[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت ریطہ مكہ میں مقیم عرب قبیلہ بنو تیم كے حارث بن جبیلہ (جبلہ:ابن عبدالبر)كے ہاں پیدا ہوئیں۔ ابن اثیر نے ان كا نام رائطہ ، ابن حجر نے رابطہ لكھا اور شاذ روایت میں ربطہ بتایا گیا ہے۔ بنوخزاعہ كی زینب بنت عبدالله ان كی والده تھیں۔ حضرت عمر كے رفیق سفر اور ان كے حكم پر حرم مكی كی حدود متعین كرنے والے حضرت صُبَیحہ بن حارث ان كے بھائی تھے۔ حضرت ابوبكر حضرت ریطہ كے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
حضرت ریطہ كا بیاه حضرت حارث بن خالد سے ہوا۔ وه بھی بنو تیم سے تھے، تیسرے جد عامر بن كعب پر ان كا سلسلہ ٔ نسب حضرت ریطہ كے شجرے سے جا ملتا ہے۔ عامر حضرت ریطہ كے بھی پردادا تھے۔ تیم بن مره دونوں كے چھٹے جد تھے۔
بنو تيم قریش كی ایك شاخ تھی۔ زمانہ ٔجاہلیت میں عبدالله بن جدعان بنو تیم كے معزز سردار تھے جنھوں نے عربوں كا مشہور معاہدۂ امن ’حلف الفضول‘ كرانے میں اہم كردار ادا كیا۔ قبائلی نظام میں خونی جھگڑے عام ہوتے ہیں۔ قتل وغارت كے مقتولوں اور زخمیوں كاخون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے، متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ حضرت ابو بکر جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ عہد رسالت میں حضرت ابوبكر كے علاوه حضرت عبدالله بن ابوبكر ، ام المومنین حضرت عائشہ اورحضرت طلحہ بن عبيد الله بنوتیم كی نمایاں شخصیات ر ہیں۔ كمانڈر عبیدالله بن معمر كا تعلق بھی بنو تیم سے تھا۔
ظہور اسلام كے بعد بنو تیم تمام بلاد اسلامیہ میں پھیل گئے اور اب یمن، كویت، عراق، شام، مصر، صومالیہ، مراكش، الجزائر اور موریطانیہ میں ان كی نسلیں آباد ہیں۔
قبول اسلام
حضرت ریطہ اپنے شوہر حضرت حارث كی طرح ابتداے اسلام میں ایمان لے آئیں۔
۵/ نبوی :مكہ كے نادار اور كم زور مسلمانوں پر مشركین كا تشدد حد سے بڑھ گیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے حبشہ ہجرت كرنے كی اجازت مرحمت فرمائی۔ حضرت ریطہ بنت حارث اپنے شوہر حضرت حارث بن خالد کے ساتھ حضرت جعفر بن ابو طالب كی قیادت میں حبشہ كی طرف ہجرت كرنے والے دوسرے قافلے میں شامل ہوئیں۔
قیام حبشہ كے دوران میں حضرت ریطہ كا انتقال ہو گیا(ابن ہشام، ابن اثیر)۔ ایتھوپیا كے قصبے نجاش (Negash) كی شارع صحابہ پر پانچ صحابیات كی قبریں اب بھی موجود ہیں، لیكن حضرت ریطہ كی قبر كی شناخت ممكن نہیں۔
حبشہ میں حضرت ریطہ بنت حارث كے ہاں چار بچے ہوئے: موسیٰ، عائشہ، زینب اورفاطمہ(ابن ہشام، ابن عبدالبر)۔ یہ چاروں حبشہ میں انتقال كر گئے۔ ابن اثیر نےدو بچوں عائشہ اور زینب كے نام لیے ہیں اور ابن حجر نے موسی ٰ اور عائشہ كی پیدایش كا ذكر كیا ہے۔
دوسری روایت كے مطابق حبشہ سے مدینہ واپسی كے سفرمیں ایک گھاٹ پر كنبے نے پانی پیا جو زہر آلود تھا۔ بِس بھرے پانی نے تمام بچوں كی زندگی كا چراغ گل كر دیا، لیكن حضرت حارث بچ گئے۔ ابن اسحٰق اور ابن سعد كہتے ہیں: موسی ٰ كا انتقال حبشہ میں ہوا، حضرت ریطہ ، عائشہ اور زینب كی وفات زہریلا پانی پینے سے ہوئی اور فاطمہ كی زندگی بچ گئی۔ ابن حجر كے مطابق موسیٰ نے حبشہ میں وفات پائی اور حضرت ریطہ نے مدینہ كے سفر میں انتقال كیا۔ ابن ہشام كی دوسری روایت كے مطابق حضرت ریطہ، موسیٰ، عائشہ اور زینب كی جانیں آب مسموم نے لیں اور فاطمہ بچ گئی۔ ابن عبدالبر كابھی یہی كہنا ہے۔
حضرت ریطہ كے شوہر حضرت حارث بن خالد۷ھ میں بیوی بچوں كے بغیر تن تنہا مدینہ پہنچے۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ(ابن كثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ(ابن حجر)، Wikipedia۔
ــــــــــــــــــــ
مره بن كعب رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چھٹے جد تھے۔ كلاب، تیم اور یقظہ، ان كے تین بیٹے تھے۔ رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم، حضرت علی بن ابوطالب، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت ابو سفیان ، قریش كی جمعیت كو منظم كركے كعبہ كا انتظام سنبھالنے والے قصی بن كلاب كی اولاد میں ہوئے۔
حضرت خالد بن ولید یقظہ كی اولاد میں سے تھے۔
تیم بن مره كے دو بیٹوں سعد اور احب میں سے صرف سعد كی اولاد ہوئی۔ سعد كے پوتے عمرو بن كعب كے تین بیٹےعامر، عثمان اور جُدعان ہوئے۔
عامر كی اولاد میں حضرت ابوبكر (ابوبكر بن ابوقحافہ بن عامر )، ان كی والده حضرت ام الخیر (سلمیٰ بنت صخر بن عامر)، حضرت حارث بن خالد(حارث بن خالد بن صخر بن عامر) اور حضرت ریطہ (ریطہ بنت حارث بن جبیلہ بن عامر)پیدا ہوئے۔
عمرو بن كعب كے دوسرے بیٹے عثمان كی اولاد میں حضرت طلحہ (طلحہ بن عبیدالله بن عثمان ) اور حضرت عمرو (عمرو بن عثمان) ہوئے۔ اس طرح حضرت عمرو بن عثمان حضرت طلحہ كے چچا ہوئے۔
عمرو بن كعب كے تیسرے بیٹے جدعان كی نسل میں زمانۂ جاہلیت میں بنو تیم كے معزز سردار عبدالله بن جدعان نے جنم لیا جن كے گھر پر عربوں كا مشہور معاہدۂ امن ’حلف الفضول‘طے پایا۔
معمر بن عثمان اورعمیربن عثمان حضرت عمرو كے سگے بھائی تھے، بنو لیث كی ہالہ بنت بیاع ان كی والدہ تھیں۔ عبیدالله بن عثمان اور معاذ بن عثمان كو حضرت عمرو كی سوتیلی والده ہالہ بنت عبدالدار نے جنم دیا۔ امہ بنت عبد شمس زہیر بن عثمان كی والده تھیں۔ ابو المطاع بن عثمان بھی حضرت عمرو كے سوتیلے بھائی تھے۔ مصعب زبیری نے حضرت عمرو اورابوالمطاع كے نام نہیں لیے، جب كہ ابن حزم نے زہیر كا ذكر نہیں كیا۔ ممكن ہے كہ ابوالمطاع اور معاذ ایك ہی شخصیت ہوں، كیونكہ دونوں كے بارے میں الگ الگ روایت میں بتایا جاتا ہے كہ وه زمانہ ٔ جاہلیت میں عكاظ كےمقام پر لڑی جانے والی چوتھی جنگ فجار میں كام آئے۔ بلاذری نے حضرت عمرو كے دو بھائیوں عبدالرحمٰن بن عثمان اور زہره بن عثمان كا ذكر كیا اور بتایا ہے كہ زہرہ پہلوان تھے۔ زہرہ اور زہیرایك فرد كے دو نام ہو سكتے ہیں، كیونكہ اختلاف روایت سے نام تبدیل ہونے كا امكان ہوتا ہے۔
حضرت عمرو بن عثمان كے والد كو ’شارب الذهب ‘كہا جاتا تھا، كیونكہ وه شراب میں سونا یا موتی گھول كر پیتا تھا۔ ان كے دادا كا نام عمرو بن كعب تھا۔ تیم بن مره جن سے قریش كی شاخ بنوتیم منسوب تھی ، ان كے پانچویں جد تھے۔
حضرت عمرو بن عثمان مکہ میں پلے بڑھے۔ الله نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم كو مبعوث كیا تو انھوں نے آپ كی دعوت ایمان پر فی الفورلبیك كہا۔
حضرت عمرو بن عثمان ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔
ابن ہشام نے حضرت عمرو بن عثمان كو مہاجرین حبشہ كے اس زمرے میں شمار كیا ہے جونجاشی كی مہیا كشتیوں میں سوار نہ ہوئے اور جنگ بدر كے بعد كسی وقت مدینہ پہنچے، اس زمره میں وه اصحاب بھی شامل ہیں جن كا رجوع حضرت عبد الله بن جعفر كی آمد كے بعد ہوا۔ بلاذری كہتے ہیں كہ حضرت عمرو بن عثمان حضرت عبدالله بن جعفر كی واپسی سے پہلے مدینہ چلے آئے۔ ابن اثیر نے انھیں حضرت عبدالله بن جعفر كے قافلے كا ہم سفر بتایا ہے۔
عہد رسالت كے كسی غزوه و سریہ میں حضرت عمرو بن عثمان كی شركت كا ذكر نہیں كیا گیا۔
۱۳ تا ۱۶شعبان ۱۵ھ(۱۶ تا ۱۹ نومبر۶۳۶ء:ابن اسحٰق)۔ ۱۴ھ(طبری، ابن اثیر، ابن كثیر):جنگ قادسیہ عہد خلافت راشدہ كا اہم معركہ ہے جس میں جیش اسلامی كو شان دار فتح حاصل ہوئی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں تینتیس ہزار پرمشتمل مسلم فوج دو لاکھ کے ایرانی لشکر پر غالب آئی۔ ایرانی فوج میں ساٹھ ہزار گھڑسوار، ساٹھ ہزار پیادے، تیس ہاتھی اور اسی ہزار خدمت گار تھے۔ رستم بن فرخ جنگجو ایرانی دستوں کا سپہ سالار تھا۔ ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی اور خسروی دور کا زوال شروع ہوا۔
جنگ قادسیہ فتح ایران میں بہت اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اسی کے نتیجے میں فتح مدائن کی راہ کھلی اور مسلمانوں نے ایرانی دارالحکومت پر قبضہ کرکےآں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری کردی۔
جنگ قادسیہ چار روز جاری رہی۔ پہلے دن (یوم ارماث)پانچ سو اہل ایمان نے جام شہادت نوش كیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے نماز فجر كے بعد ان كی تدفین كرائی۔ دوسرے دن (یوم اغواث) ہونے والے معركہ میں دس ہزار ایرانی مارے گئے، جب كہ مسلمان شہدا كی تعداد دو ہزار رہی۔ علی الصبح انھیں سپرد خاك كیا گیا۔ تیسرے دن (یوم عماس) اور چوتھی رات (لیلة الهریر) كی صبح (یوم قادسیة)فیصلہ كن جنگ ہوئی، جس میں چھ ہزار مسلمان مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ ایرانی سپہ سالاررستم مارا گیا، میدان جنگ میں موجود تیس ہزار ایرانی فوجیوں میں سے بمشكل تیس بچ پائے، باقی موت كے سفر پر روانہ ہوئے۔ جنگ قادسیہ كے ان ہزاروں شہدا میں حضرت عمرو بن عثمان بھی شامل تھے، رتبۂ شہادت حاصل كرنے كے بعد وه قادسیہ ہی میں پیوند خاك ہوئے۔
حضرت عمرو بن عثمان كی كوئی اولاد نہ تھی۔
حضرت عمرو بن عثمان سے كوئی حدیث روایت نہیں كی گئی۔
مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰقi)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، نسب قریش(مصعب زبیری)، جمہرة انساب العرب و اخبارھا( زبیر بن بكار)، جمل من انساب الاشراف(بلاذری)، جمہرة انساب العرب (ابن حزم)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)، تاریخ اسلام(اكبر شاه نجیب آبادی)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــ