرٹ اور تعمیرات کا فن اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا، اُسی طرح غربا و مساکین کی خدمت بھی ریاست کے فرائض میں شامل تھی اور اُس کا اہتمام بھی نہایت فیاضی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اگر آپ کو یہ کہنا ہو کہ فلاں شخص بڑا فیاض ہے، اُس کے خوان کرم سے ایک خلق عظیم کی پرورش ہو رہی ہے،تو فصیح عربی میں اُس کی تعبیر کے لیے یہ دو حرف کافی ہوں گے کہ ’لَهٗ قُدُوْرٌ رّٰسِيٰتٌ‘۔ عرب شعرا نے حاتم اور اپنے دوسرے فیاضوں کے لیے یہی استعارہ استعمال کیا ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۰۵)
[30]۔ یعنی اِن نعمتوں کے ساتھ ہم نے یہ ہدایت بھی اُس کو اور اُس کے خاندان والوں کو کی تھی کہ اِنھیں پاکر بہک نہ جانا، بلکہ اپنے پروردگار کی شکر گزاری کے ساتھ اُس راستے پر گام زن رہنا جس کی طرف اُس نے تمھاری رہنمائی فرمائی ہے۔
[31]۔ یہ تنبیہ بھی ہے اور اپنے ایک شکر گزار بندے پر اظہار اعتماد بھی۔ مطلب یہ ہے کہ شکر کا امتحان ایک مشکل امتحان ہے۔ اِس میں کم ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ تاہم توقع ہے کہ تم اُنھی میں شامل ہو گے۔
[32]۔ اِس کیڑے کا ذکر یہاں جن قرائن کے ساتھ ہوا ہے، اُس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد دیمک ہے۔
[33]۔ یعنی خود جنوں پر بھی واضح ہو گیا کہ اُن کے علم کی حقیقت کیا ہے جو وہ استراق سمع سے کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ حقیقت جس واقعے سے کھلی، اُس کی صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اپنے کسی تعمیری کام کی نگرانی کرتے ہوئے، جس میں جن بھی لگے ہوئے تھے، حضرت سلیمان کی موت کا وقت آگیااور فرشتۂ اجل نے اُن کی روح قبض کر لی۔ اُن کے اعیان و اکابر اور اہل خاندان نے جب دیکھا کہ موت کے باوجود اُن کا جسم عصا کے سہارے بدستور قائم ہے تو اُنھوں نے اِس خیال سے کہ جنات جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے، اُنھیں اُسی حالت میں رہنے دیا۔ یہ تدبیر ایک عرصے تک کامیاب رہی۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ چنانچہ اِس اثنا میں دیمک نے عصا کو نیچے سے کھا لیا جس کے بعد سلیمان علیہ السلام کا جسد مبارک زمین پر گر پڑا۔
[34]۔ سبا قدیم زمانے کی ایک دولت مند قوم تھی۔ اُسی کے نام پر یمن کے جنوب مغربی علاقے کو بھی اُس زمانے میں سبا کہا جاتا تھا۔ اُس کا دارالحکومت مارب تھا جس کے کھنڈر آج بھی اِس علاقے میں موجود ہیں۔ قوم سبا کے عروج کا زمانہ ۱۱۰۰ ق م سے ۱۱۵ ق م تک رہا۔ اِس کے بعد وہ روبہ زوال ہوئی، یہاں تک کہ ایک خدائی آفت نے آ کر اُس کے مسکن کو ویرانہ بنا دیا۔ آگے اِسی واقعے کا ذکر ہے۔
[35]۔ یعنی اِس بات کی نشانی کہ جو کچھ اُن کو میسر ہے، وہ اُن کا اپنا آفریدہ نہیں ہے، بلکہ اُن کے پروردگار کا عطیہ ہے۔ لہٰذا وہی اُن کے شکر و سپاس اور بندگی و عبادت کا مستحق ہے اور اُسی کو ہونا چاہیے۔
[36]۔ آیت میں مثنیٰ دو باغوں کے مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ باغوں کی دو قطاروں کے مفہوم میں ہے۔ یہ اُن کے علاقے کی تصویر ہے کہ اُس میں داخل ہوں تو اُس کی بڑی شاہ راہ کے دونوں جانب باغ ہی باغ نظر آتے تھے۔
[37]۔ یعنی وہ پروردگارجو لوگوں کی ناقدریوں اور ناشکریوں کے باوجود اُن کے لیے اپنا خوان کرم بچھاتا اور اُس پر اِسی طرح نعمتوں کے انبار لگا دیتا ہے۔
[38]۔ یعنی وہ سیلاب جو بند ٹوٹنے سے آیا۔ اِس کے لیے اصل میں لفظ ’عَرِم‘استعمال ہوا ہے۔یہ ’عرمة‘ کی جمع ہے جس کے معنی تہ بہ تہ اکٹھے کیے ہوئے پتھروں کے ہیں۔ یہیں سے یہ اُس بند یا پشتے کے لیے استعمال ہونے لگا جو کسی وادی میں پانی روکنے کے لیے بنایا جائے۔ جنوبی عرب کی زبان میں یہی لفظ ’عرمن‘بولا جاتا تھا۔ سبا کے دارالحکومت مارب کے نام پر اِس بند کو سدمارب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آب پاشی کے لیے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ اور اُس زمانے کے انجینئروں کا ایک غیر معمولی کارنامہ تھا جو ۵۴۲ء اور ۵۷۰ء کے درمیان کسی وقت ٹوٹ گیا*جس کے نتیجے میں وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر تھا بالکل تباہ ہو کر کڑوے کسیلے پھلوں کے خود رو درختوں اور جھاؤ اور بیری کی جھاڑیوں کا جنگل بن گیا۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ سیلاب نے کسی ایسی مٹی یا ریت کی تہ پورے علاقے پر جمادی جس سے بچے کھچے درختوں کا مزاج بھی بدل گیا۔ قرآن نے یہ اِسی بندکے ٹوٹنے کا ذکر کیا ہے۔ سبا کے لوگ اپنے کرتوتوں کے نتیجے میں روبہ زوال تو اِس سے صدیوں پہلے ہو چکے تھے۔ یہ گویا نزع کے عالم میں سسکتی ہوئی قوم کے لیے پیام اجل تھا جس نے قومی حیثیت سے اُن کا خاتمہ کر دیا۔
[39]۔ یہ اُس قانون کے مطابق ہوا جو اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عزل و نصب کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ چنانچہ جو قومیں علم و اخلاق کے لحاظ سے پستی میں گر جاتیں اور خدا کی نعمتیں پا کر اُن پر شکر گزار ہونے کے بجاے سرکشی اختیار کر لیتی ہیں، اُنھیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہلاکت بالعموم تدریجاً ہوتی ہے۔ تاہم بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی ارضی یا سماوی آفت آ کر تباہی کو آخری انجام تک پہنچا دیتی ہے۔ قرآن کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا کے ساتھ یہی معاملہ ہوا اور اِس سیلاب کے نتیجے میں وہ ایسے تتر بتر ہوئے کہ سبا نام کی کوئی قوم دنیا میں باقی نہیں رہی اور اُس کی پراگندگی ضرب المثل ہو گئی۔ اہل عرب آج بھی اگر کسی گروہ کے اِس طرح منتشر ہو جانے کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’تفرقوا أيدي سبا‘(وہ ایسے پراگندہ ہوئے، جیسے سبا کی قوم پراگندہ ہوئی تھی)۔ یہ، ظاہر ہے کہ عذاب کی وہ صورت نہیں ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی قوموں پر آتا ہے۔
[40]۔ یہ اشارہ شام و فلسطین کی طرف ہے جن کے ساتھ اہل سبا کے تجارتی تعلقات تھے۔ اِن کے لیے ’بٰرَكْنَا فِيْهَا‘کی صفت آیت میں اِس لیے آئی ہے کہ یہ علاقہ نہایت زرخیر تھا۔
[41]۔ یعنی گوشوں میں چھپی ہوئی نہیں تھی، بلکہ اُسی شاہ راہ پر تھیں، جہاں سے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔
[42]۔ یعنی ایسے مناسب فاصلوں پر واقع تھیں گویا سفر کرنے والوں کے لیے قدرت نے ٹھیرنے اور پڑاؤ کرنے کی منزلیں بنا دی ہوں۔
[43]۔ مطلب یہ ہے کہ اِس علاقے میں سفر ایک قسم کی خوش گوار سیر بن گیا تھا۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا قدرت نے یہ اہتمام کرکے ہر منزل پر یہ کتبہ لگا دیا کہ تمھاری خاطر یہ اہتمام ہم نے اِس لیے کیا ہے کہ تم راتوں میں بھی اور دنوں میں بھی بے خوف و خطر سفر کر سکو۔ اِس کے بعد اتنی بات حذف ہے کہ ’اور اپنے رب کا شکر ادا کرو‘۔ اِس کو حذف کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہر نعمت کا فطری تقاضا ہے، اِس کو لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِس سے یہ بات واضح ہوئی کہ انسان جو کچھ اپنے علم و عقل سے کرتا ہے، وہ بھی درحقیقت خدا ہی کی عنایت ہوتی ہے، لیکن اپنی بے بصیرتی کے باعث وہ اُس کو اپنی سعی و تدبیر کا کرشمہ سمجھنے لگتاہے۔
[44]۔ یعنی اِس سیرگاہ کو ویرانے میں بدل دے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ اُن کے زبان قال کی نہیں، بلکہ زبان حال کی تعبیر ہے کہ اُنھوں نے یہ رفاہیتیں پاکر رویہ جو اختیار کیا، اُس سے یہ ظاہر کر دیا کہ وہ اِن آسایشوں کے حق دار نہیں ہیں، بلکہ اِس بات کے سزاوار ہیں کہ اُن کی بستیاں ویران ہو جائیں، اُن کی منزلیں کٹھن ہو جائیں اور اُن کی یہ ساری رفاہیتیں اُن سے چھین لی جائیں۔ زبان حال کی تعبیرات کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس کی نظیریں پیچھے گزر چکی ہیں اور یہ حقیقت بھی ہم واضح کر چکے ہیں کہ اصل شہادت زبان حال ہی کی ہوتی ہے، نہ کہ زبان قول کی۔ یہود کا قول ’سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا‘ بھی اُن کے حال ہی کی تعبیر ہے۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۱۰)
[45]۔ یعنی حال کے صفحے سے مٹا کر ماضی کا ایک قصۂ پارینہ بنا دیے گئے۔
[46]۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا، اوس و خزرج نے یثرب کو اپنا مسکن بنایا، خزاعہ جدے کے قریب تہامہ کے علاقے میں جا بسے، ازد کے لوگ عمان میں جا کر آباد ہو گئے، لخم اور جذام اور کندہ بھی جہاں سینگ سمایا، نکل گئے۔ حتیٰ کہ سبا اور قوم سبا کا نام ہی باقی رہ گیا۔
[47]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ ہر نعمت درحقیقت خدا کا فضل اور اُس کی عنایت ہے۔ اِس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدا کا شکر ادا کیا جائے، اِس لیے کہ یہ سب کچھ اُس نے امتحان کے لیے دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ اُس کے بندے اِن نعمتوں کو پا کر شکر گزار ہوتے ہیں یا ناشکری اختیار کر لیتے ہیں۔ اور اِس امتحان کا نتیجہ بھی ایک دن لازماً نکلنا ہے، قوموں کے لیے اِسی دنیا میں اور افراد کے لیے قیامت میں، جب ہر شخص کو جزا و سزا کے لیے اٹھایا جائے گا۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس سرگذشت کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اہل سبا کی سرگذشت یہاں دو مرتبہ دہرائی گئی ہے اور دونوں مرتبہ اُن کے عبرت انگیز انجام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پہلے اُن کے علاقے کی زرخیزی و شادابی کے ذکر کے بعد اُن کی ناشکری اور اُس کے انجام کی طرف اشارہ فرمایا، پھر اُن کی تمدنی و تجارتی ترقیوں کے ذکر کے بعد اُن کے کفران نعمت کے نتیجے میں اُن کے انتشار کی طرف۔ یہ اسلوب بیان اِس لیے اختیار فرمایا گیا ہے کہ اصل مقصود جس کے لیے یہ سرگذشت سنائی جا رہی ہے، نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ قرآن میں اِس اسلوب بیان کی متعدد نہایت بلیغ مثالیں موجود ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۶/ ۳۱۰)
[48]۔ یہ ابلیس کے اُس گمان کی طرف اشارہ ہے جس کا اظہار اُس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دینے کے بعد کیا تھا۔ قرآن نے اِسے سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۷ میں نقل فرمایا ہے۔
[49]۔ یہ گروہ قلیل ترین ہو سکتا ہے، لیکن دنیا کی کوئی قوم اِس سے کبھی خالی نہیں رہی۔ اِس کا مشاہدہ رفتہ و حاضر کی ہر قوم کے حالات میں کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے لیے کسی تاریخی حوالے کی ضرورت نہیں ہے۔ قوموں پر زوال آجائے تو اِس کے نتائج اِس گروہ کو بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ قرآن نے اِسی کے متعلق فرمایا ہے کہ اُس فتنے سے بچو جس میں صرف ظالم ہی مبتلا نہیں کیے جائیں گے۔**
[50]۔ یعنی آخرت کی طرف سے۔
[51]۔ یعنی ابلیس کو مہلت دے کر خدا نے دنیا اُس کے حوالے نہیں کر دی ہے، بلکہ وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ چنانچہ نہ ابلیس کو اجازت دیتا ہے کہ اپنے حدود سے تجاوز کرے اور نہ انسان کو اپنی مدد سے محروم رکھتا ہے، اگر وہ صحیح رویہ اختیار کرے۔
[ باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۲/ ۲۸۳۔
** الانفال ۸: ۲۵۔