[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت شماس (عثمان )بن عثمان ۵۹۲ء میں مكہ میں پیدا ہوئے۔ ان كا تعلق قریش كی شاخ بنو مخزوم سے تھا، بانی قبیلہ مخزوم بن یقظہ ان كے پانچویں جد تھے۔ دادا كا نام شریدبن سوید تھا۔ حضرت شماس كے سكڑ دادا ہرمی بن عامر مكہ میں لوگوں كو شہد پلایا كرتے تھے، اس نسبت سے انھیں ’ابن ساقي العسل‘ كہا جاتا ہے۔ ان كی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہ بھی بنو مخزوم سے تھیں۔ مکہ کےمشہور سردار ربیعہ بن عبدشمس ان کے نانا اور عبد مناف بن قصی سكڑنانا تھے۔ متمردین قریش عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ ان كے ماموں تھے۔ حضرت شماس كی كنیت ابوالمقدام تھی۔
حضرت شماس نہایت خوب صورت تھے، ان کا اصلی نام عثمان تھا۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک مرتبہ ایك شماس مکہ آیا، جو نہایت حسین وجمیل تھا۔ ’شماس‘ سریانی میں خادم كلیسا (deacon)كو كہتے ہیں، قسیس (priest) اس سے ایك مرتبہ اوپر، اسقف (bishop) دو مرتبے، مطران (archbishop) تین مرتبے اور بطرك (patriarch) چار مرتبے اوپر ہوتا ہے۔ مکہ کے لوگوں نے اسے دیکھا تو اس کی خوب صورتی پہ عش عش کر اٹھے۔ عتبہ بن ربیعہ نے كہا: ٹھیرو، میں تمھیں اس سے بھی زیادہ خوب صورت نوجوان دکھاتا ہوں۔ وہ اپنی بہن صفیہ کے گھر گیا اور اپنے بھانجےکو لے آیا۔ لوگوں نے دیکھا تو کہا: واقعی یہ نوجوان اس عیسائی شماس سے کہیں زیادہ خوب رو اور حسین و جمیل ہے۔ چنانچہ مکہ کے لوگ اس دن سے اصل نام عثمان مخزومی بھول گئے اور انھیں شماس بن عثمان مخزومی کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ ابن سعد كہتے ہیں:چہرے كی تابانی كی وجہ سے ان كو شماس كا لقب ملا، اہل لغت اس معنی كی تائید نہیں كرتے۔
مکہ کے خوب صورت نوجوان شماس ظاہری حسن کے ساتھ سلیم الطبع بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا تو نور ایمان سے منور ہونے والے ابتدائی اصحاب میں حضرت شماس بھی شامل تھے۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ بنت ربیعہ نے بھی دعوت توحید كو جلد قبول كر لیا۔ حضرت شماس كے ماموں عتبہ او ر شیبہ دنیاوی امور میں سمجھ دارتھے، مگر شقاوت قلبی كی وجہ سے قبول ہدایت سے محروم رہے۔
ابتدائی دور میں مسلمان مغلوب تھے، نوواردان اسلام كو خوب ستایا گیا، حتیٰ کہ وه اپنی جان اور دین و ایمان بچانے كے لیے مكہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ پر حضرت شماس بھی اپنی اہلیہ حضرت ام حبیب بنت سعید كے ہم راه حبشہ کی طرف ہجرت كرنے والے دوسرے قافلے میں شامل ہو گئے۔ تراسی اصحاب او ر اٹھارہ صحابیات پر مشتمل یہ قافلہ حضرت جعفر بن ابوطالب كی قیادت میں حبشہ گیا۔ ان كے ہم قبیلہ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد اور ان كی اہلیہ حضرت ام سلمہ رجب ۵ ؍ نبوی میں پہلے قافلۂ ہجرت كےساتھ حبشہ روانہ ہو چكے تھے، جب كہ بنومخزوم كے حضرت سلمہ بن ہشام، حضرت عیاش بن ابوربیعہ، حضرت ہبار بن سفیان، حضرت عبدالله بن سفیان اور بنو مخزوم كے حلیف حضرت معتب بن عوف ہجرت ثانیہ (شوال ۵ ؍نبوی)میں ان كے ہم سفر تھے۔
اہل مكہ كی اسلام سے بڑھتی ہوئی نفرت كو دیكھ كر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نےشوال ۱۰؍ نبوی (۶۱۹ء) میں طائف كا سفر كیا۔ وہاں كےكسی سركردہ سردار نے آپ كی نصرت كرنے كی ہامی نہیں بھری، بلكہ الٹا شہر كے اوباشوں كو آپ كے پیچھے لگا دیا۔ اگلے تین برس آپ ایام حج میں مكہ آنے والے قبائل كواسلام كی دعوت دیتے رہے۔ آپ كی كاوشوں سے بیعت عقبۂ اولیٰ میں باره اور ثانیہ میں پچھتر انصار نے آپ كے دست مبارك پر بیعت نصرت كر لی۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا: اللہ نے تمھارے بھائی بند بنا دیے ہیں اور ایسا شہر دے دیا ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ چنانچہ سب سے پہلےحضرت مصعب بن عمیر اور پھرحضرت عمرو بن ام مکتوم شہرہجرت پہنچے، ان کے بعد حضرت بلال، حضرت سعد اور حضرت عمار بن یاسر نے شرف ہجرت حاصل کیا۔ پھرحضرت عمر بیس صحابہ کے جلو میں وارد ہوئے(بخاری، رقم ۳۹۲۵۔ احمد، رقم ۱۸۵۶۸۔ مستدرك حاكم، رقم ۴۲۵۴)۔
حضرت شماس بن عثمان بھی مدینہ كی طرف اپنےدوسرے سفر ہجرت پر روانہ ہوئے۔ ان كا قیام بنو عمرو بن عوف كے حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں ہوا۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں مواخات قائم فرما ئی تو حضرت حنظلہ بن ابو عامر الراہب کو ان کا انصاری بھائی قرار دیا۔
حضرت شماس اپنے آخری وقت تك حضرت مبشر كے ہاں مقیم رہے۔
حضرت شماس غزوۂ بدر میں جاں بازی سے لڑے۔ ان كا ماموں عتبہ بن ربیعہ مشرکین کی طرف سے لڑتا ہوا واصل جہنم ہوا۔
۷/ شوال ۳ ھ( ۲۳ مارچ ۶۲۵ ء) :غزوه ٔ بدر میں مسلمانوں کی شان دار فتح کے بعد قریش مکہ اور یہودکو اندازہ ہوگیا کہ مسلمان اب معمولی قوت نہیں رہے۔ چنانچہ مكہ كے دار الندوہ میں عبدالله بن ابو ربیعہ، عكرمہ بن ابوجہل، صفوان بن امیہ اور ابوسفیان جمع ہوئے اوراپنے آبا كی ہلاكت کا بدلہ لینے کے لیے اوربند ہو جانے والے تجارتی راستوں كو كھلوانے كے لیے ریاست مدینہ سے جنگ كرنے پرمشاورت كی۔ یہودی کعب الاشرف اور مدینہ كے منافقین نے بھی شكست خوردگان كی آتش انتقام كو بھڑكایا۔ قریش کے نئے سردار ابوسفیان نے جنگ بدر كا باعث بننے والے اپنے تجارتی قافلے كا تمام منافع نئی جنگ كی تیاریوں كے لیے وقف كر ديا۔ تین ہزار سے زائد سپاہی آماده بہ جنگ ہوئے، جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے، دو سو گھوڑے اورتین سو اونٹ بھی مہیا کیے گئے۔ اشعار پڑھ کر مشرکین کو جوش دلانے كے لیے پندرہ عورتیں ساتھ چلیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم كو مكہ میں موجود آپ کے چچا عباس نے مشرکین کی تیاریوں سے آ گاہ کیا۔
بدھ ۵ ؍ شوال كو مشرك فوج احد کے قریب عریض کے مقام پر پہنچی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ره كر دفاع كرنا چاہتے تھے، اكابر مہاجرین و انصار كا بھی یہی مشوره تھا، لیكن جوشیلے نوجوان شہر سے باہر لڑنا چاہتے تھے۔ حضرت حمزہ نے بھی ان كا ساتھ دیا۔ نماز جمعہ كے بعد آپ زرہ پہن كر جانے كے لیے تیار ہوئے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم كو غلطی كا احساس ہوا، لیكن آپ نے فرمایا : نبی اسلحہ پہن لیں تو قتال كیے بغیر نہیں اتارتے۔ آخر كار، آپ كل ایك ہزار كا لشكر لے كر مدینہ سے نكلے، جس میں محض دو گھڑ سوار تھے اورصرف سو مسلمانوں كے پاس زرہیں تھیں۔ راستے میں پڑنے والے شوط نامی ایك باغ پرپہنچے تو عبدالله بن ابی یہ كہہ كر كہ ہمارا مدینہ میں ره كر لڑنے كا مشوره نہیں مانا گیا، ا پنے تین سو منافق ساتھیوں كو لے كر واپس ہو گیا۔ اس موقع پر اوس كی شاخ بنوحارثہ اور خزرج كے گوت بنوسلمہ كے قد م بھی لڑكھڑانے كو تھے كہ الله كی طرف سے ان كے دلوں كو سہارا دیا گیا:
اِذْ هَمَّتْ طَّآئِفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَاﶈ وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا. (آل عمران۳: ۱۲۲)
’’یاد كرو جب تم اہل ایمان كے دو قبائل حوصلہ ہارنے كو تھے، حالاں كہ الله ان كی مدد پر موجود تھا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ احد کی طرف پشت کرکے صف آرا ہوئے اور حضرت عبداللہ بن جبیر كی قیادت میں ایك تیرانداز دستہ احد كے بائیں جانب کوہ عینین پر تعینات کر كے تاكید فرمائی كہ کسی صورت میں اپنا مورچہ نہ چھوڑنا(بخاری، رقم ۴۰۴۳)۔
جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا، جب طلحہ بن ابی طلحہ نے نمودار ہوكر دعوت مبارزت دی، حضرت زبیر بن عوام(حضرت علی : ابن سعد) نكلے، اسے اپنی گرفت میں لے كر تلوار سے ذبح کر دیا۔ اس ابتدائی کامیابی سے مسرور ہوكرمسلمانوں نےتکبیر کا نعره لگایا اور مشرکین پر ٹوٹ پڑے۔ یكے بعد دیگرے مشرکین كے باره (یا نو) علم بردار، حضرت حمزه، حضرت سعد، حضرت مسافع، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ كے ہاتهوں قتل ہوئے۔ جنگ کا بازار گرم ہوا تو حضرت حمزہ، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت ابودجانہ دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور خوب قتال کیا۔ حضرت ابو دجانہ انصاری كی تلوار كی زد میں جو بھی آیا، مارا گیا، سواےہندبن عتبہ كے، جب اس كا سر سامنے آیا تو انھوں نے عورت ہونے كی وجہ سے تلوار كھینچ لی۔ مكہ كے سردار جبیر بن مطعم نے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب كو قتل كرنے كی صورت میں اپنے حبشی غلام وحشی بن حرب سے آزادی كا وعده كیا تھا۔ وه ایك چٹان کی او ٹ میں بیٹھ گیا اور تاك كر لڑا ئی میں منہمك حضرت حمزه كوبھالامارا جو ان كے پیڑوسے گزرتا ہوا پشت سے نكل گیا اورجان لیوا ثابت ہوا۔ دوپہر كے وقت مشرک پسپا ہو كر فرار ہوئے تومسلمان سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں۔ درۂ عینین پرمتعین اصحاب نے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت فراموش کر دی اور درہ چھوڑ کر میدان میں اتر كر مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر موجود تھے كہ مشركوں كی فوج میں شامل خالد بن ولید ایك میل كا چكر كاٹ كر پہاڑ كے پیچھے پہنچ گئے۔ ان اصحاب كو شہید كیا اور پہاڑ سے اتر كر جیش اسلامی پر پشت سےحملہ كر دیا۔ نبی صلی الله علیہ وسلم نے خالد بن ولید كے دستے كو آتے دیكھا تو صحابہ كو بلند آواز سے پكارا،لیكن وه خالد كے اچانك حملے سے بكھر چكے تھے۔ كئی جام شہادت نوش كر چكے تھے اور بے شما ر زخمی ہو چكے تھے۔ موقع پا كر مشركین آپ كی طرف لپكے اورآپ كے شبہ میں حضرت مصعب بن عمیر كو شہید كردیا۔ آپ كی شہادت كی افواہ پھیلی تو
كچھ صحابہ نے ہمت ہار دی اور میدان جنگ سے فرار ہو گئے، کچھ قریبی پہاڑی جلعب پر چڑھ گئے۔ حضرت انس یہ كہہ كر كہ حضور کے بعد کیا جینا، اٹھے اور مشرکوں سے بھڑ کر شہید ہوگئے۔ کچھ اصحاب آپ کے ساتھ رہے اور آپ کی بھر پور حفاظت کی۔
جنگ کی ابتدا میں مسلمان پسپا ہوئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت طلحہ اورحضرت سعد بن ابی وقاص كے علاوه كوئی نہ رہا ( بخاری، رقم ۳۷۲۲۔ مسلم، رقم ۶۳۲۱)۔ ایك مرحلے میں سات انصاری اور دو مہاجرصحابہ نے آپ كو حصار میں لے ركھا تھا۔ آپ نے فرمایا: جو ان مشركوں سے ہمارا دفاع کرے گا، جنت میں میرا رفیق بنے گا۔ ایک انصاری آگے بڑھ کر لڑا اور شہید ہو گیا۔ کفار اور بڑھے تو آپ نے یہی ارشاد فرمایا۔ دوسرا انصاری بڑھا اور شہادت پائی۔ باری باری ساتوں انصاریوں نے جام شہادت نوش کیا (مسلم، رقم ۴۶۶۴۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۹۱۸)۔ حضرت زیاد بن سكن(یا حضرت عماره بن زیاد ) آخری انصاری تھے جنھوں نے آپ كے قدموں میں جان دی(التاریخ الكبیر، بخاری، رقم ۳۱۴۶۔ دلائل النبوة، بیہقی، رقم ۳/ ۲۳۴)۔ اس اثنا میں عتبہ بن ابی وقاص نے گوپھن سے پتھر مار کرآپ کا سامنے کانچلا دانت شہید کر دیا، آپ کا ہونٹ بھی پھٹ گیا۔ دوسری روایت کے مطابق آپ کے سامنے کے دو دانت شہید ہوئے۔ عبداللہ بن شہاب زہری نے پیشانی مبارك پر ضرب لگائی۔ عبد الله بن قمیئہ(قمئہ)حارثی نے آپ کے كندھے پر زور سے تلوار ماری، زره كی وجہ سے زخم نہ آیا، پھر اس نے آپ كے ناک اور رخسارکو شدید زخمی کر دیا۔ مالک بن زہیر نے آپ کو تیر کا نشانہ بنایا تو حضرت طلحہ نے اپنا ہاتھ آگے کر کے آپ کے چہرۂ مبارک کو بچایا (مستدرک حاکم، رقم ۶ ۵۵۸ )۔ تیر لگنے سے حضرت طلحہ كی چھنگلیا اور انگشت شہادت مفلوج ہو گئیں (بخاری، رقم ۴۰۶۳۔ ابن ماجہ، رقم ۱۲۸)۔ ایك تیر آپ كے خود پر لگا اور اس كی جھلم كے كڑے رخسار مبا رك میں دھنس گئے، جو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اپنے دانتوں سے نكالے۔ اس كوشش میں ان كے اپنے دانت ٹوٹ گئے (مستدرك حاكم، رقم ۵۱۶۰)۔ آخر میں آپ ان گڑھوں میں سے ایک میں گر گئے جو ایک بدبخت مشرک ابو عامر نے میدان جنگ میں حریف مسلمانوں کے لیے کھود رکھے تھے۔ حضرت علی نے آپ کاہاتھ تھاما اورحضرت طلحہ نے کھینچ کر باہر نکالا۔ حضرت مالک بن سنان نے آپ کے چہرۂ مبارک سے خون چوس کر نگل لیا۔
سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک پر افواہ کا جھوٹ کھلا۔ انھوں نے خود کے اندر سے آپ کی آنکھوں کو پہچانا توآوازیں دینے لگے: اہل اسلام، خوش خبری ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود ہیں۔ آپ بھی بلند آواز سے پکارے: اللہ کے بندو، میری طرف آؤ، اللہ کے بندو، میری طرف آؤ۔ حضرت طلحہ آپ کی طرف لپکنے والوں میں آگے آگے تھے، حضرت ابوبکر، حضرت علی، حضرت عمر، حضرت زبیر، حضرت حارث بن صمہ، كل تیس صحابہ آپ کی طرف بھاگے۔ صحابہ جمع ہوئے تو آپ حضرت طلحہ كی پشت پر پاؤں ركھ كر ایك چٹان پر چڑھ گئے اور فرمایا:اپنے ساتھی طلحہ کو سنبھالو، ان کا خون بہ رہاہے۔ طلحہ پر جنت واجب ہو چکی(ترمذی، رقم ۱۶۹۲۔ مستدرك حاكم، رقم ۵۶۰۲)۔ كچھ وقفے كےبعد دیگر اصحاب رسول بھی میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم چٹان پر تشریف فرما تھے كہ ابو سفیان اور خالد بن ولید كی قیادت میں مشركین نے آخری حملہ كیا۔ وه چٹان پر چڑھنے كو تھےكہ حضرت عمر اور كچھ مہاجرین نے ان كا حملہ روكا، حضرت سعد نے تیر اندازی كر كے تین كافروں كو جہنم رسید كیا۔ تاہم اہل مكہ نے یہ یقین كر كے كہ معاذ الله رسول الله صلی الله علیہ وسلم شہید ہو چكے ہیں، واپسی كی راه پكڑی۔ اس اثنا میں ابو سفیان کی بیوی ہند اور کچھ مشركین نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے۔ ہند نے اپنے باپ عتبہ بن ربیعہ كا انتقام لینے كے لیے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبایا اور پھر اگل دیا۔
احد كے میدان میں نبی صلی الله علیہ وسلم كا دفاع كرتے ہوئے حضرت شماس نے جس شجاعت اور جان نثاری كا مظاہرہ كیا، اس كا بیان سیر صحابہ كے مرتبین ابن عبدالبر، ابن اثیر اورابن حجركے علاوه ابن سعد نے كیا ہے۔ ابن جوزی نے حضرت شماس كے حالات زندگی بیان كرتے ہوئے ’’طبقات‘‘ كی عبارت نقل كی۔ ابن ہشام اور ابن كثیرنے حضرت شماس كو شہداے احد میں شمار كیا، لیكن اپنے پیارے رسول كی زندگی بچاتے ہوئے اپنی جان نچھاور كرنے كی تفصیل نہیں بتائی۔ طبری نے ان كی شہادت كاسرے سے ذكر ہی نہیں كیا۔ ابن ہشام اور ابن كثیر نےمحض ان كے مرثیہ میں كہے گئے اشعار نقل كیے۔ معلوم نہیں، حضرت شماس بن عثمان كا اہم رول ان مؤرخین كی نظرسے اوجھل كیوں رہا۔
غزوہ ٔاحد كے وقت حضرت شماس چونتیس برس كے بھر پورنوجوان تھے، انھیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی۔ اس جنگ میں وہ آپ کے ساتھ ساتھ رہے۔ احد کے میدان میں جب بھگڈر مچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كا دفاع کرنے والے صحابہ میں حضرت شماس بن عثمان بھی شامل تھے، انھوں نے دھیان آپ ہی كی طرف ركھا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے احد کے دن شماس کو اپنے لیے ایک ڈھال کی طرح دیکھا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہٖوسلم دائیں بائیں، جس طرف رُخ مبارک پھیرتے، حضرت شماس كواپنے سامنے پاتے۔ انھوں نے تلوار سے، پھر اپنے جسم سے آپ کا پروانہ واردفاع کیا، نہایت چاق وچوبندی سے، بھاگ بھاگ کر دشمن کا مقابلہ کیا، جب دشمن بھاگ جاتا تو وه پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کھڑے ہوجاتے۔ بلاشبہ، یہ نہایت مشکل وقت تھا۔ ابی بن خلف نے حضرت شماس پر كاری زخم لگائے۔ زخموں سے نڈھال ہوکر وہ زمین پر گر گئےاور خون کثرت سے بہنے كی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ بہت سارے دیگر شہدا کی طرح ان کو بھی شہید سمجھ لیاگیا۔ شام كے وقت دشمن نے اپنی جنگ ادھوری چھوڑ کرمكہ كی راه لی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے كا حكم دیا۔ صحابہ نے دیكھا كہ حضرت شماس بے ہوش ہیں، لیكن ان کی سانس چل رہی ہے۔ آپ کے حکم پر انھیں فوری طور پر مدینہ میں ام المومنین حضرت عائشہ کے گھر منتقل کیا گیا۔ تب حضرت شماس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ، جو اُس وقت تک نبی صلی الله علیہ وسلم كے عقد میں نہ آئی تھیں، حضرت عائشہ کے پاس آئیں اورکہا: شماس میرے چچا زاد ہیں، میں انھیں اپنے گھر لے جانے کے لیے آئی ہوں۔ حضرت ام سلمہ نے علاج معالجہ اور تیمار داری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ حضرت شماس مسلسل بے ہوش رہے، کچھ کھایا نہ پیا۔ ایک دن اور رات گزارنے کے بعد انھوں نے جام شہادت نوش کیا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ واقدی كاكہنا ہے كہ شہداے احد میں وه اكیلے تھے، جنھیں بقیع الغرقد كے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ دوسری روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ شماس کی میت کو احد کے میدان میں لے جایاجائے، چنانچہ ان کو اسی خونی پیراہن میں نماز جنازہ پڑھائے بغیر احد کے گورستان شہیداں میں دفن کردیا گیا(ابن سعد، ابن عبدالبر، ابن اثیر)۔
جنگ احد میں سینتیس مشرک مارے گئے۔ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق بائیس مشرکین جہنم رسید ہوئے، ان میں سے باره کو حضرت علی نے انجام تك پہنچایا۔ اسلامی فوج كو زیاده نقصانات اٹھانا پڑے۔ رسول اللہ صلی ا لله علیہ وسلم كا چہرۂ مبارک زخمی ہوا، آپ کے دندان شہید ہوئے۔ ستر صحابہ نے جام شہادت نوش کیا، جن میں حضرت حمزہ اور حضرت شماس شامل تھے۔حضرت حمزہ کا مثلہ کیا گیا۔
ایك روایت كے مطابق نبی صلی الله علیہ وسلم نے سات تکبیریں کہہ کر سب سے پہلے حضرت حمزہ کی، پھر باقی شہداكی نماز جنازہ پڑھی۔ آپ ہر بارحضرت حمزہ کی میت ساتھ رکھ لیتے (مستدرک حاکم، رقم ۲۵۵۷)۔ حضرت جابر بن عبدالله اور حضرت انس بن مالک کی روایات کے مطابق آپ نے شہدا کو غسل دیا نہ نماز جنازہ ادا كی (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۵۔ ترمذی، رقم ۱۰۳۶۔ نسائی، رقم ۱۹۵۷۔ احمد، رقم ۱۴۱۸۹۔ مستدرک حاکم، رقم ۱۳۵۲)۔ تیسری روایت ہے كہ صرف حضرت حمزہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، دوسرے شہدا کا جنازہ نہ پڑھا گیا (ابوداؤد، رقم ۳۱۳۷)۔ چوتھی روایت حضرت عقبہ بن عامر كی ہے :رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے غزوۂ احد كے آٹھ سال بعد شہداے احد كی نمازه جنازه پڑھی (بخاری، رقم ۴۰۴۲)۔ شوافع كا مسلک ہے کہ شہید کا غسل ہوتا ہے، نہ جنازہ۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں:ان روایات کو جن میں شہداے احد کا جنازہ ادا کرنے کا ذکر ہے، ترجیح دی جائے گی، چاہے ضعیف ہوں، اس لیے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتاہے۔
صحابۂ کرام كی نبی صلی الله علیہ وسلم سے کیسی محبت تھی كہ آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں نچھاور كر دیں۔ ابن قیم كہتے ہیں:غزوۂ احدكی سرگذشت میں بے شمار حكمتیں پوشیده ہیں۔
اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرکے مسلمان کبھی اپنے دشمن پر فتح نہیں پا سکتے۔
پیغمبروں کی سنت ہے کہ پہلے وہ ابتلا میں ڈالے جاتے ہیں اور انجام کار کامیابی انھی کو ملتی ہے۔ اگر ہمیشہ کامیابی حاصل ہوتی تو اہل ایمان کی صفوں میں ایمان سے محروم بھی گھس آتے اور صادق وکاذب میں تمیز نہ ہوسکتی۔ اگر ہمیشہ شکست سے دوچار ہوتے تو ان کی بعثت کا مقصد پورا نہ ہوسکتا۔ غزوۂ احدميں منافقین کا نفاق كهل كر سامنے آ گيا، چنانچہ مسلمان ان سے نمٹنے کے لیے مستعد اور محتاط ہوگئے۔ جب اہل ایمان ابتلا سے دوچار ہوئے تو انھوں نے صبر سے کام لیا، البتہ منافقین میں آہ وزاری شروع ہو گئی۔
ابتلا و آزمایش سے گزرنے كے بعد اہل ايمان كو جنت كے اعلیٰ درجات تك رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔
اہل ايمان نے الله كی راه میں جان دے كر شہادت كا اعلیٰ مرتبہ حاصل كر ليا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہر سال احد كے میدان میں شہدا كی قبروں پر تشریف لاتے اوران كو سلام فرماتے: ’السلام علیكم بما صبرتم، فنعم عقبی الدار‘ ( تمھارے صبر كرنے كے انعام میں تم پر سلامتی ہو، كیا ہی خوب ہے دارآخرت كا صلہ)۔ خلفاے راشدین میں سے حضرت ابوبكر، حضرت عمر، حضرت عثمان كایہی معمول رہا۔ حضرت فاطمہ بنت رسول الله اور دوسرے صحابہ بھی شہدا كی قبروں پر حاضری دیتے رہے (دلائل النبوة۳/۳۰۶ - ۳۰۹)۔ زائرین مدینہ اب بھی شہداے احد کو سلام كرنے ضرور آتے ہیں۔
حضرت شماس كی اہلیہ حضرت نُعم بنت حسان(یاحضرت ام حبیب بنت سعید) نے یہ اشعاركہے:
أقول لما اتی الناعي له جزعًا
اودی الجواد و اودی المطعم الكاسی
’’ شماس كی شہادت كی خبر دینے والا آیا تو میں نےمضطرب ہوكر كہا:دریا دل رخصت ہو گیا، كھلانے پلانے او ركپڑا لتادینے والا جاتا رہا۔‘‘
وقلت لما خلت منه مجالسه
لا یبعد اللّٰه عنا قرب شماس
’’شماس كی مجلسیں اس كے بغیر سونی ہو گئیں تومیں نے دعا كی:الله ہمارے دلوں سے شماس كی قربت دور نہ كرنا ۔‘‘
ان اشعار كے جواب میں حضرت ام حبیب كے بھائی حضرت ابو الحكم بن سعیدنے اپنی بہن سے اس طرح تعزیت كی:
اقني حیاءك في ستر و في كرم
فإنما كان شماس من الناس
’’پرده پوشی اور اعلی ٰ ظرف سے اپنی حیا كو برقرار ركھو، شماس بھی ایك انسان تھا ۔‘‘
قد ذاق حمزة لیث الله فاصطبري
كأسًا رواء ككأس المرء شمّاس
’’حمزه، شیر خدا نے بھی مرد خدا، شماس كی طرح موت كا جام سیر ہو كر پی لیا تو تُو صبر كر لے ۔‘‘
صلح حدیبیہ كے موقع پر قریش كے لیڈر سہیل بن عمرو كے كہنے پر اس شرط كا اضافہ كیا گیا كہ اگر مكہ سے كوئی شخص، كافر ہو یامسلمان، مدینہ چلا گیا تو مسلمان اسے مكہ واپس بھیج دیں گے۔ اس كے برعكس مدینہ سے كوئی مسلمان اپنے ولی كی اجازت كے بغیر مكہ چلا گیا تو مشركین اسے لوٹانے كے پابند نہ ہوں گے(مسلم، رقم ۴۶۵۵۔ احمد، رقم ۱۳۸۲۷۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۸۷۰)۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اصحاب ابھی حدیبیہ میں تشریف فرما تھے كہ معاہدہ لكھوانے والے سہیل كے مسلمان بیٹے حضرت ابوجندل بیڑیوں میں جكڑے گھسٹتے ہوئےپہنچ گئے۔ سہیل نے اپنے بیٹے كو تھپڑ مار كر كہا: یہ پہلا فرد ہے جسے لوٹانے كی شرط میں نے منوائی ہے۔ ناچار انھیں لوٹایا گیا تو ایك مشرك صیفی بن راہب (یا مسافرمخزومی)كی مسلمان زوجہ حضرت سبیعہ (سعیدہ :قرطبی، مظہری) بنت حارث بھی آن پہنچیں۔ ان كا كافر شوہر انھیں لینے پہنچا تو انھیں نہ لوٹایا گیا، كیونكہ تب تك داراسلام میں پناه لینے والی مسلمان خواتین كے بارے میں الله كا یہ حكم نازل ہو چكا تھا:
فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَي الْكُفَّارِﵧ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّﵧ وَاٰتُوْهُمْ مَّا٘ اَنْفَقُوْا. (الممتحنہ ۶۰: ۱۰)
’’اگر تمھیں علم (ظن غالب) ہو جائے كہ (داراسلام میں آنے والی ) یہ عورتیں مومنہ ہیں تو انھیں کافروں کو مت لوٹاؤ۔ یہ ان كفار کے لیے حلال ہیں، نہ وه كفار ان کے لیے حلال ہیں۔ اور ان کافروں نےجو مہر اور مال خرچ كیا ہو، ان كو ادا کردو۔ ‘‘
چنانچہ حضرت سبیعہ كے شوہر كو اس كے اداكرده مہركی رقم دے كر فارغ كر دیا گیا۔ اسی طرح حضرت ام كلثوم بنت عقبہ اپنے دو بھائیوں كے ساتھ مدینہ پہنچیں تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان كے بھائیوں كو تو معاہدے كی رو سے واپس كر دیا، لیكن حضرت ام كلثوم كو روك لیا اوران كے شوہر عمرو بن العاص كو مہر كی رقم لوٹا كر رخصت كر دیا۔
اسی سلسلۂ احكا م میں فرمان الٰہی نازل ہوا : ’وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ‘، ’’اورتم خود بھی کافر عورتوں کی عصمتوں پر قابض نہ رہو‘‘ (الممتحنہ ۶۰: ۱۰)۔یعنی ان كو اپنے نكاح میں نہ ركھو۔ چنانچہ حضرت عمر نے اپنی دو كافر بیویوں قریبہ (قرینہ یا فاطمہ)بنت ابوامیہ اور كلثوم بنت عمرو كواور حضرت طلحہ نے اپنی زوجہ اروی ٰ بنت ربیعہ كوطلاق دے دی۔ مفتی محمد شفیع كہتے ہیں: یہ طلاق قطع تعلق كے معنوں میں تھی، كیونكہ اہل ایمان كا دارالكفر میں رہنے والی كافر بیویوں سے نكاح تو الله كے اس ارشاد كے بعد فسخ ہو چكا تھا۔ طبری كہتے ہیں:كافر عورتوں میں مشركہ اوراہل كتاب سب شامل ہیں، اس آیت كی رو سے كتابیہ عورت سے نكاح اتنا ہی حرام ہو گا، جتنا مشركہ سے سمجھا جاتا ہے۔
حضرت عبدالله بن عباس كی ایك روایت چند كتب تفسیر میں بغیر سند كے بیان ہوئی ہے، جب كہ طبرسی نے اسے زہری كے حوالہ سے نقل كیا ہے۔ ہجرت مدینہ كے موقع پر چھ مہاجر مسلمانوں كی بیویوں نے ہجرت كرنا قبول نہ كیا، بلكہ انھوں نے مشركین كی صف میں شامل ہونا مناسب سمجھا۔ ابوسفیان كی بیٹی ام حكم جو حضرت عیاض بن شداد سے بیاہی ہوئی تھی، حضرت ام سلمہ كی بہن فاطمہ بنت امیہ جو حضرت عمر كی زوجیت میں تھی، حضرت عمر كی دوسری بیوی كلثوم بنت جرول، بروع بنت عقبہ جو حضرت شماس كے عقد میں تھی، حضرت عمرو بن عبدود كی بیوی عزه بنت عبدالعزیز(یا عبده بنت عبدالعزیٰ) اورحضرت ہشام بن العاص كی زوجہ ہند بنت ابوجہل (الكشف والبیان عن تفسیر القرآن، ابو اسحٰق ثعلبی۔ معالم التنزیل، بغوی۔ الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل، زمخشری۔ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، طبرسی)۔
حضرت ام حبیب بنت سعید سے حضرت شماس كے بیٹے عبداللہ اوربیٹی ا م حبیب كی پیدایش ہوئی۔ یہ دونوں لاولد فوت ہوئے، اس لیے حضرت شماس كا سلسلہ ٔنسل منقطع ہوگیا۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، البدايۃ والنہايۃ (ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اصحاب بدر (قاضی سلیمان منصور پوری)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ