یہ سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ کیا اصول ہیں جنھیں دینی مباحث میں افہام و تفہیم ، بحث و استدلال اور اتفاق و اختلاف کی بنیاد بننا چاہیے؟ ہمارے نزدیک اِس ضمن میں دو اصولوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔یہ عقل و نقل کے مبادیات ہیں، جو دین و شریعت کے فہم میں قولِ فیصل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ درج ذیل ہیں:
اول، دین میں قرآنِ مجید کی حیثیت میزان اور فرقان کی ہے۔[1] اِس کے معنی یہ ہیں کہ دین سے متعلق تمام معاملات میں اِسے فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ احادیث و آثار، تاریخ و سیرت، فقہ و تفسیر کے ہر قول، ہر روایت اور ہر راے کو اِس کی ترازو میں تولا جائے گا اور اِس کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ وہی چیز قابل قبول ہو گی جسے یہ قبول کرے گا۔ جسے یہ رد کرے گا،اُسے دین یا اُس کی شرح و وضاحت کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جائے گا۔
اِس اصول پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے اور اِس میں اگر کوئی چیز قرآن و سنت کے خلاف ہو تو اُسے قبول نہ کیا جائے۔ استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں:
’’...دین میں اُس کی حیثیت میزان اورفرقان کی ہے۔ وہ ہر چیز پر نگران ہے اور حق و باطل میں امتیاز کے لیے اُسے حکم بنا کر اتارا گیا ہے، لہٰذا یہ بات تو مزید کسی استدلال کا تقاضا نہیں کرتی کہ کوئی چیز اگر قرآن کے خلاف ہے تو اُسے لازماً رد ہونا چاہیے۔...نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیثیت نبوت و رسالت میں جو کچھ کیا،اُس کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ بھی قرآن ہی ہے۔ لہٰذا حدیث کے بیش تر مضامین کا تعلق اُس سے وہی ہے، جو کسی چیز کی فرع کا اُس کی اصل سے اور شرح کا متن سے ہوتا ہے۔ اصل اور متن کو دیکھے بغیر اُس کی شرح اور فرع کو سمجھنا،ظاہر ہے کہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ حدیث کو سمجھنے میں جو غلطیاں اب تک ہوئی ہیں،اُن کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہو جاتی ہے۔ عہد رسالت میں رجم کے واقعات، کعب بن اشرف کا قتل،عذاب قبر اور شفاعت کی روایتیں، ’أمرت أن أقاتل الناس‘[2]اور ’من بدل دينه فاقتلوه‘[3]جیسے احکام اِسی لیے الجھنوں کا باعث بن گئے کہ اُنھیں قرآن میں اُن کی اصل سے متعلق کر کے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔‘‘ (میزان۶۳، ۶۵)
دوم،قرآنِ مجید صاف اور واضح عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اِس کے الفاظ و اسالیب میں کوئی الجھاؤ، کوئی ابہام، کوئی شذوذ اور کوئی غرابت نہیں ہے۔ یہ اپنا مدعا پوری صراحت کے ساتھ پیش کرتا ہے، جسے اہل علم کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔
استاذِ گرامی نے ’’میزان‘‘ میں لکھا ہے:
’’...قرآن صرف عربی ہی میں نہیں،بلکہ عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ یعنی ایک ایسی زبان میں جو نہایت واضح ہے،جس میں کوئی اینچ پینچ نہیں ہے،جس کا ہر لفظ صاف اور جس کا ہر اسلوب اپنے مخاطبین کے لیے ایک مانوس اسلوب ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ، عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ، بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ.(الشعراء۲۶: ۱۹۳- ۱۹۵)
’’اِس کو تمھارے دل پر روح الامین لے کر اترا ہے ، اِس لیے کہ دوسرے پیغمبروں کی طرح تم بھی خبردار کرنے والے بنو،نہایت صاف عربی زبان میں۔‘‘
قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِيْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ.(الزمر ۳۹: ۲۸)
’’ایسے قرآن کی صورت میں جو عربی زبان میں ہے، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، اِس لیے کہ وہ خدا کے عذاب سےبچیں۔‘‘
قرآن کے بارے میں یہ ایک واضح حقیقت ہے۔اِسے مانیے تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ قرآن کا کوئی لفظ اور کوئی اسلوب بھی اپنے مفہوم کے اعتبار سے شاذ نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے مخاطبین کے لیے بالکل معروف اور جانے پہچانے الفاظ اور اسالیب پر نازل ہوا ہے۔زبان کے لحاظ سے اُس کی کوئی چیز اپنے اندر کسی نوعیت کی کوئی غرابت نہیں رکھتی، بلکہ ہر پہلو سے صاف اور واضح ہے۔ چنانچہ اُس کے ترجمہ و تفسیر میں ہر جگہ اُس کے الفاظ کے معروف معنی ہی پیش نظر رہنے چاہییں۔ اِن سے ہٹ کر اُس کی کوئی تاویل کسی حال میں قبول نہیں کی جا سکتی۔‘‘(۲۰ - ۲۱)
ہمارے روایتی مکاتب میں فکر و نظر کی بیش تر غلط فہمیوں کا باعث عقل و نقل کے اِنھی اصولوں سے گریز ہے۔ قرآن کے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ نصوص کو ذیلی اور احادیث کے ظنی الثبوت اور ظنی الدلالہ نصوص کو اصل مانا جاتاہے۔ احادیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کے بجاے قرآن کی احادیث کی روشنی میں تاویل کی جاتی ہے۔ یہی معاملہ عربی زبان کے معروف الفاظ و اسالیب کاہے۔ بعض اوقات اُنھیں اُن کے مستعمل معانی سے ہٹا کر شاذ اور اجنبی مفاہیم پر محمول کر لیا جاتا ہے۔علم و فکر کے اِس غلط انداز اور فہم و استدلال کی اِس معکوس ترتیب سے قرآن کے میزان اور فرقان ہونے کی منزلت مجروح ہوتی ہے، زبان و بیان کے مسلمات صرفِ نظر ہوتے ہیں اور ایسےمدعا کا ابلاغ ہوتاہے جو بعض پہلوؤں سے قرآن و سنت کے مطمح نظر کی مخالفت یا مغائرت پر منتج ہوتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]۔ اَللّٰهُ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ.(الشوریٰ ۴۲: ۱۷)
’’اللہ ہی ہے، جس نے اپنی یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے اور (اِس طرح حق و باطل کو الگ الگ کرنے کے لیے) اپنی میزان نازل کر دی ہے۔‘‘
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا. (الفرقان ۲۵: ۱)
’’بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا ہے، اِس لیے کہ وہ اہل عالم کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔‘‘
[2]۔ بخاری، رقم ۲۵۔ مسلم، رقم ۱۲۹۔ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اِن لوگوں سے جنگ کروں۔‘‘
[3]۔ بخاری، رقم۳۰۱۷۔ ’’جو اپنا دین تبدیل کرے، اُسے قتل کر دو۔‘‘