فنون لطیفہ، خدا کی صفت جمال اور انسان کی حس جمالیات کے اظہاریے ہیں۔ فنون لطیفہ کے حاملین زندگی میں حسن پیدا کر کے اسے پرلطف بناتے اور لطیف احساسات کو تسکین دے کر متوازن اور صحت مند نفسیات جگاتے ہیں۔ ان فنون سے اجتناب مزاجوں میں کھردراہٹ اور سطحیت پیدا کرتی ہے۔
فنون لطیفہ خدا کی پیدا کردہ زینتیں ہیں۔ زینتیں بذات خود بری نہیں ہوتیں، ان کا اچھا یا برا استعمال انھیں اچھا یا برا بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ خدا نے دنیا کی زینتیں اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں تو کون ہے جو انھیں حرام قرار دے؟
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْ٘ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَالطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷: ۳۲)
’’اِن سے پوچھو، (اے پیغمبر)، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے ممنوع ٹھیرایا ہے؟ اِن سے کہو، وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں، (لیکن خدانے منکروں کو بھی اُن میں شریک کر دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص اُنھی کے لیے ہوں گی، (منکروں کا اُن میں کوئی حصہ نہ ہوگا)۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔‘‘
احادیث رسول میں جہاں کہیں موسیقی یا مصوری وغیرہ کی برائی بیان کی گئی ہے، وہ ان کے برے استعمال کی مذمت ہے، نہ کہ ان کے اپنی ذات میں حرام ہونے کا بیان۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں صراحت ہے کہ شادی یا عام تفریح کے مواقع پر آپ کے سامنے موسیقی[1] اور رقص[2] پیش ہوا اور آپ نے منع نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ممانعت ان چیزوں کے صرف برے استعمال کی ہے۔
ہمارے تعلیمی نصابات میں فنون لطیفہ کی تدریس کا خاطرخواہ انتظام نظر نہیں آتا۔ اسکولوں میں مصوری، موسیقی اور رقص جیسے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جن اسکولوں میں یہ مضامین شامل نصاب ہیں بھی تو اس کے لیے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کرنے کا اہتمام عام طور پر دکھائی نہیں دیتا۔
بزم ادب کے پروگرام بھی اب شاذ ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔ ادب و شاعری سے لگاؤ توایک طرف،اس کا ذوق اورفہم بھی اب خال خال نظرآتا ہے۔ بچوں میں فنون لطیفہ کا طبعی رجحان اگر نظر آئے بھی تو اسے تفریح اوقات کے قبیل کی چیز گردانا جاتا ہے، مگر اس کی پیشہ ورانہ تعلیم کی حوصلہ افزائی عموماً نہیں کی جاتی۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا محض سائنس دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین سے نہیں چلتی، اس میں بہت کچھ حسن اور رعنائی فنون لطیفہ کی مرہون منت ہے۔
جن بچوں کو فطرت نے شاعر، ادیب، موسیقار، اور مصور وغیره بننے کے لیے پیدا کیا ہے، انھیں اپنے طبعی رجحان کو پروان چڑھانے کا موقع نہ دینا، بچے کے ساتھ تو ناانصافی ہے ہی، خدا کی اسکیم کی خلاف ورزی بھی ہے جو دنیا میں مختلف طبائع کی رنگا رنگی دیکھنے کے لیے انھیں اتنا مختلف پیدا کرتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے ادب و شاعری کا فہم اور ذوق حاصل کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید زبان و ادب کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس کی تفہیم اور اس کا حظ اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتا جب تک زبان و بیان کا اعلیٰ ذوق نہ ہو۔ عربی زبان نہ بھی آتی ہو تو بھی ایک ادب پارے کا فہم اور لطف ایک درجے میں تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب کم از کم اپنی زبان کا اچھا ذوق پیدا کر لیا گیا ہو۔
بچوں کو فنون لطیفہ اور زبان و بیان کی لطافتوں سے محروم کرنے سے نہ صرف ان کی شخصیت کو نقصان پہنچتا ہے، بلکہ قرآن مجید جیسی ابدی ہدایت کی کتاب کے فیض سے محرومی بھی مقدر بنتی ہے۔
کچھ بچے ذہین ہونے کے باوجود سست روی سے سیکھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سمجھنے اور سیکھنے کے عمل کے دوران میں وہ سوچنے اور تجزیہ کرنے میں بھی مصروف ہوتے ہیں، یعنی دو عمل ایک ساتھ ان کے دماغ میں چل رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی سیکھنے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔
ایسے بچوں کو عموماً غبی یا کند ذہن سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے ان کی سیکھنے کی امنگ بھی متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنے بارے میں منفی نفسیات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک ذہین اور باصلاحیت دماغ غلط تشخیص سے ضائع ہو جاتا ہے۔
ان ذہین، لیکن سست رو بچوں کی پہچان یہ ہے کہ انھیں جب اپنے اطمینان اور سیکھنے کی ان کی اپنی رفتار کے ساتھ کچھ سیکھنے اور کرنے کا موقع ملتا ہے تو بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اساتذہ اور والدین کو اس وقت حیرت ہوتی ہے کہ دوسرے اوقات میں سیکھنے اورسمجھنے میں یہ سستی کیوں دکھاتے ہیں؟ اس کا جواب بچے کے پاس نہیں ہوتا، لیکن والدین اور اساتذہ کے پاس ہونا چاہیے۔ بہت سے ذہین قرار پانے والے افراد اپنے بچپن میں کند ذہن سمجھے جاتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے، جو بیان ہوئی۔
ایسے بچوں کو اجتماع میں تعلیم دینا مشکل ہوتا ہے۔ استاد کی مجبوری ہوتی ہے کہ اجتماعی تدریس میں سب بچوں کو اوسط رفتارسے لے کر چلے، اس میں یہ بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو انفرادی تعلیم اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ پڑھانا اور سکھانا پڑتا ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا دماغی عمل پورا کر لیں، پھر دوسری بات انھیں بتائی جائے۔ وہ ایک ایک قدم سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں، لیکن ایک بار جب وہ کوئی چیز سمجھ لیتے ہیں تو ان کی کارکردگی نہایت عمدہ ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
۱۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الفِرَاشِ، وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللّٰهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ: «دَعْهُمَا»، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا. (بخاری، رقم ۹۴۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر دو(مغنیہ ) لونڈیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ بستر پر دراز ہو گئے اور اپنا رخ دوسری جانب کر لیا۔ (اسی اثنا میں) حضرت ابوبکر گھر میں داخل ہوئے۔ (گانے والیوں کو دیکھ کر ) انھوں نے مجھے سرزنش کی اور کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ شیطانی ساز (کیوں)؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: انھیں (گانا بجانا) کرنے دو۔ پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں مشغول ہو گئے تو میں نے ان ( گانے والیوں کو چلے جانے کا) اشارہ کیا تو وہ چلی گئیں۔ ‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
كَانَ فِي حِجْرِي جَارِيَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَزَوَّجْتُهَا، قَالَتْ فَدَخَلَ عَلٰى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عُرْسِهَا، فَلَمْ يَسْمَعْ غِنَاءً وَلَا لَعِبًا، فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، هَلْ غَنَّيْتُمْ عَلَيْهَا أَوَ لَا تُغَنُّونَ عَلَيْهَا»؟ ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ هذا الحي من الأنصار يحبون الغناء».(صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۷۵)
’’ میرے زیر کفالت ایک انصاری لڑکی رہتی تھی۔ میں نے اس کی شادی کر دی۔ شادی کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ اس موقع پر آپ نے نہ کوئی گیت سنا اور نہ کوئی کھیل دیکھا۔ (یہ صورت حال دیکھ کر) آپ نے فرمایا: عائشہ، کیا تم لوگوں نے اسے گانا سنایا ہے یا نہیں؟ پھر فرمایا: یہ انصارکا قبیلہ ہے، جو گانا پسند کرتے ہیں۔‘‘
۲۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْيَانٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهَا، فَقَالَ: «يَا عَائِشَةُ، تَعَالَيْ فَانْظُرِي». فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلٰى مَنْكِبِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِ إِلٰى رَأْسِهِ، فَقَالَ لِي: «أَمَا شَبِعْتِ، أَمَا شَبِعْتِ». قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ لَا لأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ، قَالَتْ: فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا: قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الإِنْسِ وَالجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ». (ترمذی، رقم ۳۶۹۱)
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے درمیان ) تشریف فرما تھے۔ یک بہ یک ہم نے بچوں کا شور سنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ پھر( ہم نے دیکھا کہ) ایک حبشی عورت ناچ رہی تھی ۔ بچے اس کے ارد گرد موجود تھے۔ آپ نے فرمایا: عائشہ، آ کر دیکھو۔ (سیدہ کہتی ہیں کہ) میں آئی اور اپنی ٹھوڑی حضور کے شانے پر رکھ کرآپ کے کندھے اور سر کے مابین خلا میں سے اسے دیکھنے لگی۔ حضور نے کئی بار پوچھا: کیا ابھی جی نہیں بھرا؟ میں یہ دیکھنے کے لیے کہ آپ کو میری خاطر کس قدر مقصود ہے، ہر بار کہتی رہی کہ ابھی نہیں۔ اسی اثنا میں عمر رضی اللہ عنہ آ گئے۔ (انھیں دیکھتے ہی) لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ عمر کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں اس قسم کے معاملات کے بارے میں بھی جو سختی تھی، اس وجہ سے لوگ ان کے سامنے یہ جائز افعال کرنے سے بھی کتراتے تھے۔ ان کے جواز کے لیے اتنا کافی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہیں کی، بلکہ اپنے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی یہ سب دکھایا۔