HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد ذکوان ندوی

شکر و امتنان

راقم خود اپنی تحریروں کو بہ کثرت دیکھتا اور باربار اُس کی تہذیب کرتا رہتا ہے۔اِسی کے ساتھ وہ عموماً نازک اور اہم موضوعات، مثلاً’دجال اکبر کا فتنہ‘ اور’علم ودعوت کا توازن‘ سے متعلق مضامین پر قبل از اشاعت اپنے اساتذہ واحباب سے اکثربے تکلف نقد واصلاح لیتا اورزبان وبیان اور مواد سے متعلق اُن کے بیش قیمت افادات سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے۔ ہر مر تبہ اِس کا اظہار ممکن نہیں ہوتا،تاہم یہ میرے اوپر ایک اخلاقی قرض تھا،اِس لیے آج یہاں میں الگ سے اِ س کا ذکر کررہاہوں۔

جن حضرات سے میں نے استفادہ کیا اور اپنی اِن تحریروں پر نقدواصلاح لیتا رہا،اُن کی فہرست اور تفصیل بہت طویل ہے۔تاہم اُن میں سے چند نمایاں افراد کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں:

مولانا سید ابولحسن علی ندوی،مولانا وحیدالدین خاں، علامہ یوسف القرضاوی، ضیاء الرحمٰن الاعظمی، عبد الحق الترکمانی، حکیم عبدالحفیظ پیکر جرولی، استاذ جاوید احمد غامدی، اسرار عالم، سجاد نعمانی، سید سلمان حسینی، سید عبداللہ طارق، علامہ طاہر القادری، شاہ ابو سعید صفوی (الاحسان اکیڈمی، خانقاہ عارفیہ، الٰہ آباد)، عزیر شمس سلفی، سید واضح رشید ندوی، ابوسحبان روح القدس ندوی، رضی الاسلام ندوی، محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ)، اختر امام عادل قاسمی، محمد حسن الیاس، شہزاد سلیم، ساجد حمید، خورشید احمد ندیم، ریحان احمد یوسفی، سید اقبال احمد عمری،اہلیہ ڈاکٹرعائشہ ام ابراہیم، ظہیر احمد صدیقی(نالج اکیڈمی، لکھنؤ)، نشاط احمد صدیقی ندوی، وقار احمد ندوی (قطر)، شاہ فیصل ندوی(ساؤتھ افریقا)، ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی، انیس لقمان ندوی (ابوظبی)، محمد طلحہ ندوی لکھنوی (طائف)، ناظم مصباحی،ذیشان مصباحی (الاحسان اکیڈمی)، مفتی محمد اطہر شمسی، مرغوب الرحمٰن ندوی اور عزیزم شایان یوسف ندوی، وغیرہ۔ یہ صرف اِن حضرات کی محبت اورعنایت ہے کہ وہ اِس کام کے لیے اپنی مصروفیات سے قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ اِس کے لیے میں اِن تمام حضرات کا بے حد شکرگزاراوراُن کے لیے دل سے دعاگو ہوں۔

ایک حقیقت واقعہ کا اظہار و اعتراف

 اپنے مزاج کے مطابق، راقم پر عجزکا احساس شدید طورپر چھایارہتاہے۔اِسی احسا س عجز کا نتیجہ ہے کہ میں اپنی ہر تحریر کو اِس اعتبار سے آخری تحریر سمجھتا ہوں کہ اِس کے بعد شاید میں کچھ اور نہ لکھ سکوں۔ہر بار ”رشحات“، وغیرہ لکھتے وقت مجھ پر اِذعان کی حد تک یہ احساس غالب رہتا ہے کہ اِس بار ہم ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتے، مگر پھر بلا استحقاق اللہ کی مددشامل حال ہوجاتی ہے۔میں اکثر بالکل خالی الذہن ہوتا ہوں، پھر اچانک دل ودماغ پرکسی تحریر کادھندلااور منتشر نقش ابھرتا اورپھراللہ کی توفیق سے مرتب ہوکروہ ایک پورے مضمون کی شکل میں نمایاں ہوجاتاہے۔

علم وہنر اور فضل و کمال رکھنے والے حضرات کے لیے اِس قسم کا احساس عجز شاید عجیب ہوگا، مگر مجھ جیسے آدمی کے لیے وہ روزوشب کا عملی تجربہ اور ایک بدیہی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔میرااحساس ہے کہ خداے رحمٰن اِسی طرح اپنے عاجز بندوں کی نصرت فرمایاکرتا ہے۔

بعض احباب یہ سمجھتے ہیں کہ راقم کی تحریروں میں جدت، سلاست، صوتی شکوہ و آہنگ، استدلالی قوت، غیرمعمولی زور اور وفور پایا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کی اِن تحریروں کا راز کیا ہے، کیسے آپ اِس طرح کی تحریر رقم کرتے ہیں؟ میرا جواب ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت و مدد کے ذریعے سے۔ہماری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک دوست نے کہا:آپ کی ہر تحریر الہامی ہوا کرتی ہے۔ میں نے کہا:بے جا تواضع کے بغیر عرض کروں گا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص حقیقتاًکسی علم و صلاحیت سے پوری طرح خالی ہو، اُس کے اِس طرح لکھنے اور بولنے کو”الہام“ کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے، یعنی ایک بے علم وبے صلاحیت آدمی کا محض توفیق الٰہی  سے لکھنے اور بولنے لگنا۔ راقم کی زندگی اِس طرح کے متعدد واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

۲۰۱۹ء کا واقعہ ہے۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)کے ایک سیمینار میں ’’قرآنیات‘‘ کے موضوع پر راقم کا ایک مقالہ ’’رجوع الی القرآن کی ضرورت اور اُس کا درست منہج‘‘  کافی پسند کیاگیا۔ چنانچہ اِسی تاثر کے تحت حیدرآباد دکن کے ایک صاحب نے پروگرام کے بعد مجھ سے ملاقات کی اوربہ اصرار فرمایا: آپ میرے چینل کے لیے ایک خطاب ریکارڈ کرادیں، ایک بائٹ ابھی ریکارڈ کرادیں اور بقیہ حسب سہولت مجھے مسلسل بھیجتے رہیں۔

میں نے کہا:میں کوئی علامہ نہیں کہ ابھی برجستہ آپ کے لیے کچھ ریکارڈ کراسکوں۔ شاید آپ کو میرے اِس مقالے سے دھوکا ہوا ہے۔ یہ نہ معلوم کتنے دعاوالحاح کے بعد تیار ہوا ہے۔ اِس میں ہمارا ہرگز کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ صرف اور صرف اللہ کی رحمت اور نصرت کا نتیجہ ہے۔اِس کی ہر خوبی صرف اللہ کی طرف سے ہے، اور اِس کے ہر نقص کا میں تنہا ذمہ دار ہوں۔

(لکھنؤ ۵/  دسمبر ۲۰۲۲ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

B