HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

دعا اور اُس کی قبولیت

دعا دل کی پکار اور عاجزی کے اظہار کا نام ہے۔یہ ایک بندے کا اپنے خالق و مالک اور پروردگار عالم سے مانگنا اور اُس سے پانا ہے۔تاہم دعا کا مطلب مانگی ہوئی ہر چیز کا بہر صورت مل جانا نہیں، بلکہ دوسری تمام چیز وں کی طرح دعا کے بھی کچھ آداب ہیں۔

 دعا اور اُس کی قبولیت کے آداب کیا ہیں اور وہ کون سی دعا ہے جسے اللہ کے ہاں قبولیت عطا کی جاتی ہے، اِسے قرآن میں پیغمبر یوسف اور زنان مصر کی حسین داستان کے تحت واقعات کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں سورۂ یوسف کے درج ذیل ارشاد ات ملاحظہ فرمائیں:

’’شہر میں کچھ عورتیں باہم چرچا کرنے لگیں کہ عزیزمصر کی بیوی اپنے غلام پر ڈورے ڈال رہی اور اُس کی محبت میں فریفتہ ہو گئی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ کھلی حماقت میں مبتلا ہے۔سو اِ ن زنان مصر کے فریب کا حال جب عزیزمصر کی بیوی نے سنا تو اُس نے اِن عورتوں کو بلا بھیجا (کہ وہ بھی اپنے ہنر آزما لیں)۔چنانچہ اُن کے لیے ایک مجلس آراستہ کی اور اُن میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دی اور یوسف سے کہا کہ اِن کے سامنے آجاؤ۔ پھر جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا تووہ اُس کی عظمت سے مبہوت ہو کر رہ گئیں اور (یوسف سے اپنی بات منوانے کے لیے)جگہ جگہ سے اپنے ہاتھ زخمی کر لیے، لیکن (ناکام رہیں اور بالآخر) پکار اُٹھیں کہ حاشا للہ، یہ آدمی نہیں ، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔(اُس وقت اِن عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے )عزیز مصر کی بیوی نے کہا: دیکھ لیا، یہی ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کر رہی تھیں۔ میں نے یقیناً اِس کو رِجھانے کی کوشش کی تھی، مگر یہ( میرے دام سے )بچ نکلا۔ تاہم میں اِس سے جو کرنے کے لیے کہہ رہی ہوں، اگر اِس نے و ہ کام نہیں کیا تووہ ضرور قید کیا جائے گا اور یقیناً ذلیل ہوگا۔اِس پر یوسف نے دعا کی کہ پروردگار، قید خانہ مجھے اُس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ بیگمات مصر مجھے دعوت دے رہی ہیں۔ اب اگرتونے اِن کے فریب کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں اِن کی طرف مائل ہوکر اُن لوگوں میں شامل ہو جاؤں گا جواِس قسم کے جذبات سے مغلوب ہو جایاکرتے ہیں۔ چنانچہ (اِس دعاوکردار کا نتیجہ یہ ہوا کہ) یوسف کے پروردگار نے اُس کی یہ دعا قبول فرمائی اور اُن کا فریب اُس سے دفع کر دیا۔ بے شک، وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔‘‘(۱۲: ۳۰ -۳۴)

 سیدنا یوسف کی دعا اور اُس کی اِجابت وقبولیت کے اصل قرآنی الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَيَّ مِمَّا يَدْعُوْنَنِيْ٘ اِلَيْهِﵐ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّيْ كَيْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَيْهِنَّ وَاَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِيْنَ. فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّﵧ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ. (۳۳ -۳۴)

اِس سلسلے میں استاذ جاوید احمد غامدی اپنی تفسیر ’’البیان ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یہ بڑے عجز کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا ہے،جو اپنے ایمان و اخلاق کو بچانے کے لیے پوری طاقت نچوڑ دینے کے بعد اُن کی زبان پر آگئی ہے۔ آگے وضاحت ہے کہ یہ دعا فوراً قبول ہوگئی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب بندہ شیطان کے مقابلے میں اِس حد تک استقامت دکھانے کے بعد اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے آگے ڈال دیتا ہے تو اُس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور فوراً قبول ہوتی ہے۔‘‘(۲/ ۵۳۵)

 یہاں استاذ امین احسن اصلاحی کا متعلق توضیحی نوٹ بھی قابل مطالعہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

’’ یہ دھمکی تو زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مرعوب کرنے کے لیے دی تھی کہ اِس سے ڈر کر وہ اُس کی خواہش پوری کرنے پر آمادہ ہو ہی جائیں گے، لیکن حضرت یوسف نے ہوس کے اِن پھندوں کے مقابلے میں جیل کی بیڑیوں کو بسا غنیمت جانا۔ انھوں نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے کہ پروردگار، اِن کی دعوت ہوس کے مقابلے میں یہ جیل مجھے کہیں زیادہ عزیز و محبوب ہے اور ساتھ ہی ناز اور اعتماد کا یہ فقرہ بھی فرما گئے کہ ’’اگر تو نے اُن کے اِن فتنوں سے اب مجھے نہ بچایا تو میں اُن کی طرف مائل اور جذبات سے مغلوب ہو جاؤں گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۴: ۲۱۱)

استاذامین احسن اصلاحی مزید تحریر فرماتے ہیں :

’’حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے یہ دعااُس وقت نکلی ہے جب وہ اپنی پوری طاقت اپنے ایمان و اخلاق کی حفاظت کے لیے نچوڑ چکے ہیں، یہاں تک کہ وہ اِن بیگمات کی پیدا کی ہوئی پرفتن زندگی کے مقابلے میں جیل کی پرمحن زندگی کو قبول کرنے پر راضی ہیں۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۴/ ۲۱۱)

قرآن میں بیان کردہ اِس پیغمبرانہ واقعے سے دعا کے متعلق ایک گہرااصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اپنے کسی مطلوب کو پانے یاکسی نامطلوب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پہلے اپنی استطاعت کے بقدراپنے حصے کا عمل انجام دے۔وہ اِس معاملے میں ہر کوتاہی سے پوری طرح اجتناب کرے۔وہ کسی مطلوب چیز کو پانے یاکسی نامطلوب چیز سے بچنے کے لیے اپنے پورے عزم وقوت اور اپنی تمام تر عملی اور جذباتی طاقت کو استعمال کرے، یہاں تک کہ اِس معاملے میں وہ اپنے عجز کی تلافی کے لیے اللہ سے عاجزانہ انداز میں نصر ت کی دعا کرنے لگے۔ کوئی شخص جب تک اِس اولین شرط کو پورا نہ کرے، اُس وقت تک اُس کی دعا اپنی مطلوب صورت میں خدا کی بارگاہ میں ہرگز قبول نہیں ہوسکتی۔یہی اِس معاملے میں اللہ کی حتمی سنت ہے۔مخصوص قسم کے اضطرار (النمل ۲۷:  ۶۲)کے سوا،اِس میں کسی بھی شخص یاکسی بھی صورت حال کا کوئی استثنا نہیں۔

(لکھنؤ ۱۵/ نومبر ۲۰۲۲ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

B