اکتوبر ۲۰۲۲ء کے آخری عشرہ میں راقم شدید بیمار پڑا تو تقریباً پورے نومبرتک علالت کا سلسلہ دراز ہوگیا۔ صاحب فراش ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیاسے بھی بالکل کٹ کررہ گیا۔ ۱۲ ؍ نومبرکی دوپہرمیں کشمیرسے بھائی سہیل بشیر کا فون آیاتویہ اطلاع مل سکی کہ آج صبح پروفیسرنجات اللہ صدیقی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی ۹۱سال کے تھے، رعشہ کے مریض اورکیلی فورنیاامریکا میں اپنے بچوں کے پاس مقیم تھے ۔ گوکہ کافی دنوں سے ان کی بیماری کی خبریں آرہی تھیں، جن کی وجہ سے یہ خبربالکل بھی غیرمتوقع نہ تھی، تاہم ایک بڑے آدمی کی رحلت سے یک گونہ یتیمی اورقحط الرجال کا احساس اورشدیدہوگیا۔ راقم خاک سارکے پروفیسر نجات اللہ صاحب مرحوم سے بڑے نیازمندانہ تعلقات تھے۔ کئی بار انھوں نے فون کرکے میرے بعض مضامین پر مبارک باد دی اورکئی بارتنبیہ بھی فرمائی، اوربعض نزاکتوں اورفروگذاشتوں کی طرف توجہ بھی دلائی۔ کئی موقعوں پر انھوں نے عصرحاضرکوسمجھنے کے لیے معاون مراجع کی نشان دہی کی ۔ ان سے ملاقاتوں، گفتگوؤں اورتحریروں سے تاثرکی یادوں کا ایک سلسلہ تھا جوذہن کی اسکرین پر آرہاتھا۔ بہرحال اس وقت توایک مختصرسی فیس بک پوسٹ لکھ دی تھی، لیکن ان کا حق تھاکہ ان کے اوپرتفصیلی مضمون لکھاجائے ۔ اسی احسا س کے تحت اس تاثراتی تحریرمیں نجات صا حب کی شخصیت کے بعض اچھوتے گوشوں کوسامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہمارے گھرانے اورماحول میں کوئی غیرمعروف آدمی نہ تھے۔ لوگ عام طورپر ان کو اسلامی معاشیات کے ایک ماہرکی حیثیت سے جانتے تھے۔ اور جماعت اسلامی سے وابستہ یااس سے قربت رکھنے والے ان کی صلاحیتوں کے بڑے معتر ف تھے۔ میرے بڑے بہنوئی ہاپوڑ شہرکے حافظ ریاست علی، جوجماعت کے بڑے والہ اورشیداتھے، غالباًمیرٹھ شہرمیں منعقدجماعت کے کسی اجتماع کا حال بیان کرتے تھے کہ:
’’اسٹیج پر ایک سوٹڈ بوٹڈ ہلکی ڈاڑھی والالمباساایک لڑکاایک پینل ڈسکشن میں بڑے اہم سوالوں کا جوا ب فرفراوربڑے معقول اورسائنٹیفک طریقہ سے دے رہاتھا، معلوم ہواکہ ثانوی درس گاہ رامپورسے پڑھ کر نکلا ہے اورعلی گڑھ سے ایم اے کررہاہے۔ اس کا نام نجات اللہ صدیقی ہے۔‘‘[1]
حافظ صاحب مرحوم خودبڑی مدلل اورمرصع گفتگوکرتے تھے، نجات صاحب کے بارے میں ان کایہ تاثر ہمیشہ ذہن میں محفوظ رہا، حالاں کہ ڈاکٹرنجات اللہ صاحب سے دیدوشنیدتوبہت بعدمیں ہوئی، مگران کی تحریریں گاہے بگاہے مطالعہ میں آتی رہیں : ’’اسلامی نشاۃ ثانیہ کی راہ‘‘، ’’تحریک اسلامی عصرحاضرمیں‘‘ ، ’’مدارس اسلامیہ اورعصری تقاضے‘‘ ، ’’اسلام اورنظریۂ ملکیت‘‘ اور ’’انشورنس اسلامی معیشت میں‘‘ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘میں اسلام اورتشدد اوردوسرے مقالات ومضامین پڑھنے کوملے۔ اوربہت بعدمیں راقم کے کرم فرما جناب امین عثمانی مرحوم نے ان کا گراں قدر کتابچہ ’’فکراسلامی:بعض توجہ طلب مسائل‘‘ شائع کرایا تو وہ پڑھنے میں آیا۔ نیز ان کی کتاب ’’اسلام ، معاشیات اورادب خطوط کے آئینہ میں‘‘کے ذریعے سے ان کی فکرسے بھرپورآشنائی ہوگئی ۔
۱۹۳۱ء کو گورکھپور کے ایک گاؤں پڈرونا میں نجات اللہ صدیقی کی پیدایش ایک متوسط درجہ کے دین دار گھرانا میں ہوئی ۔ گورکھپور شہرمیں بھی ان کے خاندان کا آبائی مکان موجودہے۔ زمانۂ طالب علمی میں راقم کا تعلق ’’کل ہندطلبہ تحریک‘‘ سے ہوا اوراس سلسلہ میں گورکھپور جاناہوا تونجات صاحب کے آبائی گھرکی ہم لوگوں نے زیارت کی، جس میں اس وقت ان کے بھتیجے ڈاکٹراحمداللہ صدیقی (مقیم الینواے امریکا)کے اعزا رہ رہے تھے۔ نجات اللہ صاحب نے ہائی اسکول، اسلامیہ انٹرکالج اسکول گورکھپور سے پاس کیااوراسی زمانہ میں جماعت کے اکابراورلٹریچرسے ان کا واسطہ پڑا۔ اس زمانہ میں ان کے یارغارعبدالحق انصاری تھے جوبعدمیں امیرجماعت بنے۔ مزیدتعلیم کے لیے علی گڑھ کا رخ کیااوربی اے میں داخلہ لیا، لیکن جماعت سے شدیدطورپر متاثر ہو جانے کی وجہ سے یہ نوجوان موجودہ سیکولرنظام تعلیم سے نالاں تھے۔ چنانچہ نجات اللہ صاحب اوران کے کچھ اور ساتھی رامپورمیں جماعت کے مرکزپہنچے اوراکابرین جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی امیر جماعت اسلامی اور مولاناصدرالدین اصلاحی وغیرہم سے ان لوگوں نے بڑے اصرارسے عرض کیا:’’ہم اپنے کیریئر کو خیرباد کہہ کر آئے ہیں، آپ ہمارے لیے عربی اوراسلامی علوم کے پڑھنے کا نظم قائم کریں ‘‘۔ چنانچہ ان لوگوں کے پیہم اصرار اور شوق کے باعث’’ ثانوی درس گاہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جو بالکل نیاتجربہ تھااور۱۹۵۰ء-۱۹۶۰ء تک قائم رہی اور اس سے غالباً دوبیچ پڑھ کرنکلے ۔ پہلے بیچ میں ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی، عبدالحق انصاری (سابق امیر جماعت اسلامی ہند) قاضی اشفاق (مقیم سڈنی )فلسفی راؤعرفان احمدخان(جنھوں نے بعدمیں انگریزی میں قرآن کی طبع زاد تفسیر ’’Understanding The Quran‘‘لکھی [2]
اور ڈاکٹرفضل الرحمٰن فریدی اور مولانا وحید الدین خاں تھے۔ پانچ سال تک عربی زبان اوراسلامی علوم پڑھنے کے ساتھ ہی نجات صاحب نے مدرسۃ الاصلاح سرائمیرمیں بھی چھ مہینے گزارے، اوروہاں رہ کرمولانا اختراحسن اصلاحی تلمیذ رشید مولانا حمیدالدین فراہی سے استفادہ کیا۔ ثانوی درس گاہ میں ان حضرات کے اساتذہ میں مولاناصدرالدین اصلاحی، مولاناابواللیث اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی اور مولانا حامد علی مظاہری وغیرہم تھے۔
ثانوی درس گاہ سے فارغ ہونے کے بعدان حضرات کوجماعت مختلف ذمہ داریوں کے تحت کھپاناچاہتی تھی، جب کہ نجات اللہ صاحب کا نقطہ ٔنظراورآگے پڑھنے اوراسلام کے احیا کے لیے علمی کام کرنے کا تھا۔ بہرحال اکابرجماعت اوران نئے ولولوں سے سرشار جوشیلی طبیعت کے نوجوانوں کے نقطۂ نظرمیں ہم آہنگی نہ ہوسکی تو نجات صاحب اوران کے رفقا نے علی گڑھ کا رخ کیااوراپنی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کی ۔ علی گڑھ سے نجات صاحب نے معاشیات میں ایم اے اورپھر ۱۹۶۶ءمیں ’’نظریۂ نفع‘‘ پرپی ایچ ڈی کی۔ پی ایچ ڈی کی تکمیل سے ایک سال پہلے ہی ان کو شعبۂ معاشیات میں لیکچررشپ مل گئی تھی، اورپھروہیں ریڈرہوگئے ۔ اُس زمانہ میں یونیورسٹیوں میں ایک شعبہ سے دوسرے متعلقہ شعبہ میں جانے کی سہولت حاصل تھی، چنانچہ نجات صاحب ۱۹۷۷ء میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسرہوئے اورصدرشعبہ بھی رہے۔ سن ۱۹۷۸ءمیں انھوں نے سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ جوائن کرلی اور پھر سن ۲۰۰۰ءمیں وہیں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ یہ مدت ان کے علمی کاموں کے لیے بڑی زرخیز تھی، ان کی انگریزی اوراردومیں بہت ساری بنیادی اورمرجعیت رکھنے والی تحریریں اسی عرصہ میں شائع ہوئیں، یہاں تک کہ ۱۹۸۲ءمیں اسلامی علمی خدمات پر ان کوفیصل ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ وہ بہت سارے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے اہم شعبوں کے رکن رہے ۔ کئی علمی مجلوں کے سرپرست اورمشیررہے۔ اور ۲۰۰۱ءمیں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے فیلوبھی رہے ۔[3] ڈاکٹرنجات صاحب کی متعددکتابوں کا ترجمہ عربی ، ترکی ، فارسی ، انڈونیشی اورمالیزی زبانوں میں ہوچکاہے ۔ اور تقریباً ۴۹کتابوں کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات پر ۶۰ پیپرز لکھے جوحوالہ کے جرنلزاورتحقیقی رسائل میں شائع ہوئے۔ نجات اللہ صدیقی صاحب نے قیام مغرب کے دوران میں ’’Encyclopedia of Islamic Economics‘‘ کو بھی ایڈٹ کیا جو شائع ہوچکاہے۔
جہان سرسیدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ایک دورایسابھی گزراہے، جب وہاں کی اکیڈمک فضااورخاص کر شعبۂ تاریخ میں سرخوں کا بڑادبدبہ رہا۔ ترقی پسندوں سے بھی آگے بڑھ کرکمیونسٹ طلبہ و دانش وروں نے اپنا بڑا اثر و رسوخ قائم کرلیاتھا۔ تاریخ ، انگریزی ، اردواوربعض دوسرے شعبوں میں ان کا طوطی بولتاتھا۔ اُس وقت نجات صاحب علی گڑھ میں تھے اوریہاں سے ایم اے یا پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں، عبدالحق انصاری، فضل الرحمٰن فریدی اورابن فرید وغیرہ کولے کریونیورسٹی کے مختلف ہالوں میں طلبائی پروگرام کیے اورطلبہ تحریک کی یونٹیں قائم کیں ۔ اسی طرح انھوں نے ادب میں ایک تعمیری تحریک یا اسلامی ادبی تحریک بھی شروع کی اوراس زمانہ میں اسلامی نقطۂ نظرسے کہانیاں اورافسانے بھی لکھے۔ نیزمقالات کے دومجموعے بھی شائع کیے۔[4]ادب کی تعمیری تحریک یااسلامی ادبی تحریک کی ابتدا بھی انھوں نے طالب علمی کے زمانہ میں گورکھ پورسے ہی کردی تھی ۔ چنانچہ حلقۂ ادب اسلامی گورکھ پورسے شمس الرحمٰن فاروقی سمیت بہت سے لوگ وابستہ ہوئے تھے۔ بعدمیں فاروقی اردوزبان کے بڑے ادیب اور دانش وربن کرسامنے آئے۔
ڈاکٹرنجات اللہ صدیقی نے ۱۹۶۷ءمیں اسلامی بینکنگ کوغیرسودی بنیادوں پر استوارکرنے کے لیے سودی بینک کاری کے متبادل کے طورپرعلمی بنیادوں پر پیش کرناشروع کیا۔ اوربتدریج اس کے عملی خط وخال بھی طے کیے۔ ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ اور ’’چراغ راہ‘‘ کراچی میں سلسلہ وارمضامین سے اس کی ابتدا ہوئی، جو بعد میں ’’غیرسودی بینک کاری ‘‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ یوں ان کا پیش کردہ خاکہ منقح ہو کر اسلامی بینکنگ کے ایک مستقل نظام کی شکل میں سامنے آیا۔ بعدمیں نجات صاحب اس کواسلامی کے بجاے Participatory Banking کہنا پسند کرتے تھے، جیساکہ جناب ایچ عبدالرقیب کوانگزیری میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے اظہارکیاہے۔ [5]اس موضوع پر پھر اور علما اور اسکالروں نے بھی لکھناشروع کیا،یہاں تک کہ اس کے عملی تجربات بھی دنیامیں ہونے لگے ۔ چنانچہ آج دنیامیں بینکوں کی قریباً ۵۰۰شاخیں غیرسودی بینکنگ کا تجربہ کررہی ہیں ۔[6] پاکستان میں روایتی علما وفقہا میں مفتی محمدتقی عثمانی حفظہ اللہ نے بھی اس رجحان کی حوصلہ افزائی کی اورخوداسلامی مالیاتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی۔ البتہ پاکستان میں متشددعلما کا ایک طبقہ اس پوری محنت پر پانی پھیرناضروری سمجھتاہے اوراسلامی فائنانس یااسلامی بینکنگ کے تصورسے ہی اس کوسخت الرجی ہے۔ [7]
ڈاکٹرنجات اللہ صاحب کی تحریروں کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹرخان یاسرنے لکھاہے:
’’بات کی تہ تک پہنچنا اور علمی بحث کو آگے بڑھانے میں انھیں خاص درک حاصل تھا۔ وہ تکرار اور گھوم گھوم کر ایک ہی بات دہرانے کے قائل نہیں تھے۔ مثال کے طور پر اپنے ایک مقالے: Islamization of Knowledge, Reflections on Priorities میں وہ بحث کو موجودہ علوم کے اسلامائزیشن سے آگے لے جاتے ہیں ۔ اس ضمن میں عدل، احسان اور تعاون جیسی اسلامی قدروں کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے علمی تحقیق کی اساس اور طریق کار کو اسلامی مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی وکالت کرتے ہیں ۔ ... ان تراجم کی زبان ٹھوس، نثر شستہ اور رواں اور تحقیقی معیار مسلم ہے۔ مترجم نے قاری تک صرف مصنف کتاب کے استعمال کردہ الفاظ کے معانی منتقل نہیں کیے ہیں، بلکہ مصنف اور کتاب کے پورے سیاق سے قاری کو ہم آہنگ کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے، ساتھ ہی ترجمہ کردہ علمی کاوش کی علمی و تاریخی قدر بھی متعین کرتے چلے ہیں ۔ ... اسی طرح قاضی ابویوسف کی ’’ کتاب الخراج‘‘ کے ترجمے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے تقریباً ۷۵ صفحات پر مشتمل ایک مبسوط مقدمہ تحریر کیا ہے، جس میں اس دور کا تاریخی پس منظر، قاضی ابویوسف کے حالات زندگی، تصانیف کا اجمالی تعارف، مناقب و محاسن، معاصرین کی جانب سے کی جانے والی تنقیدوں کا محاکمہ اور اسلامی تاریخ میں ان کے علمی مقام کا تعین وغیرہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس مقدمے میں ’’کتاب الخراج‘‘ کا اپنے موضوع پر دیگرمعاصر کتب سے موازنہ اور اس کی علمی و تاریخی اہمیت ، اس کے مختلف نسخوں ، شرحوں ، اور ترجموں کا ذکر بھی کیا ہے۔ اسی طرح کتاب کی شروعات ہی میں درہم، مثقال، دینار، اوقیہ، صاع، وسق وغیرہ سکوں ، اوزان اور پیمانوں کا تحقیقی تعارف بھی پیش کردیا ہے تاکہ کتاب سے استفادے میں زمانی بُعد حائل نہ ہوسکے۔ ‘‘[8]
یادرہے کہ’’العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام‘‘ میں سیدقطب نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں وہی نقطۂ نظراختیارکرلیاہے جومولانامودودی وغیرہ کاہے۔ نتیجہ یہ تھاکہ علما کے حلقہ میں سیدقطب کوبہت مطعون کیاگیااوریہاں تک کہ اخوان دشمنی میں ناصرکی حمایت تک کی گئی ۔ [9]
امانت علمی کی خاطریہ بھی عرض کردوں کہ نجات صاحب کی تمام آرا سے کلی اتفاق راقم کوبھی نہیں، مثال کے طورپر مولانامودودی کی معروف اورمتنازعہ فیہ کتاب ’’خلافت وملوکیت ‘‘کے بارے میں ان کی راے اور خاک سارکی راے بالکل الگ ہے۔ وہ اس کتاب کو فلسفہ وتاریخ اسلامی یاتعبیرتاریخ اسلامی کے اعتبارسے مودودی صاحب کی چنداونچی تصنیفات میں شمارکرتے تھے[10] ، جب کہ راقم کویہ کتاب نہ صرف علمی لحاظ سے بودی لگی، بلکہ سیدناعثمان ، سیدنا امیرمعاویہ ، سیدناعمروبن العاص اورسیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اس کی رکیک زبان کی وجہ سے اس سے رفض وتشیع کی بوآتی ہے (مزیددیکھیے: حاشیہ ۱۲)۔
ڈاکٹرنجات اللہ صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت پڑھتے تھے اورمستقل سوچتے تھے۔ ان کی کتاب ’’مقاصدشریعت‘‘ ہندمیں شائع ہوئی تو ماہنامہ ’’افکار ملی‘‘ (جس کی ادارت ان دنوں خاک سار کر رہا تھا) میں ڈاکٹرعبدالقادرلون کا تفصیلی تبصرہ شائع ہوا۔ اپنے تبصرہ میں لون صاحب نے شیخ ابن العربی کی ’’فصوص الحکم‘‘ کے حوالہ سے لکھاکہ شیخ نے اس میں ’’مقاصد شریعت‘‘ کی طر ف اشارے کیے ہیں ۔ اس کے بعد جب نجات صاحب سے ملاقات ہوئی توانھوں نے فرمایاکہ یہ تبصرہ دیکھنے کے بعدانھوں نے ’’فصوص الحکم‘‘ بالاستیعاب دیکھی، مگروہ بحث ان کوکہیں ملی نہیں ۔
اگلی سطورمیں راقم فکراسلامی کے ان چندمسائل اور ایشوزکی طرف قاری کی توجہ ملتفت کرناچاہے گاجن میں مفکرنجات اللہ صدیقی دوسرے علما اوراسلامیین سے بالکل الگ ہٹ کرسوچتے تھے ۔
مسلم دنیامیں کون سے فکری تغیرات ہورہے ہیں، مختلف ملکوں میں مختلف شخصیات کن مسائل پر سوچ رہی ہیں اورنئے رجحانات کیاہیں ، اِس پر ڈاکٹرصدیقی کی گرفت اوراطلاع قابل رشک تھی۔ اس معاملہ میں وہ بہت اپ ڈیٹ تھے۔ راقم کے خیال میں ان کی کتاب ــــــ’’ اسلام، معاشیات اورادب: خطوط کے آئینہ میں‘‘ــــــ میں اسلام کی سیاسی تعبیرکے سلسلہ میں ان کا اضطراب جھلکتاہے۔ اوراس کے under currents میں وہ فکرمودودی کے متوازی سوچ رہے ہیں ، اوربعدکی تحریروں میں یہ چیزاورزیادہ نمایاں ہونے لگتی ہے اوروہ تحریک کی تنگ نائیوں سے نکل کرسوچنے لگتے ہیں ۔
حسن اتفاق تھاکہ راقم کا نجات صاحب سے جو interaction ہو، وہ یہی زمانہ ہے۔ علی گڑھ کے ڈاکٹر محمد زکی کرمانی نے ڈاکٹرنجات صاحب سے خصوصی استفادہ کیاہے ۔ ۲۸؍ نومبر ۲۰۲۲ء کو ایک آن لائن تعزیتی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بھی یہی خیال ظاہرکیاکہ نجات صاحب مولانا مودودی کی غلبہ والی اسلامی فکرسے مطمئن نہیں تھے۔ وہ اسلام کے احیا کوتوصحیح سمجھتے تھے، مگرغلبہ کونہیں ۔ اوراحیا کے لیے بھی علم کا احیا اور نالج پروڈکشن ضروری سمجھتے تھے۔
ان کا خیال تھاکہ تحریک کے لوگ اورعام مسلمان بھی علم کے سلسلہ میں بہت confusedہیں ۔ نجات صاحب کے نزدیک علم کے دو مآخذ ہیں: ایک ماخذ وحی ہے، جب کہ دوسرا ماخذ کتاب کائنات ہے۔ علم کا سودمند استعمال مسلمانوں کے عالمی غلبہ کے لیے نہیں، بلکہ عام انسانیت کی فلاح وبہودکے لیے ہوناچاہیے۔ اوراس کے لیے خطرہ اورفتنہ کا رسک لیتے ہوئے بھی آزادی فکرکی ضرورت ہے۔ نجات صاحب سوال کرتے ہیں کہ کیادنیاکی تشکیل نواپنی قیادت میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے؟کیایہ کافی نہیں کہ دنیاکے سامنے اسلام کوپیش کردیاجائے ؟اگرغلبہ کا سوال صحیح نہیں توغلبہ کے مفروضوں کے ساتھ کیوں امت کوmanipulate کیا جاتا رہا ہے؟ کیااگرکوئی تبدیلی آتی ہے تووہ قدیم زمانہ کی طرف واپسی ہوگی ؟کیاایسارجوع مطلو ب ہے؟نجات صاحب کہتے تھے کہ ہماری توجہ نتائج سے زیادہ طریقۂ کارپر کیوں ہے ؟ان کوافسوس تھاکہ ساری امت میں اس بات کا چلن ہے کہ مسلمانوں کویہ بتایاجاتاہے کہ وہ خودکچھ نہ سوچیں ، اسلاف نے سب سوچ لیاہے ؟انھی کی نظروں سے دیکھاجائے اورانھی کے دماغ سے سوچاجائے ؟یہ ماضی پرستانہ اپروچ نہایت نقصان دہ ہے اورڈاکٹرنجات صاحب اس پر شدیدتنقیدکرتے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ ہماری یونیورسٹیوں، مدارس اور مراکز میں ہر جگہ سارا زور ماضی کے علم پر ہے ، نیاعلم پیداکرنے پر کوئی زورنہیں ہے۔ ان کا کہناہے کہ امت کے بجاے ہمیں سارے انسانوں کوسامنے رکھناہوگا، تبھی اِس دنیامیں ہماراکوئی relevance بنے گا۔[11]
اسی طرح جدیداسلامی فکر پر بھی ان کی گہری اورناقدانہ نگاہ تھی۔ عرب دنیامیں نئے فکری ، فقہی اورمعاشی رجحانات پر ان کی وسعت نظری قابل رشک تھی ۔ اسلامی معاشیا ت پر ان کی عمیق تحریروں وتراجم کے ساتھ ان کی تخلیقات کی زبان بہت شستہ اوررواں ہے۔
ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی یہ سوچتے تھے کہ اسلامی تحریکوں کا زمانہ دوسراتھا۔ انھوں نے اپنے حصے کا کام کردیا، آج کی جنریشن کواپنے حصہ کا کام کرناہے۔ مولانامودودی یاسیدقطب کا زمانہ اب ختم ہوگیا۔ آج کے مطالبات دوسرے ہیں ، اس لیے آج کے لوگوں کواجتہادسے کام لے کرنئی راہیں نکالنی ہوں گی ۔ یہ بات صحیح ہے کہ ان کا فکری تعلق جماعت اسلامی سے رہا، لیکن ان کا نقطۂ نظرکبھی بھی جمودپسندنہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت میں جو کٹر مذہبیت والادھڑا ہے، اس نے کبھی ان کے خیالات کی پذیرائی نہیں کی ، بلکہ جب ان کی کتاب ’’مقاصدشریعت‘‘ شائع ہوئی توجماعت کی اعلیٰ قیادت کے بعض افرادنے اس کے خلاف مہم چلائی۔ نجا ت صاحب کے ان خیالات اورآرا کا تذکرہ جماعت اسلامی کے لوگ بھولے سے بھی نہیں کرتے، کیونکہ ان سے جماعت کے پورے ایجنڈے کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اسی طرح ان کا یہ بھی پختہ خیال تھاکہ اسلامی تحریکات کوروایتی علما پر انحصارختم کرناہوگا، اس کے بغیروہ ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتیں ۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
* ریسرچ ایسوسی ایٹ، مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ۔
[1]۔ زبانی بیان۔
[2]۔ اس پر انگریزی میں تبصرہ کے لیے ملاحظ کریں: 1-15 Jan 2011 Milli Gazzet ۔
[3]۔ ملاحظہ ہو :
https://muslimmirror.com/eng/dr-muhammad-nejatullah-siddiqi-the-father-of-modern-islamic-banking/
[4]۔ یہ دوکتابیں ہیں :’’اسلام اورفنون لطیفہ‘‘ اور’’ادب اسلامی:نظریاتی مقالات‘‘۔
[5]۔ https://youtu.be/L9JXSvy7Nco ۔
[6]۔ https://youtu.be/L9JXSvy7Nco ۔
[7]۔ ملاحظہ ہو:مفتی تقی عثمانی ، غیرسودی بینکاری ، متعلقہ فقہی مسائل کی تحقیق اوراشکالات کا جائزہ شائع کردہ فریدبک ڈپو، دہلی انڈیا ۲۰۱۰ء۔
[8]۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
https://wp.me/p7zTiB-g5i
[9]۔ ملاحظہ ہو: مولانا مودودی کا خط نجات صاحب کے نام (اسلام، معاشیات اورادب خطوط کے آئینہ میں، ص ۴۴، سلسلہ نمبر۸)۔
[10]۔ اسلام، معاشیات اورادب ، ص۸۵، سلسلہ نمبر۵۷۔
[11]۔ یہ آن لائن تعزیتی پروگرام ۲۸ ؍نومبر ۲۰۲۲ءکوہواتھا، جس میں سامع کی حیثیت سے راقم بھی شریک تھا۔