HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: سبا ۳۴: ۱-۹ (۱)

باب پنجم

سبا – الحجرات

 

توحید کا اثبات

اُس کے حوالے سے قریش کو انذار

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کو غلبۂ حق کی بشارت

اور اُن کا تزکیہ وتطہیر



باب پنجم

سبا - الحجرات

۳۴ –– ۴۹

 

یہ قرآن مجید کا پانچواں باب ہے۔ اِس میں ’سبا ‘(۳۴) سے ’الحجرات‘(۴۹) تک سولہ سورتیں ہیں ۔ اِن سورتوں کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن میں سے پہلی تیرہ سورتیں ام القریٰ مکہ اور آخری تین ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔

قرآن مجیدکے دوسرے تمام ابواب کی طرح یہ چیز اِس باب میں بھی ملحوظ ہے کہ یہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور مدنی سورتوں پر ختم ہو جاتا ہے۔

اِس کے مخاطب قریش مکہ ہیں،لیکن آخری سورتوں میں جب تزکیہ و تطہیر کا مضمون شروع ہوا ہے تو خطاب مسلمانوں سے ہو گیا ہے۔

اِس کا موضوع توحید کا اثبات، اُس کے حوالے سے قریش کو انذار ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ماننے والوں کے لیے غلبۂ حق کی بشارت اور اُن کا تزکیہ و تطہیرہے۔

قرآن کے آخری باب کی طرح اِس باب کی سورتیں بھی اِس طرح ترتیب دی گئی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مختلف مراحل اِس ترتیب سے بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ چنانچہ ’فاطر‘ (۳۵) تک مرحلۂ انذار عام ہے۔ ’يٰس‘ (۳۶) ایک منفرد سورہ ہے، جس سے مرحلۂ اتمام حجت شروع ہوتا ہے۔ اِس کا خاتمہ سورۂ ص (۳۸) پر ہوا ہے۔ اِس کے بعد ’الاحقاف‘ (۴۶) تک مرحلۂ ہجرت و براء ت ہے اور آخر میں اقدام کی تیاری ، فتح و نصرت کی بشارت اور تزکیہ و تطہیر کے مرحلے کی سورتیں ہیں ۔یہ سورۂ محمد (۴۷) سے شروع ہوتی اور ’الحجرات‘ (۴۹) پر ختم ہوجاتی ہیں، جو باب کے آخر میں پھر ایک منفرد سورہ ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

 

 مرحلۂ انذار عام

سبا - فاطر

۳۴ –– ۳۵

  

سبا - فاطر

۳۴ –– ۳۵

 

سبا - فاطر

 

یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں میں انذار و بشارت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی دعوت دی گئی اور اُس کی توحید کا اثبات کیا گیا ہے۔ چنانچہ دونوں کا موضوع ایک ہی ہے۔ پہلی سورہ میں، البتہ تاریخی استدلال اور دوسری میں ملائکہ کی الوہیت کے ابطال کا پہلو نمایاں ہے۔ اِنھیں ’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘ سے شروع کرکے اِن کے اِس تعلق کی طرف قرآن نے خود اشارہ کر دیا ہے۔

دونوں سورتوں میں خطاب قریش سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ انذار عام میں نازل ہوئی ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــ


بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِﵧ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ ١ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا  وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيْهَاﵧ وَهُوَ الرَّحِيْمُ الْغَفُوْرُ ٢

ـ ــــــ ـــــ ۱ ـ ــــــ ـــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔

شکر کا سزاوار وہی اللہ ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب اُسی کا ہے۔[1] اور آخرت میں بھی اُسی کی حمد ہو گی[2] اور وہی حکیم و خبیر ہے۔[3] جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے[4] اور جو کچھ آسمان سے اترتا اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے،[5] وہ اُس کو جانتا ہے[6] اور وہی غفور و رحیم ہے۔[7]۱- ۲

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُﵧ قُلْ بَلٰي وَرَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْﶈ عٰلِمِ الْغَيْبِﵐ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ وَلَا٘ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَلَا٘ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ٣ﶫ لِّيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِﵧ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ ٤ وَالَّذِيْنَ سَعَوْ فِيْ٘ اٰيٰتِنَا مُعٰجِزِيْنَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِّنْ رِّجْزٍ اَلِيْمٌ ٥

(تمھارے) منکرین کہتے ہیں کہ قیامت ہم پر نہیں آرہی۔ کہہ دو، کیوں نہیں، میرے اُس پروردگار کی قسم جو ہر غیب کا جاننے والا ہے، وہ تم پر ضرور آئے گی۔[8] اُس سے ذرہ برابر کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے، نہ زمین میں، نہ ذرے سے چھوٹی نہ بڑی، بلکہ ایک کھلی کتاب میں لکھ دی گئی ہے۔[9] اِس لیے کہ وہ اُن لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں۔ وہی ہیں جن کے لیے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔[10] اور جو ہماری آیتوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں سرگرم ہیں، وہی ہیں جن کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔[11]۳- ۵

وَيَرَي الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْ٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّﶈ وَيَهْدِيْ٘ اِلٰي صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ ٦

اِس کے برخلاف جن کو علم عطا ہوا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ جو تمھارے پروردگار کے ہاں سے تمھاری طرف نازل کیا گیا ہے، وہی حق ہے اور وہ خداے عزیز و حمید کا راستہ دکھاتا ہے۔[12]۶

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ يُّنَبِّئُكُمْ اِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍﶈ اِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ ٧ﶔ  اَفْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌﵧ بَلِ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِيْدِ ٨

اُس کے منکرین، البتہ (تمھارا مذاق اڑاتے اور) کہتے ہیں کہ (لوگو)، کیا ہم تمھیں ایک ایسا آدمی بتائیں جو تمھیں خبردیتا ہے کہ جب تم بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو ازسرنو پیدا کیے جاؤ گے؟ یہ خدا پر جھوٹ باندھ لایا ہے یا اِس کو کسی طرح کا جنون ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے، وہی عذاب میں اور دور کی گم راہی میں مبتلا ہیں۔[13]۷- ۸

اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰي مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِﵧ اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِﵧ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيْبٍ ٩

تو کیا اِنھوں نے اپنے آگے اور پیچھے جو آسمان اور زمین ہیں، اُن کی طرف نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو اِن کو اِسی زمین میں دھنسا دیں یا اِن پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں۔[14]حقیقت یہ ہے کہ ہر اُس بندے کے لیے اِس میں بہت بڑی نشانی ہے جو متوجہ ہونے والا ہو۔[15]۹

[1]۔ یہ ایک بدیہی حقیقت کا بیان ہے، جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے کہ وہی اللہ جو زمین و آسمان کی سب چیزوں کا خالق و مالک ہے، وہی اُن تمام مخلوقات کے شکر کا حقیقی سزاوار بھی ہے جو اُس کی پیدا کی ہوئی اِن سب چیزوں سے متمتع ہو رہی ہیں۔

[2]۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی مخلوقات کا یہی تعلق آخرت میں بھی آشکارا ہو گا۔ اِس فقرے سے جو حقائق معلوم ہوتے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ایک یہ کہ اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کا جو اہتمام فرمایا ہے، اُس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اُس کے بعد آخرت کا ظہور ہو۔ اگر آخرت نہ ہو تو یہ تمام ربوبیت بالکل بے معنی و بے غایت ہو کے رہ جاتی ہے۔ اِس نکتے کی وضاحت متعدد مقامات میں ہو چکی ہے، اِس وجہ سے یہاں اشارے پر اکتفاکیجیے۔
دوسری یہ کہ یہ اہل ایمان کے اِس ترانۂ حمد کی طرف اشارہ ہے جو آخرت میں تمام حقائق کے ظہور اور اللہ تعالیٰ کے جملہ وعدوں کے ایفا کے بعد اُن کی زبانوں سے بلند ہو گا۔ اِس کی طرف سورۂ یونس میں اشارہ ہے: ’وَاٰخِرُ دَعْوٰهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘*(اور اُن لوگوں کی آخری صدا یہ ہو گی کہ شکر کا حقیقی سزاوار اللہ، عالم کا خداوند ہے)۔
تیسری یہ کہ یہ شرکا و شفعاکی کلی نفی ہے کہ یہ تمام مزعومہ دیوی دیوتا جن کی شفاعت کی امید پر مشرکین نچنت بیٹھے ہیں، آخرت میں سب ہوا ہو جائیں گے۔ اِن میں سے کوئی کسی کے کام آنے والا نہیں بنے گا۔ اُس دن مشرکین اپنے معبودوں پر لعنت کریں گے اور معبود اپنے پجاریوں سے اعلان براء ت کریں گے۔ سب کی پیشی اللہ واحد کے حضور میں ہو گی، اُسی کا فیصلہ ناطق ہو گا اور سب پر یہ حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ سزاوار حمد صرف اللہ رب العٰلمین ہے۔ ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۹۰)

[3]۔ یہ اوپر کے تمام دعاوی کی دلیل ہے کہ وہ حکیم ہے، اِس وجہ سے لازم ہے کہ ایک ایسا دن لائے جس میں اُس کے بے لاگ عدل کا ظہور ہو اور اُس کے شکر گزار بندے اپنی شکر گزاری کا صلہ پائیں ۔اور اِس کے ساتھ خبیر بھی ہے، لہٰذا کوئی بات اُس سے چھپی نہ رہے گی اور نہ وہ فیصلے کے لیے کسی دوسرے کے علم و خبر کا محتاج ہو گا۔ آگے اِسی محیط کل علم کی وضاحت ہے۔ یہ اور اِس سے پہلے کی تمام باتیں حصر کے اسلوب میں فرمائی ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہی خالق و مالک اور حکیم و خبیر ہے تو اُس کے سوا کوئی دوسرا اُس کی مخلوقات کے حمد و شکر کا سزاوار کس طرح ہو سکتا ہے؟

[4]۔ اِس کی ایک مثال وہ دانہ ہے جو زمین میں ڈالا جاتااور اُس سے لہلہاتے ہوئے پودے کی صورت میں برآمد ہو جاتا ہے۔

[5]۔ اِس کی نہایت واضح مثال لوگوں کے لیے خیر و شر کے فیصلے ہیں جو فرشتے لے کر آتے اور حاضری کے دن جن کے نفاذ کی تمام روداد اوپر لے جا کر خدا کے حضورمیں پیش کر دیتے ہیں۔

[6]۔ لہٰذا اُس کو ہرگز ضرورت نہیں ہے کہ اُس کے کوئی شرکا ہوں جو اِس عظیم کائنات کا نظم چلانے کے لیے اُس کی مدد کریں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...علم الٰہی کے اِس احاطے کی وضاحت اِس مقصد سے کی گئی ہے کہ شرک کے عوامل میں سے ایک بہت بڑا عامل مشرکین کا یہ مغالطہ ہے کہ بھلا اتنی ناپیداکنار کائنات کے ہر کونے اور گوشے، ہر ایک کے قول و عمل اور ہر ایک کے دکھ اور درد سے خدا ہر لمحہ کس طرح واقف رہ سکتا ہے! اِس وجہ سے اپنے تصور کے مطابق اِس کائنات کے مختلف حصوں کو اُنھوں نے الگ الگ دیوتاؤں میں تقسیم کیا۔ اُس کا تقرب حاصل کرنے اور اُس کو اپنی ضروریات سے آ گاہ کرنے کے لیے وسائل و وسائط ایجاد کیے۔ جنوں کو آسمان کی خبریں لانے والا مان کر اُن کی پرستش کی، فرشتوں کو شفاعت کرنے والا سمجھ کر اُن کو دیویوں کا درجہ دیا۔ اِس آیت نے اِن تمام توہمات پر ضرب لگائی کہ خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اِس وجہ سے کوئی اُس کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ وہ اپنی پوری کائنات کے سارے نظام پر خود حاوی اور تنہا کافی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۶/ ۲۹۱)

[7]۔ لہٰذا کوئی غلطی اور کوتاہی ہو جائے تو اُس کے لیے بھی کسی دوسرے کی سعی و سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہرگناہ گار کو براہ راست اُسی کے دروازے پر آنا چاہیے۔

[8]۔ جس طنطنے کے ساتھ منکرین انکار کر رہے تھے، یہ اُسی زور کے ساتھ اُس کا جواب ہے۔

[9]۔ یہ اُن کے اِس مغالطے کو رفع کیا ہے کہ اتنی وسیع دنیا اور اتنے بے شمار انسانوں کے ہر قول و فعل کا حساب آخر کس طرح ممکن ہو گا؟

[10]۔ یعنی اگر کوئی گناہ یا غلطی ہوئی ہے تو اُس کی معافی اور خدا کے بے نہایت افضال و عنایات۔’رِزْقٌ كَرِيْمٌ‘ اِنھی افضال و عنایات کے لیے قرآن کی ایک جامع تعبیر ہے۔

[11]۔ اوپر امکان قیامت کا ذکر تھا۔ یہ اب اُس کی ضرورت بیان فرما دی ہے کہ اگر وہ نہ برپا ہو تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا کے نزدیک نیک و بد، دونوں یکساں ہیں، دراں حالیکہ یہ بالکل خلاف عقل اور حق و انصاف سے بعید بات ہے۔

[12]۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ احمقوں اور لاخیروں کی پروا نہ کرو۔ تمھارے اطمینان کے لیے یہی چیز کافی ہے کہ جن کے اندر علم و معرفت کی روشنی ہے، خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں یا تمھاری قوم کے سلیم الفطرت لوگوں میں سے، وہ تمھاری تائید کر رہے ہیں۔ آیت میں ’عَزِيْز‘اور ’حَمِيْد‘کی صفات یہ بتانے کے لیے لائی گئی ہیں کہ توحید اور قیامت جن کا اثبات یہاں پیش نظر ہے، دونوں اِن صفات الٰہی کا بھی لازمی تقاضا ہیں۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حقیقی علم قرآن کی اصطلاح میں صرف خدا کی معرفت اور آخرت کا علم ہے۔

[13]۔ یعنی ایسی دور کی گم راہی میں مبتلا ہیں کہ اب واپسی کا بھی امکان نہیں رہا۔ اِس لیے گویا آج ہی اُس عذاب میں جا پڑے ہیں جس سے قیامت میں دوچار ہونے والے ہیں۔ یہ قرآن نے اِن متمردین کے استہزاکا جواب دیا ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں، دیکھیے کہ کتنا باوقاراور موثر جواب دیا ہے۔

[14]۔ یعنی خدا سے بے خوف نہ ہوں، یہی زمین و آسمان جن کے فوائد و برکات سے وہ صبح و شام متمتع ہو رہے ہیں، اُن کے لیے ہول ناک آفتوں کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ اُسی مضمون کا ایک نئے اسلوب میں اعادہ ہے جس سے سورہ کی ابتدا ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...پہلی آیت میں فرمایا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب خدا ہی کا ہے، اِس وجہ سے دنیا میں بھی شکر کا حقیقی سزاوار وہی ہے اور آخرت میں بھی اُسی کی حمد ہو گی۔ یہاں فرمایا کہ کیا اِن مستکبرین نے اِس حقیقت پر کبھی غور نہیں کیا کہ یہ آسمان جو اِن کے سروں پر شامیانے کی طرح تنا ہوا ہے اور یہ زمین جو اِن کے قدموں کے نیچے فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور جن کے فوائد و برکات سے یہ متمتع ہو رہے ہیں، یہ اِن کے تھامے ہوئے نہیں تھمے ہیں، بلکہ اِن کو اللہ ہی نے تھام رکھا ہے؟ اگر اللہ نے اِن کو نہ تھام رکھا ہوتا تو یہ دونوں اِن کے لیے نعمتوں کے بجاے نقمتوں کا ذریعہ بن جاتے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۲۹۵)

[15]۔ یعنی اپنے اندر حقیقت کی سچی طلب اور عبرت پذیری کی صلاحیت رکھتا ہو۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

 *  یونس۱۰:۱۰۔

B