HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سود

عامر شیخ

۲۸/ اپریل ۲۰۲۲ء  کو وفاقی شرعی عدالت نے ۱۹۹۰ ء  سے جاری، سود سے متعلق مقدمے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اس فیصلےمیں عدالت نے سود پر مبنی بینکنگ سسٹم کوشریعت کے خلا ف قرار دیا اورحکومت کو حکم دیا کہ وہ ۲۰۲۷ ء  تک موجودہ نظام کو سود سے پاک کرے۔ عدالت نے کہا کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنا ایک مذہبی اور قانونی فریضہ ہے۔

اس فیصلے میں سود سے خاتمے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال تو دی گئی ہے، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جدید ریاست میں جہاں ریاستی اختیارات مختلف اداروں میں تقسیم کر دیے گئے ہیں ، کیا حکومتی ڈھانچے کے پاس وہ اختیارات ہیں جو ۵ سال میں سود کا متبادل نظام پیش اور نافذالعمل کر سکیں یا ہماری پارلیمنٹ قانون سازی کر کے وہ اختیارات حکومت کو واپس دلا سکے، اور اگر پار لیمنٹ اور حکومت متبادل نظام پیش کر بھی دے تو کیا یہ معاشی اور بینکاری نظام عالمی معاشی نظام سے منسلک ہو سکے گا اور موثر طور پر کام کر سکے گا ؟

اس معاملے پر تھوڑا سا غور و خوض کریں تو جواب نفی میں آئے گا اور ۲۰۲۷ ء  میں ہم اسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں آج کھڑے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد دو ہی معاشی نظام کار حکومت چلانے کے لیے سامنے آئے: سوشلزم اور کیپٹلزم۔ اس وقت بیش تر ممالک میں ، ما سواے روس اور بالخصوص ترقی یافتہ مغربی ممالک، جو عالمی معیشت میں اپنا اثر رکھتے ہیں ، کیپٹلزم یا اس سے ملتا جلتا نظام رائج ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین جو آج سے ۲۰، ۲۵  سال پہلے تک سوشلسٹ نظام پر گامزن تھا، کیپٹلزم کی طرف مائل ہو کر ہی دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن پایا ہے۔ پاکستان میں بھی اس وقت کیپٹلسٹ یا مخلوط نظام ہی رائج ہے۔ اس نظام حکو مت میں معاشی معاملات چلانے کے اختیارات حکومت اور مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک ) میں بٹے ہوئے ہیں، جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: فسکل معاملات اور مانیٹری معاملات ۔

فسکل پالیسی بنانا اور نافذ کرنا حکومت کا اختیار ہے، اور وہ ہر سال یہ کام بجٹ پیش کر کے کرتی ہے، وہ یہ طے کرتی ہے کہ کس شعبے سے کتنا ٹیکس اکٹھا کرنا ہے اور اس سے حا صل ہونے والا پیسا کہاں خرچ کیا جائے گا،جب کہ مرکزی بینک مانیٹری پالسی کو نافذ کرتا ہے۔ اس مانیٹری پالیسی کے ذریعے سے شرح سود طے کرنے کا اختیار حکومت کو نہیں، بلکہ مرکزی بینک کو ہوتا ہے جو ایک خود مختار ادارہ ہے۔ مرکزی بینک معاشی پالیسی کے ذریعے سے شرح سود متعین کرتا ہے اور اس معاملے میں ذرا برابر بھی حکومتی دباؤ مرکزی بینک کے معاملات میں دخل اندازی سمجھا جاتا ہے، اس کی ساکھ مجروح ہوتی ہے اور بین الا قوامی اداروں کا اعتماد مرکزی بینک پر کم ہوتا ہے۔

مرکزی بینک ملک میں جاری افراط زر (مہنگائی) اور منی سپلائی کو سامنے رکھتے ہوئے شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ مثلاً اگر افراط زر ۱۰ فی صد ہے تو بینک شرح سود کم از کم ۱۰ فی صد ضرور رکھے گا تاکہ اگر کوئی اپنی رقم کسی کو ایک سال کے لیے ادھار دے تو مدت پوری ہونے کے بعد واپس ملنے والی رقم مالیت کے اعتبار سے دی گئی رقم کے کم از کم برابر ہو۔ اگر بینک شرح سود افراط زر کے برابر یا اس سے کم رکھتا ہے تو اس کا مقصد منی سپلائی کو بڑھانا  ہے۔ منی سپلائی بڑھانے سے لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہوتا ہے، معاشی سرگرمیاں بڑھتی ہیں ، کاروبار بڑھتا ہے ،لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں، اور اگر منی سپلائی بڑھنے سے قوت خرید مصنوعی طور پر حد سے زیادہ بڑھ گئی ہو تو شرح سود بڑھا کے معاشی سرگرمی کو متوازن کیا جاتا ہے۔

سود اور شرح سود کے اس مکینزم کو سمجھنے کے بعد،اب یہ سمجھنا چاہیے کہ دین اسلام میں سود کی ممانعت کی کیا علت بیان ہوئی ہے؟ استاذ جاوید احمد غامدی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معیشت‘‘ میں بیان فرماتے ہیں: وہ تمام معاشی سرگرمیاں جس میں دوسروں کا مال باطل طریقے سے کھا یا جاتا ہو، وہ ممنوع ہیں، جیسے چوری، ڈاکا، رشوت، وغیرہ وغیرہ، اسے شریعت میں اصطلاحاً، ’’اکل الاموال بالباطل ‘‘ کہا گیا ہے(۵۰۱)۔ قرآن کے مطابق سود بھی اصولی طور پر اسی ذیل میں شامل ہے۔

معین طور پر استاذ محترم سود کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں : سود وہ اضافہ ہے جو قرض دینے والا مقروض سے، اپنے سرمایے کو ایک خاص مدت تک استعمال کی اجازت کے عوض یا کرایے کے طور پر وصول کرتا ہے (میزان ۵۰۶)۔

اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے استاذ فرماتے ہیں کہ سود ایک اخلاقی نجاست ہے، جس کی اصل علت یہ ہے کہ:

۱۔قرض دینے والا، مقروض کے نفع و نقصان سے قطع نظر، ہر حال میں مقروض کے سر پر سوار رہتا ہے۔

۲۔سرمایے کے طور پر دی جانے والی رقم اپنی حیثیت میں فنا ہو جاتی ہے اور مقروض کو اسے دوبارہ پیدا کرکے اس کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے (۵۰۵، ۵۰۹)۔

اب یہ دیکھنا ہو گا کہ جس وقت سود کی ممانعت ہوئی، اس وقت سود کا نظام کس طرح چل رہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں یہ معاملات افراد کے مابین طے ہوتے تھے اور اس عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ایسا ادارہ یا قانون موجود نہ تھا جو ان معاملات کے نتیجے میں استحصالی طبقے، یعنی مقروض کا مفاد محفوظ رکھ سکے۔ سرمایے کی لین دین بہ عوض سود افراد کے مابین ہوتی تھی، سرمایہ دار، سرمایہ پر سود اپنی مرضی سے طے کرتے تھے، سرمایے کے ضرورت مند، افراد کی ضرورت کا ا ستحصال کرتے تھے اور اس عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی قانون یا حکومتی ڈھانچا موجود نہ تھا، یعنی ریاست کے پاس بظاہر کوئی ایسی طاقت موجود نہ تھی کہ وہ اس عمل کے نتیجے میں ہونے والے استحصال کو روک سکے اور اور سرمایہ دار پر کوئی ایسی قدغن لگا سکے۔ لہٰذا سود کی ممانعت ہوئی۔

یہ سرمایہ ذاتی ضروریات کے لیے بھی دیا جاتا تھا اور کاروباری ضروریات کے لیے بھی۔ ذاتی ضروریات کے لیے دیے گئے سرمایے پر ضرورت مند سے سود طلب کرنا یقیناً ایک اخلاقی جرم ہے۔ ہمارے نزدیک تو ضرورت مند سے اصل رقم طلب کرنا بھی زیادتی ہے، اگر وہ رقم لوٹانے کی پوزیشن میں نہ ہو، بلکہ یہ ریاست اور صاحب ثروت لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرورت مند لوگوں کی ذاتی ضروریات کے لیے سرمایہ فراہم کریں۔

کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے قرض اور اس سے ہونے والے استحصال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس زمانے سے لے کر اب تک کاروباری دنیا میں بے پناہ بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں، معاملات افراد سے نکل کر اداروں کے ہاتھ میں آچکے ہیں، جن کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔

۱۔ لمیٹڈ لائیبلیٹی کمپنی کا قیام: گذشتہ زمانے میں لوگ کاروبار اپنی ذاتی حیثیت میں کرتے تھے، لہٰذا گر کسی شخص نے کاروباری ضرورت کے لیے قرضہ لیا اور کاروبار میں خسارے کے باعث قرض واپس نہیں کر پاتا تو سرمایہ دار اس کے کاروباری اثاثہ جات کے ساتھ ساتھ اس کے ذاتی اثاثہ جات بھی ضبط کرلیتا تھا، جب کہ موجودہ دور میں زیادہ تر کاروبار ذاتی حیثیت میں نہیں، بلکہ کمپنی بنا کر کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کمپنی کے مالک اس کے حصہ دار ہوتے ہیں اور حصہ داروں کے ذاتی اثاثہ جات، بلکہ دوسرے کاروباری اثاثہ جات بھی اس کمپنی سے بالکل الگ ہوتے ہیں۔ اور اگر کمپنی نے کوئی ادھار لیا اور خسارے کے باعث رقم واپس نہیں کرسکتی تو سرمایہ دار صرف مقروض کمپنی کے اثاثہ جات ضبط کر سکتا ہے، حصہ داروں کے ذاتی اثاثہ جات اور دوسرے کاروبار کے اثاثہ جات بالکل الگ اور محفوظ رہتے ہیں ۔

۲۔ آج کل سرمایے کا لین دین افراد کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ کمرشل بینک لوگوں کی سیونگز اپنے پاس جمع کرتے ہیں اور اس جمع کیے ہوئے فنڈز میں سے ضرورت مند کمپنی کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ کمرشل بینک، مرکزی بینک کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔

۳۔ مرکزی بینک ان تمام سرگرمیوں کو مختلف قوانین کے ذریعے سے کنٹرول کرتا رہتا ہے، جب کہ کمپنی کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکیورٹیز اینڈ کمپنیز ایکسچینج کا ادارہ موجود ہے ۔

۴۔ ان دو اداروں کے علاوہ بینکنگ کورٹس موجود ہیں، جو نزاعات کی صورت میں معاملات حل کرتے ہیں تاکہ سرمایہ دار اور کاروباری کمپنی کا استحصال نہ ہو۔

اس بحث سے مقصود یہ ہے کہ سود سے متعلق فیصلہ کرنے یا اس کا متبادل تلا ش کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ گذشتہ زمانے میں رائج سود میں اور آج کے دور میں رائج سود میں، اور معاشی نظام میں اس کے اثرات میں بہت فرق آچکا ہے اور مختلف ادارے اس معاملے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وجود پذیر ہو چکے ہیں۔ شرح سود کا تعین، سرمایہ دار نہیں کرتا، بلکہ مرکزی بینک کرتا ہے، مقروض کا استحصال روکنے کے لیے قوانین موجود ہیں۔ ان تمام عوامل کی روشنی میں اب ہم دیکھتے ہیں کہ سود کی جو علت استاذ گرامی نے بیان کی ہے، کیا وہ اب بھی موجود ہے؟ اوپر بیان کی گئی علت ہم دوبارہ نقل کر دیتے ہیں:

۱۔قرض دینے والا، مقروض کے نفع و نقصان سے قطع نظر، ہر حال میں مقروض کے سر پر سوار رہتا ہے۔

۲۔سرمایے کے طور پر دی جانے والی رقم اپنی حیثیت میں فنا ہو جاتی ہے اور مقروض کو اسے دوبارہ پیدا کرکے اس کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے۔

موجودہ دور میں کاروباری مقصد کے لیے حاصل کیے گئے قرض کے یہ مصارف ہیں:

۱۔ایسے اثاثہ جات ( مشینیں )خریدے جاتے ہیں جو اشیا پیدا کرتے ہیں، جن کو بیچ کر منافع کمایا جاتا ہے۔

۲۔ایسے اثاثہ جات جو پیداواری عمل میں معاونت کرتے ہیں، جیسے فرنیچر، کمپیوٹرز وغیرہ۔

۳۔ تجارتی مال خریدا جاتا ہے، جسے بعد میں منافع پر بیچا جاتا ہے۔

ہم یہاں یہ بات طے کر لیتے ہیں کہ کنزیوم ہو جانے والی اشیا پر سود طلب نہیں کیا جائے گا یا ان کے لیے قرض دیا ہی نہیں جائے گا۔ مزید برآں یہ کہ انشورنس کمپنیوں کے ذریعےسے، پریمیم کے عوض، اثاثہ جا ت کا بیمہ کرا لیا جاتا ہے، جس سے اصل سرمایہ محفوظ ہو جاتا ہے اور سرمایہ فنا ہو جانے اور دوبارہ پیدا کرنے کی مشقت کرنے کا خطرہ ختم ہو گیا۔ لہٰذا اوپر بیان کی گئی دوسری علت ختم ہو گئی۔

اب دیکھتے ہیں، پہلی علت کو، کہ سرمایہ دار مقروض کے نفع و نقصان سے قطع نظر، ہر حال میں مقروض کے سر پر سوار رہتا ہے۔ ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ لمیٹڈ لائیبلیٹی کمپنی کو قرض دینے کی صورت میں مقروض کمپنی اس وقت تک تو سود دینے کی پابند ہے، جب تک اسے منافع کمانے کی قوی امید ہے، لیکن ا گر مقروض کمپنی ایک خاص وقت گزرنے کے بعد یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ منافع نہیں کما سکتی تو وہ اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے سکتی ہے، ایسا کرنے کی صورت میں سرمایہ دار سود تو کیا اپنا اصل سرمایہ بھی اس حد تک واپس لینے کا مجاز ہے جس حد تک کمپنی کے اثاثہ جات بچے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ موجودہ قوانین کے تحت کمپنی کے مالک کے ذاتی اثاثہ جات یا اس کی دوسری کمپنیوں کے اثاثہ جات مقروض کمپنی کے اثاثہ جات سے بالکل الگ ہیں اور مقروض کمپنی کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں سرمایہ دار کا ان اثاثہ جات پر کوئی حق نہیں۔لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ کاروباری اور معاشی ڈھانچے میں یہ علت بھی ختم ہو گئی ہے۔

استاذ محترم نے سود کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’سود وہ اضافہ ہے جو قرض دینے والا مقروض سے، اپنے سرمایے کو ایک خاص مدت تک استعمال کی اجازت کے عوض یا کرایے کے طور پر وصول کرتا ہے ‘‘۔ معاشیات کی کلاسیکی کتابوں میں تو سود کی یہی تعریف بیان ہوئی ہے، لیکن موجودہ دور میں فنانس کی کتابوں میں ، بالخصوص اطلاقی لٹریچر میں سود کو سرمایہ کا معاوضہ بیان نہیں کیا جاتا، بلکہ یہ اس خطرے کا معاوضہ ہے جو سرمایہ دار کو موجودہ قوانین کی وجہ سے لاحق ہے اور عملی طور پر سود کی شرح بھی اس خطرے کو دیکھتے ہوئے طے کی جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح کاروباری منا فع، بزنس مین کی محنت کا نہیں، بلکہ اس خطرے کا معاوضہ ہے جو وہ مول لیتا ہے۔

سود کے مضمرات بیان کرتے ہوئے استاذ گرامی نے جو مولانا اصلاحی کی تحر یر نقل کی ہے، جس میں مولانا کے نزدیک سرمایہ دار کاروبار میں منافع نہ ہو نے کے خطرے سے بالکل محفوظ ہے، ہمارے نزدیک موجودہ قوانین کی موجودگی میں بزنس مین کے استحصال کا خطرہ کم ہو گیا ہے، دوسرے الفاظ میں اس خطرے کا کچھ حصہ سرمایہ دار نے مول لے لیا ہے او ر اس کے صلے میں وہ منافع میں سے کچھ حصہ طلب کر رہا ہے، لہٰذا اس پر سود کا اطلاق نہیں ہو نا چاہیے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B